سات ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کے
حوالے سے خصوصی تحریر
ایک تحقیقی وتاریخی مطالعہ
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے والی قرار داد........ تاریخی
حقائق کیا کہتے ہیں؟
”ایک جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ لوگ اُسے سچ سمجھنے لگیں۔“ہٹلر کے
وزیراطلاعات جوزف گوئبلزکا یہ مقولہ آج ایک ایسے مستقل شیطانی حربے کی شکل
اختیار کرچکا ہے جس کا دائرہ کار اب سیاسی کارکنان، قائدین اور ارباب
اقتدار تک ہی محدود نہیں رہا،بلکہ مخصوص مذہبی و دینی شخصیات،صاحب علم و
دانش اور کچھ نام نہاد محققین بھی اِس کی لپیٹ میں آچکے ہیں،المیہ یہ ہے کہ
اِس ”جھوٹ“ کی شرانگیزی میں اُس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب جھوٹ بولنے
والا دینی عالم وفاضل،شیخ الحدیث اور منصب افتاء پر فائز ہو اور اچھی طرح
جانتا ہو کہ ایک مومن دیگر اخلاقی کزوریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہونے کے
باوجودکبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا ہے،دین اسلام جھوٹ،غیبت اورمنافقانہ طرز عمل
کی سختی سے ممانیت کرتا ہے،مگر ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سچائی
کو چھپانے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں،حقیقت کو جھٹلاتے ہیں،تاریخ کو مسخ
کرتے ہیں اورلغو ومن گھڑنت تاریخ سازی کرکے اپنی کوتاہیوں،بداعمالیوں اور
قومی و ملی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں،اِس طبقہ فکر میں خاص طور
پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے 1857ءکی جنگ ِآزادی سے لے کر 1947ءمیں
قیام پاکستان تک، انگریز اور ہندؤ بنیئے کی خدمت و کاسہ لیسی کی،اسلامی
تعلیمات کی نت نئی توضیح وتشریح پیش کی،اسلامی نظریہ قومیت(مسلم قومیت) کے
مقابلے میں” اوطان“ کو قومیت کا ماخذ قرار دیا،متحدہ قومیت کا راگ
الاپا،ہندؤ مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگائے،اُنہیں مساجدکے منبر وں پر
بیٹھایا،اُن کی خوشنودی کیلئے مسلمانوں کو شعائر اسلامی سے روکنے کے فتوے
دیئے ،علیٰ الاعلان کانگریس کا ساتھ دیا،نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان
کی بھر پور مخالفت کی اور نہ صرف مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت مسلم
لیگ کی راہ_ میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ پاکستان کو ”پلیدستان“ اور قائد
اعظم محمد علی جناح کو”کافراعظم“ تک قرار دیا،کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ
”کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی ”پ“بناسکے۔“
اِن لوگوں کی بداعمالیاں کسی سے مخفی نہیں،تاریخ کے صفحات اِن کے سیاہ
کارناموں سے بھرے پڑے ہیں،مگر جب 14اگست 1947ءکوقیام پاکستان نے اُن کے
تمام مذموم عزائم اور ناپاک ارادوں کو خاک میں ملادیا، تواُن کے پاس اِس کے
سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ اپنے اکابرین کے شرمناک کرداروعمل کو چھپایا
جائے،اُن کے منفی کردار وعمل پر پردہ ڈالا جائے،چنانچہ انہوں نے منظم انداز
میںتاریخ کو نئے سانچے میں ڈھالنے کے کام شروع کردیااور اپنی شرمندگی،خجالت
اورقومی جرائم کو چھپانے کیلئے حقائق کو مسخ کرکے نئی تاریخ سازی کی
ابتداءکی جوآج بھی باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت جاری ہے۔ حال یہ ہے کہ
آج ہمارے تعلیمی نصاب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں،تعلیمی نصاب کی
