استحصالی نظام پر سیکولرازم کا نقا ب لپیٹے انتشار سے دوچار بھارت

استحصالی نظام پر سیکولرازم کا نقاب لپیٹے انتشار سے دوچار بھارت
آئندہ دس سالوں میں اپنی موجودہ حیثیت برقرارنہیں رکھ سکے گا
بھارت کے ہر خطے اور ریاست میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریکیں اسے روس جیسے حالات سے دوچار کئے ہوئے ہیں
بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے نجات حاصل کرکے خطے کو پر امن بنانے میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کا حشر بھی روس سے مختلف نہیں ہوگا
بھارت میں جاری علیحدگی پسندی کی مقامی تحریکوں کو مقامی انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں کی تشہیر نہیں ہوتی
بھارتی میڈیا نے بھارت کے اندرونی انتشار پر زباں بندی کے ذریعے اس انتشار پر پردہ پوشی کی جو روایت اپنا رکھی ہے اس کے باعث علیحدگی پسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے

ذات پات اور چھوت چھات کے نام پر جاری استحصال کے باعث بھارت ایک ملک ہونے کے باوجود قومی وحدت سے محروم ہے اور بھارت کے طول عرض میں تقریباً ہر خطے میں ہی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جنہیں طاقت سے کچلنے کا بھارتی رجحان مزید انتشار کا باعث بن رہا ہے جبکہ کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بی کہنا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں بھارت اپنا موجودہ وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا اور روس کی طرح بھارت٬ امریکہ اور برطانیہ بھی شکست و ریخت سے دوچار ہوکر چوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ بھارت میں سرگرم عمل متعدد علیحدگی پسند تحریکوں میں ماﺅ نواز تنظیم” نکسل باڑی“باقی سب تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ فعال اور متحرک ہے۔ اس علیحدگی پسند تنظیم نے بھارتی سکیورٹی فورسز سے ان کا امن و سکون چھین لیا ہے مگر بھارتی پریس اور سرکاری ذرائع ابلاغ میں اس تنظیم کی جارحانہ سرگرمیوں کو زیادہ اُجاگر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی جارحانہ کاروائیوں کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟

اس کا جواب بھارت کے معروف دانشور مسرور احمد نے ہفت روزہ ریڈینس (Radiance) میں اپنے تازہ مضمون”ماﺅ تنظیم سے لاحق خطرات“ میں دیا ہے۔ فاضل مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ انتخابات کے دنوں میں ماﺅ نواز باغی عناصر اپنی سرگرمیاں تیز کر دیتے ہیں اور وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ بہتر اسلحہ سے لیس مرکزی پیرا ملٹری فورسز کے اہلکاروں کی کثیر تعداد ان کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور وہ بلاخوف و خطر ان اہلکاروں کو نشانہ بناتے اور ان سے جدید اسلحہ چھین کر اسے اپنے تصرف میں لے آتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ماﺅ باغی عالمی اور قومی سطح پر میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس کاروائی سے روکنے کیلئے مرکز کے زیر اثر شہری پریس اور سرکاری ذرائع ابلاغ ان کے سرگرمیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

گزشتہ چند عشروں قبل منعقد ہونے والے بھارتی انتخابات میں یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آگئی ہے کہ ماﺅ باغیوں کی سرگرمیوں کو شعوری طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ البتہ حالیہ انتخابات میں انتخابی مہم کے دور عروج میں ماﺅ باغیوں کی پر تشدد کاروائیوں کی بھارتی اخبارات جلی سرخیوں کے ساتھ تشہیر کرتے رہے ہیں اور ٹی وی چینل پر انہیں بھرپور کوریج دی جاتی رہی ہے۔ ویسے اس حقیقت کے باوجود کہ بھارت کے کئی اضلاع پر ماﺅ باغیوں کا مکمل کنٹرول ہے ان کی تخریبی کاروائیوں کو شعوری طور پر کم اہمیت دی جاتی ہے۔ ماﺅ نواز نکسل باغیوں نے گزشتہ چند برسوں میں کشمیر یا شمال مشرق کے کسی دہشت گرد گروپ کے مقابلے میں پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے کہیں زیادہ اہلکار ہلاک کئے ہیں مگر میڈیا میں ان کے حملہ کرنے کی صلاحیت شاذ ہی زیر بحث آتی ہے، یوں سمجھئے ان کے ”کمالات“ کی پورے سیاق و سباق میں تشہیر نہیں کی جاتی۔

