شان رسالت میں بھارتی اداکاروں کی گستاخی

شان رسالت نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں بھارتی ادا کاروں کی گستاخی
سٹی کونسل کراچی کے اجلاس میں قرار داد مذمت کی منظوری٬ بھارتی حکومت سے باضابطہ احتجاج
شاہ رخ خان کی رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان ارفع میں گستاخی٬ ہمارے جذبہ ایمانی سے بھارتی فلموں سے نجات کا تقاضہ کررہی ہے
بھارتی فلمیں اور اداکار خواہ و ہندو ہوں یا مسلمان معاشرے میں جس بے راہ روی٬ فحاشی٬ بے حیائی اور عریانیت کا پرچار کررہے ہیں وہ قابل گردن زدنی ہے
فحاشی و عریانیت کے فروغ کے ذریعہ خاندانوں کے سکون و استحکام کو برباد کرنے اور ہماری گاڑھی خون پسینے کی کمائی کو کمر مٹکا کر اپنی تجوریوں میں منتقل کرنے والوں کا بائیکاٹ ضروری ہے
شان رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں شاہ رخ خان کی گستاخی ان کے مسلم ہونے کی کھلی تردید ہے لہٰذا وہ اسلام اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اظہار رائے کے مستحق ہر گز نہیں ! بہتر ہوگا کہ وہ اپنی مادر پدر آزاد حیوانیت اور وحشت کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی برگزیدہ ہستی سے ہزاروں قدم دور رکھیں!

گزشتہ دنوں سٹی کونسل کراچی کے اجلاس میں بھارتی اداکار شاہ رخ خان کی جانب سے شان رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کے خلاف قرارداد مذمت منظور کی گئی جس میں بھارتی حکومت سے باضابطہ احتجاج کیا گیا ۔ ذات رسالت مآب کی شان ارفع میں شاہ رخ خان کی گستاخی کے متعلق جان کر ہمیں دکھ تو ہوا مگر تعجب نہیں کیونکہ بھارتی فلم انڈسٹری میں موجود اداکار خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں دین و مذہب سے یکسر عاری ہیں اور ان کا مسلک و مذہب ماسوائے پیسے کے کچھ بھی نہیں جب ہی تو بھارتی فلموں کے ذریعے معاشرے میں فحاشی و عریانی اور مدر پدر آزادی پھیلانے کی جو سازش کی جارہی ہے اس میں ہندو و مسلمان تمام اداکار اور فلم انڈسٹری سے وابستہ سبھی افراد یکساں طور پر شریک ہیں اور شاہ رخ خان بذات خود جس مادر پدر آزاد حیوانیت کے پروردہ اور علمبردار ہیں ان سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جاسکتی تھی جبکہ دیگر خان صاحبان بھی دینی اصولوں کا مذاق بنانے میں پہلے ہی نام کما چکے ہیں۔ سلمان خان کا بت پرستی اور گنپتی کے جشن میں پیش پیش رہنا دنیا کو معلوم ہے۔ عامرخان بھی کچھ عرصہ پہلے رشدی کی بڑی تعریف کر چکے ہیں۔ رشدی جو شاتم رسول ہونے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میںملعون ہے۔ فلمی دنیا کے ان اداکاروں کی حرکتوں پر تعجب شاید ان مسلمانوں کو ہوا ہوگا جو ان سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ اور جنہیں بھارتی فلمی دنیا میں خان برادری کی حکمرانی پر فخر محسوس ہوتا ہے ورنہ دیکھا جائے تو ان کی ساری زندگی نہ صرف رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے گریز بلکہ ان کا مضحکہ اُڑانے پر منحصر ہے۔ جس فحاشی و عریانیت کا وہ پر چار کر رہے ہیں، سماج میں جس طرح بے حیائی و اواشیت کو فروغ دے رہے ہیں، تفریح کے نام پر جس طرح تہذیب کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی پھیلانے میں جس طرح سرگرم ہیں٬ جس کی بنا پر سماج میں جنسی جرائم کو خطرناک حد تک فروغ حاصل ہو رہا ہے اس کا اندازہ کریں تو ان کے خلاف فرد جرم انتہائی سنگین اور بڑی طویل ہے۔ غیر مسلم عورتوں سے شادی کا بھی نہ کوئی جواز ہے نہ اس کے بعد دائرہ اسلام میں رہنے کی گنجائش۔ اس کے علاوہ محض تھرک تھرک کر اوراپنے جسم کی چٹک مٹک کے ذریعہ معصوم نوجوانوں کو بر انگیختہ کرنے کا جو معاوضہ کروڑوں میں وصول کر رہے ہیں وہ سماج کا استحصال نہیں تو اور کیا ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کرکٹ اور فلم کی دنیا کے ہیروز درحقیقت سماج کے لٹیرے ہیں۔ ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ دولت پیدا نہیں کی جاتی اس کی گردش ہوتی ہے جب سماج کے کچھ لوگ اپنی محنت سے کروڑوں گنا زیادہ معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ان کی دولت مندی، انتہا کو چھونے لگتی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی وجہ سے سماج کے دوسرے لوگ یقیناً متاثر ہوتے ہیں اور غربت کی سطح سے نیچے دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ملٹی نیشنل کمپنیاں اور فلمساز کمپنیاں عوام کی دولت پر عیاشی کرتی ہیں جب کہ عوام بخوشی اپنی گاڑھی کمائی ان کی تجوریوں میں منتقل کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح دولت کے ارتکاز اور اس کے ذریعہ پیدا ہونے والی بھیانک نا انصافی کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اپنی محنت اور صلاحیت سے کروڑوں گنا زیادہ منافع حاصل کر رہے ہیں۔

