تشویشناک معاشی حالت اور سیاستدان

ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدرمیں کمی کا عمل مسلسل جاری ہے جس سے ملک کی گرتی ہوئی معاشی حالت کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ معیشت سے تعلق رکھنے والے اس بے حد اہم پہلو پر سیاسی مسائل کے مقابلے میں زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پارلیمان کے جاریہ سشن کے دوران ہی روپیہ کی قدر ہر دن گر ررہی تھی لیکن پارلیمان پر اس بحث یا ذکر تک نہ ہوا بلکہ اس کی جگہ معمولی باتوں پر پارلیمان میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس بغیر کسی کام کے ملتوی ہوتے رہے گویا ارکان پارلیمان کو خواہ وہ حزب اقتدار سے وابستہ ہوں یا حزب مخالف کی نمائندگی کرتے ہوں ملک کے اہم معاشی مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ نہیں ہے۔

ان سطور کے قلم بند کئے جانے کے وقت ایک ڈالر کی قیمت ہمارے 65 روپیوں سے زیادہ ہوچکی ہے اور ان سطور کی اشاعت تک مزید اضافہ ممکن ہے۔ خدشہ ہے کہ ایک ڈالر جلد ہی 70 یا اس سے بھی زیادہ 75 روپیوں کا ہوجائے مطلب یہ ہے کہ اس وقت اگر کسی چیز کی قیمت دس ڈالر ہے تو ہم کو اس کے لئے آج کی شرح سے (650) روپیوں سے زیادہ ادا کرنا ہوگا۔

مزید آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیں کہ آزادی کے وقت ایک ڈالر ہمارے ایک روپیہ کے برابر تھا۔ 1966ء تک ایک ڈالر کی قیمت 4 روپے 70 پیسے تھی لیکن 1965کی ہند۔پاک جنگ کے بعد ملک کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے روپیہ کی قدر میں تقریباً%60 گراکر ایک ڈالر کی قیمت (7.50) مقرر کردی اس کے بعد اس میں اضافہ ہوتا رہا لیکن اضافہ کی شرح اقتنی زیادہ کبھی نہ تھی جس قدر کہ گزشتہ چند سالوں میں رہی ہے۔ 1991ء تک ڈالر کے مقابلے میں روپیہ خاصہ مستحکم رہا اور قیمت 20روپے سے آگے نہ بڑھ سکی تھی لیکن اس کے بعد اضافہ ہوتا چلا گیا اور موجودہ صورت حال خاصی تشویسناک ہے لیکن سیاستدانوں کو اس کی فکر نہیں ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر گھٹنے سے باہر سے آنے والی یعنی درآمد کی جانے والی ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے ۔ بیرونی ممالک کا سفر، سیر و تفریح، علاج معالجہ اور حصول تعلیم سب کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ حج ، عمرہ، کربلا، نجف اشرف، مشہد کاظمین، بغداد اور بیت المقدس کی زیارت پر جانے کے لئے اخراجات میں اضافہ ہوا۔ فائدہ (بظاہر) ان ہندوستانیوں کو ہوگا جو ملک سے باہر ڈالر، پونڈ، یورو، ریال درہم و دینار وغیرہ کماکر ہندوستان روپیہ بجھواتے ہیں۔ رقم تو بے شک زیادہ آئے گی لیکن ملک میں قیمتوں میں جو اضافہ ہوگا اس سے زیادہ رقم بجھوانے کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ ہم اپنی ضرورت کا دو تہائی تیل درآمد کرتے ہیں۔ ڈیزل و پٹرول کی قیمت میں اضافہ بیشتر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب ہوگا۔ دوسرا اہم نقصان ملک کے کارپوریٹ شعبہ کے سرمایہ دار، تاجروں اور صنعت کاروں کا بھی ہوگا۔ جنہوں نے بیرونی ملکوں سے قرض حاصل کررکھا ہے ان کو قرض اور سود کی ادائیگی میں زیادہ رقم دینی ہوگی۔ اس سلسلے میں ان معاملات کو قابو میں لانے یا کنٹرول کرنے والا یرزروبینک آف انڈیا (آر بی آئی) واقعی مجبور اور کچھ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ امریکی معیشت میں بہتری کی وجہ سے ڈالر دنیا کی تمام کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط ہورہا ہے تو ہندوستانی کرنسی کی قدر برقرار رکھنے کے لئے آر بی آئی کیا کرسکتی ہے؟ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ ہم اپنی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کریں۔ درآمدات اور برآمدات کا فرق کم کریں اگر برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں تو بین الاقوامی تجارت میں فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر درآمدات برآمدات سے زیادہ ہوں تو یہ خسارہ کہلاتا ہے اور ہماری درآمدات زیادہ ہیں اس لئے ادائیگیوں کا توازن منفی ہے اور ہمارا سکہ بیرونی مارکٹوں میں کمزور ہے۔ ہم نہ درآمدات میں کمی کرسکتے ہیں اور نہ ہی برآمدات میں فوری اضافہ ممکن ہے۔

راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے دور میں ہندوستانی مارکٹ کو بیرونی ممالک کی مصنوعات کے لئے کھول دینا (Free Maket Economy) درحقیقت ہم کو مہنگی پڑی بظاہر ترقی تو نظر آنے لگی کہ ابمبیسڈر کار کی جگہ ٹویوٹا، مرسیڈیز، ہونڈا اور کئی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔ تھمس اپ اور گولڈ اسپاٹ کی جگہ کوکا کولا اور مازدا نے لے لی لیکن ہم پر حیدرآبادی مثل ’’اوپر شیروانی اندر بریانی‘‘ صادق آگئی ہے۔ درآمدات پر اندرا گاندھی کے دور تک اتنی پابندیاں تھیں کہ ضروری ادویات کی تک درآمد آسان نہ تھی اس کی نتیجہ تھا کہ روپیہ مضبوط رہا۔ درآمدات پرپابندیاں ہٹانے سے بیرونی ممالک اور ہندوستان کے سرمایہ داروں کو بے حد زیادہ فائدہ ہوا اور نہرو اندرا گاندھی کے دور کے سوشلزم کی موت راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے دور میں ہوئی اور سرمایہ دارانہ نظام نے ملک میں پنجے گاڑ دئیے۔

ہماری معیشت کی بدحالی کی وجہ صرف روپیہ کی قدر میں انتہائی تشویش ناک گراوٹ ہی نہیں ہے بلکہ شرح نمو کی سست رفتاری گراوٹ بازار کی غیر یقینی صورت حال، افراط زر میں مسلسل اضافہ، بڑھتی ہوئی مہنگائی، صنعتی پیداوار میں کمی اور درآمدات و برآمدات میں زبردست عدم توازن نے معاشی بدحالی کو تشویشناک حد تک بڑھادیا ہے۔ روپیہ میں گراوٹ اور بین الاقوامی تجارت میں بڑھتا ہوے خسارہ کی وجہ ملک کے زر مبادلہ میں مسلسل کمی کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر صرف7 یا 8 تک کافی ہوں گے۔ حکومت کی حکمت عملی اور اقدامات پر تنقید ہورہی ہے حکومت اپنا دفاع کرنے کے لئے صورتِ حال جلد بہتر ہونے کی تیقنات دے رہی ہے۔ حکومت اور حزب مخالف اس صورتِ حال کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس خطرناک صورتِ حال میں حکومت کے ساتھ حزب مخالف کا کوئی تال میل نہیں ہے۔ انتہا پسند قائدین چین اور پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس موقع پر ہم یا د دلادیں کہ دس بارہ سال قبل تک ہماری معیشت اتنی مضبوط تھی کہ ہم دنیا کی دو تین معاشی طاقتوں میں سے ایک ہونے کی امید تھی۔ ایشیاء میں چین سے آگے نہ سہی چین کی ہمر سری کا دعویٰ کرنے کی بات سوچی جارہی تھی لیکن اب سب بدل گیا ہے اور ہماری معیشت زوال پذیر ہوگئی ہے۔

معیشت کی بدحالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس زمانے میں امریکہ و یوروپ کی معیشت بدحالی کا شکار تھی تو ہماری معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہورہی تھی لیکن جوں جوں امریکہ و یوروپ کی معیشت سدھرتی یا مضبوط ہوتی گئی ہماری معیشت بگڑنے لگی اور کمزور ہوتی گئی۔ امریکی معیشت کو سنبھالنے کے لئے امریکی حکومت کے اقدامات کامیاب رہے۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ دار اپنا سرمایہ ہندوستان سے واپس نکالنے لگے ہیں۔ ایک غلطی یہ بھی اہم ہے کہ بین الاقوامی مارکٹوں میں ہماری خریداری تو زبردست تھی قوت خرید کے مقابلے میں ہماری پاس فروخت کے لئے سامان تجارت برائے نام تھا۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لئے ایف ڈی آئی کو مختلف شعبوں میں وسعت دی جارہی ہے لیکن نتائج امیدافزا نہیں ہیں۔

1991ء میں بھی ہم ایسی ہی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہوئے تھے جبکہ ہم کو اپنے سونے کے ذخائر کو فروخت اور رہن رکھنا پڑا تھا روپیہ کی قدر گھٹانی پڑی تھی اور تب منموہن سنگھ کی یہ حکمت عملی کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے کامیاب رہی تھی۔ اس طرح غیر ملکی کمپنیوں کا اثر اور دائرہ کار اس قدر بڑھ گیا کہ حکومت کی آمدنی متاثر ہونے لگی بلکہ اس میں کمی ہوگئی 1991ء کا حربہ تقریباً20یا 22 سال بعد گلے کا پھندہ بن رہا ہے۔ 1991ء میں معیشت کے سنبھلنے کا امکان تھا جو اقدامات کئے گئے وہ ثمر آورثابت ہوئے تھے۔ نو فیصد تک پہنچنے والی شرح نمو کا پانچ فیصد ہونا باعث فکر و تشویش ہے۔ حکومت زر مبادلہ تو جمع نہیں کرپارہی ہے ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کررہی ہے۔ عوام کو غذائی تحفظ فراہم کرنے کیلئے بل تو پاس ہوگیا ہے۔ حکومت کچھ دے رہی تو دوسرے ہاتھ سے دوسروں سے وصول کررہی ہے۔ سرمایہ داروں نے جو دولت غیر ملکی بیکوں میں رکھی ہے اس کو واپس لانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کرپشن بھی روپیہ کی گرتی ہوئی قدر کی طرح قابو میں نہیں آرہا ہے۔ لیکن سیاستدانوں کا اس خطرناک صورت سے عمداً تغافل برت کر ملک کی معاشی حالت سدھارنے کی جگہ اس نازک صورت حال سے چشم پوشی کررہے ہیں۔

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 180124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.