میں ایسی مترنم آواز کو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں جو ہمیشہ
چہرے پر مسکراہٹ لئے ہر کسی کے استقبال کیلئے ہمہ تن تیار اور خدمت کیلئے
کوئی نہ کوئی بہانہ اور دعوت بھی تیار!جب کبھی تھوڑی دیرہوجاتی توٹیلیفون
پربڑی محبت سے یادکرتے ’’کیا بات ہے کہ ان دوستوں کو بھول گئے ہیں جو آئندہ
اس خطے کی تاریخ کو بدلنے کیلئے اپنی جانوں کا سودہ اپنے رب سے کر چکے ہیں
ممکن ہو تو بیت اللہ کی زیارت کو چلے آؤ،ملاقات بھی رہے گی اور دل بھی ٹھہر
جائے گا‘‘۔
بابا جی پچھلے ٧٠برسوں سے مکہ المکرمہ میں مقیم تھے اور گزشتہ ٣٥ سالوں سے
ان سے قلبی محبت کا رشتہ ایسا رشتہ قائم ہوا کہ ان کی طرف سے پندو نصائح کا
روشن چراغ تاریکی میں رہنمائی کیلئے اب بھی ہمیشہ کی طرح موجود ہے۔پاکستان
سے محبت ان کی رگوں میں ایک پاکیزہ خون کی طرح ہر دم گردش کرتی رہتی
تھی۔کئی دفعہ یہاں آنے کی دعوت دی کہ ان کا برسوں کا قرض کچھ تو چکا سکوں
لیکن اس خوف سے باہر نہیں نکلے کہ کہیں زندگی بے وفائی نہ کر دے۔ٹیلیفون پر
ان کے استفسار پر فوری کہتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو بھول جاؤں
اورچنددنوں میں ہی کوئی ایسی سبیل بن جاتی کہ ان کی محبت بھری رفاقت کی
چھاؤں میں پہنچ جاتا ۔آج نجانے کیوں مجھے وہ بے طرح یاد آ رہے ہیں۔حضرت شاہ
ولیؒ اللہ کی حوالے سے رسول اکرمﷺکی پشین گوئیوںکاحوالہ دیتے ہوئے غزوہ ٔ
ہندکااکثرذکرفرماتے کہ میرے نبی ﷺجوفرمایاوہ ہوکررہے گا،اسی لئے مدینے کی
ریاست سے پاکستان کی مماثلت فرماتے کہ اس نظریاتی مملکت کی تخلیق ہی اسی
لئے فرمائی گئی اوراسے غزوۂ ہند کیلئے منتخب کرلیاگیاہے کہ اس ارضِ پاک
کوافغان اورکشمیرکے درمیان پل بنناہے ۔ان کالی پگڑیوں والے افغانوں
اورکشمیری کوہستانیوں کاتذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے کہ کاش میں ان
مجاہدوں کی کوئی خدمت بجالاؤں۔
میں اکثرسوچتاہوں کہ عشق بلا خیز کے قافلہ سخت جاں کو نیا بانکپن دینے والے
وہ درویش صفت لوگ نجانے دشت و صحرا کی کن وسعتوں اور کوہ و بیاباں کی کون
سی منزلوں میں ہو نگے ؟ اپنے گھروں سے نکلے ، اپنے بچوں کو آخری بوسۂ دیئے
اور اپنی ماؤں کی بجھتی ہوئی آنکھوں کو ٹھنڈی ہوا کا آخری جھونکا عطا کئے
ہوئے انہیں مدتیں ہو چلی ہیں۔کھلے موسموں میں چاندنی اوڑھ کر سونے اور یخ
بستہ سردیوں میں غاروں کی تاریکیوں میں پناہ لینے والے ان حوصلہ مند
انسانوں پرزندگی کتنی تنگ کر دی گئی ہے؟میں نہیں جانتا وہ کیا کھا کر زندہ
ہیں ، مجھے یہ بھی خبر نہیں کہ ان کے لباس کس قدر بوسیدہ ہو چکے ہیں،میں یہ
بھی نہیں جانتا کہ جب گھٹائیں امڈ امڈ کر آتی اور چھاجوں مینہ برساتی ہونگی
تو وہ اپنے پیاروں کی یادوں کے کرب سے بچنے کیلئے دل کے دروازے کس طرح مقفل
کرتے ہونگے ،مجھے اس کا بھی اندازہ نہیں کہ اگر سکون بخش نیند کاکوئی
