تحریر : محمد اسلم لودھی
لاہور پاکستان کا مرکزی شہر ہے بیمار یوں کے ستائے ہوئے لوگ دور دراز
علاقوں سے نہ جانے کن مالی اور دیگر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے لاہور تک
رسائی حاصل کرتے ہیں ۔ ہسپتالوں کے لان میں بستروں سمیت عورتیں اور مرد رات
دن لیٹے ہوئے تو ہر کسی نے دیکھے ہوں گے یہ اس امید پر لاہور آتے ہیں کہ
یہاں بڑے بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نہ صرف میڈیکل سہولتوں ٗ لیبارٹریز
ٹیسٹوں ٗ اور ماہر ڈاکٹروں کی موجودگی موثر علاج کا باعث بنے گی ۔ لاہور
میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال ہیں ان پر اربوں روپے اخراجات تو حکومت برداشت
کررہی ہے وہاں تعینات چھوٹے بڑے ڈاکٹروں اور عملے کی تنخواہوں اور مراعات
پر ماہانہ کروڑوں روپے برداشت بھی کررہی ہے ۔لیبارٹریوں میں ممکن حد ٹیسٹوں
کی جدید مشینری بھی فراہم کررہی ہے لیکن حکومت کی ان تمام تر کوششوں کے
باوجود ان سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کو علاج کی معیاری سہولتیں میسر
نہیں آتیں اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں کے عملے اور بطور خاص ڈاکٹروں کا رویہ
ہی انسان دوست قرار دیا جاسکتا ہے ۔بزرگ کہا کرتے تھے اﷲ کسی کو کچہری کا
منہ نہ دکھائے کیونکہ وہاں کی دیواریں بھی رشوت مانگتی ہیں اب اس مقولے میں
یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے اﷲ کسی کو سرکاری ہسپتالوں کا منہ نہ دکھائے کیونکہ
جو بھی با امر مجبور ی سرکاری ہسپتال میں تکلیف میں تڑپتا ہوا جاتا ہے اس
کی تکلیف کو دیکھ کر ڈاکٹروں اور عملے کا دل نرم ہونے کی بجائے مزید بے رحم
ہوجاتا ہے جبکہ آنکھوں ماتھے پر پہنچ جاتی ہیں ۔مجھے ان باتوں کا علم بروز
جمعہ 23 اگست کی شام اس وقت ہوا جب ایک مقامی ڈاکٹر نے میری بیگم کی حد سے
بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں فوری طور پر انسٹی ٹیوٹ آف
کارڈیالوجی لے جانے کی ہدایت کی ۔میرا بیٹااپنی ماں کو لے کر کارڈیالوجی
سنٹر پہنچا اور ہمیں بھی وہاں پہنچنے کی موبائل پر اطلاع کردی جب میں وہاں
پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میری بیگم گزشتہ ایک گھنٹے سے ویل
چیئر پر ہی درد کی شدت سے چیخ و پکار کر رہی ہے اس کے اردگرد اور بھی بہت
سے مریض ویل چیئر پر ہی بیماری کی شدت کا سامنا کرنے پر مجبور تھے میں نے
ڈیوٹی ڈاکٹر سے درخواست کی کہ مریض کی حالت پر رحم کھائیں اور انہیں کسی
بیڈ پر لیٹا کر علاج شروع کریں ڈاکٹر نے یہ کہہ کر مجھے فارغ کردیا کہ ایمر
جنسی وارڈ میں کوئی بیڈ خالی نہیں ہے اس لیے ویل چیئر کو بھی غنیمت سمجھیں
۔ ایک جانب ڈاکٹر کی لاپرواہی ٗ ہسپتال میں بیڈ کی قلت تو دوسری جانب بیگم
کی حالت دیکھ کر یوں محسوس ہورہاتھا جیسے وہ چندلمحوں کی ہی مہمان ہے ۔ اب
ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ ہم کسی پرائیویٹ ہسپتال
پہنچ کر اپنے مریض کی جان بچائیں چنانچہ قریب ہی عمر ہسپتال پہنچے تو انہوں
نے فوری طور پر علاج شروع کردیا اس کے باوجود کہ ایک دن کے انہوں نے ادویات
اور ٹیسٹوں سمیت 29 ہزار روپے کا بل ہاتھ میں تھما دیا جس کی ادائیگی یقینا
میرے جیسے عام آدمی کے لیے بہت مشکل تھی لیکن یہ اطمینان ضرور ہوا کہ بیگم
کی جان بچ گئی لیکن یہ کربناک حالات زندگی بھر مجھے نہیں بھولیں گے ۔اس
لمحے ذہن میں یہ سوال بار بار اٹھ رہاتھاکہ ان سرکاری ہسپتالوں کا کیا
فائدہ جہاں عام آدمی کوعلاج ہی میسر نہیں آتانہ وہاں اتنے بیڈ ہیں اور نہ
ہی میڈیکل سہولتیں ہیں کہ مریضوں کو بیڈ پر لیٹاکرشافی علاج کیا جاسکے جبکہ
عملے اور ڈاکٹروں کے ماتھے پر نظر آنے والی شکن کبھی کم نہیں ہوتی وہ