شکل بگاڑی دی گئی،نتیجہ ہماری نئی نسل اپنی ہی حقیقی تاریخ سے بے بہرہ
ہے،آج ہمارا تعلیمی نظام اِس حد تک منقسم ہے کے آپ اگر منظور شدہ تاریخ سے
روح گردانی کے مرتکب ہوئے تو اُس کی سزا امتحان میں صفر اور نتائج میں
ناکامی کے مترادف ہے،المیہ یہ ہے کہ ہم نے سوال کو جرم قرار دے دیا ہے اور
یہ فرض کر لیا ہے کے اِس ترکیب کے ذریعے شاید ہم سچ کو دبا پائیں،لیکن
سوچنے کی بات یہ ہے کے وہ عمارت جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو وہ کب تک قائم
رہ سکتی ہے، کیا جھوٹ کبھی بھی سچ کا متبادل ہو سکتا ہے۔؟کیا حقیقت ہمیشہ
جھوٹ کے پردوں میں دبی رہ سکتی ہے۔؟، ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر سچ
کبھی افشاں ہو گا تو اُس کا نتیجہ کیا نکلے گااورکیا یہ درست نہیں کہ یہ
لوگ اِس بات کی پرورش نہیں کررہے کہ ”جھوٹ سچ سے بہتر ہے۔“
آج یہ مخصوص مکتبہ فکر اپنے فائدے کیلئے تاریخ کے ساتھ جو علمی بددیانتی کر
رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،مگر تاریخ کو دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے،
چاہے تاریخ فاتح ہی کیوں نہ لکھے، آج تاریخ میں تیمور فاتح اعظم ہو کر بھی
کس لقب سے مقبول ہے سب جانتے ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ” فاتح“ لکھتا
ہے۔“مگر وہ اِس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ فاتح جو تاریخ لکھتا ہے
وہ فتح ایک قوم یا ایک علاقے پر پاتا ہے ، تاریخ پر نہیں۔جبکہ سچ اپنا
راستہ خود ڈھونڈ لیتا ہے،لیکن جھوٹ کو قائم رکھنے کیلئے مزید جھوٹ بولنے
پڑتے ہیں،بدقسمتی سے پاکستان میں پائے جانے والے کچھ لوگوں نے سچ کو جھوٹ
کے کمبل میں لپیٹ رکھا ہے،مگرتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حق و باطل کے معرکے
میں آخری فتح سچ کا مقدر بنتی ہے،سچ کو شکست دینا،دبا دینا یا روک دینا کسی
بھی قوت کیلئے ممکن نہیں ہو تا،سچ دھرتی کا سینہ چیر کر نمو دار ہو جاتا ہے
اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن جاتا ہے۔
قارئین محترم !آج ہم کچھ ایسی تاریخی حقیقتیں آپ کے سامنے لارہے ہیں جس کے
بارے میں اِس مخصوص مکتبہ فکر نے علمی بددیانتی سے کام لیتے ہوئے حقائق کو
بدلنے کی کوشش کی اور اِس کا سہرا اپنے اکابرین کے سر باندھنا چاہا،مگر
بالآخر سچ سامنے آہی گیا اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن گیا۔آئیے دیکھتے
ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی تاریخ ساز قرار داد کے
حوالے سے اصل حقائق کیا کہتے ہیں۔
سات ستمبر کا دن مسلمانان پاکستان کیلئے خصوصی طور پر اور عالم اسلام میں
بسنے والے مسلمانوں کیلئے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن کی حیثیت
رکھتا ہے،یہ دن جب ہر سال لوٹ کر آتا ہے تو ہمیں اُس تاریخ ساز فیصلے کی
یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت کا بر
ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا اور اِس عظیم اور تاریخ ساز
فیصلے کی رُو سے مرزا غلام احمدقادیانی اور اُس کو ماننے والی تمام ذرّیت
(احمدی اور لاہوری گروپ) کو کافر قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے
دیا گیا۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ7ستمبر 1974ءکو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اِس
متفقہ فیصلے کا اصل محرک علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی تیار کردہ وہ قرار
