سکندر کا احتجاج

 ۱۵ آگست۲۰۱۳کی شام پانچ بجے سے چھ بجے کے درمیان سکندر نامی شخص اپنی بیوی کنول اور اپنے دو بچوں کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہُوا،اور بلیو ایریا کے ریڈ زون میں جاکہ مجبوراََ گاڑی روک دی ،مجبوراََکا لفظ اس لیئے استعمال کِیا ہے کہ مقامی پولیس نے جب اُسے روکنا چاہا تو وہ نہیں رُکا، جس کے بعدپولیس کو سکندر کی گاڑی اپنی گاڑی سے ٹکرا کے زبردستی روکنی پڑی،لیکن سکندر نے وہاں ہوائی فائرنگ شروع کردی،سکندر کے پاس ایک ایس ایم جی اور ایک کلاشنکوف تھی،تھوڑی ہی دیر میں وہاں اسلام آبادپولیس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے نمائندے اور اسلام آباداورراولپنڈی کے لوگوں کا ہجوم بھی جمع ہونا شروع ہو گیا،اور بعد میں وہاں رینجرز بھی بھیج دی گئی ۔سکندر کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں دین اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں،اور پاکستان کی موجودہ کرپٹ حکومت ختم کی جائے،اور قرآن و سُنت کے مطابق نئے الیکشن کرائے جائیں۔لیکن اُنکے پاس اپنی شرائط پر فوری طور پہ عمل کروانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا،اور ویسے بھی اگر یہ شرائط اور خواہش چاہے ہماری پوری قوم کی بھی کیوں نہ ہوں ، اِن شرائط کو لمحوں منٹوں یا گھنٹوں میں پورا نہیں کِیا جاسکتا تھا۔

بحر حال یہ عجیب قسم کا ڈرامہ اسلام آباد کی سڑک پرتقریبن پانچ گھنٹے جاری رہا،سکندر نے وہاں موجود لوگوں سے لیکرچینلز کی نسبت سے با خبر رہنے والے۱۸سے۲۰ کڑوڑ عوام تک کو پانچ گھنٹے کیلئے ذہنی طور پرایک خاص قسم کے حصار میں یرغمال بنا کے رکھ دیا۔پھر اُسکے بعد وہاں ایک ٹرننگ پوائنٹ کریئیٹ ہُوا،پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے زمرد خان وہاں پہنچے،اور سکندر سے بات چیت کرنے کے بہانے اُنکے قریب ہوئے،سکندر کے بچوں سے ہاتھ ملاتے وقت زمرد خان ایک دم سکندر پر جھپٹ پڑے، جس کے نتیجے میں زمرد خان نیچے گِرے اورسکندرنے اُنکی گرفت سے نکل کر پیچھے ہٹتے ہوئے کچھ فائرنگ کی ،لیکن وہ پوائنٹ پولیس کے لیئے کارآمد ثابت ہُوا،جونہی سکندر زمرد خان کے جھپٹنے کی وجہ سے ذہنی طور پر کچھ مُنتشر ہُوا،اور پیچھے ہٹتے ہوئے کچھ فائرکئے ،بلکل اُسی وقت پولیس نے بھی فائر کھول دیئے،اگلے ہی لمحے سکندر نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر سلینڈر ہو جانا چاہا،لیکن چونکہ پولیس کے فائر کُھل چُکے تھے اِس لیئے اُس سارے پراسیس کے دوران سکندر کو کچھ گولیاں لگیں اور وہ زخمی ہو کر نیچے گر گیااور کنول بھی اِسی پراسیس میں زخمی کی گئی۔پولیس نے سکندر اور اُس کی بیوی کو گرفتار کیا اور ہاسپیٹل مُنتقل کر دیا۔ اور یوں زمرد خان کے جھپٹنے سے لیکرسکندر اور اُس کی بیوی کے گرفتار ہونے تک کے ٹوٹل دومنٹ کے اندر اندر پچھلے پانچ گھنٹے سے اسلام آباد بلیو ایریا کے ریڈ زون میں چلنے والایہ ڈرامہ اختتام پذیر ہُوا۔ آخری خبر آنے تک یہ کلیئر نہیں ہو سکا ہے کہ اصلی معاملہ کیا تھا۔

