’’وہ زمانہ گیا جب روس دوسروں کے
لیے جنگوں میں کود جاتا تھا ‘‘،الجزیرہ اور العربیہ کی رپورٹوں کے مطابق یہ
ایک روسی اہل کارکاحالیہ بیان ہے،اس بیان کا پس منظرگزشتہ ہفتے بشار آرمی
کا وہ آخری کیمیائی حملہ ہے ،جس کی وجہ سے3000ہزار سے زائد
بچوں،بوڑھوں،عورتوں،مردوں اور نہتے نوجوان شہریوں نے ایڑیاں رگڑرگڑ کر جا ں
جانِ آفریں کے سپرد کی۔یہی وضاحت اگر روس،چین،اور ایران کی طرف سے اس وقت
آجاتی،جب شام کے شہرـ’’درعا‘‘ میں ایک سکول کے 15معصوم بچوں نے 25
فروری2011 کواپنے سکول کی دیوار پر اور کچھ نوجوانوں نے حمص،درعا،اور دمشق
میں15مارچ2011کوفیس بک پر آزادی کے نعرے لکھے تھے،جس کی پاداش میں ان
بچوں،نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کو بدترین اور توہین آمیز تشدد کا نشانہ
بنایا گیاتھا،یہ نعرے کیا تھے،یہ زیادہ تر دو جملوں پر مشتمل تھے’’اﷲ،سوریا،حریۃ
وبس‘‘ ، ’’یا اﷲ مالنا غیرک‘‘ جس کا مطلب ہے : اے ااﷲ ہمیں صرف شام میں
آزادی چاہیے،اے اﷲ آپ کے سوا ہمارا کوئی نہیں،یہ لڑکے عرب اسپرنگ سے اس لیے
متاثر ہوئے تھے کہ جہاں جہاں یہ بہار آئی اس نے بڑے بڑے برجوں کو گرا
دیاتھا اور یہاں شام میں خاندانِ اسد کی آمرانہ وجابرانہ حکومت1970 سے چلی
آرہی تھی،عرب ذرائع کے مطابق ان لڑکوں یا نوجوانوں نے شروع میں صرف اصلاحات
کا مطالبہ کیا تھا،مگر بشار الاسد کی حکومت کے گینگ وار’’شبیحۃ‘‘نے انہیں
پکڑ پکڑ کرقتل کرنا شروع کیا ،ان کی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ وہ زیادیاں کیں
کہ انسانیت اس کے تذکرے سے پانی پانی ہو جاتی ہے،جابر حکومت دہشت پھیلا کر
ان احتجاج کرنے والوں کی آواز دبانا چاہتی تھی، مگر اس میں مزید تیزی اور
فشار آگیا، یہاں تک کہ نعرہ اب اصلاحات کے بجائے’’الشعب یرید اسقاط النظام‘‘
عوام جابر رژیم کو گرا کر دم لے گی گونجنے لگا ۔
فروری2011 سے شام میں احتجاجی مظاہروں کاجو سلسلہ شروع ہوتھا،تاحال اس میں
روز بروز ہلاکتوں،تباہیوں اور بربادیوں کا خطرناک اضافہ ہوتا چلا گیا،اپنے
مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ ملکوں جیسے روس،چین اور ایران نے عملی طور پر اس
آگ کو خوب خوب ایندھن فراہم کی،ادھر مغربی قوتوں بشمول امریکہ نے کبھی
انقلابیوں کی مدد کی ،کبھی صرف وعدے کیے، اور کبھی صرف بیانات پر اس لیے
اکتفا کیا کہ اسرائیل کے بغل میں شام ایک مضبوط فوجی طاقت کا حامل ملک
تھا،تاکہ یہ جتنا کمزورہونا ممکن ہو،ہو جائے،یہی اسرائیل کے مفاد میں
تھا،امریکہ نے وارننگ دی تھی کہ شام نے اگر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے، تو
اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی ہو گی، گویا کیمیائی ہتھیاروں کے علاوہ جو
کچھ وہ کرتا ہے ،عین انصاف ہو گا، مغربی میڈیا نے یہاں القاعدہ اور دیگر
تنظیموں کا واویلا بھی اس لیے برپا کیاتھا کہ ثالث بن کر مداخلت نہ کرنا
پڑے اور جنگ طویل سے طویل تر ہوتی چلی جائے،کیونکہ اس میں ایران کی بدنامی
کے علاوہ ان کا فوجی، اقتصادی اور سفارت کاری کا بہت بڑانقصان ہو گا،روس
بھی ایک بار پھر خوں خوار طاقت کے طور پر ابھرے گا،چین بھی عرب دنیا کی
نظروں میں قعرمذلت میں جا گرے گا،نیز لبنانی حزب اﷲ کو بھی چاروناچار جنگ
میں آنا ہو گا،اس طرح نقصانات حزب اﷲ کے بھی ہونگے،ترکی کے پڑوس میں جب
مسلمانوں کو اتنی شدت سے کچلا جائے گا اور وہ’’ ٹک ٹک دیدم،دم نہ کشیدم‘‘
کی تصویرہوں گے،تو عالم اسلام میں ان کا بھرم بھی ہوا میں تحلیل ہو جائے
گا،ترکی،لبنان ، اردن بالخصوص اور عرب ممالک بالعموم جنگ کی آفتوں کے اثرات
کے ساتھ ساتھ پناہ گزینوں کے ایک بہت بڑے بوجھ تلے دب بھی جائیں گے،شام ایک
نیا افغانستان یا صومالیہ ہو گا،جہاں ان مغربی قوتوں کے دشمن آپس میں لڑ لڑ
کر کٹ مرینگے ،چنانچہ یہی ہوا۔