دہشت گرد بالعموم طیارے اغوا کرتے ہیں مگر بھارت میں ماﺅ نواز باغی کسی بڑی مزاحمت کے بغیر مسافروں سے بھری ٹرینیں بھی اغوا کر لیتے ہیں۔ یہ دہشت گرد عناصر ریلوے اسٹیشنوں کو نشانہ بناتے ہیں اور تھانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی مرکزی پیرا ملٹری فورسز کی گشتی پارٹیوں پر گھات لگا کر حملے کرتے ہیں اور ان سے اسلحہ چھین کر لے جاتے ہیں۔ 2005ء میں اڑیسہ میں سینکڑوں ماﺅ نواز باغیوں نے پولیس کے اسلحہ خانے پر ہلہ بول دیا اور دو ہزار رائفلیں چھین کر لے گئے۔ اس کے چند دنوں بعد ایک شام سینکڑوں ماﺅ دہشت گردوں نے ایک شہر کی جیل پر حملہ کر کے سکیورٹی گارڈوں کو ہلاک کر دیا اور اس کے بعد سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرا لیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بہار اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے۔ پھر مارچ 2007ء میں انہی ماﺅ باغیوں نے چھتیس گڑھ میں صرف ایک حملے میں 22 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ ظاہر بات ہے کہ ایک کاروائی کے دوران اتنی بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں مگر حیرت ہے کہ بھارت کے قومی اخبارات یا قومی ٹی وی چینل پر اس خبر کا تذکرہ تک نہیں ہوا۔

بھارتی انتخابات ختم ہونے کے بعد جب ماﺅ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے پر غور کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ دہشت گرد ایک غیر ملکی نظریے ”'ماﺅ ازم“ کی تلقین تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کی اصل وابستگی خالص مقامی گروپ سے ہے۔ ان کی صفوں میں مقامی کارکن اور رہنما شامل ہیں اور اسلحہ بارورد بھی بھارتی ساختہ ہے اور اسے زیادہ تر پولیس سے چھینا گیا ہے۔ بائیں بازو کے انتہا پسند عناصر ملک کے معدنی ذخائر سے مالا مال خطے میں کافی متحرک ہیں اور ان کیلئے کان کنی میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کا حصول بہت آسان ہے۔ ماﺅ باغیوں کو”نک لائٹس“ (Nekalites) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ مغربی بنگال کے ضلع دارجلینگ کی سب ڈویژن نکسل باڑی سے تعلق رکھتے ہیں اور1960 کی دہائی میں انہوں نے کھل کر مقامی سرگرمیوں میں اپنا تشخص منوا لیا تھا اور حالیہ دنوں میں چھتیس گڑھ ' جھاڑ کھنڈ اور اڑیسہ کے بیشتر دیہی علاقوں پر بھی ان باغی عناصر کا مکمل کنٹرول ہے اور بھارت کی معدنی دولت سے مالا مال علاقوں میں ان کی دہشت اور اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ ریاستی مشینری کی مجال نہیں کہ وہ ان کے احکامات کی تعمیل نہ کرے مگر عام طور پر ان کی جارحانہ روش کا سرعام چرچا نہیں کیا جاتا اور ماﺅ دہشت گردی کوخاموشی سے برداشت کرلیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مزاحمت سے پہلو تہی کرنے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کی سرگرمیاں زیادہ تر دیہی علاقوں اور جنگلات کی آبادیوں تک محدود رہتی ہیں اور شہری آبادی ان کی جارحیت سے بالعموم محفوظ رہتی ہے اور پھر ان دہشت گردوں کی ان سرگرمیوں کی بالعموم نمایاں طور پر تشہیر نہیں ہوتی۔

ماﺅ باغیوں کی جانب سے بپا کئے جانے والے خطرات کی سنگینی کی زیادہ تشہیر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انتظامیہ اور ذمہ دار عہدیداروں میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں جو ماﺅ باغیوں کے لائحہ عمل اور طریق کار سے تو شاید متفق نہ ہوں مگر ان کے مقصد سے وہ یقین و ہمدردی رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ ان باغیوں کے بارے میں نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 62390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.