حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی
تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں
اسلام میں مجھ پر تین ایسی بڑی مصیبتیں آئی ہیں کہ ویسی کبھی بھی مجھ پر
نہیں آئیں۔ ایک تو حضور ﷺ کے انتقال کا حادثہ کیونکہ میں آپ ؐ کا ہمیشہ
ساتھ رہنے والا معمولی ساتھی تھا۔ دوسرے حضرت عثمان ؓ کی شہادت کا حادثہ،
تیسرے توشہ دان کا حادثہ۔ لوگوں نے پوچھا اے ابو ہریرہ ؓ ! توشہ دان کے
حادثہ کا کیا مطلب ہے ؟ فرمایا ہم ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپ ؐ
نے فرمایا اے ابو ہریرہ ؓ تمہارے پاس کچھ ہے؟ میں نے کہا تو شہ دان میں کچھ
کھجوریں ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا لے آؤ، میں نے کھجوریں نکال کر آپ ؐ کی خدمت
میں پیش کر دیں۔ آپ ؐ نے ان پر ہاتھ پھیرا اور برکت کے لیے دعا فرمائی پھر
فرمایا دس آدمیوں کو بلا کر لاؤ، میں دس آدمیوں کو بلا لایا۔ انہوں نے پیٹ
بھر کر کھجوریں کھائیں پھر اسی طرح دس آدمی آ کر کھاتے رہے۔ یہاں تک کہ
سارے لشکر نے کھا لیا اور تو شہ دان میں پھر بھی کھجوریں بچی رہیں۔ آپ ؐ نے
فرمایا ابو ہریرہ ؓ جب تم اس توشہ دان میں سے کھجوریں نکالنا چاہو تو اس
میں سے ہاتھ ڈال کر نکالنا اور اسے الٹانا نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے
ہیں میں حضور ﷺ کی ساری زندگی میں اس سے نکال کر کھاتا رہا پھر حضرت ابوبکر
ؓ کی ساری زندگی میں اس سے کھاتا رہا۔ پھر حضرت عمر ؓ کی ساری زندگی میں اس
میں سے کھاتا رہا۔ پھر حضرت عثمان ؓ کی ساری زندگی میں اس میں سے کھاتا رہا۔
پھر جب حضرت عثمان ؓ شہید ہو گئے تومیرا سامان بھی لٹ گیا اور وہ تو شہ دان
بھی لٹ گیا۔ کیا میں آپ لوگوں کو بتانہ دوں کہ میں نے اس میں سے کتنی
کھجوریں کھائی ہیں؟ میں نے اس میں سے دو سووسق یعنی ایک ہزار پچاس من سے
بھی زیادہ کھجوریں کھائی ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں میری والدہ مجھے حضور ﷺ کے پاس لے گئیں اور
عرض کیا یا رسول ﷺ یہ آپ ؐکا چھوٹا سا خادم ہے اس کے لیے دعا فرمادیں تو
حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی۔ اے اﷲ ! اس کے مال اور اولاد کو زیادہ فرما اور
اس کی عمر لمبی فرما اور اس کے تمام گناہ معاف فرما۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں
میں اپنے دوکم سو یعنی۹۸بچے دفن کر چکا ہوں یا فرمایا دو اوپر سو یعنی ۱۰۲بچے
دفن کر چکا ہوں اور میرے باغ کا پھل سال میں دو مرتبہ آتا ہے اور میری
زندگی اتنی لمبی ہو چکی ہے کہ اب زندگی سے دل بھر چکا ہے (۹۳ہجری میں ان کا
بصرہ میں ۱۰۳سال کی عمر میں انتقال ہوا)اور حضور ﷺ کی چوتھی دعا کے پورا
ہونے کا مجھے یقین ہے یعنی گناہوں کی مغفرت کی دعا۔
قارئین آج کاکالم ہم ایک عجیب کیفیت کے اندر لکھ رہے ہیں آپ نے اکثر برسات
کے موسم میں یا کسی بھی موسم میں دھوپ اوربارش کے امتزاج سے ایک نیا موسم
جنم لیتے ہوئے دیکھا ہوگا آپ نے برہم اور خوش مزاجوں کے دوران آنکھوں سے
