گزشتہ 30ماہ سے شام آگ وخون کی
لپیٹ میں ہے۔ مارچ 2011ء میں عوام اپنے چند مطالبات کے حق میں پرامن طور پر
سڑکوں پر نکلے تھے۔ بشار الاسد نے ان کی آواز سننے اور سمجھنے کی بجائے
اپنے باپ کی روایات پر عمل کرتے ہوئے نہتے شہریوں کو فوجی درندوں کے حوالے
کردیا۔ جنہوں نے ہزاروں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کو موت کے گھاٹ
اتار دیا۔ جب ریاستی ظلم حد سے بڑھا تو عوام بھی منظم ہوکر اینٹ کا جواب
پتھر سے دینے لگے ، صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے کئی عالمی قوتیں بھی
محض اپنے مفادات کے لیے میدان میں کود پڑیں۔ کچھ نے اپوزیشن کو مضبوط کیا
تو کچھ اسد حکومت کی پشت پر کھڑی ہوگئیں، یوں چند ماہ کے اندر اندر شام
عالمی قوتوں کے اکھاڑے میں تبدیل ہوگیا۔ اس جنگ میں ایک لاکھ کے قریب لوگ
مارے جاچکے ہیں، زخمیوں کا تو کوئی شمار نہیں، گھروں کو چھوڑ کر پڑوسی
ملکوں میں پناہ لینے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔
رواں ماہ کی 21 تاریخ کو اسد حکومت نے سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے مخالفین
پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 3 ہزار کے لگ بھگ افراد
ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے، مرنے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی، جب یہ
معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا تو دنیا میں کہرام مچ گیا۔
نہتے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال عالمی سطح پر بہت بڑا جرم تصور
کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا شامی رجیم کے خلاف کارروائی پر زور
دے رہی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب اور ترکی سمیت
کئی ممالک نہ صرف شام میں اسد حکومت کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے حامی ہیں
بلکہ حملے کی تیاریاں بھی کرلی گئی ہیں۔ امریکی بحری بیڑے خطے میں پوزیشن
سنبھال چکے ہیں، فوج صدر اوباما کے احکامات کی منتظر ہے، ترکی نے بھی فوج
کو کسی بھی کارروائی کے لیے تیارکررکھا ہے، برطانیہ میں فوجی مشقیں شروع
ہوچکی ہیں، عالمی میڈیا کے مطابق شام پر میزائل حملوں کا امکان ہے جو بس
شروع ہی ہونے والے ہیں۔ دوسری طرف ایران، روس اور چین اسد حکومت کے خلاف
کسی بھی نوعیت کی کارروائی کی مخالفت کررہے ہیں۔ روس اور چین نے سلامتی
کونسل میں شام کے خلاف قرار داد کو ویٹو کردیا ہے، جمعرات کے اخبارات میں
روسی صدر کا انتہائی سنگین بیان شائع ہوا ہے جس کے مطابق صدر پیوٹن نے اپنی
فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ شام پر حملے کی صورت میں سعودی عرب پر دھاوا بول
دے۔ روس صدام حسین کے حق میں بھی بڑھ چڑھ کر بیان دیتا تھا مگر جب عراق پر
حملہ ہوا تو وہ دور کھڑا اتحادی کا تماشا دیکھتا رہا۔ امکان یہی ہے کہ وہ
اب بھی بیانات تک ہی محدود رہے گا۔ چین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، چینی
حکومت عالمی معاملات پر اپنے موقف کو سامنے لانے اور سلامتی کونسل میں
اتحادی کی حمایت کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتی، البتہ ایران کی دھمکیاں خاصی
سنجیدہ ہیں، بدقسمتی سے تہران اس جنگ میں فریق بن چکا ہے ۔