داد تھی،جو آپ نے 30جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں پیش کی،چونکہ قرار داد پیش
ہونے سے لے کر 7ستمبر 1974ءکو قرار داد کی منظوری تک ہونے والے اسمبلی کے”
اِن کیمرہ“ اجلاس تھے اوراُن کی نشرواشاعت پر پابندی تھی،اِس وجہ سے عرصہ
دراز تک اصل حقیقت پس پردہ رہی اوراِس مخصوص مکتبہ فکر نے اِس صورتحال کا
بھر پور فائدہ اٹھا کر حقائق کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی ،انہوں نے اِس
حوالے سے کئی کتابیں شائع کیں،جن میں قرار داد کے اصل محرک اور قرار داد پر
دستخط کرنے والوں کی ترتیب میں ردوبدل کرکے تاریخی حقیقت پر نہ صرف پردہ
ڈالا،بلکہ اپنے لوگوں کو ہیرو بناکر بھی پیش کیا گیا،جبکہ اصل حقیقت اِس کے
برخلاف تھی،چنانچہ ہم ذیل میں پاکستان قومی اسمبلی کے ریکارڈ کی روشنی میں
آج اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں ،مگر اِس سے قبل آپ کے سامنے اِس مخصوص
مکتبہ فکر کی چند حوالہ جات جو کہ سراسر جھوٹ،فریب اور دروغ گوئی پر مبنی
ہیں،کو پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
آئیے پہلا حوالہ دیکھتے ہیں،مولوی اللہ وسایا اپنی کتاب”تحریک ختم نبوت
“جلد سوم شائع کردہ عالمی مجلس ختم نبوت حضوری باغ ملتان جون 1995ءکے صفحہ
467 پر ”اپوزیشن کی قرار داد“کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں”قومی اسمبلی میں
آج صبح قادیانیوں کے مسئلہ سے متعلق حزب اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد
نورانی نے جو قرار داد پیش کی اور جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور
کرلیا،اُس پر اپوزیشن کے 23حاضر اور سرکاری پارٹی کے3 ارکان کے دستخط
ہیں،اُن کے نام یہ ہیں،مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا
عبدالمصطفیٰ الازہری،پروفیسر غفور احمد،مولانا سید محمد علی رضوی،مولانا
عبدالحق اکوڑہ خٹک،چودھری ظہور الٰہی،سردار شیر باز مزاری،مولانا ظفر علی
انصاری،مخدوم نورمحمد ہاشمی،صاحبزادہ احمد رضا قصوری،محمود اعظم
فاروقی،مسٹر غلام فاروق،عبدالحمید جتوئی،حاجی مولا بخش سومرو،مولانا
صدرالشہید،سردار شوکت حیات خان،مولانا نعمت اللہ، عمراخان، راؤ خورشید علی
خان،میر علی احمد تالپور....ماضی میں حکومت کا ساتھ دینے والے اپوزیشن کے
اِن ارکان نے بھی دستخط کئے،مسلم لیگ کے نواب ذاکر قریشی،کرم بخش
اعوان،غلام حیدر ڈھانڈلہ،جمعیت علماءپاکستان کے غلام حیدر بھروانہ اور
صاحبزاہ نذر سلطان۔اِس جماعت کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے
کے باوجود قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔“
قارئین محترم! مندرجہ بالا اقتباس آپ کے سامنے ہے ،جس میں کئی غلط بیانیاں
موجود ہیں،پہلی غلط بیانی یہ ہے کہ اللہ وسایا صاحب مولانا مفتی محمود کا
نام سب سے پہلے لکھ رہے ہیں،جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ سر فہرست
مولانا شاہ احمد نورانی کا نام ہے ،اپنی بات کا ثبوت ہم آگے آپ کے سامنے
پیش کررہے ہیں،دوسری غلط بیانی یہ کہ اللہ وسایا صاحب قرار داد پر دستخط
کرنے والے 23 اپوزیشن اور 3سرکاری ارکان سمیت کل 26اراکین کا ذکر کررہے
ہیں،جبکہ پاکستان قومی اسمبلی ریکارڈ(جو کہ آگے پیش ہے) یہ بتاتا ہے کہ
قرار داد پر 22ارکان نے دستخط کئے تھے،جناب رئیس عطا محمد خان مری بھی اُن
22اراکین پارلیمنٹ میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے اِس قرار داد پر دستخط
کئے،مگر مولوی اللہ وسایاکی فہرست میں رئیس عطا محمد خان مری کا نام شامل
