پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی
کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاست کرنے والی سیاسی
پارٹیوں میں بھی جمہوریت ہو تاکہ ایسے قابل لوگ جو پاکستان کی خدمت کرنا
چاہتے ہوں وہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے آگے آ سکیں اور اگر صیحح معانوں میں
ہم پاکستان کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں توسیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو فروغ
دینا ضروری ہے اور اس کا دائرہ کار گراس روٹ لیول تک بڑھانا ہو گا تاکہ ایک
ایسا مضبوط جمہوری نظام تشکیل دیا جا سکے جس کی جڑیں عوام میں ہوں پاکستان
میں جمہوریت ہمیشہ سے ہی کمزور رہی ہے اس کے برعکس امریکہ اور یورپی ممالک
میں مقامی اور پارٹی کی سطح کے انتخابات اتنے منظم اور مضبوط ہوتے ہیں کہ
اگر کوئی گراس روٹ لیول کا رہنماء جس میں قابلیت ہو تو وہ ملک کا اعلی ترین
عہدیدار بن سکتا ہے یہ سب ان ممالک میں بنیادی جمہوریت کی مضبوطی کی وجہ سے
ہے جس کی بڑی مثال پاکستانی نژا د سعیدہ وارثی کی ہے کیا کھبی ہم اس بات کا
تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی گراس روٹ لیول کا رہنماء پاکستان کا
اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کر سکے؟ یقینا نہیں آج بھی اگر دیکھا جائے تو ہمارے
سیاسی لیڈر ان مورثی سیاست کے قائل ہیں جس میں باپ کے بعد بیٹا اس کے بعد
اس کا بیٹا یا کوئی اسی کا رشتہ دار ہی اسمبلی کا رکن ہوتا ہے ایسے میں ہم
اس سسٹم کو تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی جمہوریت کو مضبوط کر سکتے ہیں یہی
وجہ ہے کہ جب بھی ہمیں جمہوریت ملی اس کے اثرات ہم تک نہیں پہنچ سکے ہمارے
ہاں ہر سیاسی جماعت جمہوریت کی مالا جھپتی ہے اور خصوصاً وہ جماعتیں جنہیں
مرکز یا صوبے میں حکومت سازی کا موقع ملے وہ خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی
چمپئن سمجھنے لگتی ہیں لیکن ان کا جمہوریت سے وابستگی کا تضاد اس وقت ابھر
کر سب کے سامنے آجاتا ہے جب وہ الیکشن جیت کر خود تو اقتدار کے سر چشمے سے
فیض یاب ہوتی ہیں لیکن عوام کو جمہوری حقوق کی منتقلی اور جمہوریت کی برکات
سے فیضیاب ہونے میں روڑے اٹکاتی ہیں یعنی وہ گراس روٹ لیول یعنی کے بلدیاتی
انتخابات منعقد نہیں کرواتی کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات
کروانے سے ان کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو جائیں گے اور وہ صرف ایک
نمائشی پاور کے حامل رہ جائیں گے میرا اشارہ صوبائی حکومتوں کا بلدیاتی
انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے کام لینے کی طرف ہے بلدیاتی اداروں کو
جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے کیونکہ یہی وہ سیاست ہوتی ہے جہاں سے بہت سے
قابل لوگ اپنی قابلیت کی بنا پر ابھر کا سامنے آتے ہیں اور ملک کی خدمت
کرتے ہیں لیکن یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں بر
سر اقتدار آئیں انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی بلکہ
اگر یہ کہا جائے کہ وہ بلدیاتی اداروں سے خائف ہوتی ہیں تو غلط نہ ہو گا
مزے کی بات یہ ہے کہ ملک میں جب کبھی بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ان کا
انعقاد فوجی آمروں نے ہی کیا چاہے اس کے پیچھے ان کی کوئی بھی نیت یا غرض
کار فرما رہی ہو لیکن عوام کو اپنے مقامی مسائل کے حل کے لئے نمائندوں کے
چناؤ کے لئے ووٹ کا حق فوجی آمروں سے ہی ملا بلا شبہ یہ ناقابل رشک تصویر
جمہوریت کے نام لیواؤں کے لئے باعث شرم ہے لیکن یہ اٹل حقیقت ہے جس کو ہم
چھپا نہیں سکتے یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی نوخیز ہے جسے تن آور
درخت بننے میں کافی وقت درکار ہے اور اعلیٰ جمہوری روایات کے قیام کے لئے
ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کافی سفر طے کرنا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو
یہ بھی سوچنا چاہئے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ بن
سکتے ہیں کیونکہ ان سے عوام کا براہ راست رابطہ رہتا ہے اور ان کا وجود ان
کے لئے جمہوریت کے تسلسل کے احساس کا نام ہے جو انہیں ملک کے انتظام میں
براہ راست شرکت کا احساس دلاتے ہیں کیونکہ بلدیاتی ادارے کے ذمہ داران سے
عوام اپنے اپنے علاقوں میں براہ راست رابطے میں رہتے ہیں جو کسی قومی یا
صوبائی اسمبلی کے ممبر سے ممکن نہیں لیکن ہمارے ہاں رائج بد عنوانی اور
وسائل پر قابض اور اپنے دسترس میں رکھنے کی خواہشات کی وجہ سے کچھ لوگ
حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے سے گریز کرنے کی طرف مائل کرتے
ہیں اور غیر یقینی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں گذشتہ حکومت نے
بھی ان بلدیاتی الیکشنوں سے راہ فرار اختیار کی اور کسی نہ کسی طرح ان کو
التواء میں رکھ کر عوام کو بنیادی جمہوریت کے ثمرات سے محروم رکھا اور اب
نئی حکومت بھی اسی روش پر چلتی دکھائی دے رہی ہے جس کی کوئی خاص منطق سمجھ
نہیں آتی کہ آخر حکومت کو ان بلدیاتی الیکشنوں سے اتنا خوف کیوں ہے اور
میڈیا میں اس بات کا تذکرہ کہ ہونے والے متوقع بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی
ہوں گے ایک عجیب بات لگی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہارس ٹریڈنگ کا وہ دور
شروع ہو گا جس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہوجائے گی جب حکومت نے بلدیاتی
انتخابات میں ٹال مٹول سے کام لیا تو اعلیٰ عدلیہ کو اس پر نوٹس لینا پڑا
چنانچہ عدالت عالیہ نے صوبائی حکومتوں سے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول طلب کر
لیا جس کے بعد صوبائی حکومتیں حسب روایت ان انتخابات سے بھاگنے کے لئے بہت
سے حیلے بہانے تراش رہی ہیں لیکن امید ہے کہ اس بار عدالت عالیہ انہیں راہ
فرار کا کو ئی موقع نہیں دے گی اور عوام کو ان کے آئینی حق کی فراہمی اور
جمہوری عمل کی تکمیل میں صوبائی حکومتوں کو جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کے
انعقاد کی ہدایت جاری کریں گی اگر بلدیاتی انتخابات تسلسل کے ساتھ منعقد
ہوتے رہے تو یقیناپاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط بنانے اور
جمہوریت کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچانے میں مدد ملے گی ضرورت اس امر کی ہے
کہ حکومت جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کو منعقد کروائے تاکہ جمہوریت کے
ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں اور ایک عام آدمی کے مسائل اس کے گھر کی دہلیز
پر حل ہو سکیں ۔ |