تجزیہ نگاروں کی بڑی تعداد شام کی جنگ کا ذمہ دار تہران کو ٹھہراتی ہے
کیونکہ خود ایران کے اعلیٰ حکام کے بیانات کے مطابق تہران نے اسد حکومت کی
صرف’’ اخلاقی‘‘ مدد نہیں کی بلکہ اسے اسلحہ اور فوجی تک فراہم کیے جو وہاں
کے عوام سے لڑ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی ایران اور
حزب اﷲ کی مداخلت کی وجہ سے شیعہ سنی جنگ میں تبدیل ہوئی۔ اب یہ جنگ اسد کی
نہیں ایران کی ہوگئی ہے، اگر اس مرحلے پر ایران نے اسد کو بے یارومددگار
چھوڑ دیا تو آیندہ کوئی تہران پر اعتماد نہیں کرے گا اور اگر ایران شام پر
امریکی حملے کی صورت میں کوئی عملی قدم اٹھاتا ہے تو یہ جنگ پورے خطے کو
لپیٹ میں لے لے گی۔ لازمی بات ہے ایران جواب میں امریکا اور برطانیہ کو تو
نشانہ نہیں بناسکتا کیونکہ یہ دونوں ملک اس سے بہت دور ہیں، اس کے میزائل
کا رُخ کسی اسلامی ملک ہی کی طرف ہوگا، وہ سعودی عرب بھی ہوسکتا ہے اور
ترکی بھی، شامی حکومت نے بھی بھر پور جواب دینے کا اعلان کیا ہے، بات وہی
ہے، شامی حکومت کے میزائل بھی اسلامی ملکوں میں ہی گریں گے۔
بشار الاسد کی آمرانہ سوچ اور اس کے نادان دوستوں کی تھپکیوں نے آج پورے
عالم اسلام کو خطرناک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف
صف آراء ہیں،دل کانپ رہے ہیں، نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟ یہ آگ کہاں کہاں
تک پھیل سکتی ہے؟ اس کے تصور سے ہی جھرجھری آتی ہے۔ آمروں نے اپنے اقتدار
کو بچانے کے لیے پوری اسلامی دنیا کو داؤ پر لگادیا ہے، اگر اسد حکومت کچھ
جھک جاتی، اپنے شہریوں کی کچھ باتیں مان لیتی ،حکومت کی مدد کو لپکنے والے
اسد کو ظلم پر شاباش دینے کی بجائے اسے مسئلہ سیاسی طور پر حل کرنے پر قائل
کرتے تو بات یہاں تک نہ پہنچتی، شام اور مصر کی صورت حال سے ایک بار پھر او
آئی سی کی بے بسی بھی یاد آگئی۔کتنے شرم کی بات ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی
ایسا ادارہ نہیں جو مسلم ممالک کے تنازعات کو حل کراسکے۔ گھوم پھر کر
امریکا ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ۔ وہ جس فارمولے کے تحت مسلم ممالک کے
تنازعات حل کراتا ہے اسے بھی سب جانتے ہیں۔
حساس دل اور حالات پر نظر رکھنے والا ہر مسلمان ایک طرف اسد حکومت پر ممکنہ
حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر پریشان ہے، دوسری طرف اسے یہ سمجھ
نہیں آرہا وہ امریکا کا شکریہ ادا کرے یااسے لعنت ملامت کرے ۔وہ سوچتا ہے
اگر امریکا حملہ نہ کرے تو پھر عوام کو اسد حکومت کے خونخوار فوجیوں سے کون
بچائے گا؟ کوئی اسلامی ملک ؟کبھی نہیں ،تو کیا عوام اسی طرح سے قتل ہوتے
رہیں۔ لیکن اگر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے نتیجے میں شامی عوام
کو بشار الاسد کی ظالمانہ حکومت سے نجات مل جائے تو اس میں کیا بُرا
ہے؟’’تھینک یو امریکا‘‘ بھی وہ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ اس صورت میں بھی اس
کے سامنے ظلم وستم کی ایک طویل داستان آجاتی ہے۔ شامی رجیم نے پوری امت
مسلمہ کو عجیب گھن چکر میں الجھادیا ہے، اسد کا شام یا اسد کی شام کا فیصلہ
تو چند دن میں ہوجائے گا مگر امت مسلمہ کے سینے پر اس نے جو زخم لگائے ہیں
ان کو بھرنے میں برسوں لگیں گے۔ |