نہیں ہے،جو اچنبے کی بات ہے،جبکہ 15ارکان اسمبلی جن کے بارے میں معتبر
روایات موجود ہیں، کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بعد میں قرار داد پر دستخط کئے
تھے،اِس طرح قرار داد پر دستخط کرنے والوں کی کل تعداد 37 ہو جاتی
ہے،26نہیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ ”نواب ذاکر قریشی،کرم بخش اعوان،غلام حیدر
ڈھانڈلہ، غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزاہ نذر سلطان “کا تعلق اُن 15ارکان سے
ہے جنھوں نے بعد میں قرار داد پر دستخط کئے تھے،اِس قتباس میں تیسری اور
چوتھی غلط بیانی جو کہ حقیقتاً سراسر جھوٹ ،فریب اورمنافقت پر مبنی ہے ،وہ
یہ کہ مولوی اللہ وسایا لکھتے ہیں کہ ”اِس جماعت( یعنی جمعیت علماءپاکستان)
کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرار داد پر دستخط
نہیں کیے۔ “
مولوی اللہ وسایا کی یہ بات خود اُن کی اپنی کتاب ”پارلیمنٹ میں قادیانی
شکست “ (جو کہ پہلے” تاریخی قومی دستاویز 1974“ کے نام سے چھپ چکی ہے) سے
ہی غلط ثابت ہوجاتی ہے، جس کے صفحہ30پر قرار داد پر دستخط کرنے والوں کی
فہرست کی ترتیب 28 پر مولانا موصوف خود لکھتے ہیں کہ ”میاں محمد ابراہیم
برق “نے بعد میں قرار داد پر دستخط کئے تھے،اِس مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ مولوی اللہ وسایا صاحب ایک طرف میاں محمد ابراہیم برق کی آڑ لے کر جمعیت
علماءاسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم کے قادیانیوں کو
غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرار داد پر دستخط نہ کرنے کے شرمناک عمل پر
پردہ ڈالنا چاہتے ہیں،جنھوں نے اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود آخر تک
قرار داد پر دستخط نہیں کئے تھے،اُن کے اِس طرز عمل کا اظہار مولانا شاہ
احمد نورانی اپنے انٹرویو میں کرتے ہوئے کہتے ہیں”ہزاروی اور اُن کے ساتھی
مولانا عبدالحکیم نے تو 30جون والی قرار داد پر دستخط تک نہیں
کیے۔“(ماہنامہ ضیائے حرم ،ختم نبوت نمبر دسمبر1974ء) اور ” جمعیت
علماءاسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم بار بار کہنے کے
باوجود یہ سعادت حاصل نہ کر سکے۔“ (ماہنامہ ضیائے حرم ،ختم نبوت نمبر
دسمبر1974ء) دوسری طرف وہ میاں محمد ابراہیم برق کو جمعیت علماءپاکستان کا
ممبر اسمبلی قرار دے کر جمعیت علماءپاکستان پر الزام تراشی کے بھی مرتکب
ہورہے ہیں،یہ درست ہے کہ غلام ابراہیم برق نے جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر
الیکشن لڑا،مگر ممبر اسمبلی بننے کے بعد اُنہوں نے بھی غلام حیدر بھروانہ
اور صاحبزاہ نذر سلطان کی طرح اپنی ہمددریاں حکومتی جماعت سے وابستہ
کرلیں،جس کی وجہ سے جمعیت علماءپاکستان نے اُن کی بنیادی رکنیت معطل کردی
تھی،اِس کے بعد بھی اللہ وسایا کا یہ لکھنا کہ اِس جماعت(جمعیت
علماءپاکستان) کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرار
داد پر دستخط نہیں کیے۔ “سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور اُن کے دلی بغض اور
مسلکی تعصب کا آئینہ دار ہے،جبکہ حقائق اور دیانت داری کا تقاضہ تو یہ تھا
کہ وہ اپنے ہم مسلک مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم کے بارے میں
سچائی سے کام لیتے ہوئے یہ لکھتے کہ”جمعیت علماءاسلام کے مولوی غلام غوث
ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم نے اِس قرار داد پر دستخط نہیں کئے ۔“ مگر
افسوس اُنہوں نے اِس حقیقت کا اظہار کرنے کے بجائے ایک نئی کہانی گھڑی اور