ہمیں ان لٹیروں سے کہیں زیادہ عوام سے شکوہ ہے٬ جنہوں نے ان کو اپنے سروں پر مسلط کر رکھا ہے‘ جن کا بوجھ ڈھونے سے وہ کسی طرح باز نہیں آتے اور تفریح کے گرتے ہوئے اس معیار پر کبھی آواز تک نہیں اٹھاتے جو انسانوں کو حیوانیت کی دلدل میں دھنسائے جارہا ہے۔ جس نے سماج سے انسانی قدروں کا جنازہ نکال دیا ہے اور جو فحاشی کی لعنت کے ذریعہ انسانی معاشرہ کو سماجی کینسر میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ اب تو فلموں میں ہیرو یا ویلن کا کردار بھی مختلف نہیں رہا کہ لوگ نیکی کی بدی پر فتح کا کوئی عام سا سبق ہی حاصل کر سکتے۔ پھر سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کو اپنے سروں پر کیوں مسلط کر رکھا ہے۔؟

ایک اور مسئلہ معافی کا بھی ہے۔ معاملہ چاہے جتنا سنگین کیوں نہ ہو، بس معافی کے ایک شارٹ کٹ کے ذریعہ اس کو حل کر لیا جاتا ہے۔ کسی نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حوالے سے اپنے ناول میں گستاخی اور کردار کشی کی انتہا کردی اور مسلمانوں نے بس معافی کا مطالبہ کیا۔ کسی نے نعوذ باللہ حضور پر دہشت گردی کا گھناؤنا الزام لگایا اور ہم نے معافی کا سوال کیا۔ کسی نے مقابلہ حسن کی لڑکیوں کے معاملہ میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر رکیک ریمارکس پاس کیا اور ہم بس معافی پر مطمئن ہو گئے۔ کسی نے آرٹ اور فن کے نام پر رشدی جیسے شاتم رسول کی تعریف کر دی اور ہم سنی ان سنی کر گئے۔ کسی نے رسول خد ا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے متعلق پردہ اور اس کے احکامات کا مذاق اڑاتے ہوئے اور صحابہ کے کردار کو داغدار کرنے کے لئے جو چاہے لکھ دیا۔ ہم نے صرف معافی کا کشکول آگے بڑھا دیا۔ اب شاہ رخ نے ہٹلر کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لینے کی جسارت کر دی۔ مگر ہم ”کنگ خان“ کی زبان سے جھوٹ موٹ ہی سہی معافی کا ایک لفظ سن کر نہال ہو جائیں گے اور انہیں سینے سے لگا لیں گے۔ ہو سکے تو ان کی فلموں کے اور زیادہ شیدائی ہو جائیں گے کہ انہوں نے معافی مانگ لی۔ ان کی فراخ دلی پر ہمارا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔ ہم صرف چند جملوں کے بھوکے ہیں۔ چند الفاظ کے۔ جن میں کوئی مفہوم ہو کہ نہ ہو۔ نیت کا کوئی دخل ہو کہ نہ ہو۔ کوئی خلوص ہو کہ نہ ہو ! لفظ معافی سنتے ہی ہم بدتر سے بدتر اسلام دشمن، شاتم رسول، دینی تعلیمات سے کھلواڑ کرنے والے، سماجی جرائم کے بیج بونے والے، نوجوانوں کے کردار کو تباہ کرنے والے، فحاشی و عریانیت کے فروغ کے ذریعہ خاندانوں کے سکون و استحکام کو برباد کرنے والے اور ہماری گاڑھی خون پسینے کی کمائی کو کمر مٹکا کر اپنی تجوریوں میں منتقل کرنے والوں کو گلے سے لگائیں گے۔ کیونکہ” فراخ دل“ ہیں۔ ہم ’ ’ وسیع النظر “ بھی ہیں۔ اور شاید ” تہذیب یافتہ “ بھی بلکہ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم معافی کی سوغات اسی طرح لئے پھرتے ہیں۔ گویا کہ ”فرسٹ ایڈ باکس “کہ جہاں کوئی ” حادثہ “ رونما ہوا، ہماری خدمات حاضر ہیں! کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول مقبول نے خود اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو معاف کر دیا تھا۔ جس سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ ہم بھی ایسے گستاخوں کو معاف کردیں۔ اگرچہ ہم نے یہ نہیں سیکھا کہ خود ہمارے اپنے ساتھ کوئی گالی گلوچ کرے تو ہم اسے معاف کر سکیں۔ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ رسول خدا کے ساتھ بد تمیزی کرنے والوں کے متعلق قرآن کے کیا احکامات ہیں کہ جس نے ان کی آواز کے آگے اپنی آواز تک اونچی کرنے سے منع کیا ہے۔ ہم نے صحابہ کی ان روایات پر غور نہیں کیا جو شاتم رسول کے متعلق ہیں۔ ہم نے حسان بن ثابت اور خنسائی کے ذریعہ آپ کے دفاع میں ہجو کے جواب میں کہی گئی نظموں کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہمیں یہ یاد نہیں رہا کہ صحابہ کا ردعمل ان مذموم جسارت کرنے والوں کے خلاف کیسا اور کیا تھا؟

