احمد جہانگیر
دہشت گردی کی جنگ میں سارا پاکستان لہولہان ہو چکا ہے۔ اب تک 54ہزار سے
زائد شہری اور پانچ ہزار سے زائد فوجی شہید اور ہزاروں زخمی کیے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی انتہائی عروج پر ہے جس سے ملک کی سالمیت اور بقاء کو
خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاخوف گو انفرادی طور پر
جان کے نذرانے پیش کررہے ہیں لیکن غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے شدید نقصان
اٹھا رہے ہیں۔ سکیورٹی اداروں، فوج، نیم فوج اور پولیس کے جوان شجاعت اور
بہادری کی داستانیں رقم کررہے ہیں۔ ان شہیدوں کو پوری قوم خراج عقیدت پیش
کرتی ہے۔ دہشت گردی کی بڑی وجہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغانی اور
پاکستانی طالبان کا جوش جہاد ہے اور القاعدہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور
پر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہوتی ہے۔ دہشت گردی میں متعدد دیگر ملکی
اور غیر ملکی گروہ بھی شامل ہیں جو دہشت گردی کے ذریعے دراصل غیر ملکی،
گروہی یا ذاتی ایجنڈے کی تشکیل کرتے ہیں انہی گروہوں میں فرقہ وارانہ دہشت
گردی کرنے والے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی شہادتوں کے بعد جو
مجرم سکیورٹی فورسز نے پکڑے عدالتیں قانون شہادت کی بناء پر انہیں چھوڑ
دیتی ہیں۔ عدالت سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہزاروں جانوں کے قاتلوں میں
دو چار ایسے نہ تھے جو سزا کے حق دار تھے حالانکہ سکیورٹی فورسز کے جوان
انتہائی دباؤ، جدوجہد، اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر
ان لوگوں کو پکڑ کر عدالتوں میں پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کا پرنٹ اور
الیکٹرانک میڈیا دہشت گردی کی خبروں اور کوریج سے اٹا پڑا ہے۔ عوام جو پہلے
پہل اس صورتحال میں خوفزدہ تھے اب بے حسی کی کیفیت میں مبتلا ہوتے جا رہے
ہیں۔ سول سوسائٹی اور این جی اوز دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے نہایت
سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہیں جبکہ کوئی بھی ایسا واقعہ جو مغربی اقدار اور
مفاد کے حق میں ہو اس کے لئے یہ لوگ یک لخت فغال ہو جاتے ہیں مثلاً حال ہی
میں سوات میں پندرہ سولہ برس کی لڑکی کو کوڑے مارنے کی جو متنازعہ ویڈیو
جاری ہوئی تھی اس کے حوالے سے تو سول سوسائٹی اور این جی اوز برساتی
مینڈکوں کی طرح نکل رہے تھے جبکہ دہشت گردی کے جن واقعات میں اتحادی افواج
یا فرقہ وارانہ عناصر ملوث ہیں ان کے حوالے سے یہ سب چپ کا روزہ رکھے ہوئے
ہیں۔ اس حیرت انگیز اور بے حد افسوس ناک منافقانہ طرز عمل کی جتنی بھی مذمت
کی جائے کم ہے۔
صرف کرائے کے کئی شرپسندوں کی وجہ سے جو کہ اپنے بیرونی آقاؤں کا ایجنڈا
پاکستان کی عوام اور مسلح افواج کو نقصان پہنچا کر پورا کررہے ہیں اور جہاد
کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں لیکن یہ کرائے کے لوگ ہمارے سکول، مساجد، امام
بارگاہیں اور جنازے بھی نہیں چھوڑ رہے۔ بطور حکومت اور ملک طریقہ کار اور
پالیسیاں بنانے میں مجبوریاں ہوتی ہیں۔ انفرادی طور پر جتھے مسلح کرکے دولت
کے حصول کے لئے جہاد کا نام دینا کچھ اور ہے۔ ہماری مسلح افواج اپنے طریقہ
سے اس مسئلہ پر بہتر کام کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی قربانی دے کر
دہشت گردی کیوں کنٹرول نہیں ہو رہی۔ اس کے لئے ان وجوہات پر توجہ دینے کی
ضرورت ہے کہ لوگوں کو دہشت گردی پر کس طرح آمادہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً
پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا افغانستان میں قبضہ کرنے میں
معاون ہے اور پاکستانی حکومت شرعی نظام پر مشتمل لوگوں کو انصاف اور ماحول
دینے میں ناکام ہے۔
اس سارے پس منظر میں امن کو ایک موقع ضرور دینا چاہئے۔ اس مقصد کیلئے حکومت
پاکستان کو ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق جنہوں نے حکومت اور طالبان کے
درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے ان کی اس
پیشکش سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ مولانا سمیع الحق کو ملا عمر سمیت
چوٹی کے طالبان کے استاد کی شہرت حاصل ہے جس کی بناء پر طالبان ان کے مشورے
کو یک لخت مسترد نہیں کرسکتے خاص طور پر جن طالبان نے ان کی زیر نگرانی
دینی تعلیم و تربیت مکمل کی ہے۔ مولانا سمیع الحق بجا طور پر یہ دعویٰ کرتے
ہیں کہ ان کے پاس بہت سارے قابل احترام نام ہیں جو پاکستانی طالبان پر
زبردست اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور انہیں مذاکرات کے ذریعے کسی حل پر لانے
میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے
کہ وہ انسانیت کی خاطر طالبان کو ہتھیار پھینک کر مذاکرات کا راستہ اپنانے
پر قائل بھی کرسکتے ہیں اور مزید شہادتوں اور ملک بچانے کے لئے اپنا کردار
بھی ادا کرسکتے ہیں۔ افواج پاکستان حکومتی ہدایات کی روشنی میں اپنا کردار
ادا کرتی ہے طالبان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیلئے حکومت اور فوج ایک ہی سوچ
رکھتے ہیں۔ |