اصل حقائق کو چھپانے اور تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی۔
اِسی طرح مولوی اللہ وسایا اپنی کتاب ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست “ کے صفحہ
10پر مولانا شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرارداد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
”قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی نے پرائیویٹ بل اسمبلی میں پیش
کیا۔“مگر اسی کتاب کے صفحہ 29 پر”حزب اختلاف کی تاریخی قرار داد“ کی سرخی
قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’30جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرارجو پیش کی تھی،اُس کا متن
درج ذیل ہے۔“ایک ہی کتاب میں دو مختلف باتیں۔۔ ۔ ۔ ۔! پہلے مقام پر قائد
اہلسنّت مولانا شاہ احمد نورانی قرار داد پیش کرنے والے ،جبکہ دوسرے مقام
پر وہی قرار داد اپوزیشن کی قرار دادقرار پاتی ہے،عجب مخمصہ پیدا ہوتا ہے
کہ قرارداد کس نے پیش کی،مولانا شاہ احمد نورانی نے یا اپوزیشن نے۔؟یا یہ
کہ مولانا نورانی نے اپوزیشن کی جانب سے قرار داد پیش کی۔؟ہماراسوال یہ ہے
کہ اگر قرار داد مولانا نورانی کی تیار کردہ نہیں تھی بلکہ حزب اختلاف کی
جانب سے پیش کی گئی تھی تو پھر اِس قرار داد کو اپوزیشن کی جانب سے خان
عبدالولی خان کو پیش کرنا چاہیے تھا،مولانا نورانی کو نہیں،کیونکہ ولی خان
اُس وقت قائد حزب اختلاف تھے،مگر مولانا شاہ احمد نورانی کا اسمبلی میں اِس
قرار داد کو پیش کرناظاہر کرتا ہے کہ مولانا نورانی ہی قرار داد کے اصل
خالق اور محرک ہیں،آپ نے خود قرار داد تیار کی ،اُس پر ہم خیال اراکین
اسمبلی کے دستخط لیے اور30جون 1974ءکو اِس ”تاریخ ساز قرار داد “کو اسمبلی
اجلاس میں پیش کردیا۔
اِس مقام پر ہم مولانا شاہ احمد نورانی کا ”ماہنامہ ضیائے حرم لاہور‘’کو
دیا گیاایک انٹرویو دیکھتے ہیں،جس میں مولانا نورانی فرماتے ہیں”اِس سال
اپریل میں،میں ورلڈ اسلامک کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گیا،اُن دنوں مکہ
معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس ہورہا تھا،ورلڈ اسلامک مشن کانفرنس
کی وجہ سے میں اُس وقت مکہ معظمہ نہیں جاسکا،لندن سے فارغ ہوکر میں مکہ
معظمہ حاضر ہوا، حاضری کاایک بڑا مقصدیہ بھی تھا کہ وہاں سے رابطہ عالم
اسلامی کی وہ قرار داد حاصل کروں جو انہوں نے قادیانیوںکے بارے میں متفقہ
طور پر منظور کی تھی،26مئی کو یہ قرار داد لے کر پاکستان پہنچا تو
قادیانیوں کا مسئلہ شروع ہوچکا تھا،ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ رابطہ
عالم اسلامی کی قرارداد کی روشنی میں قومی اسمبلی کیلئے اپنی قرار داد مرتب
کی،جس میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا مشورہ شامل تھا،یہی قرار داد ہم
نے 30جون کو اسمبلی میں پیش کی،جس پر37ارکان کے دستخط تھے۔“(ماہنامہ ضیائے
حرم لاہور،ختم نبوت نمبر ،دسمبر 1974)مولانا نورانی کا 7دسمبر1974ءکو قرار
داد کی منظوری کے تقریباً دو ماہ بعد ماہنامہ ضیائے حرم لاہور کو دیا گیا
انٹرویو واضح کررہا ہے کہ یہ قرار داد صرف اور صرف مولانا شاہ احمد نورانی
کی کوشش اور محنت شاقہ کا نتیجہ تھی،آپ ہی اِس قرار داد کے بنانے والے اور
اصل محرک ہیں،آپ ہی نے قرار داد کی تیاری کے بعد اُس پر حزب اختلاف کی
جماعتوں کے ہم خیال اراکین سے مشورہ کیا،دستخط لیے اور 30جون 1974ءکو
اسمبلی اجلاس میں پیش کردیا۔لیکن مولوی اللہ وسایا نے علمی بددیانتی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کریڈٹ مولانا نورانی کو دینا پسند نہیں کیا بلکہ
