ڈھائی گھنٹے سے زائد جاری رہنے
والے آنکھ مچولی کے اس کھیل میں عوام کی آنکھوں پہ واپڈا نے لوڈشیڈنگ کی
پٹی باندھی تو مسلح اداروں نے کرفیو سے عوام کو گھروں میں مقید کیا ۔ان
اقدامات سے عوام اور میڈیا کا باہر نکلنا ممنوع اور دہشت گردوں کو اپنی
اپنی کمیں گاہوں کی جانب جانے کی کلی اجازت کے ساتھ ساتھ روٹ کلئیر دینے کی
بھی ذمہ داری احسن طریقے نبھائی گئی ۔
یہ ذمہ داری ان اداروں نے نبھائی جو پاک عوام کے خون پسینے سے بنی روٹیوں
سے پیٹ پوجا کرتے ہیں-
اہل وطن کو شدت سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ریاست کے اندر
ریاست کا عملاً قیام عمل میں لایا جارہا ہے ۔ا گرچہ سیاسی بیان بازیاں اس
یقین کی نفی کرتی ہیں لیکن پے درپے پیش آنے والے دہشت گردی اور ریاستی رٹ
کو چیلنج کرنے والے واقعات اس یقین پر مہر صداقت ثبت کرتے ہیں ۔رہی سہی کسر
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دھمکی ملنے کے بعد انتہائی خطرناک قاتلوں
کی پھانسی موخر کرنے کے عمل نے بھی پوری کر دی ۔ جس سے یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ حکومت نے عملاً دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈال
دیئے ہیں ۔ مقام حیرت ہے کہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی پھانسی ایسے وقت
میں موخر کی گئی جب ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے
دہشت گرد حملے کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے۔یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ
سابقہ پی پی دور حکومت میں جو اقدامات اور فیصلے ناجائز قرار پاتے تھے
موجودہ دور حکومت میں انہی فیصلہ جات اور اقدامات کو دور اندیشی پر مبنی
قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے ۔ ڈیرہ جیل حملے کے
حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو ایسے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جن سے
نظریں چرانا بھی ممکن نہیں اور ان کو قبول کرکے مقدس چہروں پر کلنک سہنے کا
بھی حوصلہ میسر نہیں آتا۔
29اگست بروز پیر ٹانک کے مضافاتی علاقوں سے دہشت گرد بھاری اور خودکار
ہتھیاروں کے ساتھ ہائی ایس کوچز میں نمودار ہوتے ہیں اور ٹانک لکی روڈ پرسے
ہوتے ہوئے براستہ یارک اور بنوں ڈیرہ اسماعیل خان روڈ کو استعمال کرتے ہوئے
ڈیرہ شہر میں داخل ہوتے ہیں ۔دوگاڑیوں پر مشتمل ٹانک سے روانہ ہونے والا
دہشت گردوں کا یہ قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے اس میں گاڑیوں ، ہتھیاروں اور
دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ جب کہ دوسری جانب کلاچی کا
راستہ استعمال کرنے والا موڑ کاروں پر مشتمل ایک اورگروہ روانہ ہوتا ہے جو
بعد ازاں ڈیرہ بائی پاس روڈ کو استعمال کرتے ہوئے ظفر آباد کالونی سے ڈیرہ
میں داخل ہوتا ہے ۔منصوبے کے مطابق دہشت گردوں سے بھری یہ گاڑیاں ڈیرہ جیل
کے اطراف میں مختلف مقامات پر مختلف گروپس کو اتارتی ہیں ان گروپس کے پاس
کچھ موٹرسائیکل سوار بھی مدد گار کے طور پر موجود ہوتے ہیں ۔ چند منٹوں میں
