کراچی بھنور میں

کراچی منی پاکستان ہے یہ تجارتی و اقتصادی شہر ہے ، پاکستان اٹھانوے فیصد ٹیکس ادا کرنے والا شہر ہے ، یہاں کی آبادی لگ بھگ دوکڑور سے تجاویز کرگئی ہے، یہ صوبہ سندھ پاکستان مین واقع ہے جہاں سب سے زیادہ اکثریت ہجرت کرنے والے اردو بولنے والوں کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ شہر ایک گاو ¿ں کی صورت میں تھا جسے بھارت سے آنے والے لوگوں نے اسے آباد کرکے ہر شعبہ میں ترقی کی وقت کے ساتھ ساتھ تجارت اور اقتصادیات کی بہتری نے اسے پروان چڑھایا، اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا سراسر ظلم اور نا انصافی ہوگی، قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ہونے والی ریاستی سازشوں نے اس شہر کو بھی نہیں چھوڑااور جب یہ شہر ترقی و تمدنی کی کامرانی و کامیابی کی جانب چل نکلا تو کہیں وزیر اعظم تو کہیں صدور نے تعصب برتے ہوئے اس شہر میں تمام قانون کو بالائے طاق رکھے ہوئے اپنے من پسند لوگوں کی نو آبادیاں کرانا شروع کردیں اور مختلف شعبوں پر قابض ہونا شروع کردیا، ہجرت یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد پڑھی لکھی اور ہنر مند تھی اسی لیئے وہ زور زبردستی ،لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرتے تھے اُن کی سادگی اور شرافت سے مکمل طور پر حکمرانوں نے فائدہ اٹھایا۔ انہی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور تعصبانہ رویئے کی بناءپر پاکستان اپنے ایک وجود مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو گیا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو پھر بھی خیال نہ آیا۔انھوں نے بلوچستان کے ساتھ بھی نا انصافی کا عمل جاری رکھا اور ان کے حقوق کااستحصال کیا، یہ سلسلہ ایسابڑھا کہ آج ملک پاکستان کے تمام صوبے نفرت، عصبیت، ظلم و تشدد، اقربہ پروری کی بھنٹ چڑھے ہوئے ہیں ، ان حالات سے ہمارے دشمن ملک پوری طرح استفادہ کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب دشمنانان پاکستان ،پاکستان کے حساس اداروں کے ذمہ داروں کو دہشتگردی کا نشانہ با آسانی کر ڈالتے ہیں ،اس کے علاوہ مذہبی تفرقہ اس قدر بڑھا دیا گیا ہے کہ اب نہ مساجد محفوظ ہیں نہ مزارات اور نہ امام بارگاہ۔۔۔کیا اسی لیئے پاکستان کا قیام آیا تھا؟؟حالیہ دنوں میں کراچی کی سب سے بڑی منتخب سیاسی جماعت نے کراچی کے امن کیلئے فوج کی مدد کو طلب کرنے کی حکومت اور ایوان سے درخواست کی ہے ۔لندن سے ایک بیانہ میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کراچی کے انسانوں کی جان ومال کے تحفظ اور تاجر برادری کے کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے کراچی کے انتظام کو فوج کے حوالے کریں،لندن سے جاری پیغام میں متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین کا کہنا تھا کہ اپنے گھروں کو واپس آنے والے کچھی برادری کے خاندانوں پر جدید ترین اسلحہ سے فائرنگ، حملے اور دھماکے کرکے واپس پہنچنے کی ان کی خوشیوں کو خاک میں ملا دیا گیا ہے،سندھ حکومت
۲
اور کراچی کی انتظامیہ ، پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اس تمام تر کھلی دہشت گردی کو رکوانے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ اس شورش زدہ علاقے سے اس طرح غائب ہیں کہ جیسے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سرے سے کراچی میں کوئی وجودہی نہیں، حکومت سندھ کراچی کے عوام اور تاجروں کو لیاری میں گینگ وار کے دہشت گردوں اور بھتہ کی پرچیاں دینے والوں سے نجات دلانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے،انہوں نے کہا کہ اب