اپوزیشن کی قرار داد کا لفظ استعمال کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قرار
داد اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔
اِس مقام پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ”محرک“کے معنی تحریک دینے
والے،اُبھارنے والے یا اُکسانے والے کے ہوتے ہیں،یعنی کسی کام کا تحرک پیدا
کرنے یا تحریک دینے والے اور اُس کام کیلئے ابھارنے اور اُکسانے والے
کو”محرک“کہتے ہیں،مشاہدہ شاہد ہے کہ کسی کام کیلئے تحرک پیدا کرنے
والا،تحریک دینے والا اور ابھارنے یا اُکسانے والا ایک ہی فرد ہوتا ہے،باقی
لوگ جو اُس کی حمائت کرتے ہیں ،تائید کرنے والے کہلاتے ہیں،اِس لحاظ سے
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرار داد کے اصل محرک مولانا
شاہ احمد نورانی ہیں،باقی قرار داد پر دستخط کرکے مولانا نورانی کے موقف کی
حمایت کرنے والے ”مویدین“ یعنی تائید کرنے والے ،مدد گار و معاون
ہیں،چنانچہ اصولی طور پراِنہیں محرکین ِ قرار داد قرار دینا درست نہیں ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اِس مخصوص مکتبہ فکر کے تمام نام نہاد
محقق اور اہل قلم اِس اہم اور بنیادی نکتہ کو دانستاً گول کر جاتے ہیں کہ
قرار داد کااصل محرک کون ہے،آپ کواِس موضوع پر شائع شدہ کسی بھی کتاب میں
اِس سوال کا جواب نہیں ملے گا،نہ ہی یہ لوگ قرار داد پیش کرنے والوں کے
ناموں کی درست ترتیب سامنے لاتے ہیں،آپ کو تحریک ختم نبوت،جلد سوم“صفحہ
467سے لے کر ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست“صفحہ 30“،”قادیانی فتنہ اور ملت
اسلامیہ کا موقف“مرتبہ مفتی محمد تقی عثمانی و مولانا سمیع الحق،ادارہ
المعارف کراچی،صفحہ29اور تاریخی دستاویز“ مرتبہ مولانا عبدالقیوم مہاجر
مدنی کے صفحہ538تک ایک ہی ترتیب ملے گی،سب نے اصل فہرست میں ردوبدل کرکے
مولانا مفتی محمود کا نام سرفہرست یعنی پہلے نمبر اور مولانا شاہ احمد
نورانی کا نام تیسرے نمبر پر لکھا ہے،سب کے سب 22ارکان کو قرار داد کا محرک
قرار دیتے ہیں اور مولانا شاہ احمد نورانی جو کہ قرار داد کو تیار کرنے
والے اور اصل محرک ہیں،کو ترتیب میں تیسرے نمبر پر رکھتے ہیں،جبکہ قومی
اسمبلی ریکارڈ کے مطابق مولانا شاہ احمد نورانی کا نام پہلے نمبر اور
مولانا مفتی محمود کا نام تیسرے نمبر پر ہے۔
اِس ریکارڈ کے مطابق 30جون 1974ءبروز اتوار،اسٹیٹ بینک بلڈنگ اسلام آباد
میں قومی اسمبلی کا اجلاس وقفے کے بعد اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان کی
زیر صدارت شروع ہوتا ہے، جس میں اسپیکر قومی اسمبلی مولانا نورانی کو قرار
داد پیش کرنے کیلئے کہتے ہیں،مولانا شاہ احمد نورانی اسپیکر کی اجازت سے
قرار داد اسمبلی میں پیش کرتے ہیں،جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا جاتا
ہے،اُس قرار دادپر 22اسمبلی ممبران کے دستخط مندرجہ ذیل ترتیب سے
ہیں۔1۔مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی،2۔مولوی مفتی محمود،3۔مولانا
عبدالمصطفیٰ الازہری،4۔پروفیسر غفور احمد،5۔مولانا سید محمد علی
رضوی،6۔مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،7۔چوہدری ظہورالٰہی،8۔سردار شیر باز
مزاری،9۔مولانا ظفر احمد انصاری،10۔مولانا صدر الشہید،11۔صاحبزادہ احمد رضا
قصوری،12۔جناب محمود اعظم فاروقی،13۔مولانا نعمت اللہ صاحب،14۔جناب عمرا
خان،15۔ جناب غلام فاروق،16۔سردار مولا بخش سومرو،17۔جناب رئیس عطا محمد