ہی جنوبی سرکلر روڈ، ڈیرہ جیل کے اطراف کے تمام راستے ، پولیس لائن روڈ،
ٹاؤن ہال روڈ دہشت گردوں کے تصرف میں آجاتے ہیں ۔ ایک گروپ کمشنری بازار کے
سرے پر واقع عارضی چوکی جو غالباً بازار میں بڑی گاڑیوں کو داخل ہونے سے
روکنے یا فروٹ ریڑھی والوں سے افطاری وصول کرنے کی غرض سے بنائی گئی تھی پر
فائرنگ سے حملے کا باقاعدہ اعلان کرتاہے ۔ اس کے بعد چہار جانب سے فائرنگ
اور دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ دھماکے بھی اتنے دوستانہ
تھے کہ ان سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جیل کے ابتدائی گیٹ پر پہلے
راکٹ پھر فائرنگ کے ذریعے راستہ بنایا جاتاہے ۔ جیل کے احاطے کی دیوار کو
اڑانے کے لیے باقاعدہ ڈائنامیٹ سٹکس کااستعمال کیا جاتاہے ۔ فائرنگ سے باہر
کے سپاہی زخمی ہوتے ہیں ۔ جیل کے دوسرے گیٹ پر بھی دھماکوں سے طبع آزمائی
کی جاتی ہے ۔ جب کہ مین گیٹ جو انگریز دور سے ہی اس جیل کی سیکورٹی کو
ناقابل تسخیر بنائے ہوئے تھا۔ جیل کی ذمہ دار پولیس اند ر سے کھول دیتی ہے
اور آنے والے دہشت گردوں کو ٹوپیاں ہاتھ میں پکڑ کر خوش آمدید کہتی ہے۔ جیل
کے اوپر چوبارے والے مورچے کے دو سپاہی اپنی پرانی بندوقوں کے ساتھ دہشت
گردوں پر گاہے بگاہے فائرنگ کرکے انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں
مگر جلد ہی ان کی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ دہشت گرد کمال پھرتی سے اوپر
چوبارے پہ پہنچ کے ان سپاہیوں کو نیچے پھینک دیتے ہیں نیچے گرنے کے بعد
دیگر دہشت گرد ان کو بھی اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں ۔ اسی دوران سپیکر
کے ذریعے دہشت گردوں کے نام پکارے جاتے ہیں اور پہلے سے کھلی بیرکس سے حملہ
آوروں کے ساتھی اس برائے نام قید سے بھی رہائی حاصل کرتے ہیں۔ حملہ آوروں
جن کی تعداد 100سے زائد تھی مختلف علاقوں و ملکوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ جن
میں پنجابی کے علاوہ ازبک اور تاجک بھی شامل تھے ۔ بارودی مواد کے ذریعے
65سے زائد دھماکے کئے گئے جبکہ برسنے والے راکٹس اس کے علاوہ ہیں ۔ فائرنگ،
خنجر اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں تقریباً12افراد جاں بحق ہوئے ۔ ان میں 7
قیدی اختر بلوچ، ساجد علی، جمعہ خان، ذوالفقارشاہ، رجب علی ، محمد اسلم بھی
شامل ہیں جن کو رہائی پانے والے دہشت گردوں نے سے فائرنگ کر کے قتل کیا۔ ان
قیدیوں کا شائد واحد قصور ان کا فرقہ تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ان قیدیوں
کو نشانہ نہ بنایا جاتا تو کوئی یہ تسلیم ہی نہ کرتا کہ حملہ آور وں کا
تعلق ٹی ٹی پی سے ہی تھا۔ رہائی پانے والے دہشت گردوں نے اس قتال کو رہائی
کے جشن سے تعبیر کیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں جیل سے تقریباً250قیدی فرار
ہوئے ۔ ان میں سے اکثریت ان قیدیوں کی تھی جو اپنی جانیں بچانے کے لیے جہاں
راستہ نظر آیا بھاگ کھڑے ہوئے ۔ دہشت گرد اپنے 47اہم ساتھیوں جن میں طالبان
کمانڈر عبد الحکیم ، احمد بجارانی ، منصور احمد، ولید اکبر، حاجی ریاض کو
رہا کرانے کے ساتھ ساتھ پارہ چنار کے4 قیدیوں اور لیڈی پولیس کانسٹیبل سمیت