سکندر،زمرد خان،میڈیا یا پولیس کے حوالے سے اس سارے واقعے کے بعدالگ الگ اور کہیں کہیں بہت عجیب عجیب تجزیے ہمارے دانشوروں ،حکومت اور عوام کیطرف سے سُننے کو ملے،کوئی کسی کے بارے میں سو پرسنٹ پازیٹو دکھائی دیا تو کوئی کسی کے بارے میں سو پرسنٹ نیگیٹو۔کوئی کسی کے حوالے سے ففٹی ففٹی نظر آیا توکوئی کسی کے حوالے سے۔بحرحال ۔۔سو مُنہ سوباتیں۔

اب اگر ہم سب سے پہلے اسلام آبادپولیس کے حوالے سے بات کریں تو یہ بات واقعئی بڑی عجیب ہے کہ پولیس کے پاس کوئی ایسی اسٹٹجی موجود نہیں تھی کہ جس پہ عمل کر کے اس سارے معاملے کوجلد سے جلد وائنڈ اَپ کِیا جاتا۔، اور بات صرف پولیس کی بھی نہیں ہے،اس وقت ہمارے پورے مُلک میں۱۵ سے زائد قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں،جس میں سندھ پولیس ،پنجاب پولیس ،بلوچستان پولیس ،کے پی کے پولیس ،رینجرز،بارڈر پولیس،لیویز فورس،ایف سی،فرنٹیئرکانسٹیبلری،چترال بارڈرپولیس،فوج،گلگت بلتستان پولیس،آزاد کشمیر پولیس،اے این ایف،ایف آئی اے،کسٹم اوراسی طرح کے دیگر قومی ادارے بھی ہر صوبے میں موجود ہیں،اور کام کر رہے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا کسی کہ پاس بھی ایسا لائے عمل اختیار کرنے کیلئے موجود نہیں تھا ،کہ جس کی مدد سے ہم اس معاملے کو جلد سے جلد وائنڈ اپ کر پاتے؟

اتنے سارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں بھی ہم اس سارے معاملے کو جلد وائنڈ اپ نہیں کر پائے،یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔لیکن اس سارے مسئلے کے طویل ہوجانے کی وجہ کا پہلہ پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام ٓبادپولیس کسی بھی قسم کے ایکشن کیلئے اوپر سے احکامات آنے کے انتظار میں رہی، اسلام آباد پولیس سول ایڈمنسٹریشن کیطرف دیکھتی رہی اور سول ایڈمنسٹریشن وزیرداخلہ کی طرف۔حاصل یہ کہ ہر کوئی اُوپر سے آنے والے کسی خاص قسم کے احکامات کے انتظار میں رہا۔ اسی لیئے یہ سارا معاملہ طول پکڑ گیا۔دوسرا پہلو یہ تھا کہ اسلام آباد پولیس یہ دیکھ چُکی تھی کہ سکندر کوئی نقصان نہیں پُہنچا رہاصرف اُس سے نقصان پُہنچنے کا اندیشہ ہے،اور وہ اندیشہ بھی سب سے زیادہ سکندر کے بیوی بچوں کے حوالے سے تھا،کیوں کہ وہ آدمی ذہنی طور پر نارمل نظر نہیں آرہا تھا،ویسے بھی ایک اسٹڈی کے مطابق پچھلے سات آٹھ سالوں میں پاکستان میں سائیکالوجیکل ڈپریشن کا ریشودُگنہ بلکہ تِگنہ ہُوا ہے،اور اس ڈپریشن کا شکار کہیں نہ کہیں شاید سکندر میں اور آپ بھی ہیں۔