بہتے ہوئے آنسو اور مسکراتے ہوئے ہونٹوں کی متضاد کیفیت کو دیکھا ہوگا آج
ہمارے اُوپر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہے قوس وقذح کے رنگ جب فضاؤں میں
بکھرتے ہیں تو اس کی خوبصورتیاں دیکھنے والی تمام نگاہوں کو اپنے سحر میں
گرفتار کرلیتی ہیں لیکن دیدہ بینا اور دردآشنا دل جانتے ہیں کہ کتنی بدلیوں
کی آنکھیں نم ہوتی ہیں اور کیسے مہربان دھوپ نم ہوتی ہوئی ان بدلیوں سے
بکھرنے والے فضا میں موجود پاکیزہ آنسوؤں کو رنگوں کی ایک کہکشاں میں تبدیل
کردیتی ہے آج کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے دل ونگاہ کی ہے آج منگلاڈیم کو یہ
اعزاز حاصل ہوچکا ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا آبی زخیرہ بن چکاہے گزشتہ
چالیس سال منگلاڈیم کو ہمیشہ تربیلا ڈیم کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا آبی
زخیرہ کہاجاتاتھا تربیلا ڈیم میں مکمل استعداد کے مطابق پانی جب بھر
لیاجاتاہے تو اس کی مقدار 65لاکھ ایکڑ فٹ بنتی ہے آج منگلاڈیم 1239فٹ کے
لیول تک جا پہنچا ہے جو ڈیڈ لیول سے صرف تین فٹ کم ہے اور موجودہ لیول پر
اس میں زخیرہ شدہ پانی کی مقدار 70لاکھ ایکڑ فٹ سے زائد ہوچکی ہے 1210فٹ سے
بڑھا کر منگلاڈیم کو 1242تک ریز کیاگیا اور ماہرین کے اعدادوشمار کے مطابق
اس ریزنگ کے بعد ہر سال منگلاڈیم سے وطن عزیز کو بجلی اور پانی کی مد میں
60ارب روپے سے زائد کا کم از کم فائدہ ہوگا دیگر فوائد کا تخمینہ ابھی
لگانا باقی ہے علامہ اقبال ؒ نے خون ِ صد ہزار انجم سے سحر پیداہونے کی ایک
تمثیل اپنے اشعار میں استعمال کی جو امر ہوگئی اس تمثیل میں علامہ اقبالؒ
امت مسلمہ اور ہر مایوس انسان کو پیغام دیتے ہیں کہ موجودہ کٹھن حالات سے
ہر گز پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ فطرت کا یہ کھیل ہے اور روزانہ کا
معمول ہے کہ ہزار ہا نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں اور اربوں ستاروں کے قربان
ہونے سے خوبصورت سحر نمودار ہوتی ہے منگلاڈیم کی صورت میں پاکستان کی مانگ
کو ستاروں سے مزین کرنے کیلئے میرپور کے ان پڑھ ،دیانت دار اور سادہ مزاج
لوگوں نے 1960کی دہائی میں بھی پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی مستقل ہجرت
اختیار کی تھی اور آج 2013میں تقریبا ً 50سال بعد اہل میرپور کی تیسری نسل
نے ایک مرتبہ پھر ہجرت کا کرب برداشت کیا لیکن وطن عزیز کو چراغوں سے سجانے
کیلئے ایک مثال قائم کردی ایک ناقابل فراموش اور قابل تقلید مثال ۔۔۔جی ہاں
ناقابل فراموش اور قابل تقلید مثال ۔۔۔پاکستان کے تمام صوبوں اور تمام
علاقوں کے لوگوں کو اہل میرپور نے دوسری مرتبہ یہ عملی پیغام دے دیا کہ یہ
وطن یہ ملک اتنا قیمتی ہے کہ اس کیلئے ہم اپنی قیمتی ترین متاع اپنے
آباؤاجداد کی قبریں ،اپنی جائیدادیں ،اپنے کاروبار اور سب سے قیمتی اپنی
یادیں منگلاڈیم کے پانی کی نذر کرسکتے ہیں صرف اس خواہش اورحسرت کیلئے کہ
