بھارتی جارحیت اور پاکستان کا رویہ

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ کافی پرانا چلا آ رہا ہے۔ اس کشیدگی کی کوئی وجوہات ہیں جن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی حکومت اور عوام کا رویہ بھی اس کشیدگی کو بڑھانے میں جلتی پر آگ چھڑکنے کا کام کر رہا ہے۔ ہندوستان کی جانب سے کئی بار کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کرنا اور پھر ان خلاف ورزیوں پر نادم و شرمندہ ہونے کی بجائے پاکستان کو آنکھیں دکھانا بھارتی لوگوں اور حکومت کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

پاک بھارت حالیہ کشیدگی بھی اسی بھارتی رویہ کی ایک کڑی ہے۔ اس بار بھی بھارت نے پاکستانب بارڈر پر سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی افواج پر بلااشتعال فائرنگ کر دی۔ اور بعد میں اُلٹا پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستانی افواج کی جانب سے فائرنگ کی ابتداء کی گئی جس کے نتیجہ میں ہندوستانی فوج نے جوابی کاروائی کی۔ جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں جو کہ National اور International سطح پر عیاں ہو چکی ہیں۔

ہندوستانی افواج کی جانب سے دن بدن سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا نوٹس عالمی برادری نے نہ لیا اور نہ ہی اس معاملہ میں کسی قسم کا کوئی Interestلیا۔

عالمی برادری کا کردار تو اپنی جگہ ہے مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہماری حکومت اور سیاسی رہنماؤں نے بھی کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ ہماری عسکری قوتیں بارڈر پر محاذ آرائی میں مصروفِ عمل ہیں جب کہ ہماری حکومت بھارتی جارحیت کا جواب مثبت انداز میں دینے میں سرگرم عمل ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے ایسی بری صورت حال میں جذبہ خیر سگالی کے تحت کئی بھارتی قیدیوں کو رہا بھی کر دیا مگر بھارتی رویہ میں ذرّہ بھر بھی تبدیلی نہ آئی۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ رویہ نہایت Unprofessional اور غیر ذمہ دارانہ ہے جو کہ قومی غیرت اور عزت کے تقاضوں کے منافی ہے۔

حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کے بارے میں ایک جامع پالیسی وضع کرے اور نہ صرف وضع کرے بلکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ ہماری عسکری قوتوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت اور سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ ایسے حالات میں عسکری قوتوں کا نہ صرف ساتھ دیں بلکہ ان کو ہر قسم کی امداد کی یقین دہانی کرائیں۔ اور ماضی کی تمام تر روایاتِ باطلہ کو ختم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کیے جائیں۔

سیاسی رویے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حکومت کو ہندوستان کے ساتھ حکومتی رویہ بھی بھارتی رویے کے مطابق رکھنا چاہئے اور اس سلسلہ میں حکومت پاکستان کو اور بالخصوص وزیراعظم پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں اور پاکستان کی سالمیت اور قوم کی غیرت کو مقدم رکھیں۔

بھارت کو بھی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کسی بھی قسم کی جنگ کی صورت میں بھارت کو پاکستان سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا شاید بھارت متحمل بھی نہ ہو۔ اور اگر ہندوستان واقعی ہی امن کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ یہ اپنی گیدڑ تھپکیاں بند کرے اور سنجیدگی سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھائے اور خطے کے امن میں اپنا مثبت کردار ادا کرے اور اگر بھارت کا یہی رویہ رہا تو پھر پاکستان کے پاس کوئی دوسری Option نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ماضی و حال میں پاکستان کا نرم رویہ پاکستان کی کمزوری تصور کیا جائے گا جو کہ اس وقت نہ تو پاکستان حکومت کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام کے مفاد میں بہتر ہے۔

لہٰذا گزشتہ تلخ تجربات اور حالیہ احوال کے پیش نظر حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنا رویہ درست کرے۔ اور برابری کی سطح پر مذاکرات کا جامع عمل شروع کیا جائے جس کے ثمرات سے عوام مستفید ہو سکیں اور جہاں تک پاک بھارت جنگ کا تعلق ہے تو بھارت یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اگر بھارتی رویہ کا جواب اسی لہجہ میں دیا جائے تو ہندوستان کی کبھی جرأت نہ ہو کہ وہ پاکستان کو آنکھیں دکھا سکے۔ کیونکہ بھارت یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ جنگ نہ تو بھارت کے مفاد میں ہے اور نہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔
Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 57907 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.