پولیس سکندر کے بیوی بچوں کو کوئی نقصان پُہنچائے بغیر سکندر کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی تھی،اور یہ حُکم اُنہیں وزیرداخلہ کی طرف سے بھی مِلا ہُوا تھا۔

تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ ویسے تویہ قصہ شروع ہونے کے بعدشاید بہت جلد وائنڈ اپ کر لیا جاتا،اگروہاں میڈیا نے لائیو کوریج کے لیئے اپنے کیمرے نسب نہ کئے ہوتے،میڈیا کی کیمرائیں اور صحافی سکندرسے ۵۰گزکے فاصلے پہ کھڑے ہوکر سارا ماجرہ دُنیا کو دِکھا رہے تھے،اوراِسکے نقصان کا ایک پہلو یہ ہے کے اس کے رزلٹ میں پولیس کو اپنا کام کرنے میں دُشواری کیساتھ کیساتھ پوری دُنیا میں پاکستان کی بد نامی ہوئی،ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان صاحب سب کو کہہ رہے تھے کے آپ کم سے کم ۳۵۰گز کے فاصلے پہ چلے جائیں تاکہ ہمیں کام کرنے میں آسانی ہو،لیکن کسی نے ایک نہ سُنی۔ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان صاحب کا کردار قابلِ تعریف ہے،اُنہیں اور اُنکی فورس کوایک ہی وقت میں سکندر میڈیا اور عام شہریوں کے ہجوم کو ہینڈل کرنا پڑ رہا تھا۔

میڈیا کی وہاں اِس حد تک کوریج دینے کادوسرا نقصان یہ ہُوا کہ پولیس اپنی طرف سے کوئی ایکشن نہیں کر پائی،اور ویسے بھی پولیس ہو یا پھر کوئی بھی فورس ہو،وہ کم سے کم پوری دُنیا کے سامنے آن کیمرہ ایکشن نہیں دے گی،کیونکہ اُس کے بدلے میں کوئی نقصان ہونے کی کنڈیشن میں آن ڈیوٹی پولیس افسران اپنی نوکری سے ہاتھ دَھو بیٹھتے،چیف جسٹس صاحب سوموٹو ایکشن لے لیتے اور میڈیا ماتم کرنا شروع کر دیتا۔ورنہ میرے خیال میں ہماری پولیس ہزاروں خامیوں کے باوجودبھی اتنی صلاحیت ضروررکھتی ہے کہ اِس معاملے کو جلد وائنڈ اپ کرلیتی۔

اب ہم آتے ہیں میڈیا کیطرف،میرے خیال میں میڈیا کا کردار میں اُوپربیان کر چُکا ہوں،کہ اُن کے وہاں ہونے سے اور اِس لیول کی کوریج دینے سے صرف نقصان ہی ہُوا۔بیس بیس منٹ تک سکندر اور اُسکی بیوی سے فون پہ بات کر کہ اور پوری دُنیا کے سامنے اُنکا پیغام پُہنچا کے میڈیا نے بلاوجہ سکندر جیسے ذہنوں کے سامنے سکندر کوہیرو بننے کا موقع فراہم کِیا۔کیونکہ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ ہماری قوم غلط کو سہی اور سہی کو غلط کہنے اور سمجھنے کی ماہر ہے،اور ویسے بھی میڈیا کی لائیو کوریج کی وجہ سے پولیس کو سکندر سے کُھل کے بات چیت کرنے اور کسی بھی قسم کا ایکشن لینے میں کافی پرابلم ہوئی،جس کا نتیجہ پوری قوم کو پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے بُھگتنہ پڑا۔مجھے اندازہ ہے کے وہاں موجود میڈیا کے نُمائندوں کو اپنے چینل کی ریٹنگ اور اپنی نوکری بہتر سے بہتر کرنے کا مسئلہ لاحق تھا،لیکن اُس کے باوجود بھی میڈیا سیکٹر کے لوگ اگر وہاں کافی فاصلے پہ رہ کر اپنے چینلز کو صرف اور صرف خبر پُہنچانے کا کام کرتے رہتے تو اچھا تھا۔

