کراچی سیاست ماضی سے حال تک

 919اکتوبر1993ء جو پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو نے دوسری بار وزیر اعظم کی حیثیت سے قائم مقام صد وسیم سجاد نے حلف اٹھایا۔20اکتوبر1993ء کو سندھ کے وزیر اعلی عبد اﷲ شاہ منتخب ہوئے۔ گورنر محمد سعید نے اُن سے حلف لیا۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پی پی پی سے خلوص دل سے بات چیت کرنے کیلئے سیاسی معاملات کو افہام و تفہم سے حل کرنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا تو سندھ کے وزیر اعلی عبد اﷲشاہ نے ان کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔ان خیر مقدمی بیانات میں 22اکتوبر1993ء نے متنازعہ بیان دیا کہـ" مہاجر اپنی شناخت سے دستبردار ہوجائیں اگر مہاجروں نے اپنی سناخت برقرار رکھا تو پھر پاکستان میں ان کا کوئی کردارباقی نہیں رہے گا۔"۔وزیر اعلی سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم کی عدوات کے سلسلے میں 25اکتوبر1993ء کو بیان جاری کیا کہ صوبے میں فوجی آپریشن کی معیاد بڑھانے کیلئے وفاق سے درخواست کی جائیگی اور جلد از جلد مردم شماری کرکے بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوشش کی جائے گی۔اس وقت کراچی میں فوجی آپریشن جاری تھا ۔اور حالیہ انتخابات کی طرح ایم کیو ایم کو شہری علاقوں سے اور پی پی پی کو دیہی علاقوں میں کامیابی ملی تھی۔جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد نے وزیر اعلی سندھ سے ملاقات میں واضح کیا تھا کہجب تک صوبے میں شہری اور دہی طبقات برقرار رہیں گے اور بد امنی رہے گی ، صوبے کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔فوجی آپرین کے حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ فوجی جوانوں کو شہریوں سے مہذب طریقے سے پیش آنے کی ہدایت کی جائے۔"صدارتی انتخابات کی تاریخ قریب آنے اور دونوں بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ کے امیدواران کی جانب سے کراچی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور پی پی پی کے فاروق لغاری نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے تقریباً پونے گھنٹے بات چیت کی اور ایم کیو ایم ارکان اسمبلی کلے ووٹ ان کے حق میں استعمال میں کرنے کی اپیل کی۔ایم کیو ایم کے ووٹ نہایت اہمیت کے حامل تھے ، اس بنا ء پر فاروق لغاری اور وسیم سجاد ایم کیو ایم سے براہ راست ملاقات کیلئے کراچی پہنچے۔دوسری جانب الطاف حسین نے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے کہا کہ انھوں نے مجھے(بھائی) کہا ہے اس رشتے کے تحت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو بہن کا درجہ دیتا ہوں۔اور ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔انھوں نے اس بات کی تصدیق کی فاروق لغاری کے ساتھ ان کے مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں فیصلہ اب ہماری بہن کو کرنا ہے۔12نومبر کو نواب نصر اﷲ ، اکبر بگٹی،اور اصغر خان کی جانب سے فاروق لغاری کے حق میں دست برداری کے بعد ایم کیو ایم نے پی ڈی ایف کے مشترکہ امیدوار فاروق لغاری کی حمایت کا اعلان کیا یہ اعلان سینیٹر اشتیاق اظہر نے کیا کہ وہ 13نومبر 1993ء کے صدارتی انتخابات میں فاروق لغاری کی حمایت کریں گے اور ایم کیو ایم کے اراکان اسمبلی انھیں ووٹ دیں گے۔انھوں نے کہا کہ یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا لیکن وزیر اعلی سندھ عبد اﷲ شاہ ایم کیو ایم کے خلاف مسلسل بیانات اور سرکاری ہینڈ آؤٹ جاری کرتے رہتے ہیں۔وزیرا عظم بے نظیر بھٹو اور نو منتخب صدر فاروق لغاری نے ٹیلی فون پر الطاف حسین سے بات کرکے صدارتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔21نومبر 1993کو عسکری ذرائع سے یہ خبر اخبارات میں آئی کہ کراچی کے کور کمانڈر جنرل محمد نصیر نے وزیر اعظم کو ایک اہم بریفنگ دی جس میں وزیر داخلہ نصیر اﷲ بابر ، وزیراعلی سندھ عبد اﷲ شاہ ، جنرل عبدالوحید اور سندھ آپریشن سے تعلق رکھنے ووالے اعلی حکام نے شرکت کی ، بریفنگ میں بتایا گیا کہ سندھ میں آپریشن مارچ تک جاری رہے گا۔جس طرح ااج پی پی پی ، ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کرنے کے لئے بے چین نظر آتی ہے اسی طرح بے نظیر حکومت میں بھی ایم کیو ایم اور پی پی پی کے رہنماؤں کے درمیان سندھ میں مخلوط حکومت کیلئے مذاکرات کا عمل جاری تھا لیکن ایم کیو ایم کا موقف یہی تھا کہ پی پی پی کو اپنا رویہ درست کرنا ہوگا ، کیونکہ پی پی پی سندھ کونسل کے ارکان نے پی پی پی ، ایم کیو ایم معائدے پر اعتراض کردیا تھا ۔متعدد ارکان نے اس متوقع معائدے کی شدید مخالفت کی۔