یہ وطن تاقیامت رہے ترقی کرے اور سلامت رہے اب کالا باغ ڈیم بھی بننا چاہیے
،اب بھاشا ڈیم بھی بننا چاہیے ،اب کرم تنگی ڈیم بھی بننا چاہیے ،اب پاکستان
بھر میں سینکڑوں ڈیم بننے چاہئیں ۔
قارئین آئیے علمی بنیاد وں پر چند باتیں سمجھتے جائیں منگلاڈیم بنانے کا
منصوبہ جنرل ایوب خان نے بنایا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا منگلاڈیم
بناتے ہوئے جنرل ایوب خان کی حکومت ،واپڈا اور آزادکشمیر حکومت نے اجڑنے
والے ہزاروں اہل میرپور سے ’’معاہدہ منگلاڈیم ‘‘کی شکل میں کچھ وعدے کیے
چند وعدے پورے ہوئے اور اکثر سراب بن کر عذاب بنے شباب گزر گئے نسلیں مٹی
میں مل گئیں وہ وعدے وفانہ ہوسکے ان وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اہل
میرپور کو اس عظیم قربانی کے اعتراف میں تاحیات بجلی مفت فراہم کی جائے گی
ان وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اجڑنے والے خاندانوں کو صحت تعلیم اور
زندگی کی بنیادی ضروریات سبسڈی یعنی رعایتی نرخوں پر فراہم کی جائیں گی علی
ہذالاقیاس جتنے منہ اتنی باتیں یہ معاہدہ لکھے جانے کے فوراً بعد سینہ گزٹ
سے پھیلنے والی اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے بھیجے گئے لینٹ
آفیسر یعنی چیف سیکرٹری ایک مقدس دستاویز سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے اوروہ
دن ہے اور آج کا دن مجنوں لیلیٰ کے انتظار میں ہے نہ لیلیٰ کو آنے
دیاجارہاہے اور نہ ہی بیقرار مجنوں کا بڑھتا جنون کم ہونے کا نام لے رہاہے
اس سلسلہ میں ایک انتہائی معتبر شخصیت چیف جسٹس ریٹائرڈ آزادجموں کشمیر
ہائی کورٹ جسٹس عبدالمجید ملک نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر کے
مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘میں استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے تاریخی رازوں سے پردہ ہٹایاتھا جسٹس
ملک کا کہنا تھا کہ معاہدہ منگلاڈیم ایک سچی دستاویز تھی جسے چند خود غرض
لوگوں نے اپنی خودغرضی کی نذر کردیا ان نااہل لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے
اہل میرپور بددل ہوئے اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں خاندان جنہیں جنوبی
پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں ان کی آبائی زمینوں کے متبادل جگہیں دی گئیں
وہ لوگ کھڑے کھڑے لٹ گئے ان کے خاندان بکھر گئے اور تسبیح کے دانوں کی طرح
ایک ایک فرد جدا ہوگیا ان کی تہذیب ان کا تمدن ان کی ثقافت اس ڈیم کے پانی
کی نذر ہوگئی ان کی اشک شوئی کرنے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا
یہ تو ان مخلص دیانت دار اور سادہ لوح افراد کے سچے اور سُچے جذبے تھے کہ
اﷲ تعالیٰ نے ان کی لاج رکھ لی اوران کی قربانیوں سے جنم لینے والے میرپور
کو چھوٹا برطانیہ بنادیا آج اس شہر کے دس لاکھ سے زائد افراد برطانیہ کی
شہریت رکھتے ہیں اور اس شہر کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ فارن ایکسچینج کی
مد میں پاکستان کو ہرسال اربوں پاؤنڈز فراہم کرتاہے سعودی عرب میں مقیم
پاکستانی اور برطانیہ میں مقیم کشمیری فارن ایکسچینج کی مد میں پاکستان کی
ریڑھ کی ہڈی قرار دیئے جاسکتے ہیں
قارئین منگلاڈیم ریزنگ کا منصوبہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنایاگیا جنرل
پرویز مشرف کی حکومت اپنے اختتام تک پہنچی اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے
خون کی برکت سے برسراقتدار آنے والی مسئلہ کشمیر کے نام پر جنم لینے والی
پاکستان پیپلزپارٹی نے کام کرنا شروع کیا صدر پاکستان آصف علی زرداری
وزرائے اعظم مرشد پاک سید یوسف رضا گیلانی اور رینٹل پاور پلانٹس سے عالم
گیر شہرت حاصل کرنے والے راجہ پرویز اشرف کی حکومت پانچ سال پورے کرچکی آج
آزادکشمیر میں خود کو گڑھی خدابخش کے شہداء کی قبروں کا مجاور کہلانے والے
وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی حکومت قائم ہے اور دموں کے الٹ پھیر کے
نتیجہ میں پاکستان میں کشمیری النسل پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں
محمد نوازشریف وزیرا عظم کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں
پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ ہم اور ہمارا وجود ہی مسئلہ کشمیر کے دم سے ہے کہ
ہمارے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے مسئلہ کشمیر کے نام پر جنرل ایوب خان
سے اختلاف کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی قائم کی تھی اور کشمیریوں سے ہماری
وابستگی ناقابل شکست ہے دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز
شریف کشمیری النسل ہیں اور ان کی جماعت کے نام لیوا قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ بانی پاکستان کا یہ فرمان ہر تقریر میں دہراتے ہیں ’’کشمیر پاکستان
کی شہہ رگ ہے ‘‘شہہ رگ کا ایک حصہ لاکھوں کشمیریوں کے قاتل بھارت کے قبضے
میں ہے اور مختصر سے ایک حصے میں قائم نام نہاد آزادکشمیر میں اس وقت
منگلاڈیم ریزنگ سے متاثر ہونے والے ایک لاکھ سے قریب لوگ پتھرائی ہوئی
آنکھوں ،ستے ہوئے چہروں اور دکھے ہوئے دلوں کے ساتھ میاں محمد نواز شریف
،آصف علی زرداری ،چوہدری عبدالمجید ،راجہ فاروق حیدر اور تمام قومی قیادت
کو دیکھ رہے ہیں ان کا یہ دیکھنا قیامت کے منظر سے کم نہیں ان کے دلوں پر
کیابیت رہی ہے یہ تمام قومی قیادت اپنے آپ کو اتنا بے وسیلہ اور بے آسرا
تصور کرکے محسوس کرنے کی کوشش کرے منگلاڈیم کو پاکستان کا سب سے بڑا آبی
زخیرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے اہل میرپور دوسری مرتبہ قربانی دے چکے
ہیں وفاقی حکومت ،وزیر امور کشمیر ،وزیر اعظم آزادکشمیر چیف سیکرٹری ،کمشنر
امور منگلاڈیم اوردیگر تمام باوسیلہ لوگ ان بے وسیلہ قربانی دینے والے
مہاجروں کی بددعاؤں سے ڈریں ڈڈیال ،پنیام ،پلاک ،چکسواری ،اسلام گڑھ
،میرپور اور اس کے گردونواح کے سینکڑوں دیہات اس ریکارڈ کی نذر ہوچکے ہیں
اور ہزاروں خاندانوں کے ایک لاکھ سے قریب افراد اہل پاکستان اور حکمرانوں
کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں خدارا ان ملتجی نگاہوں کو مضطرب اور
بعدازاں متشدد بننے سے روک لیجئے ایک نیا بلوچستان اورایک نیا وزیرستان
تخلیق کرنے سے پرہیز کیجئے یہ معصوم اور سادہ لوح لوگ آپ سے کچھ زیادہ طلب
نہیں کررہے اور نہ آپ ان کی انمول قربانیوں کاکوئی معاوضہ دینے کی حیثیت
رکھتے ہیں ان کی کلمے کے نام پر بننے والے اس پاک وطن کیلئے دی گئی قربانی
کا اجر ان کا اﷲ دے گا ہم صرف آپ سے اتنی گزارش کررہے ہیں کہ ان معصوم
لوگوں سے جینے کا حق مت چھینیئے انہیں آزادپیدا کرنے والے رب کی طر ف سے دی
گئی آزادی لوٹا دیجئے انہیں رہنے کیلئے گھر ،سرڈھانپنے کیلئے چھت ،پیٹ کا
دوزخ بھرنے کیلئے روزگار اور ان کی نسلوں کی قسمت سنوارنے کیلئے معیار ی
تعلیم مہیا کردیجیئے ایسا کرنے سے آپ کالا باغ ڈیم بھاشا ڈیم اور ایسے
سینکڑوں ڈیم بنانے کی راہ ہموار کریں گے جموں کشمیر محاذ رائے شماری اور
نظریہ خود مختار کشمیر کے بانی عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم کے چند
آخری تاریخی انٹرویوز راقم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ کیے
تھے 90سال کے قریب عمر رکھنے والے اس درویش لیڈر کا کہناتھا کہ پاکستان کے
لوگ انتہائی محبت کرنے والے ہیں پاکستان کے لوگوں نے کشمیر کی خاطر اپنے
جان ومال اور خون کی قربانی دی ہے اہل کشمیر کو پاکستان کے لوگوں سے کوئی
شکایت نہیں ہاں اہل کشمیر کو پاکستان کے خود غرض حکمرانوں ،کشمیر کے پانی
کی خاطر کشمیریوں کے مفادات سے کھیلنے والے جاگیر دار سیاستدانوں اور ان کے
ہاتھوں آلہ کار بننے والی پتھر دل بیوروکریسی اور کٹھ پتلی کی طرح کشمیر
میں جنم لینے والی نام نہاد آزادحکومتوں سے شدید شکایات ہیں یہی لوگ
پاکستان کے دشمن ہیں یہی لوگ کشمیر کے دشمن ہیں یہی لوگ امت مسلمہ کے دشمن
ہیں خدارا دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کیجئے
آخر میں حسب روایت ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک مرتبہ علامہ اقبال ؒ سے سوال کیاگیا کہ جناب عقل کی انتہا کیاہے علامہ
اقبال ؒ نے جواب دیا حیرت ۔پوچھنے والے پوچھا عشق کی انتہا کیاہے علامہ
اقبالؒ فرمانے لگے عشق کی کوئی انتہا نہیں سوال کرنے والے نے حیرانگی سے
پوچھا جناب آپ نے یہ پھر کیسے لکھ دیا
’’ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ‘‘
علامہ اقبال ؒ مسکرا کر بولے دوسر امصرعہ بھی تو پڑھیے جس میں اپنی حماقت
کا اعتراف کیاہے کہ
’’میری سادگی دیکھ کیاچاہتاہوں ‘‘
قارئین اہل میرپور عشق کی انتہاؤں سے دوسری مرتبہ گزر رہے ہیں اور جوا ب
میں وفا کا بدلہ جفا سے دینے کی دوسری انتہا بھی قائم کی جارہی ہے دوسری
مرتبہ پہلی غلطی اور پہلی جفا کا ازالہ کردیجئے یہی کشمیر اور پاکستان کے
حق میں بہتر ہوگا اﷲ متاثرین منگلاڈیم کی مشکلات دور کرے اور پاکستان اور
کشمیر میں محبت کے رشتوں کو مضبوط رکھے آمین |