کراچی میں امن کیسے آئے گا؟

سپریم کورٹ کا بنچ کراچی کیا پہنچا کہ ہر طرف بھونچال آگیا۔ ایک جانب شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ سامنے آیا، تو دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ نے ہنگامی پریس کانفرنس کر ڈالی کہ کراچی میں آپریشن کا خاکہ تیار ہے، بس حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ تیسری جانب وزیر اعظم نے بھی کراچی کی صورت حال پر وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلالیا جو3 ستمبر کو ہوگا۔

اُدھر میڈیا کو بھی نیا ایشو مل گیا اور تجزیہ نگار ٹی وی پروگراموں میں کراچی بد امنی کی گتھی سلجھانے لگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کے حالات اچانک اتنے گھمبیر ہوگئے یا ’ان‘ پر اب انکشاف ہوا کہ پانی سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے اور اب ایکشن کا وقت آگیا ہے۔اس سے قبل جب انسانی خون پانی کی طرح بہایا جاتا رہا،لوگ ٹارگٹ کلنگ میں اپنی جانیں گنواتے رہے،لیکن حکمرانوں سمیت کسی سیاسی جماعت کو کراچی کے شہریوں پر رحم نہیں آیا،اُنہیں تڑپتی لاشوں اور اُن کے لواحقین کا خیال نہیں آیا۔

حقیقت یہ ہے کہ شہر قائد ایک طویل عرصے سے دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، دہشت گردی روز بروز بڑھ رہی ہے، درجن بھر انسانوں کو موت کے کنویں میں دھکیلنا یہاں روز کا معمول ہے۔ اس کے باوجود مسئلے کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ حکومتی کوشش نہیں کی گئی۔ لیکن جب عدالتِ عظمیٰ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت شروع کی تو یہ ایشوایک بار پھر زندہ ہوگیا۔ کیا اب کی بار بھی حکمرانوں کی سابقہ روش برقرار رہے گی یا وہ نیک نیتی سے کراچی کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کرانا چاہتے ہیں…… اس کا فیصلہ کچھ ہی دنوں میں ہونے والا ہے۔

سپریم کورٹ نے بجا کہا کہ کراچی میں خون ِناحق کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور میں بھیروشنیوں کاشہر امن کے لیے ترستا رہا، سیاسی جماعتوں کے کارکنان، مذہبی رہنماؤں، وکلاء، تاجروں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگ نشانہ بنتے رہے، بدامنی، لاقانونیت اور بھتا خوری عروج پر رہی مگر حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آپ کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی،لاقانونیت اور انسانی جانوں کے ضیاع کا اندازہ اس میڈیا رپورٹ سے لگا سکتے ہیں کہ صرف سال 2012ء کے دوران 23000 سے زاید افراد کراچی میں بدامنی کی بھینٹ چڑھے، جب کہ سال 2013ء میں دہشت گردی کی نذر ہونے والے شہریوں کی تعداد 1800 سے زاید ہوچکی ہے، صرف پچھلے 10 روز میں 100 سے زاید افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ جبکہ اگست 2013ء یعنی صرف ایک ماہ میں 280افراد بدامنی کا شکار ہوئے۔کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے عدالت میں جو رپورٹ پیش کی وہ ناکامی کا کھلا اعتراف ہے…… جس کے مطابق 28اگست 2011ء سے 28 اگست 2013ء تک شہر قائد میں 4592 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے، جب کہ ٹارگٹ کلنگ میں 1023 افراد موت کے منہ میں دھکیلے گئے۔ آئی جی سندھ کی رپورٹ کے مطابق اس دوران گرفتار افراد سے 12 ہزار 168 غیر قانونی اسلحہ جات کی برآمد گی ہوئی۔

کراچی کے حالات اس قدر بگڑ گئے کہ ایم کیو ایم جیسی فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے والی جماعت کو فوج بلانے کا مطالبہ کرنا پڑا۔ سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ صوبائی انتظامیہ لاچار بنی ہوئی ہے اور بہتری کے لیے سطحی طور پر بھی کوئی اقدامات نہیں کررہی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ کراچی کی بدترین صورت حال پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے 3 ستمبر کو کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے، جب کہ مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو اس کا سربراہ بنادیا ہے۔ اپنے 3 ماہ کے اقتدار میں کراچی میں امن و امان کا مسئلہ انہوں نے پیپلزپارٹی پر چھوڑا ہوا تھا۔ لیکن وہ اپنے پچھلے دور کی طرح اس بار بھی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی۔ وفاق نے جان بوجھ کر صوبائی انتظامیہ سے ان کے آئینی فرائض نبھانے کے حوالے سے بات کرنے سے اجتناب کیا جس کے تحت شہریوں کے جان و مال کا تحفظ صوبائی انتظامیہ کا فرض ہے۔