مری،18۔مخدوم نور محمد ہاشمی،19۔سردار شوکت حیات خان،20۔جناب علی احمد
تالپور،21۔جناب عبدالحمید جتوئی،22۔راؤ خورشید علی خان۔ذیل میں ہم ثبوت کے
طور پر قومی اسمبلی ریکارڈ سے مولانا شاہ احمد نورانی کی 30جون1974ءکی
اسمبلی میں پیش کردہ قرار داد اور قرار داد پر دستخط کرنے والوں کے ناموں
کی فہرست پیش کررہے ہیں(دئکھئے)
The National Assembly Of Pakistan Debates(Third Session of 1974)Vol.IV
Contains Nos.14 to 26 Sunday The 30th June 1974
جس سے واضح ہورہا ہے کہ یہ لوگ اصل حقائق کو مسخ کرتے ہیں اور اپنے مکتبہ
فکر کے افراد کو اِس قرار داد کا سرخیل بناکر پیش کرتے ہیں،ہماری بات کی
تائید مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی کی مرتب کردہ کتاب”تاریخی دستاویز“ کے
اِس اقتباس سے ہوتی ہے،جس میں بڑی خوبصورتی سے حقائق کو توڑمروڑ کرکے پیش
کیا گیا ہے،مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی لکھتے ہیں”اللہ ربّ العزت کا فضل
واحسان کے بموجب1970ءمیں جمعیت علمائے اسلام کی مثالی جدوجہد سے مفکر اسلام
مولانا مفتی محمود،شیراسلام مولانا غلام غوث ہزاروی،شیخ الحدیث مولانا
عبدالحق،مولانا عبدالحکیم،مولانا صدر الشہیداور دیگر حضرات قومی اسمبلی کے
ممبر منتخب ہوئے،جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم برسراقتدار آئے،قادیانیوں نے
1970ءمیں پیپلز پارٹی کی دامے،درمے اور افرادی مدد کی،قادیانیوں نے پھر پَر
پرزے نکالے،29مئی 1974 ءکو چناب نگر ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج
ملتان کے طلباءپر قاتلانہ حملہ کیا،اِس کے نتیجے میں تحریک چلی،اسلامیان
پاکستان ایک پلیٹ فارم مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان پر جمع ہوئے،جس کی
قیادت دیوبند کے مردِ جلیل محدث ِکبیر مولانا سید محمد یوسف بنوری نے
فرمائی اور قومی اسمبلی میں اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کا شرف حق تعالیٰ نے
دیوبند کے عظیم سپوت مفکر ِاسلام مولانا مفتی محمود کوبخشا،یوں قادیانی
قانونی طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور اُن کو غیر مسلم اقلیت قرار
دے دیا گیا۔“
(تاریخی دستاویز،مرتبہ مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی،ص 501
اِس اقتباس میں مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبدالحکیم جنھوں نے قرار
داد کی تائید کرنے سے بھی انکار کردیا تھا،کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے
ملائے جارہے ہیںاور کس ڈھٹائی سے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے مولانا مفتی محمود
کو قومی اسمبلی میں اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کا اعزاز بخشا جارہا ہے،قارئین
محترم !اِس مکتبہ فکر کیلئے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے،اِن کی تو ساری
تاریخ ہی اِس قسم کے جھوٹ اور فریب سے بھری پڑی ہے،اِس طرح کا طرز عمل آپ
کو اِن کے یہاں جابجا نظرآئے گا،آج یہ لوگ تحریک ختم نبوت 1974 ءکی عظیم
الشان کامیابی کا تمام تر کریڈٹ اور سہرا مولانا یوسف بنوری ،مفتی محمود
اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مرتب کردہ قرار داد پر دستخط نہ کرنے والے
مولانا غلام غوث ہزاروی،”جو 7ستمبر 1974ءکو قرارداد کی منظوری کے بعد اِس
فیصلے کا کریڈٹ بھٹو حکومت کو دیتے ہیں“
(The National Assembly Of Pakistan Debates Saturday.7th September,1974
(Third Session of 1974)Vol.V Contains Nos.27 to39