کراچی کے نہتے اور مظلوم عوام اور تاجر برادری صرف فوج کی طرف آخری امید کی نگاہ لگائے بیٹھے ہیں، وزیراعظم نواز شریف کراچی کے انسانوں کی جان ومال کے تحفظ اور تاجر برادری کے کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے کراچی کے انتظام کو فوج کے حوالے کریں،انھوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔کراچی کی بد امنی کے بارے میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ بدامنی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اس کیلئے سیاسی عینک اتارنی ہوگیاور وزیراعلیٰ سندھ کو کیپٹن بنا پڑیگاپھر رینجرز ان کے کنٹرول میں ہو گی انھوں نے کہا کہ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور مارک ہو چکے ہیں ضرورت بس کارروائی کی ہے،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ کراچی کی صورتحال بدسے بدترین ہوتی جارہی ہے،کراچی موجودہ صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا،حالات میں بہتری کے لئے شفافیت کی ضرورت ہے،کراچی پاکستان کا صنعتی اور تجارتی مرکز ہے، آئین کے تحت امن وامان صوبائی مسئلہ ہے، حالات میں بہتری لانا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں،سندھ حکومت کویقین دلاتا ہوں، رینجرز ان کی کمانڈ میں ہوگی،کراچی کی صورتحال کو سیاست کی نظر نہیں کیا،کراچی کی صورتحال سیاسی بیانات سے ٹھیک نہیں ہوگی، کراچی میں بہتری کیلئے سیاسی مفادات سے بالاترہوکرکام کرناہوگا،پورے کراچی نہیں صرف ٹارگٹڈ آپریشن کی ضرورت ہے،ٹارگٹڈ آپریشن کا سربراہ وزیراعلیٰ سندھ ہوگا، سیکڑوں ملزمان گرفتار ہوئے،پولیس یاعدالتوں نے چھوڑ دیا،کراچی کے مسئلے کو سیاسی عینک اتار کر دیکھنے کی ضرورت ہے،جماعتیں اورسیاسی مفادات بچاتے رہے توکراچی ٹھیک نہیں ہوگا،کراچی میں فوج بلانے کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتا،کراچی کے معاملات کو بڑے ٹھنڈے انداز میں ہینڈل کرنا ہے،تمام حالات اور محرکات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے،فوج مشکل ترین حالات میں کام کررہی ہے، حالات یہی رہے تو کراچی کو بہت سنگین خطرات لاحق ہیں،کراچی کو سنگین خطرات لاحق ہیں ، وضاحت بھی نہیں کرسکتا،وفاق مدد اور صوبہ ٹارگٹڈآپریشن کی قیادت کرے گا،کراچی میں مکمل طور پر غیر سیاسی آپریشن کیا جائے گا ،اتفاق رائے کے بعد جہاں قانون شکن ہونگے انکی خبر لیں گے، کراچی میں آپریشن کا فیصلہ کابینہ اجلاس میں ہوگا،سندھ کے معاملات سیاسی بیانات سے ٹھیک نہیں ہوں گے، ہم دو آپریشن کرچکے ہیں ان سے سبق سیکھا ہے۔ کراچی کی بد امنی کے سلسلے میں چیف جسٹس نے پچھلی حکومت میں کئی بار اسی سندھ حکومت کو شوکاز نوٹس بھی دیئے تھے ۔چیف جسٹس نے کراچی کی بد امنی کے بارے میں سیکیورٹی حکام، اٹارنی جنرل اور حکومت سندھ سے جواب طلبی کی اس سلسلے میں چیف جسٹس نے جو ریمارکس پاس کیئے وہ یہ تھے ۔ لاشیں کراچی سے ملنا الارمنگ سچویشن ہے،لاشیں پھینکنے والے ملک اور صوبے کی خدمت نہیں کر رہے۔کراچی کی بد امنی کے حوالے سے اے این پی کا موقف بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے۔ سینیٹر شاہی سیدکا کہنا ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے ہر اقدام کی غیر مشروط حمایت کریں گے شہر میں قیام امن کے لیے اعلانات سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے، شہر پر گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردوں کا راج ہے جہاں کوئی اپنا مذہبی یا قومی فریضہ اپنی مرضی سے ادا نہیں کرسکتا،انھوں نے کہا کہ چوہدری نثار کے کراچی کی بد ترین صورت حال اور مستقبل کے حوالے سے خدشات کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں، مصلحت پسندی کی وجہ سے نوبت یہاں رک پہنچ چکی ہے دہشت گردوں کی پشت بان قوتوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، شہر کی موجودہ صورت حال ناقابل تصور حد تک انتہائی سنگین ہوچکی ہے ہمیں جماعتی مفادات سے بالا تر ہوکر سوچنا ہوگا اور صدر اے این پی سندھ کا کہنا ہے آنکھوں میں دھول جھونکنے کا وقت گزر چکا ہے خدارا کسی قومی سانحہ کے رونماءہونے کا انتظار کرنے سے پہلے کراچی پر رحم کیا جائے ۔ایم کیو ایم کے ذمہ دار فاروق ستار کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں لوگوں کا قتل عام کیا جا رہاہے،صوبائی حکومت کی ناکامی ہے،پولیس ہشتگردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،اس معاملے کو وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان فٹ بال نہ بنایا جائے، ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیاہے یہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری مطالبہ ہے مگر عوام کی جان عزیز ہے،فاروق ستار کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمہ دار خورشید شاہ نے کہاکہ ایم کیو ایم نے کراچی میں فوج طلب کرنے کا مطالبہ کر کے جمہوریت اور سیاست کو تھپڑ مارا ہے،ایم کیو ایم پہلے گورنر کا عہدہ تو چھوڑے ، فوج طلب کرنے کا مطالبہ سازش لگتی ہے، غیر جمہوری مطالبہ سیاسی بلنڈر ہے،بلوچستان، خیبر پختونخوا کے حالات خراب ہیں پھر وہاں بھی فوج طلب کرنا ہوگی، غیر جمہوری مطالبے پر بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔کراچی کی بد امنی پر تحریک انصاف کے ذمہ دار شاہ محمود قریشی نے بھی گورنر سندھ مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا،کراچی کے حالات اتنے ہی خراب ہیں تو گورنر سندھ مستعفی ہو جائیں،کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج ڈاکٹرندیم احسان نے کہا کہ عمران خان خودکل تک کراچی میں فوج کے ذریعے ووٹرزلسٹوں کی چیکنگ کرانے اور کراچی میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کے مطالبے کرتے رہے ہیں، تحریک انصاف خود ایک فوجی جنرل کی مرہون منت ہے ، قائدتحریک الطا ف حسین نے کراچی کے شہریوں اورتاجروں کی جان ومال کوتحفظ فراہم کرنے اورامن وامان کی صورتحال کوبہتربنانے کیلئے فوج بلانے کا مطالبہ کیاہے تو تحریک انصاف کوآگ لگ رہی ہے، تحریک انصاف کوکراچی کے عوام کی جان ومال اوران کے مسائل سے کوئی ہمدردی نہیں ،خواجہ اظہارالحسن کا کہنا ہے کہ کراچی یا ملک کے کسی بھی حصہ میں امن کے قیام کا مطالبہ آخر کس طرح غیرجمہوری قراردیاجاسکتا ہے ؟کیا اپنے گزشتہ دورحکومت میں پی پی پی نے قبائلی علاقوں میں فوج کو فٹ بال میچز کھیلنے کیلئے طلب کیا تھا؟ سندھ حکومت لیاری میں امن وامان بحالی میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، لیاری سے کچھی برادری کے ہزاروں خاندانوں کی جبری بیدخلی اور ان کی قتل وغارتگری کیا صوبائی حکومت کی کھلی ناکامی نہیں ہے ؟ ایم کیوایم کے مطالبہ کوتنقید کا نشانہ بنانے والے تاجر برادری کے اخباری اشتہارات کا کیا جواب دیں گے جن میں سندھ حکومت کو گمشدہ قراردیا گیا ہے۔۔