8قیدی خواتین کو بھی اغوا کرکے ساتھ لے گئے ۔ جن میں سے نصف خواتین کو دو
دن قید میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔نام نہاد اسلام پسند دہشت گردوں نے
ان خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا وہ قابل تحریر نہیں ۔ پارہ چنار سے تعلق
رکھنے والے جن قیدیوں کو اغوا کر کے حملہ آورساتھ لے گئے تھے بعد ازاں ان
میں سے بھی دو کوظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا ۔ ایک میڈیکل اسٹور کے باہر
موجود مقامی شخص نے دہشت گردوں کے درمیان اردو میں ہونے والی گفتگو سنی۔ جس
میں ایک دہشت گرد میڈیکل سٹور اور اس کے ساتھ ملحقہ لیبارٹری کو راکٹوں سے
اڑانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسرا دہشت گرد جواباً کہتا ہے اس مارکیٹ
سے ہمیں سب سے زیادہ چندہ موصول ہوتا ہے ۔ کم سے کم اپنوں کا تو خیال کرو۔
جیل پر حملے کے بعد جب پورا شہر دھماکوں کی گھن گرج سے گونج رہا تھا جیل
انتظامیہ کے ادنیٰ اہلکاروں نے ہر اس جگہ پر رابطہ کرکے مدد حاصل کرنے کی
کوشش کی جو ایمرجنسی میں مل سکتی تھی ۔ لیکن ہر طرف سے انھیں کورا سامختصر
جواب ملا ۔ ایس پی ایلیٹ توحید خان سے جیل انتظامیہ کا سب سے پہلا رابطہ
ہوا ۔ جس نے پوری گفتگو سننے کے بعد کال کاٹ دی ۔بعد ازاں ان سے رابطہ نہ
ہونے کی صورت میں ڈی ایس پی ایلیٹ بہرام خان تک اطلاع پہنچی مگر اس نے بھی
تمام سانحہ سے خود کو لاعلم رکھنے کی کوشش کی ۔ ریزرو فورس کے انچارج غفور
احمد خان جو خود بھی اس وقت لائن پولیس میں موجود تھے سے جیل انتظامیہ کا
رابطہ ہوا۔ غفور خان نے فوری ایکشن لینے اور فورس فراہم کرنے کی یقین دہانی
کرائی مگر پھر لمبی تان کر سو گئے ۔ بعد ازاں انوسٹی گیشن ٹیم کو جواب میں
کہا مجھے اطلاع ملی تھی کہ دہشت گرد پولیس لائن میں داخل ہونا چاہتے ہیں
لہذا ریزرو فورس کو میں نے وہیں پر چوکس رکھا ۔ جبکہ ڈی ایس پی صلاح الدین
خان نے واقعہ کا پہلا دھماکہ ہوتے ہی اپنا موبائل آف کردیا اور وائرلیس
رابطے سے باہر ہوگئے۔ واقعے کے دوران ہی ڈی پی او ڈیرہ کا جب ذمہ دار ادارے
کے مقامی ہیڈسے ٹیلی فونک رابطہ ہوا تو اس میں یہ طے پایا کہ ممکن حد تک
جیل کے اندر نقصان کو کم سے کم رکھتے ہوئے جیل کا کنٹرول پولیس دوبارہ حاصل
کرے ۔ جبکہ سیکورٹی فورسز باہر آنے والے یا فرار ہونے والے دہشت گردوں کو
چوہے دان میں قید کرے گی اور ان میں سے کو ئی بھی واپس نہیں جاسکے گا۔ لیکن
بعد کے حالات و اقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دونوں اداروں نے اس
حوالے سے کسی حکمت عملی کو اپنایا ہی نہیں۔بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ
حملہ باقاعدہ کسی خاص دعوت نامے اور حفاظتی انتظامات کی فراہمی کے بعد کیا
گیا۔ ڈھائی گھنٹے سے زائد جار ی رہنے والے آنکھ مچولی کے اس کھیل میں عوام
کی آنکھوں پہ واپڈا نے لوڈشیڈنگ کی پٹی باندھی تو مسلح اداروں نے کرفیو سے
عوام کو گھروں میں مقید کیا ۔ان اقدامات سے عوام اور میڈیا کا باہر نکلنا
ممنوع اور دہشت گردوں کو اپنی اپنی کمیں گاہوں کی جانب جانے کی کلی اجازت
