کراچی پرقبضے کی جنگ

سپریم کورٹ نے کراچی میں امن وامان کی بدترین صورت حال کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ یہ بات ہے بھی حقیقت، بدامنی کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، سدِباب کرنا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔کراچی گزشتہ 3دہائیوں سے جل رہا ہے،عدالت میں پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق صرف 2 برسوں کے دوران 4 ہزار سے زاید لوگ مارے جاچکے ہیں، ان میں ایم کیوایم، پیپلز پارٹی، اے این پی، اہلسنت والجماعت، سنی تحریک، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم حقیقی اور شیعہ تنظیموں کے کارکنان بھی شامل ہیں اور عام لوگ، پروفیشنل، تاجر، سیکورٹی اہلکاربھی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یعنی ہرجماعت اور ہرمکتب فکر کے لوگوں کو چن چن کو مارا جارہا ہے۔ ایک کمیونٹی کے لوگوں کے لیے دوسری کمیونٹی کے علاقے نو گوایریا بن چکے ہیں، ایک دوسرے کے علاقوں سے ایسے گزرتے ہیں جیسے دشمن کے گھر مہمان ہوں۔ بھتا وصولی باقاعدہ صنعت کادرجہ اختیار کرچکی ہے، چھپ چھپاکر نہیں کھلے عام بھتے کی پرچیاں تاجروں کے ہاتھوں میں تھمائی جارہی ہیں، کئی بینکوں تک کو بھتے کی پرچیاں موصول ہوئی ہیں۔ روز روز کی بدامنی نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے، ہر شہری کی آنکھ میں خوف ہے، سیاسی کارکن خوف زدہ ہیں، علماء اِدھر اُدھر دیکھ کر چلنے پر مجبور ہیں، کوئی راشن یا دوائی کی پرچی لے کر آئے تو بھی دکاندار کا دل دھڑکنے لگتا ہے کہ کہیں بھتے کی پرچی نہ ہو، یہ ہے کراچی !

اگر کراچی جیسی صورت حال دنیا کے کسی اور شہر کی ہوتی تو وہاں کی حکومت، سیکورٹی ادارے اور سیاسی جماعتیں سب کام چھوڑ کر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے، مگر ہمارے ہاں کراچی کے حوالے سے سمجھ میں نہ آنے والی پالیسیاں چل ہیں۔کوئی حکومت محض ڈنڈے کے زور پر امن کرانے کی کوشش کرتی ہے، کوئی مشرف حکومت کی طرح گونگی بہری بن جاتی ہے اور کوئی مفاہمت کے نام پرلاشیں گرتی دیکھتی رہتی ہے، سیکورٹی ادارے کیا کررہے ہیں؟ کچھ پتا نہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی تضادات کا شکار ہیں، وہ امن تو چاہتی ہیں مگر اپنی شرائط پر، ان میں سے ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہے کہ اس کے مخالفین کو اٹھاکر سمندر میں پھینک دیا جائے لیکن اس کے ’’معصوم‘‘ اور’’شریف‘‘ کارکنان کو کچھ نہ کہا جائے۔

ان دنوں ایک بار پھر کراچی کا مسئلہ میڈیا پر چھایا ہوا ہے، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرکے ہلچل مچادی ہے۔گو کہ یہ مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے، اس سے پہلے اے این پی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف بھی کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتی رہی ہیں لیکن ایم کیو ایم چوں کہ شہر کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے، اس کی جانب سے کیے گئے مطالبے کو نظر انداز کیاجانا ممکن نہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایم کیو ایم ماضی میں کسی بھی فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کرتی رہی ہے،اس بات کا تجزیہ کیاجانا ضروری ہے کہ ایک ایسی جماعت جو فوجی آپریشن کی مخالف رہی ہو بلکہ فوجی آپریشن سے متاثر رہی ہو وہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟

نوازشریف نے 1992ء میں حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد سندھ میں گورنر راج لگاکر کراچی میں فوجی آپریشن کرایا تھا، سیکورٹی اہلکار گلی گلی اور محلے محلے کارروائیاں کرتے رہے۔ نواز حکومت کی برطرفی کے بعد پی پی حکومت قائم ہوئی تو اس نے بھی آپریشن جاری رکھا، بس فرق یہ تھا کہ پی پی نے فوج کی بجائے پولیس کے ذریعے آپریشن کرایا، جس کی کمانڈ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ نصیر اﷲ بابر کررہے تھے۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران عبدالرحمن ملک بھی شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کرواتے رہے، ہزاروں کی تعداد میں رینجرز اہلکار بھی ایک عرصے سے شہر میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان تمام آپریشنوں اور رینجرز کی موجودگی کے باوجود شہر میں آگ لگی ہوئی ہے،روزانہ دس،بیس لاشیں گر رہی ہیں، سوال یہ ہے سیکورٹی ا ہلکاروں کی کارروائیاں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟ اور امن قائم کیوں نہیں ہوتا؟

چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے بڑے پتے کی بات کی ہے، گزشتہ دن کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کراچی کا مسئلہ قبضے کا مسئلہ ہے۔ شہر قائد کے شہری چیف جسٹس صاحب کے تجزیے سے سو فیصد متفق ہیں۔ واقعتاً کراچی میں کراچی پرقبضے کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ ہر سیاسی گروہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہ اس پر راج کرسکے، زیرنگیں علاقوں میں اسی کا حکم چل سکے، ساری وصولیاں صرف وہ کرسکے۔ آپ نے بھکاریوں کو دیکھا ہوگا،انہوں نے بھی اپنی ’’حکومتیں‘‘ قائم کررکھی ہوتی ہیں، کوئی دوسرا بھکاری ان کے علاقے میں آکر’’وصولی‘‘ شروع کردے تو وہ اس کی جان کے دشمن ہوجاتے ہیں،بالکل یہی کراچی کے سیاسی بھکاریوں کا معاملہ ہے، کوئی گروہ اپنے علاقے میں دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتا خوری ،غنڈہ گردی، زمینوں پر قبضے سب اسی بڑے مسئلے کی پیداوار ہیں۔اگر سیاسی جماعتوں میں علاقوں پر کنٹرول کی جنگ ختم ہوجائے تو باقی مسائل بھی حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں کہاجاسکتا ہے کہ کراچی کا مسئلہ دراصل سیاسی گروہوں کا پیداکردہ ہے اور اسے سیاسی طریقے ہی سے حل کیاجاسکتا ہے۔

کراچی میں آپریشن 3وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ایک تو ہر پارٹی اپنے علاقے میں کارروائی کی مخالف ہے، فورسز جس علاقے میں بھی جاتی ہے وہاں کی حکمران جماعت شور مچانا شروع کردیتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ فورسز جس شخص پر بھی ہاتھ ڈالتی ہے سیاسی جماعتیں اسے بچانے کے لیے دوڑ پڑتی ہیں۔ تیسری بات یہ کہ فورسز پر بہت زیادہ سیاسی دباؤ ہے،افسران کو تبادلوں اور معطلی کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ماضی میں کراچی میں کیے گئے آپریشن میں حصہ لینے والے تقریباً تمام پولیس افسران ایک ایک کرکے قتل کردیے گئے، جس کی وجہ سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہے، اس لیے وہ صرف خانہ پری کے لیے ٹارگٹ کلروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔

کراچی میں امن کے لیے سیاست اور قوت دونوں کا بیک وقت استعمال ضروری ہے۔ حکومت سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھاکر کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار کرے تاکہ بعد میں کوئی چوں چاں نہ کرسکے۔ دوسری طرف فورسز کو سیاسی د باؤسے آزاد کرکے جرائم پیشہ افراد کے خلاف فری ہینڈ دے دیا جائے ۔ یہ کارروائی ایسی ہونی چاہیے جس پر کوئی نسلی یا مذہبی گروہ جانبدارانہ اور منتقمانہ ہونے کا الزام نہ لگاسکے۔ اس دوران گرفتار شدگان کی سیاسی وابستگی اور کرتوتوں سے عوام کو بھی باخبر رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ کسی جماعت کے پروپیگنڈے میں نہ آسکیں۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 110993 views i am a working journalist ,.. View More