اپنی اِس کوشش میں یہ نام نہاد محققین بڑی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں،اخبارات
کے پورے کے پورے صفحات سیاہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک
ختم نبوت 1974 ءکی کامیابی اِن متذکرہ افراد کی کوششوں اور کاوشوں کی مرہون
منت ہے،لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہے،اِس میں کوئی شک نہیں مولانا یوسف
بنوری،مولانا مفتی محمود،مولانا عبدالحق وغیرہ بھی تحریک ختم نبوت 1974
ءمیں شامل تھے اور انہوں نے دیگر مکتبہ فکر کے ساتھ مل کر اِس تحریک میں
حصہ لیا،لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک ختم نبوت 1974
ءکو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں اصل کردار علامہ شاہ احمد نورانی
صدیقی نے ہی ادا کیا،آپ نے جس فہم و فراست اور حسن تدبر سے اِس تحریک کو
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی سطح پرمنظم کیا اور پیپلز پارٹی کے اراکین
اسمبلی سمیت تمام اراکین قومی اسمبلی اور ملک کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار
علی بھٹو کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرار داد کے حق
میں قائل کیا،وہ صرف اور صرف آپ کا ہی کارنامہ ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن صاحب اِس کارنامے کا
اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”علماءاُس سے پہلے بھی اسمبلیوں میں موجود
تھے۔مثلاً شیخ شبیر احمد عثمانی ،مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی
وغیرہما،مگر یہ سعادت ماضی میں کسی کے حصے میں بھی نہیں آئی،تاریخ پاکستان
میں پہلی بار ایک مرد حق ،پیکر صدق و صفا ،کوہ استقامت اور حاصل جرا_ت و
شجاعت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اسمبلی میں پہنچے اور فتنہ_ انکار ختم
نبوت یعنی قادیانیت کو کفر و ارتداد قرار دینے کی بابت قرار داد قومی
اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی
سطح پر فتنہ_ انکار ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دینے اور اُن کے خلاف علم
جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کو حاصل ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز انہی کی اولاد امجاد میں علامہ
شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔“(ماہنامہ کاروان قمر کراچی امام نورانی
نمبر نومبر دسمبر 2004ءص 20)اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ اعزاز مولانا شاہ
احمد نورانی صدیقی کو حاصل ہے،قومی اسمبلی کا ریکارڈ شاہد ہے کہ تحریک
ارتداد قادیانیت کے محرک صرف اور صرف مولانا شاہ احمد نورانی ہیں،مولانا
نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفی کے سردار اور تحریک ختم نبوت کے سرگرم
مجاہد و قافلہ سالار ہیں اوررب کریم نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آپ کو
منتخب فرمایا ۔قارئین محترم! یہ وہ تاریخی سچائی ہے ،جسے مخالفین نے خضاب
لگاکر جھوٹ کے پردوں میں چھپانے کی پوری کوشش کی اوراِس کاسہرا اپنے لوگوں
کے سر باندھا ،چنانچہ اِس تناظر آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مخالفین کی
جانب سے ڈالے گئے جھوٹ اور مکروفریب کے دبیز پردوں ہٹا کرتاریخی حقیقت کو
سامنے لایا جائے اور نئی نسل کے اذہان میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو
دور کرکے انہیں بتایا جائے کہ سچ وہ نہیں جو بیان کیا گیا بلکہ وہ ہے جو
چھپایاجارہا ہے۔ |