کے ساتھ ساتھ روٹ کلئیر دینے کی بھی ذمہ داری احسن طریقے نبھائی گئی ۔یہ
ذمہ داری ان اداروں نے نبھائی جو پاک عوام کے خون پسینے سے بنی روٹیوں سے
پیٹ پوجا کرتے ہیں ۔ باعث شرم و ندامت ہے ان حفاظتی دعوے کرنے والوں کے لیے
کہ وہ اپنی تحویل میں موجود قیدیوں تک کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے ۔
دہشت گردوں کی بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مذموم مقصد میں کامیابی حاصل
کرنے کے بعد بھی جاتے جاتے مقامی آبادی کی جانب 3راکٹ فائر کر کے گئے ۔ جن
میں سے دو پھٹ نہ سکے جبکہ ایک راکٹ پانی کے نالے میں جاکے پھٹا جس کی وجہ
سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ وطن عزیز عرصہ دراز سے دہشت گردی کے خلاف حالت
جنگ میں ہے تا حال اس عفریت پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکا اس کا اندازہ
ڈیرہ جیل پر دہشت گردوں کے حملے اور اداروں کی کارکردگی سے بخوبی لگایا
جاسکتاہے ۔اس سانحہ سے متعلق یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کا حملہ
خارج از امکان تھا لہذا بے خبری میں ادارے اپنا کردار ادا نہیں کر سکے ۔
چنانچہ حملے سے قبل پیش آنے والے واقعات پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے ۔
حملے سے کچھ عرصہ قبل جیل انتظامیہ کو دھمکی آمیز خط موصول ہو ا جس میں
واضح الفاظ میں جیل کو نشانہ بنانے اور دوستوں کو رہا کرانے کا اعلان تحریر
تھا۔ خط کو گرچہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن چند روز بعد انٹیلی جنس نے
جیل پر شدید حملے کی پیشگی اطلاع دی ۔ اس اطلاع میں نہ صرف ان دہشت گردوں
کی نشاندہی کی گئی تھی جن کی رہائی کے لیے یہ حملہ متوقع تھا بلکہ اس میں
استعمال ہونے والے ممکنہ راستوں اور حکمت عملی تک کی نشاندہی شامل تھی ۔ اس
کے علاوہ ماضی میں بنوں جیل پر ہونیوالا حملہ بھی اداروں کی یادداشت سے
ابھی محو نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اس اطلاع کی روشنی میں نہ صرف ہنگامی
بنیادوں پر جیل کی سیکورٹی فول پروف بنانے کے بظاہر اقدامات کئے گئے بلکہ
جیل پولیس کو ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ دی گئی ۔
پشاور سے اعلیٰ سطح کی ٹیم نے ڈی پی او آفس میں خصوصی اجلاس کے دوران جیل
سیکورٹی کا پلان پیش کیا۔ اس اجلاس میں ڈیرہ پولیس کے تمام ذمہ داران کو
تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی اور اس حملے سے محض ایک دن قبل جیل پولیس نے
فائرنگ کی ایک خصوصی مشق بھی کی۔ غیر اعلانیہ اس مشق کا مقصد ہی یہی تھا کہ
ہنگامی صورت میں کس اہلکار نے کیا ذمہ داری سرانجام دینی ہے ۔ لیکن اگلے ہی
دن ہونے والے حملے نے ان تربیتی مشقوں کے موثر ہونے پر سوالیہ نشان ثبت
کردیا ۔حملے کے وقت جیل کے 126اہلکاروں میں سے فقط 24کے پاس اسلحہ تھا۔
ایمونیشن کی مقدار کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اہم ترین
مورچہ پر تعینات اہلکار کے پاس فقط 13گولیا ں تھیں۔ چند قیدیوں کے بقول کہ
جیل حملے کی جہاں انٹیلی جنٹس اداروں نے اطلاع فراہم کی تھی وہاں جیل کے
