پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریبا بیس
لاکھ سے زائد لوگ انٹر نیٹ کا استعمال کرتے ہیں، ایک بہت بڑے تعلیمی ادار ے
میں پڑھاتے ہو ئے جب میں نے طلباء کے درمیان انٹرنیٹ سے متعلق گفتگو سنی ،
تو میرے لئے ان کی مسکراہٹ اور چہروں سے یہ اندازا لگانا مشکل نہ تھا کہ
دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔میں نے اس بارے میں کچھ تحقیق کی سو جھی۔ دوسرے
دن اپنے بعض شاگردوں کو ایک ایک کرکے آ فس بلایا اور انہیں اعتماد میں لے
کر انٹر نیٹ استعمال اور اس پر فحش مواد دیکھنے کے بارے میں سوالات پو
چھے۔مجھے یہ سن کر حیرت ہو ئی کہ 85فی صد طلباء نے انٹر نیٹ پر فحش مواد
دیکھنے کے اشا ر تا تصدیق کر دی۔چونکہ ایک استاد اور شاگرد کے درمیان ادب و
احترام کا ایک خاص رشتہ مو جود ہو تا ہے ، اس لئے اس مو ضوع پر کسی سے کھل
کر با ت نہ ہو سکی لہذا میں نے دوسروں سے اس مو ضوع پر گفتگو کر نے کا سوچا،
ہمارے معا شرے میں جنس پر کسی سے گفتگو کرنا نہایت معیوب اور غیر اخلاقی
سمجھا جا تا ہے اس لئے اس بارے معلومات حاصل کرنے میں کسی حد تک مشکل بھی
پیش آ ئی ۔ اب یہ کالم لکھتے ہو ئے بھی خطرہ محسوس کر رہا ہوں کہ میرے قا
رئین کہیں اس مو ضو ع پر لکھنے کی وجہ سے کو ئی فتویٰ ہی نہ لگا دیں۔ پشاور
کے معروف شاہراہ یو نیو ر سٹی روڈ پر واقع ایک نیٹ کیفے پر بیٹھے نو جوان
کا کہنا تھا کہ دو سال پہلے کی بات ہے میں نے اپنے کو رس سے متعلق بعض
معلومات حاصل کرنے کی غرض سے انٹر نیٹ کا استعمال شروع کیا تھا، پھر موسیقی
اور شا عری کی تلاش شروع کی۔ دریں اثنا بعض دوستوں نے میری توجہ نیٹ پر
موجود فحش مواد کی طرف دلائی، تجسس پیدا ہوا۔ اور میں نے سرفینگ کی تو ایک
نئی چیز سا منے آ ئی اب میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ فحش سائٹس ضرور
دیکھتا ہوں ۔ جب میں نے ان سے پو چھا کہ اس کا آپ کو کیا فا ئدہ یا نقصان
ملتا ہے تو بولا ، فا ئدہ تو کو ئی نہیں ، نقصان ہی نقصان ہے مگر کیا کروں،
جوان ہوں، شیطان ساتھ لگا ہو ا ہے، وہ ورغلا دیتا ہے اور میں فحش سائٹ کھو
ل دیتا ہوں۔بعض دوسرے نو جوانوں کے بھی تقریبا یہی تا ثرات تھے۔ ان کا کہنا
تھا ، تجسس انسان کا فطری خاصہ ہے۔جب ہمارے ساتھی اس بارے میں گپ شپ لگاتے
ہیں تو قدرتی طو ر پر تجسس کا جزبہ بیدار ہو تا ہے اور مو قعہ ملتے ہی ہم
ایسے سائٹس کو کھول لیتے ہیں اور پھر اسے دیکھنے کی لت پڑ جا تی ہے۔
میں نے پھر ایک نیٹ کیفے چلانے والے سے سوال کیا کہ اس کے کیفے پر آ نے
والے لوگ فحش مواد کے سائٹس کھولتے ہیں یا علمی مواد اور ای میلز وغیرہ
دیکھنے آ تے ہیں تو انہوں نے بتا یا کہ ہمارا مقصد تو کسی کو فحش مواد
دکھانا ہر گز نہی، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لو گ یہا ں آکر فحش سائٹس
ضرور دیکھتے ہیں۔ہمارے پا س ایسی سائٹس فلٹر کرنے کا کو ئی طریقہ نہیں
ہے۔یہ تو حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان غیر اخلاقی سائٹس کو بلاک
کر دے۔پی ٹی سی ایل ذرائع سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر چہ پی ٹی سی
ایل نے اب تک ہزاروں فحش سائٹس کو بلا کیا ہے مگر کیا کریں روزانہ سینکڑوں
کے حساب سے نئی فحش ویب سائٹس معرضِ وجود میں آ تی ہیں۔
فحش ویب سائٹس بنانے اور مشتہر کرنے کے لئے بے شمار کمپنیاں کام کر رہی ہیں
، لہذا اسے مکمل طور پر بند کرنا پی ٹی سی ایل کی بس کی بات ہی نہیں۔مغربی
ممالک میں اسے باقاعدہ ایک صنعت کے طور پر اسے چلایا جاتا ہے۔۔<<<<<<<<<<<<<<<<<<<
فحش مواد دیکھنے کا رجحان دنیا بھر میں مو جود ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے
کہ ایک مسلمان ملک ہوتے ہو ئے پاکستان میں ایسے غیر اخلاقی سائٹس دیکھنے کا
رجحان سب سے زیا دہے۔ ماہرِ نفسیات اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے معا
شرے میں چو نکہ جنس پر گفتگو کرنا غیر اخلاقی اور بے ادبی کے زمرے میں شمار
کیا جاتا ہے اور جنسی تعلقات کو صرف شادی تک محدود رکھنے کی اجازت ہے،مردوں
اور عورتوں کے ما بین تعلقات کو بہت زیادہ محدود رکھا جاتا ہے، بوجہ
ازیں جنسی معلومات کے بارے میں کافی تجسس پا یا جاتا ہے جس کی وجہ سے لو گ
انٹر نیٹ پر فحش سائٹس دیکھتے ہیں۔
بحر حال اس میں شک نہیں کہ انٹر نیٹ کا استعمال اب دنیا بھر میں عام ہو چکا
ہے اور پاکستان میں ہنو ز اسے لکھا پڑھا طبقہ استعمال کر رہا ہے مگر وقت کے
ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں اضا فہ ہو رہا ہے، طلباء کو مفت لیپ ٹاپ دئیے
جا رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے نو جوان نسل میں خصوصا انٹرنیٹ کے استعمال میں بے
تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔بے شک انٹر نیٹ پر انسان بے شمار معلومات
حا صل کر سکتا ہے اور اگر اس کا استعمال مثبت طریقے سے کی جا ئے تو یہ
معلومات کا ایک بیش بہا انمول خزانہ ہے مگر اسکا منفی استعمال نو جوان نسل
کے لئے تباہی و بربادی کا با عث بن سکتا ہے لہذا والدین کو چا ہئیے کہ وہ
انٹر نیٹ استعمال کرنے والے اپنے بچوں پر نظر رکھے۔ان کو ہر سہولت کے مثبت
اور منفی استعمال کے فوائد اور نقصانات سے آگا ہ رکھے۔اور ممکن ہوتو حکومت
فحش مواد والے تمام سائٹس کو بند کرنے کا اہتمام کرے۔ |