ہلکورہ آجائے تو وہ کس طرح کے خواب دیکھتے ہونگے،مجھے ابھی تک یہ بھی معلوم
نہیں ہو سکا کہ وہ دنوں کا حساب کس طرح رکھتے اور اپنی ڈھلتی عمروں
کااندازہ کس طرح لگاتے ہوں گے؟؟؟؟
لمبی قباؤں،گھنی داڑھیوں اور بھاری پگڑیوں والے افغانی طالبان کو کونسی
گالی نہیں دی گئی؟ان کے ماتھے پر کون سی کالک نہیں ملی گئی اور ان کے دامن
پر کون سا داغ نہیں لگایا گیا؟ دنیا بھر کے فتنہ شعار میڈیا نے انہیں نیزے
کی نوک پر رکھاہوا ہے۔ان کے بارے میں ایسی ایسی کہانیاں تراشی گئیں کہ
درودیوار لرز اٹھے۔ان کی خونخواری کے ایسے ایسے افسانے تخلیق ہوئے کہ مہذب
دنیا انہیں درندوں سے بھی زیادہ خوں آشام مخلوق سمجھنے لگی اور پھر ایک
ایسا وقت بھی آیا کہ ان کا نام لینا مکروہ درجے کی قدامت پسندی اور بنیاد
پرستی کہلایا ۔ ان سے ہمدردی کا اظہار کرنافکری پستی اور ذہنی پسماندگی کی
دلیل سمجھا گیا ۔ ان کے بارے میں کلمہ خیر کہنا پرلے درجے کی انسانیت دشمنی
خیال کیا گیا۔ان پر تبرا بھیجنا ثوابِ عظیم گردانا گیا۔ ان کی ذات اور ان
کے نظام میں کیڑے نکالناروشن خیالی کی علامت ٹھہرا۔انہیں بے ڈھب اور ان گڑھ
گالیاں دینا تہذیب کا حسن کہلایااور ان کے فکروعمل پر سفاکی سے نشتر
چلاناترقی پسندی کی دلیل قرار پایا۔
بابا جی جب بھی دعوت دیتے ،اڑ کر وہاں پہنچنے کو جی چاہتا تھا ۔مکہ المکرمہ
اور مدینہ منورہ کی نورانی بستیاں یہاں سے بہت دور سہی لیکن ان کی دعوت
میرے دل میں اک عجیب سی بِس گھولنے لگتی تھی ۔ان سے ملنے سے قبل میں کبھی
اپنے ہاتھوں،کبھی اپنی آستین اور کبھی اپنے دامن پر نگاہ ڈالتا تھا کہ کہیں
طالبان کے لہو کا کوئی قطر ہ چپک کر تو نہیں رہ گیا ، کبھی دل کی دھڑکن اس
وجہ سے بے ترتیب ہوجاتی کہ کہیں انہیں کشمیریوں سے بے وفائی کاعلم تونہیں
ہوگیا،اگر ایسا ہوا تو میں جیتے جی مرجاؤں گا۔میں اپنے آپ کو بہت سمجھاتا
،عقل و دانش سے لبریز دلیلیں دیتا ،امریکا اوراہل مغرب کے فلسفۂ حکمت کا
سہارا لیتا، ''جہادِ اکبر''کی فیوض و برکات کا تصور کرتا لیکن آج تو دل درد
میں مبتلا بچے کی طرح تڑپتا اور اپنا دکھ بتانے سے قاصر ہے۔میں یہ سمجھنے
سے قاصر ہوں کہ ہم نے ان سچے ، کھرے اور فاقہ مست مسلمانوں اور پاکستان کے
جانثار دوستوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟
ہم کیوں ایک اخلاق باختہ امریکی مہم کے دست و بازو بن گئے جس نے
ہمیں''وارآن ٹیرر'' میں تعاون کے بدلے برہمن کے بھی تابع بنادیا؟قصرِ سفید
کے فراعین جارج بش اور باراک اوباماسے اس دنیا میں شائد کوئی نہیں پوچھے
لیکن ہمیں تو ایک نہ ایک دن اس کا جواب دینا ہی ہوگا۔ہم اس قتلِ ناروا،اور
خونِ ناحق کی کیا تاویل پیش کریں گے؟ربّ ذوالجلال کے سامنے اکنامک سروے آف
پاکستان کا کون سا گوشوارہ پیش کرکے ثابت کریں گے کہ ان درویشانِ خدا مست
کے لہو کی اچھی قیمت وصول کی گئی تھی؟سرکارِ مدینہ ﷺکے حضور کھڑے ہو کر زرِ