اب پچھلے ہفتے جب شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کااستعمال کر کے ہزاروں
بے ضرر جانوں کا سفاکانہ قتل عام کیا ،تو وہی امریکہ اور اسکے اتحادی جو
روس چین کی ویٹوکا بہانہ بناتے تھے،اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پرے
ہٹا کر شام پر حملے کے لیے لاؤ لشکر کے ساتھ تیاری کرنے لگے،سادہ لوح
مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کو کہیں شامی عوام سے ہمدردی ہے،امریکہ کے
صبر کا پیمانہ شایداب لبریز ہو چکا ہے،بین الاقوامی طور پر ممنوعی اسلحہ
استعمال کرنے پراب امریکہ شام کو انٹر نیشنل لاء اینڈآرڈر کا سبق سکھانا
چاہتا ہے ،میڈیا نے بھی یہی راگ الاپنا شروع کر دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ نہیں
ہے،اصل با ت یہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ شام کے پاس ہے
،جس سے اسرئیل کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ موجودہ حکومت تو ہماری پٹھو تھی، لیکن
اگر انقلابی جن کی عملداری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے،ان کے ہاتھ یہ
اسلحہ لگ گیا،اور بشارالاسد اپنی باقیات میں اسے چھوڑ گیا،تو ہمیشہ کے لیے
موت سے ڈرنے والے یہودیوں کے لیے یہ ایک درد سر ہو گا،لہذا اسرائیل کے سر
پرستوں کے پاس یہ جواز آگیا ہے کہ جابر بشار الاسد نے اپنے عوام کے خلاف
چونکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیمیائی اسلحہ استعمال کیا
ہے،اب ان کے ہاتھ سے یہ اسلحہ ہر صورت چھینا جائے ،اسی لیے وہ یہ کہتے ہیں
کہ امریکی حملہ محدود اور مخصوص اہداف تک ہو گا، اس حملے کے نتیجے میں
بشارحکومت کو گرانے کا سردست کوئی ارادہ نہیں ہے، یہ شام کا اندرونی معاملہ
ہے، اور جب شام کے پاس سے کیمیائی ہتھیار اٹھا لیے جائینگے یا تباہ کر دیے
جائینگے،اس کے بعد وہاں کس کی حکومت بنتی ہے،شام متحد رہتا ہے ،یا منقسم ہو
جاتا ہے،ان کے لئے اس کا کوئی معنی نہیں رہے گا۔
اس تمام سیناریو کا جب آپ بنظر غائر جائزہ لیں گے،تو بات آسانی سے سمجھ
آجائے گی کہ روس جو اسرائیل کا مضبوط حلیف اور دوست ہے،وہ کیوں بشارکا ساتھ
دے رہا تھا،اقوام متحدہ جو بذریعہ امریکہ اسرائیل کی لونڈی ہے ،وہ کیوں
یہاں لیت و لعل سے کام لے کر جنگ کو طول دے رہا تھا،وہ مغربی قوتیں کیوں
بظاہر انقلابیوں کو مسلح کرنے کے اعلانات کر رہی تھیں،اور پس پشت تسلیح کے
اس عمل کو سپو تاژ کر رہی تھیں،ان تما م سازشوں کا مقصد مسلمانوں کی
حماقتوں سے فائدہ اٹھا کر عراق کے بعد شام کو غیر مسلح کرنا تھا،اب جو ہونے
جا رہا ہے، اس تمام ترمیں نکتہ صرف یہی تھا،یہاں سب سے زیادہ افسوس کی بات
یہ بھی ہے کہ حکومتِ شام نے پرامن انتقالِ اقتدار نہ کر کے اپنے ان قیمتی
اثاثوں کے ساتھ مخلص نہ ہونے کا ثبوت دیا، یاپھر اغیار کی شاطرانہ گیم کونہ
سمجھ سکی۔
برسبیل تذکرہ یہاں یہ بھی عرض کروں کہ پاکستان کی میزائیل ٹیکنالوجی اور
ایٹمی اثاثہ ان تمام کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے،اس کے لیے بھی یہ ایسے ہی
حربے فرقہ واریت،لسانیت،دہشت گردی اور صوبائیت کی شکل میں بروئے کا ر
لائینگے اور ان کا اول وآخر مطلوب ہمارا یہی ذخیرہ ہو گا، شام میں یہی کھیل
کھیلاگیا۔’’الکفر ملۃواحدۃ‘‘ کے مصداق کے مطابق کچھ کفریہ طاقتوں نے مقتدر
طبقہ کو تھپکی دی اور دیتے ہی رہے،اور کچھ نے حزب مخالف یا انقلابیوں کوشہ
دی۔یوں وہ اپنے مقصد تک بڑی آسانی سے پہنچ گئے،شام لنگڑا لولا بھی ہو جائے
گااور ان چیرہ دستوں کے مفادات بحری اڈوں،تیل کے ذخائر،اسرائیل کی
حفاظت،عالم اسلام اور عالم عربی کی بے انتہاکمزوری کی صورت میں انہیں مفت
میں یا کچھ شغلیہ جنگ کی حالت میں حاصل ہو جائیں گے،کاش مسلم عوام اور
حکمران عقل کے ناخن لیں۔ |