ہم اب بھی بدلیں گے نہیں۔ زبان سے کلمہ پڑھتے جائیں گے۔ رسول خدا سے محبت کی قسمیں کھائیں گے۔ نعت خوانی کے معاملہ میں اور آگے بڑھ جائیں گے مگر خان برادران کی فلموں سے ہماری دلچسپی جنون کی حدوں کو چھوتی رہے گی۔ ہم انہیں دیکھیں گے، اپنے خاندان کو دکھاتے رہیں گے تاکہ رسول خدا کی تعلیمات کا مذاق اڑانے والوں، شاتمان رسول کے دوستوں، اور بت پرستی میں سرگرم ان آرٹسٹوں کو اپنی خون پسینے کی کمائی کے ذریعہ خراج عقیدت پیش کرتے رہیں ۔

جہاں تک فلمی دنیا کے لوگوں کا سوال ہے ہم ان سے یہ ضرور کہیں گے کہ وہ آرٹ اور فن کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں اور ان کی ذاتی زندگیاں جن حرکتوں میں لت پت ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادیں ہلا ڈالنے پر مشتمل ہیں۔ پھر بھی ہم ان کے معاملات سے خود کو بری کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کریں گے کہ وہ اپنی اس فحاشی و بے حیائی کی دنیا میں مست رہیں۔ دنیا کی تاریخ اور اس کی شخصیتوں سے ان کو کیا لینا دینا ہے؟ کہ دنیا صرف فلم کے پردے کی طرح جھوٹ، فریب اور اداکاری پر مشتمل نہیں۔ لہٰذا وہ اس کے متعلق زبان کھولنے سے باز رہیں۔ ان کی سستی شہرت اور فحاشی و اوباشیت ان کو مبارک ہو، وہ پاکیزہ دنیا کی پاکیزہ اور برگزیدہ ترین ہستیوں کا نام تک اپنی زبان پر لینے کی جسارت نہ کریں کہ اس سے بھی ان کی شان میں گستاخی ہوتی ہے۔ ہمیں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جیسی تاریخ کی عظیم ترین ہستی کے متعلق شاہ رخ جیسے پست اور اخلاقی قدروں سے نابلد اداکار کی رائے جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو لاکھ مسلمان کہتے رہیں مگر ان کے اعمال خود ان کے مسلم ہونے کی کھلی تردید کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ اسلام اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اظہار رائے کے مستحق ہر گز نہیں ! بہتر ہوگا کہ وہ اپنی مادر پدر آزاد حیوانیت اور وحشت کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی برگزیدہ ہستی سے ہزاروں قدم دور رکھیں!
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.