اندر کے حالات واقعات بھی اس حملے کی سنوائی دے رہے تھے مگر انتظامیہ ان کو
کسی خاطر میں نہ لائی ۔ قیدیوں کے بقول گرچہ یہ حملہ باہر سے ہوا لیکن حملے
کے منصوبہ ساز جیل کے اندر ہی موجود تھے جو کہ موبائل پی سی او کے ذریعے
مسلسل حملہ آوروں سے رابطہ میں تھے ۔ سابق ایم پی اے جعلی ڈگری ہولڈر خلیفہ
عبدالقیوم کی سربراہی میں آئے روز خفیہ میٹنگز ہوتی ۔کچھ دنوں سے جیل کے
اندر آنے والا سامان بھی عجیب نوعیت کا تھا جس میں پینٹ ، شرٹس، شیونگ کا
سامان بھی شامل تھا ۔ اس کے علاوہ حملے سے ایک روز قبل خطرناک قیدیوں نے
اپنے حلیے بھی تبدیل کرنا شروع کر دیئے تھے ۔ جیل کے اندر کے یہ واقعات اس
بات کی بھی غمازی کرتے ہیں کہ ان خطرناک دہشت گردوں کو رہا کرانے کے بعد
پہاڑوں میں چھپانے کی بجائے پنجاب میں انسانوں کے ہجوم میں چھپانے کی
کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ چنانچہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ دہشت گرد رہائی
حاصل کرنے کے بعد وزیرستان کی بجائے بادشاہ ستان یعنی لاہور و اسلام آباد
منتقل ہوچکے ہیں ۔ جیل حملے کے دو دن بعد اسلام آباد اور لاہور ائیرپورٹس
پر ہونیوالا ہائی الرٹ ، خصوصی چیکنگ اور بعد ازاں عوام کے داخلے پر پابندی
اس شبے کو یقین میں بدلتے ہیں اور اس حملے کے دوررَس مقاصد کو بھی ظاہر
کرتے ہیں ۔تحقیقاتی اداروں نے اپنی ابتدائی رپورٹس پیش کردی ہیں جو کہ کاغذ
کے ضیاع سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہیں ۔ کیونکہ تاحا ل جیل میں موجود
حملے کے اہم ترین کردارکو شامل تفشیش ہی نہیں کیا گیا ۔ عینی شاہدین کے
مطابق بیرونی حملہ آوروں نے قیدیوں کو آزاد کرایا مگر قیدیوں کو کسی بھی
قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ۔ رہائی حاصل کرنے والے دہشت گرد جن
میں ولید اکبر ، خلیفہ قیوم ، محمد ریاض و دیگر شامل تھے نے براہ راست ان
مقامات کی نشاندہی کی جہاں ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھنے والے قیدی موجود
تھے اور ان قیدیوں کو باقاعدہ شناخت کرکے قتل کیا ۔ جبکہ ایک قیدی پر تیز
دھار آلے سے کئی وار کئے گئے۔ اس کے بعد حملہ آور نہایت احترام کے ساتھ
سابق ایم پی اے کو اپنے ساتھ لیکر رخصت ہوئے اور اسے اپنی رہائشگاہ پر
منتقل کیا ۔ جس کی وجہ فقط یہی تھی کہ غم و غصے سے لبریز کوئی قیدی اسے
نشانہ نہ بنائے ۔ اگلے روز پولیس وین میں اس کو گھر سے دوبارہ جیل منتقل
کیا گیا ۔ پاکستان کے قانون میں اگر جیل کے اند ر کوئی قتل ہوجائے تو اس پر
دفعہ 302کے بجائے دفعہ 303کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس کے تحت اس کیس کا فیصلہ جیل
کے اندر ہی ہوتا ہے اور اس دفعہ کی سزا صرف اور صرف فوری سزائے موت ہے جس
کی کوئی اپیل بھی نہیں کی جاسکتی۔ جب عینی شاہدین ، حالات واقعات اور ملنے
والے شواہد ایک خاص گروہ اور فرد کو 12افراد کے قتل کا ذمہ دار قرار دے رہے
ہیں تو جیل انتظامیہ کو فی الفور کاروائی کرکے دفعہ 303کے تحت سزائیں دینی
چاہیے تھیں۔ گرچہ عوام کا خون تو نہایت ارزاں ہے لیکن کم سے کم اپنے شہید