زمرد خان کے حوالے سے بھی عجیب عجیب باتیں سُننے میں آ رہی ہیں،ہمارے بیشتر دانشوراور حکومت کے زیادہ ترلوگ اُنکے اِس ایکشن کواپنی عجیب وغریب قسم کی پولیٹیکل یاپھرکسی اور قسم کی بلاوجہ والی جیلیسی کی بُنیاد پراُنہیں بیوقوف قرار دے رہے ہیں،نہ جانے کیوں وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ سکندر کے معاملے میں ہمیں کامیابی زمرد خان کے ایکشن کے بعد ہی مل سکی تھی،اور کامیابی صرف کامیابی ہوتی ہے،اِس میں لیکن،اگر،مگر نہیں ہوتا۔یہ سچ ہے کے زمرد خان کو اُنکے ایکشن کے ری ایکشن میں ہونے والے نقصانات کو ذہن میں رکھنا چاہیئے تھا،لیکن یہ بھی طے ہے کہ اِن معاملوں میں زیادہ ذہن لگانے والے کبھی بھی کارنامے سرانجام نہیں دے پاتے۔بحرحال جو بھی ہُوا،حقیقت تو یہ ہے کہ زمرد خان ہی اِس سارے معاملے میں عوام کے ہیرو قرار پائے۔کیونکہ ہیرو ہمیشہ وہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے و لین کو نقصان پُہنچے اور وہ ناکامیاب ہو۔

اب ہم بات کرتے ہیں سکندر کے بارے میں،سکندر کے حوالے سے الگ الگ رپورٹیں اورتجزیے سامنے آرہے ہیں،کہیں اُس کا تعلق ماضی میں کسی جہادی تنظیم سے بتایا جا رہا ہے تو کہیں کسی سیاسی پارٹی سے۔کہیں وہ نیم پاگل کہلایا جا رہا ہے تو کہیں کسی مُلک دُشمن ایجنسی کا ایجنٹ۔ اصل حقیقت تو اﷲ ہی جانتا ہے۔ویسے اگرایک لمحے کے لیئے سو پرسنٹ پازیٹو سوچ رکھ کردیکھا جائے تو سکندرمیری اور آپ کی طرح ایک عام پاکستانی ہے،اُس نے ہمارے مُلک میں موجودبھوک،افلاس،بدامنی،دہشت گردی، بیروزگاری، غیر اسلامی نظام،کرپشن اور دیگرمُشکلات اور حالات کواپنے انداز سے محسوس کِیا،اور اُس کا احتجاج اُس نے اپنی عقل اور علم کے مطابق ریکارڈکروایا۔بِلکل اُسی طرح جس طر ح کوئی کالم نگار کالم لکھ کر،کوئی شاعر نظم کہہ کر،کوئی ڈرامہ نگار ڈرامہ لکھ کراور کوئی مُصّورتصویر بنا کر اپنی عقل اور علم کے مُطابق ریکارڈ کرواتا ہے۔

لیکن اِس کے رزلٹ میں یہ ہُواکہ سکندر نے پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے بغیر کوئی ظاہری نقصان پُہنچائے پوری قوم کو ذہنی طور پر یرغمال بنائے رکھا،اور ہمارے مُلک کو پوری دُنیا کے سامنے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ آئندہ بھی اِس حوالے سے رپورٹیں آتی رہیں گی ،لیکن ہم ہمارے مُلک کے ہر معاملے اور ہر کیس کی طرح اِس معاملے اور اِس کیس میں بھی سچ اور جھوٹ کی پُلصراط پر ہمیشہ ہمیشہ لٹکے رہیں گے۔
Nadeem Gullani
About the Author: Nadeem Gullani Read More Articles by Nadeem Gullani: 13 Articles with 8618 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.