مریضوں کو ایسے چیک کرتے ہیں جیسے کوئی احسان کررہے ہیں انہیں اپنے فرائض
کا کوئی احساس نہیں وہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ لے کر ڈاکٹر بنتے ہیں لیکن
ڈاکٹر بننے اور سرکاری ملازمت ملنے کے بعد نہ جانے کیوں قصائیوں کی طرح
مریضوں کو جسمانی اور مالی طور پر ذبح کرنے لگتے ہیں دوسری جانب جتنے بھی
سنیئر ڈاکٹر اور پروفیسر ہیں وہ عام مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں چیک
کرنا اور اپنے ہاتھ سے ان کا آپریشن کرنا توہین تصور کرتے ہیں ائیرکنڈیشنڈ
کمروں میں بیٹھ کر پرائیویٹ کلینکوں میں آپریشن کے ریٹس طے کرنے میں مصروف
ہوتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے مجھے سروسز ہسپتال کے ای این ٹی سپیشلسٹ پروفیسرکو
دکھانے کی ضرورت پیش آئی میں نے متعلقہ ڈاکٹر سے رابطہ کیا انہوں نے موبائل
پر بتایا کہ میں لاہور کے چار پرائیویٹ ہسپتالوں میں شام کے وقت دستیاب
ہوتا ہوں اگر آپ مجھے ہی چیک کروانا چاہتے ہیں تو آپ کو 1500 روپے فیس ادا
کرنی پڑے گی پھر جب میں چیک اپ کے لیے وہاں پہنچا تو آپریشن کے 20 لاکھ کا
تخمینہ مجھے تھما کر 1500 روپے کنسلٹنیشن فیس کے طور پر لے لیے گئے ۔یہ صرف
میرے ساتھ ہی نہیں ہوابلکہ ڈیرہ غازی خان میں رہنے والا مزدور ٗ اٹک کے
دکاندار ٗ بہاولنگر کے موچی اور بھکر کے کاشتکار کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوتا
ہے ۔مہنگائی اس قدر آسمان پر پہنچ چکی ہے کہ انسان دو وقت کی روٹی کھانے کو
ترس رہا ہے اس پر علاج کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے لائے ۔ اس ضمن میں وزیر
اعلی پنجاب سے یہی گزارش کروں گا کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کو
علاج نہیں ملنا اور انہیں گھر اور جائیداد فروخت کرکے پرائیویٹ ہسپتالوں
میں ہی علاج کروانا ہے تو خدارا ان سرکاری ہسپتالوں کو بندکردیں جو سالانہ
اربوں روپے سرکاری خزانے سے ڈکار جاتے ہیں جو علاج گاہ کی بجائے بارگینگ
اور کمائی کے اڈے بن چکے ہیں نہ وہاں مریضوں کی تعداد کے مطابق بیڈ دستیاب
ہیں ٗ نہ وہاں ضرورت پڑنے پر واینٹی لیٹر ٗدستیاب ہیں ٗ نہ وہاں معیاری
ایکسرے مشینیں ہی ورکنگ پوزیشن میں ہیں ٗ نہ وہاں الٹراساؤنڈ کر نے کو کوئی
تیار ہے 10 بجے کھلنے والی سرکاری لیبارٹریاں 1 بجے بندکردی جاتی ہے اور
سرکاری ہسپتالوں کے قریب پرائیویٹ لیبارٹریوں پر دانستہ مریضوں کو ریفر
کردیا جاتا ہے۔ دانستہ مہنگے نسخے لکھ کر طے شدہ کمیشن کی خاطر لواحقین کی
جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ۔ وزیراعلی تو اپنا طبی معائنہ کروانے کے لیے
انگلینڈ پہنچ جاتے ہیں کیا پاکستان کا ہر شہری انگلینڈ ہی جا کر علاج
کروانے کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ اگر خود کو حقیقت میں خادم پنجاب سمجھتے ہیں
تو ان سرکاری ہسپتالوں میں دس دس منزلہ عمارتیں بنا کر اتنے بیڈ اور طبی
سہولتیں وہاں فراہم کریں اور فرض شناس ٗ انسان دوست ڈاکٹر اور عملہ تعینات
کریں تاکہ وہاں پہنچنے والے لوگ ویل چیئرز پر نہ تڑپتے رہیں اور دور دراز
علاقوں سے سفری صعوبتیں اٹھا کر صرف اور صرف علاج کے لیے لاہور آنے والے
ہسپتالوں کے لانوں اور شہر کے فٹ پاتھوں پر راتیں اور دن گزارنے پر مجبور
نہ ہوں ۔ بلکہ ہسپتالوں میں ایسی سرائیں تعمیر کریں جہاں دوسرے شہروں سے
آنے والے لواحقین بغیر کسی معاوضے کے رہ سکیں ۔یہ صورت حال پنجاب کے
دارالحکومت لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کی ہے ضلعی مقامات پر ڈسٹرکٹ ہسپتالوں
میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا یہ کوئی مشکل سوال نہیں رہ جاتا ۔ |