کراچی کی صورت حال پر خصوصی اجلاس بلانا وزیراعظم کا اس جانب پہلا مخلصانہ اقدام قرار دیا جارہا ہے جس کا مقصد سندھ حکومت میں اس مسئلے کے حل کے لیے نئی روح پھونکنا ہے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، گورنر سندھ، ڈی جی رینجرز سندھ، صوبائی چیف سیکرٹری، آئی ایس آئی اور آئی بی کے سربراہ بھی شرکت کریں گے۔ جس سے وزیراعظم کو کراچی کی بگڑتی صورت حال اور یہاں کے حیرت انگیز حقائق سے آگہی حاصل ہوگی، پھر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے گی۔

کراچی پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہے۔ بدقسمتی سے ایک جدید شہر ہونے کے باوجود یہاں امن و امان کی خراب صورت حال اور گرتی لاشیں دیکھ کر یوں گمان ہوتا ہے جیسے یہاں کوئی منظم حکومت نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ہی راج ہے۔ کراچی میں اب تک امن کیوں قائم نہیں ہوسکا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے ہر شہری کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ جہاں تک شہر قائد میں فوج کی تعیناتی کی بات ہے تو ان حالات میں جب فوج بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیے سرحدوں کی نگرانی پر مامور ہے، کراچی میں ایک اور محاذ کھولنا فوج کے مفاد میں نہیں۔ کراچی میں ماضی میں بھی آپریشن ہوئے اور مجرموں کے خلاف کارروائی کی گئی، مگر کچھ سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف اعتراضات اٹھائے کہ حکومت نے ان کے کارکنوں کو نشانہ بناکر جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔ یہ آپریشن وقتی طور پر تو امن قائم کرنے میں کامیاب رہے مگران کے ذریعے مسئلے کا مستقل حل نہ نکالا جا سکا۔

کراچی میں جب بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی شروع کرتے ہیں مختلف سیاسی جماعتیں شور شرابا شروع کردیتی ہیں۔ اس کی مثال ابھی دو دن قبل بھی سامنے آئی جب وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی کے مسئلے پر پریس کانفرنس کی، اسی رات پولیس اور رینجرز نے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر درجنوں مشکوک افراد گرفتار کرلیے جس کے خلاف پریس کانفرسیں شروع ہوگئیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھتا خوروں اور ہدفی قاتلوں کی سیاسی وابستگیاں ہیں۔ ڈی جی رینجرز سندھ میجر رضوان نے بھی سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ کراچی میں جرائم پیشہ افرادکی سیاسی وابستگیاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی اور قبضے کی جنگ لڑی جارہی ہے…… ہر جماعت اپنے علاقے میں دوسری جماعت کی انٹری سے خوف زدہ ہے۔ یوں سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں عوام مارے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی خاموش تماشائی بن کر سب کچھ دیکھ رہی ہے کیوں کہ اس اقدام سے زرداری مارکہ ’مفاہمتی سیاست‘ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب بھی ٹارگٹ کلر پکڑے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں واویلا کرتی ہیں کہ ہمارے بے گناہ کارکن پکڑے گئے ہیں۔

اس صور تحال کے پیش نظر کراچی میں کسی بھی کارروائی سے قبل حکومت کو سیاسی جماعتوں سے مل کر اتفاق رائے حاصل کرنا ہوگا۔ تاکہ آپریشن کے دوران کوئی بھی جماعت اسے انتقامی کارروائی نہ قرار دے سکے۔ دوسرا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیا جائے۔ تیسرا، پولیس کو بااختیار بنایا جائے اور اس کے کام میں سیاسی مداخلت بالکل بند کی جائے۔ کیوں کہ پولیس مجرموں اور ان کے ٹھکانوں سے بخوبی واقف ہے، لیکن اسے سیاسی مداخلت کے باعث ناکارہ کردیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں، ہدفی قاتلوں اور بھتا خوروں کو تحفظ فراہم کیا تو پھر حکومتی کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے مگر اس مسئلے کا سیاسی حل نکالا جانا بھی ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مجبوریاں اپنی جگہ، مگر اب یہ شہر مزید خوں ریزی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے میثاق پر دستخط کرائے جائیں ور اس آپریشن کی نگرانی کے لیے ایک بااختیار کمیٹی بنائی جائے، جو اس ساری صورت حال پر نظر رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی میں بڑھتی بدامنی کے آگے بند نہ باندھا جاسکے۔ بہر صورت حکومت جو بھی فیصلہ کرے لیکن اس میں اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔کیوں کہ حکومتی غفلت اور سستی کے باعث پہلے ہی ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو فوری طور پر حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب صرف خالی خولی دعوؤں، پریس کانفرنسوں اور بیانات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ شہرِقائد کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگرصوبائی حکومت نے اب بھی اپنی سابقہ روش برقرار رکھتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، تو پھر خدشہ ہے کہ کوئی بڑا انسانی المیہ نہ رونما ہوجائے۔

Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Read More Articles by Usman Hasan Zai: 111 Articles with 86331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.