طالبان کے نام پر ایشیا میں
امریکہ اور اس کے حواری بھارت کی مدد سے جو شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں اس کے
خدوخال اب واضح ہوتے جارہے ہیں اور اس شیطانی کھیل کا مقصد مسلمانوں کی نسل
کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت آئے روز پاکستانی علاقوں
پر ڈرون حملوں میں بیگناہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد اب گزشتہ دنوں افغانستان
کے صوبہ فراہ کے دو دیہات پر فاسفورس بموں کا استعمال ہے جس پر انسانی حقوق
کی عالمی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا کیونکہ عراق پر امریکی حملے کی بنیاد
بھی کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ تھا مگر عراق نے نہ تو کوئی کیمیائی ہتھیار
استعمال کیا نہ ہی اس کے پاس کسی قسم کی کیمیائی ہتھیاروں کے شواہد ملے مگر
تیل کی دولت سے مالا مال ایک اسلامی مملکت پر امریکیوں کی شکل میں صیہونی و
صلیبی ضرور قابض ہوچکے ہیں اور ویسے ہی کیمیائی ہتھیار جن کے استعمال سے
روکنے کے لئے امریکہ اور اتحادی افواج نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی خود
امریکہ و برطانیہ افغانستان میں استعمال کر رہے ہیں جس کی تصدیق معروف
برطانوی اخبار ”گارجین “ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بھی کی جاچکی ہے ۔
برطانوی وزارت دفاع کے مطابق برطانوی آرمی اور ایئر فورس افغانستان میں
امریکی ساختہ AGM-114N ہیل فائر میزائل استعمال کررہی ہے جس کے نتیجے میں
نہ صرف افغانوں کی بہت بڑی تعداد ہلاک ہوچکی ہے بلکہ اس میزائل کے مہلک
کیمیکل اثرات کے باعث افغانستان میں معصوم بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد زندگی
بھر کی معذوری سے بھی دوچار ہوچکی ہے جبکہ ہیل فائر میزائل جنہیں
”تھرموبورک بم “ بھی کہا کہا جاتا ہے ”بنکر بسٹر بم “ سے بھی زیادہ تباہی
پھیلاتے ہیں اس میزائل کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے
کہ اس سے نکلنے والی تابکاری کے اثرات سے کئی کلومیٹر کے علاقے میں موجود
انسانی جلد پگھل جاتی ہے اور قریب کے لوگ جل کر بھسم ہوجاتے ہیں جبکہ دور
کے افراد اس بری طرح جھلس جاتے ہیں کہ علاج کے باوجود بھی زندگی بھر کے لئے
کسی نہ کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ”گارجین “ کی رپورٹ کے مطابق یہ
میزائل امریکی وزارت دفاع تیار کرتی ہے جبکہ برطانیہ ان میزائلوں کی بڑی
تعداد امریکی اسلحہ ساز اداروں سے خرید کر برطانوی اپاچی ہیلی کاپٹروں کے
ذریعے افغانستان بھجوارہا ہے اور برطانوی انتظامیہ ا ن میزائلوں کو چھپ کر
کاروائی کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف بہترین ہتھیار قرار دے رہی ہے جس
سے یہ خدشہ تقویت پارہا ہے کہ پاکستان میں کئے جانے والے ڈرون حملوں میں
بھی ان میزائلوں کا آزادانہ استعمال جلد ہی شروع کیا جاسکتا ہے ۔
دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے پر اپنی اجارہ داری کے قیام کے
لئے مصروف عمل مغربی سامراجی قوتوں کو ماہ اگست میں ہونے والے افغانستان کے
صدارتی انتخابات سے خصوصی دلچسپی ہے اور گو کہ گزشتہ ماہ اپنی امریکہ یاترا
کے دوران مقتدر امریکی حلقوں سے اگلی مدت کی صدارت سے لطف اندوز ہونے کا
گرین سگنل بھی حاصل کرچکے ہیں گو کہ نئی امریکی انتظامیہ نے اقتدار
سنبھالنے کے بعد حامد کرزئی کو خود سے دور رکھا تھا مگر اب یہ فاصلے قربت
میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے حامد کرزئی کو
امید دلائی گئی ہے کہ آئندہ بھی ”کابل کے میئر “ وہ ہی ہوں گے مگر زلمے
خلیل زاد کے ایک بار پھر ”ان ایکشن “ ہونے سے یہ بات تقویت پارہی ہے کہ اب
کی بار حامد کرزئی کی حیثیت واقعی ”کابل کے میئر “ کی حد تک محدود ہوجائے
گی کیونکہ ایک معاصر ہفت روزہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے جہاں آئندہ
صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے وہیں اوبامہ
انتظامیہ نے افغانستان میں سابق سفیر زلمے خلیل زاد کو وزیراعظم کی حیثیت
سے حامد کرزئی پر مسلط کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے اور اس مقصد کے لئے
امریکی انتظامیہ کی ہدایت پر زلمے خلیل زاد تمام تیاریاں مکمل بھی کرچکے
ہیں ۔
پشتون قبیلے کاکڑ سے تعلق رکھنے والے زلمے خلیل زاد 1951ء میں افغان مشرقی
صوبے لغمان میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد امریکہ منتقل ہوگئے٬
شکاگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے بعد وہ امریکی تھنک ٹینک
” رینڈ کارپوریشن “ سے منسلک ہوئے اور 1979ء میں افغان روس جنگ کے آغاز کے
بعد امریکی صدر ریگن کے ادارے میں افغان امور کے تجزیہ نگار کےطور پر وائٹ
ہاؤس کے نزدیک آگئے اور 1992ء میں بش سینئر انتہائی قریبی مرامس قائم کرنے
میں کامیاب ہوگئے جس پر طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں افغانستان میں
امریکی سفیر متعین کردیا گیا اور وہ 2002ء سے 2004ء تک افعانستان میں
امریکی سفیر کے ساتھ ساتھ افغانستان میں صدر بش کے خصوصی ایلچی بھی رہے ۔
زلمے خلیل زاد کی شریک حیات امریکی تھنک ٹینک ” رینڈل کارپوریشن “ کی سابق
روح رواں اور سابق وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس کی دست خاص ایک امریکی
عیسائی خاتون ہیں و ”کسنجر مکتبہ فکر “ کی اہم رکن بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق افغان وزارت عظمیٰ کے لئے زلمے خلیل زاد
کا انتخاب افغان صدر حامد کرزئی کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لئے ایک
بہترین امریکی تدبیر کہلایا جاسکتا ہے ۔ |