سپاہیوں کے لہوکی لاج رکھتے ہوئے اس دفعہ کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔پورے
سانحے کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں وردی میں ملبوس کچھ کالی بھیڑیں اپنی
موجودگی کا شدت سے احساس دلا تی ہیں ۔ اس حملے میں ولیداکبر جو کہ ڈی ایس
پی اکبر علی کا بیٹاہے کوبھی رہا کرایا گیا۔ عین ممکن ہے کہ روز عاشور بم
بلاسٹ کیس میں ولید اکبر کو اگر تا حیات عمر قید کی سز ا نہ ہوتی تو شائد
پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان اتنا قرب نظر نہ آتا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان
میں دس محرم کے جلوس میں ہونے والے دھماکے کے اندر جس طرح انتظامیہ کا
کردار مشکوک تھا اسی طرح اس واقعے میں بھی نہایت مشکوک ہے ۔ شائد یہ بھی
اتفاق ہو کہ ایک سانحہ میں ولید اکبرمرکزی مجرم ہے جبکہ دوسرے میں فرار
ہونے والے قیدیوں میں طویل ترین سزا پانے والا مرکزی مجرم۔ تحقیقاتی اداروں
نے اس رخ پر بھی ورک کرکے کالی بھیڑوں کا تعین نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بم
دھماکوں کی گھن گرج میں کرفیو کا نفاذ ہوگیا ۔سینکڑوں دہشت گر د اسی کرفیو
میں فرار ہو کر طویل راستہ طے کرکے اپنی پناہ گاہوں میں چلے گئے کسی مقام
پر بھی ان کی کسی بھی ادارے سے کوئی جھڑپ تک نہیں ہوئی ۔ حالانکہ ڈیرہ کے
تمام داخلی و خارجی راستوں پر ایک سے زائد اداروں کی چوکیاں قائم ہیں ۔
کرفیو کا نفاذ نہ صرف ڈیرہ میں کیا گیا بلکہ ٹانک، کلاچی اور دیگر علاقوں
میں کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلے روز دہشت گردوں نے بحفاظت میرعلی
پہنچنے کی بریکنگ نیوز نشر کی جبکہ ڈیرہ سے میر علی جانیوالے تمام راستوں
پر عوام کے لیے کرفیو نافذ تھا۔ تحریک طالبان نے اس پورے واقعہ کی ذمہ داری
قبول کرتے ہوئے اسے آپریشن مرگ نجات کا نام دیا۔ حملے کے کمانڈر عدنان رشید
نے اپنے بیان میں کہا کہ اس حملے میں ہم نے قیمتی اہداف حاصل کئے ہیں ۔ اس
کے بقول دو سے زائد راستے استعمال کئے گئے حملے کا مقصد کوئٹہ کے 6ساتھیوں
سمیت پارا چنار کے 2کمانڈرز اور ڈیرہ کے 6افراد کو رہا کرانا تھا۔ اس حملے
میں 13سے زائد گاڑیوں نے مختلف راستے استعمال کرکے یہ ہدف حاصل کیااور اب
بخیرو عافیت میرعلی میں محفوظ ہیں۔ اتنے بڑے سانحے کے برپا ہوجانے کے بعد
آئی جی جیل خانہ جات کو چند منٹ معطلی کے بعد دوبارہ بحال کردیا گیا۔ ڈپٹی
سپریٹنڈنٹ غلام ربانی کو معطل کرکے اس کی جگہ بن یامین خان کو تعینات کیا
گیا جن کے سابقہ دور میں صاحب اثر ملزمان و مجرم دن جیل میں اور راتیں اپنے
گھر گزارتے رہے ہیں ۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اس واقعے کے بعد کئی پولیس
آفیسرز کو معطل کیا گیا مگر عوام کو اس وقت انتہائی حیرانگی سے دوچار ہونا
پڑا جب عید کے روز تمام افسران مزے سے ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے تھے ۔
انتظامی و بااثر اداروں سے دلبرداشتہ ہوکے جب سیاسی ایوانوں سے امید کا
رشتہ استوار کریں تو اور بھی ہوشربا صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے ۔ صوبہ سرحد
کی کسی سیاسی جماعت یا سربراہ کی جانب سے اس واقعے کی حساسیت کا درک سامنے
نہیں آیا بلکہ سب نے ہی اسے محض سیاسی بیان بازیوں کے موضوع کی حد تک لیا۔
اہم سیاسی شخصیت مولانا فضل الرحمان نے اسے عمران خان اور پی ٹی آئی پر
تنقید کا سنہری موقع سمجھتے ہوئے ایک طرف حکومتی رٹ پر سوال اٹھایا تو
دوسری طرف ڈھکے لفظوں میں حملہ آوروں کی تعریف و حوصلہ افزائی بھی کر ڈالی
۔ البتہ صوبہ سرحد میں جیلوں پر حملے صرف ان شہروں میں ہوئے ہیں جو مولانا
صاحب کے سیاسی گڑھ سمجھے جاتے ہیں ۔ ایک طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی
پاکستان آمد اور دوسری طرف ڈیرہ جہاں سے مولانا صاحب ممبر قومی اسمبلی
منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے ہیں میں دہشت گردوں کا جلوس اور دہشت گرد بھی
وہ جن پر مولانا صاحب کو اکثر رشک آتا رہتاہے ۔ عالمی سیاست میں مولانا
صاحب کے قد میں اضافے کا سبب ہی بنا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ جن لوگوں کے
ووٹ حاصل کرکے مولانا فضل الرحمان کامیابی حاصل کرتے ہیں سیلاب ہوں یا دہشت
گردی مولانا صاحب کی حلقے میں کبھی موجودگی میسر نہ ہوئی۔ جبکہ پی ٹی آئی
کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم پی اے صوبائی وزیر مال علی امین گنڈہ پور نے
جیل کا دورہ کرکے بیان دیا کہ واقعے میں پولیس کی غفلت اور فوج کی بروقت
کاروائی کا نہ ہونا دہشت گردوں کی کامیابی کا سبب ہیں ۔ عام دنوں میں فوج
شہر کی اندرونی و بیرونی سڑکوں پر نقل و حرکت رکھتی ہے لیکن سانحہ کی رات
فوج کی نقل و حرکت بھی نہیں تھی۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وفاقی حکومت کی
جانب سے دہشت گردی کے خلاف واضح پالیسی کی کمی بھی ایسے واقعات کا سبب ہے ۔
یہ اور بات ہے وفاق پر سارا ملبہ ڈالنے والے پرویز خٹک اپنی مصروفیات کی
وجہ سے بروقت ڈیرہ شہر اور جیل کا دورہ نہ کرسکے۔ وزیر اعلیٰ سے لیکر جیل
دروازے پر موجود سپاہی تک کا قول و فعل یہ احساس دلاتاہے کہ دہشت گردوں سے
ہتھیار رکھوانے کے بجائے حکومت اور اداروں نے حوصلے اور ہتھیار رکھنا شروع
کردیئے ہیں اور یہ ایک ایسی روش ہے جس کاانجام انتہائی خطرناک اور تباہ کن
ہے ۔ حکومت اور اداروں کو دشمن سے انہی کی زبان میں ہی بات کرنا ہوگی ۔
طاقت کے استعمال کے بغیر مذاکرات کی جنگ کبھی بھی نہیں جیتی جا سکتی ۔ عوام
ہمیشہ ریاستی اداروں کے دست و بازو بنے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ
ادارے اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کا صفایا کرکے اپنا دامن صاف رکھیں ۔ اگر
دہشت گردوں کے حوصلے اسی طرح بڑھتے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب یہا ں کے گلی
کوچے بھی شام ، عراق و افغانستا ن والا منظر پیش کر یں مگر شائدمقتدر حلقوں
کو ان ملکوں کے حالات اتنے پسند ہیں جبھی تو جیلوں سے رہا کرکے دہشت گرد
وہاں بھیج رہے ہیں تا کہ واپس آکے وہی نقشے یہاں کھینچ سکیں۔ مگر فرمان
خداوندی ہے کہ ظالم کی رسی دراز ہے مگر اس کا انجام قدرت کی جانب سے طے ہے
۔ انشاء اﷲ ان ظالمان کا انجام بھی قدرت کے اسی قانون کے تحت ہوگا ۔ انشاء
اﷲ |