مبادلہ کے کون سے ذخائر،آگرہ ،دہلی، کیمپ ڈیوڈ اور واشنگٹن کے کون سے دوروں
کا تذکرہ کرکے بتائیں گے۔کیاکیری لوگر بل کے ڈیڑھ ارب ڈالرکو زادِ راہ جان
کر پل صراط کو عبور کر لیں گے؟کیاان ڈھیر سارے انعامات کے عوض پانچ سو
مجاہدین اسلام کی مشکیں کس کر امریکا کے حوالے کرنااور اپنی سر زمین
سے٥٧٨٠٠ ہوائی حملوں کی اجازت دینا خسارے کا سودہ نہ تھا؟
قصرِ سفید کے فراعین ہر سال ١١ ستمبر کو اس حادثے میں مرنے والوں کی یاد
میں گراؤنڈ زیروکو ایک مقدس جگہ قرار دیکراجتماعی دعاؤں کے ساتھ اپنے مرنے
والوں کو یاد کرتے ہیں ۔ باون امریکی ریاستیں ہر سال اپنے اپنے طور پر ورلڈ
ٹریڈ سنٹر کے ہلاک شدگان کی روحوں کی آسودگی کا ساماں اور تقریبات مناتے
ہیں۔پارک لینڈ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹرکا ایک پچپن پاؤنڈ جست کاٹکڑا نمائش کیلئے
رکھ دیا گیا ہے تاکہ آنے والے زمانے میں بھی امریکی بچے اس ٹکڑے کو چھو کر
امریکی جذبوں کی حرارت کو محسوس کرتے رہیں۔ہر سال سان فرانسسکو میں پانچ
میل لمباپرچم لہرایا جاتا ہے لیکن چھپن اسلامی ممالک کے سوا ارب سے زائد
مسلمانوں نے ان آتش بجانوں کوکیوں بھلادیا ہے؟کیا کسی جگہ طالبان کے بیکراں
جذبوںاور ان کے لازوال شوقِ شہادت کوخراجِ تحسین پیش کیا ہو گا؟ہم نے تو
انہیں صفِ دشمناں میں دھکیل دیا ہے کہ امریکابہادر یہی چاہتا ہے۔ہمارا ملا
عمر سے کیا ناتا؟اگر وہ قصرِ سفید کے فراعین کا دشمن ہے تو ہمارا دوست کیسے
ہو سکتا ہے؟میں سوچ رہا ہوں کہ زوال و پستی کی وہ کون سی اتھاہ گہرائی ہوتی
ہے جس میں گرنے کے بعد قومیں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتی ہیں؟ اپنی محبتوں کو
بھی جنسِ بازار کی طرح رسوا کر دیتی اور خود اپنے لہو کو پہنچاننے سے انکار
کر دیتی ہیں۔
سوچتا ہوں اب اس دفعہ بارگاہِ رسولﷺ میں جب حاضری ہو گی تو کس طرح اپنے
ضمیر کے ان کچوکوں کو برداشت کر پاؤں گا کہ ہم تو آپ کے قدموں کے طفیل
پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب تو ہو گئے تھے لیکن ہمارا
کمانڈو جنرل پرویز مشرف ایک ہی ٹیلیفون پر اس قدر ضعیف ہوگیا کہ ہم نے
ہزاروں سال کی روایت کو توڑتے ہوئے اپنے ملک میں ان طالبان کا سفیرملا ضعیف
ان کے حوالے کر دیا۔یہی سوچ سوچ کرمیرے اعصاب پر ایک کپکپی طاری ہو جاتی
ہے۔مجھے یوں لگتا ہے کہ روضۂ رسول ۖکی جالیوں کے سامنے جاتے ہی مسجد نبویﷺ
کے سارے میناروں سے جگر پاش صدائیں بلند ہونے لگیں گی۔افغانستان کے آشفتہ
سروں کی صدائیں،گوانٹانامو کے پنجروںمیں بلکتے انسانوں کی صدائیں،تورابورا،
قلعہ جنگی اور دشتِ لیلیٰ کی پہنائیوں میں کھو جانے والوں کی صدائیں،دور کے
شہروں میں نیلام ہو جانے والی شہابی آنکھوں،گلابی گالوںاور سنہری بالوں
والی بیٹیوں کی صدائیں، معصوم اور ننھے قرآن پڑھنے والوں کی پر سوز
صدائیں،مدد کیلئے پکارنے والے ضعیف مردوزن اورعافیہ کی دلدوز چیخیں !