الطاف حسین کے بعد رابطہ کمیٹی نے بھی کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ کردیا ،لیاری گینگ وار کے دہشت گردوں سے عوام و تاجر تنگ آچکے ہیں ،عوام اور تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے میں انتظامیہ ناکام ہوچکی ہے ،لیاری میں روزانہ حالات خراب ہوتے ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ،لیاری میں مسلح دہشت گردوں نے دہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے ، سید سردار احمد نے کہا کہ کراچی میں امن و امان پر بحث کیلئے درخواست جمع کرادی ہے،امن و امان صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت ناکام ہوچکی ہے،انسانی جان و امال کی اہمیت سب سے زیادہ ہے،درخواست جمع کرانے کا مقصد حکومت امن و امان کے حوالے اپنی پوزیشن واضح کرے ،حکومت اپنی زمہ داریاں پورے کرنے میں ناکام نظر آتی ہے،ایم کیو ایم کے رہنما واسع جلیل نے کراچی بد امنی پر ایم کیو ایم کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وزیرداخلہ کی پریس الطاف حسین کی وزیراعظم کواپیل کا ردعمل سمجھتے ہیں، ایم کیوایم کراچی میں غیر سیاسی بنیاد پرٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کرتی ہے،ایم کیوایم نے دہشتگردعناصرکی نشاندہی کی جن پرقابو پاکرکراچی میں امن بحال ہوسکتاہے،الطاف حسین نے نوازشریف سے فوج بلانے کامطالبہ شہر میں امن وامان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب ترجمان بزنس ایکشن کمیٹی افتخاررضوی نے کہا کہ لطاف حسین کے فوج بلانے کے بیان کی حمایت کرتے ہیں اس کے علاوہ علمائے کرام نے بھی کراچی کی بد امنی کے حوالے سے اپنے خدشات پیش کیئے انھوں نے کہا کہ شہر قائد کا ہر طبقہ الطاف حسین کے فوج کے مطالبے کی ہامیت کرتا ہے-

عوام کو جمہوریت یا عامریت سے سروکار نہیں وہ اپنا تحفظ چاہتے ہیں ،صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مصلحتوں کا شکار ہیں وفاقی حکومت نے کراچی کے حالات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ،شہر میں بے گناہوں کا قتل عام بھتہ خوری اور بدامنی عروج پر ہے ،اس صورتحال میں پاک فوج ہی ہے جس سے عوام تحفظ کی اپیل کرتے ہیں ،سیاسی جماعتیں الطاف حسین پر تنقید کرنے کے بجائے انکے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کریں۔کراچی میں بد امنی اور اغوا کے سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد کے معاملات کی مانیٹرنگ کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل پایا جس کی نگرانی اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل محمدفاروق ایڈوکیٹ کریں گے،بیرسٹر صلاح الدین عدالتی معاون کی حیثیت سے کمیشن کے رکن ہوں گے جبکہ کمیشن کا پہلا اجلاس اٹھائیس اگست کو سندھ ہائی کورٹ میں ہوگا۔ جسٹس گلزار کے مطابق کراچی کے حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی ، جبکہ عدالت نے ڈی جی رینجرز کو بھی طلب کر لیا،جسٹس گلزار نے سیکیورٹی افسران سے مخاطب ہوکر کہاآپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پولیس اور سیکیورٹی نافذ کرنیوالے دارے بھی محفوظ نہیں ،کرا چی کی چو رنگیوں پر ریڈ لائیٹ جلتے ہی شہریوں کیلئے ریڈ زون شروع ہو جاتا ہے، چیف جسٹس نے رینجرز سے جواب طلبی کے موقع پر اظہار برہمی کیا انھوں نے کہا کہ معلوم نہیں ایسا کون طاقتور آدمی ہے جو رینجرز اور پولیس کو کام کرنے سے روک رہا ہے ، پولیس کے اعلی افسران کو بغیر پروٹوکول کے شہر میں کام کرنا چاھیئے،،شہر میں امن وامان کو برقرار رکھنے کیلئے آپ نے کیا اقدامات کیے ، جوڑیا بازار ، چاکیواڑہ، لی مارکیٹ میں آپ کیساتھ جانے کو تیار ہیں ، ہم اس طرح آپ کو نہیں چھوڑینگے ، کرا چی میں 1985 کے بعد سے اب تک خون بہہ رہا ہے ، آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز آپ ہمیں بتائیں کہ کیوں ناکام ہوگئے، یہ بتائے کہ کتنے کیسز ایسے ہیں جس میں گواہ پیش ہوئے اور سزائیں نہیں ہوئیں، پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان آپ کی ذمہ داری ہے چالان تیار کرنا ، ہم یہاں وقت ضائع کرنے نہیں آئے آئین و قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی قسم کھائی ہے ، عدالت نے ایک مہینے کی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ڈی جی رینجرز نے چیف جسٹس کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے ورکرز زمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں ،رینجرز کے پاس صرف گرفتار کرنے کے اختیارات ہیں ، آخری دس مہینوں میں28 رینجرز اہلکار جاں بحق ہوئے ، جب تک سزائیں نہیں ہونگی جرائم ختم نہیں ہونگے ۔بحرحال کراچی کی بد امنی کے سلسلے میں کبھی سیاستدان ایجنسیوں رینجرزاور پولیس پر مورد الزام ٹھہراتی ہے تو کبھی ایجنسیاں،رینجرز اور پولیس سیاستدانوں پر۔ یہ الزام در الزام کا سلسلہ عرصہ سے چلا آرہا ہے ان سب میں ہر کوئی اپنے مفادات کا تحافظ کا اہتمام کرتا ہے چاہے ملک ہو یا شہر اُسے نہیں پروا،جب تک تمام ادارے تمام ایجنسیاں، انتظامیہ، بیوروکریٹس اور تمام سیاستدان یہ نہیں ٹھان لیتے کہ یکجا ہوکر خالصتا ملک و قوم کی بلا تفریق خدمت کریں گے اور آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو بھلائیں گے تو شائد یہ پاکستان کو اس سلگتے ہوئے بھنور سے نجات دلاسکتے ہیں اس کیلئے تمام پاکستانیوں کی بلا تفریق رنگ و نسل ، قبیلہ و مرتبہ منصفانہ حقوق کی تقسیم ہی ایسے ابتر حالات سے چھٹکارہ دلاسکتے ہیں پھر نہ جیئے سندھ کی آواز کی اہمیت ہوگی اور نہ آزاد بلوچستان کا نعرہ ہوگا اور نہ ہی مہاجروں کا استحصال۔۔۔ کراچی اور پاکستان کو بھنور سے نکالنے کا واحد حل آئین پاکستان میں قانون کا درج ہونا ناگزیر ہے جو عوام میں منصافہ حقوق کی تقسیم ہواوراہلیت کو سیاست پر فوقیت حاصل ہو، اس وطن عزیز پاکستان میں مذہبی جذبات و احساسات کو ابھارنے اور گمراہ کن بیانات پر پابندی کو قانونی شکل دینے کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی نفرتوں کا سمندر خشک ہوجائے اور کراچی سمیت پورا ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہوجائے اگر اب بھی وقت ضائع کیا اورسیاسی جماعتوں نے آپس کی چپکلش کا ختم نہ کیا تو پاکستان اور عوام ناقابل فراموش نقصان سے دوچار ہوسکتا ہے۔کاش ہماری عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوجائے، اے کاش ہماری عدالتیں فی الفور فیصلے پر قادر ہوجائیں، اے کاش ہماری انتظامیہ ایجنسیاں کی بروقت اطلاع پر تیار ہوجائے، اے کاش ہمارے تاجر حرص دولت کی لالچ میں ہوشربا مہنگائی سے باز آجائیں، اے کاش ہمارے نوکر شاہی طبقہ رشوت اور بخشش کی لعنت سے باز آجائیں، اے کاش ہمارے مذہبی سیاستدان دین کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں، اے کاش ہمارے سیاستدان سچ اور حق پر عملی اپنا کر حق کے ترجمان بن جائیں ، اے کاش الیکشن کمیشن انتخابات کے نظام کو جدید کمپیوٹرائز اسکینگ پر لے آئے، اے کاش ہمارے تدریس گاہوں سے سیاست کا خاتمہ ہوجائے، اے کاش ہمارے نوجوان حصول علم کے متلاشی بن جائیں، اے کاش اس وطن پاک کا اک اک بچہ خواندہ بن جائے، اے کاش ترقی کا پہیہ اس وطن میں تیزی سے رواں دواں ہوجائے، اے کاش ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بم بلاسٹ، خود کش حملے، جرائم کے اڈے، فحاشی کے اڈے اورشراب، جوا، بھنگ، سیشہ، افیون، ہیروئن کا مکمل جڑ سے خاتمہ ہوجائے، اے کاش اس وطن عزیز پاکستان اور بل الخصوص کراچی کو معاشرتی، معاشی و اقتصادی،سیاسی ، مذہبی ہر نفرت کے بھنور سے نکال باہر کردے ۔ آمین ثما آمین ۔۔۔۔۔

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 273912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.