جس بنا ء پر ایم کیو ایم نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر اعظم بے نظیربھٹو نے مدیران اضبارات و جرائد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم سے بات چیت جاری ہے انھوں نے پی پی پی کے صدارتی امیدوار کو ووٹ دیا ، ان کی سندھ حکومت میں طاقت کے مطابق نمائندگی دینے کو تیار ہیں۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت (کراچی) نے 1991ء میں کے ڈی اے بلڈنگ نزد سندھ سیکرٹریٹ میں بم دہماکے میں ملوث شاہ نواز ڈاڈا کی ضمانت منظور کرلی۔ ان کی ضمانت پی پی پی کی شریک چیئرمین نصرت بھٹو نے داخل کی ، اپنے وکیل کے ہمراہ انھوں نے ایک لاکھ روپے کے سیونگ سٹریفکیٹ داخل کئے۔پی پی پی کے تنازعات ایم کیو ایم سے روز بہ روز تلخ ہوتے چلے گئے۔ 5دسمبر 1993 ء کواس کا اظہار جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد کے اس بیان سے ہوجاتا ہے کہ سندھ حکومت میں شہریوں علاقوں کی عدم شرکت سے موجودہ حکومت کو پورے صوبے کی نمائندہ حکومت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم سے شدید اختلافات کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ طویل آپریشن ،سیاسی دباؤ کے باجود شہری آبادی نے اپنی نمائندگی کیلئے پھر ایم کیو ایم ہی پر اعتماد کیا ہے۔انھوں نے کہاکہ اگر پی پی پی اپنی ایک حلیف جماعت کو اس کے ارکان کی قلیل تعداد کے باوجود مرکز میں وزارت خارجہ اور پنجاب میں وزرات اعلی جیسے اہم عہدے دے سکتی ہے تو سندھ میں بھی وہ فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ایم کیو ایم کو وزارتیں دے سکتی ہے۔سندھ کی حکومت اس وققت ایک ٹانگپر کھڑی ہے ۔گورنر اور مشیر اس خلا کو پُر نہیں کرسکتے"۔پی پی پی کی حکومت اقتدار کے زعم میں اس قدر مبتلا ہوگئیں تھیں کہ ان کی شریک چیئرپرسن نصر ت بھٹو کو 5جنوری1994ء کی پریس کانفرنس میں کہنا پڑا کہ آخر وزیر اعظم کیا چاہتی ہیں ؟۔انسانی حقوق کی بات کرنے والے ریاستی دہشت گردی میں کیوں مبتلا ہوگئے ہیں۔جنرل ضیا ء کے زمانے میں اتنی سختیاں اور ظالمانہ کاروائیاں نہیں کی گئیں جتنی آج بے نظیر کی حکومت میں کی جا رہی ہے۔انھوں نے کہاکہ جنرل ضیا ئکی ڈکٹیڑ شپ اور بے نظیر کی نام نہاد جموریت میں کیا فرق ہے"۔ 3فروری 1994ء کو بے نظیر بھٹو کا ایک اہم متنازعہ اعتراف بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ "ان کی پچھلی حکموت نے بھارتی حکموت کے صوبہ پنجاب میں سکھوں کی شورش دبانے میں راجیو گاندھی کی مدد کی تھی ـ"۔ انھوں نے یہ اعتراف بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔پی پی پی کی حکومت نے ایم کیو ایم کی نمائندگی کے مطابق وزارتیں نہ دینے اور ایم کیو ایم کی حکومت میں شامل نہ کے بعد گورنر سندھ نے اعلان کیا کہ شہری علاقوں میں مزید چھ ماہ تک آپریشن جاری رہے گا۔10اپریل1994ء کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہوئے "ضمیر کے قیدیوں"کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ایمنسٹی کی تفصیلی رپورٹ میں خاص طور پر صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کے ارکان اور ان کے رشتے داروں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گیا کہ گرفتاریوں کی حالیہ مہم میں کارکنان کے رپورش ہونے پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے رشتے دار اور دوستوں حتی کہ ہمسایوں کو بھی گرفتار کرلیا۔ایمنسٹی نے بلاجواز الزام اور بلا وارنٹ گرفتاریوں کے اس عمل پر شدید یشویش کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہایم کیو ایم کے بہت سے اراکان کو مبینہ طور پر غیر قانونی گرفتار کرکے تشدد کیا گیا حتی کہ بعض افراد کی دوران حراست تشدد سے موت بھی واقع ہوئی ہے۔2مئی1994ء کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مار کر خالد مقبول سدیقی ، شہود ہاشمی ، پروفیسر اے کے شمس،سہیل ایس محی الدین اور قاضی خالد علی کو حراست میں لے لیا گیا۔جس پر سینئر رہنماء معراج محمد خان نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ" نائن زیرو پر چھاپہ طاقت کا ظالمانہ استعمال ہے ، ایم کیو ایم کے ساتھ فوراً سیاسی ڈائیلاگ شروع کئے جائیں ـ"۔پی پی پی کی جانب سے ایک بار پھر وہی رویہ اختیار کیا جارہا ہے جو ان کی لیڈر نے اپنی دوسری نامکمل حکومت میں کیا تھا لیکن اس کے نتائج کل بھی بہتر نہیں نکلے تھے اور آج بھی پی پی پی کا رویہ سندھ خاص طور پر کراچی کیلئے ماضی کی غمازی کرتا ہے۔پی پی پی نے اپنی سابقہ بے نظیر حکومت سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ سابقہ زرداری گروپ کی حکومت نے جیسے تیسے پانچ سال پورے کرلئے، اب چاہیے ایسے زرداری گروپ عزت سے رخصتی قرار دے یا عوام ایسے یوم نجات قرار دے ، لیکن یہ طے شدہ کہ ماضی کبھی ختم نہیں ہوتا ، لاکھ معافی تلافیوں کے باوجود اگر عوام کو اُن کے حقوق نہ ملیں تو عوام کسی کو معاف نہیں کرتی۔پی پی پی کراچی میں قیام امن کے لئے ماضی سے سبق حاصل کرے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744666 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.