میں اس بوڑھے عرب سے کس طرح آنکھیں ملا سکوں گا جب مدینے میں بلیک آؤ ٹ کی
مشق ہو رہی تھی تو مسجد نبوی میں روشنی بند ہونے پر وہ چیخ اٹھا کہ جب تک
اس دنیا میں پاکستان موجود ہے کسی کومدینتہ ا لنبیﷺ کی طرف میلی آنکھ سے
دیکھنے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔اس وقت کیا کروں گا جب یہ صدائیں فریادوں میں
بدل جائیں گی جن کی لَے تیزسے تیز تر ہوتی چلی جائے گی پھر ساراشہرجاناںان
فریادوں سے گونجنے لگے گا۔مدینتہ النبیﷺ کے لوگ چھتوں پر آ جائیں گے اور سب
نظریں مجھ پر گڑی ہونگی اور میں سنہری جالیوں کے سامنے قطرہ قطرہ پگھل رہا
ہوں گااور!!!
رب کریم نے توان مجاہدوں کے احیائے جہاد اورجذبہ شوق شہادت میں مستقل مزاجی
کوتوقبول فرما لیا اور قصر سفیدکافرعون ذلت ورسوائی کابوجھ لئے ہوئے رخصت
ہو رہاہے۔اگر اس خطے میں دنیاکی دوبڑی طاقتیں(روس اورامریکا)ناکام
ونامرادہوخاک چاٹنے پرمجبورہوگئیں ہیں توبھلا کشمیرمیں تاریخ کا دھارا
کیونکر اپنا راستہ بدل سکتاہے ۔ تاریخ یقینا فاسق کمانڈو مشرف کوبھی عبرت
کانشان بنادے گی لیکن سرتاج عزیز کا افغانستان جاکراستعمارکی چاکری کااعلان
کسی تشویش سے کم نہیں۔کیاموجودہ حکومت نے اس سارے کھیل کے انجام سے کچھ
نہیں سیکھا، کیاہم دوبارہ اسی گھناؤنے کھیل کوکشمیرمیں دہرانے کیلئے
توتیارنہیں ہوگئے تھے؟؟ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں قدرت کے پوشیدہ اشارے
کوسمجھنے کی اشدضرورت ہے۔!
میں آپ کو بھولا ہی کب تھا بابا جی کہ آج آپ کی بے طرح یاد نے میری دکھتی
رگ پر ایساہاتھ رکھ دیاہے کہ میرادم گھٹنے لگاہے اور میری ہر سانس خنجر کی
دھار بن گئی ہے اور میری آنکھیں انگاروں کی طرح دہکنے لگیں
ہیں...........!اپنی زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے میری سوچ اورمیرے احساس
کارخ اس طرح بدل کررکھ دیاہے کہ سارے اندھیرے چھٹ سے گئے ہیں اور میرا
وجدان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میری جھکی ہوئی اشکوں سے پرفگار نگاہوں
اور مجبوریوں کو دیکھ کر بے ساختہ میرے دوست اپنے گلے لگا نے سے گریز نہیں
کریں گے۔وہ دن بہت قریب ہے جب ہمیں بھی دوبارہ اس استعمارکے غلاموں سے نجات
مل جائے گی اور موجودہ پالیسیوں کی کالک ان کے مقدر کی سیاہی بن جائے گی
اور ان کو کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔انشاء اللہ
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہی سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری |