آپ صورتحال کی سنگینی سے واقفیت کے لیے آج
کی تازہ ترین مثال لے لیں……! منگل کی صبح کراچی یونیورسٹی کی ایک بس طلبہ و
طالبات کو یونیورسٹی لے کر جارہی تھی، یہ ابھی بنارس فلائی اووَر پر تھی
کہ3 موٹر سائیکل سوار 5 مسلح افراد نے بس سائیڈ لائن کیا، بس ابھی رکی ہی
تھی یہ مسلح گروہ بس میں چڑھا اور بس میں تمام طلبہ و طالبات سے نقدی،طلائی
زیورات، سیل فونز اور لیپ ٹاپ وغیرہ چھین کر فرار ہوگئے،انہوں نے طالبات سے
بدتمیزی بھی کی،اپنی اس کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ رفو چکر ہوگئے،اس
کے فورا بعد طلبہ بہت دیر تک فلائی اووَر کے پاس ہی واقع خواتین کے معروف
کالج’’ عبداﷲ گورنمنٹ کالج فار ویمن ‘‘کے سامنے روڈ بلاک کرکے احتجاج کرتے
رہے، ان کے احتجاج پر مقدمہ درج توکرلیا گیا ،مگر اب تک انتظامیہ کی طرف سے
کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
کراچی میں سانس لینے والا ہر ذی نفس یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ بنارس پل
لوٹ مار اور ڈکیتی کے حوالے سے کس قدر بدنام ہے، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ جس
قدر بدامنی، قتل و غارت اور لوٹ مار کے واقعات اس جگہ میں ہوتے ہیں، اتنی
مقدار میں کسی دوسرے مخصوص ایریا میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے،حالانکہ
کراچی میں ایسے واقعات معمول ہیں لیکن ان کے لیے مخصوص جگہیں بہت کم ہیں،جس
طرح کہ بنارس کو مختص کرکے رکھا ہوا ہے اور یہ بنارس کا علاقہ ان خطرناک
علاقوں میں سے ہے،جہاں انتظامیہ کی ایک نہیں چلتی،یہ واردات کون کرتا ہے؟یہ
بات ہم میں سے جو بھی بنارس کی صورتحال سے واقف ہے، وہ اچھی طرح جانتے
ہیں،شاید ہم عدالت میں یہ نہ ثابت کرسکیں کہ کون سا گروہ ملوث ہے،مگر یہ
حقیقت ہے کہ کراچی کی انتظامیہ، پولیس اور یہاں کے سرگرم افراد اس کیس کو
بہت اچھی طرح ہینڈل کرسکتے ہیں۔
اگر آپ کو یہاں کی دگرگوں صورتحال کے بارے میں علم ہوتو یقیناآپ اچھی طرح
جانتے ہونگیکہ بنارس سے گزرنے والے ہر انسان کو کس جاں گسل مرحلے سے گزرنا
پڑتا ہے،اگرکسی کے پاس نقدی اور قیمتی سیل فون سیٹ موجود ہو تو اس کے لیے
یہاں سے گزرکرجانا واقعی نہایت کٹھن ہے،جن افراد کا یہاں سے گزر معمول
ہو،ان میں سے کوئی ایک ایسا فرد نہیں ہے،جو کبھی بھی ایسی کسی قسم کی
واردات کا شکار نہ ہوا ہو۔
جب یہ فلائی اووَوتعمیر نہیں ہوا تھا تو یہاں سے کسی بھی قسم کی گاڑی کے
ذریعہ گزرنا نہایت مشکل تھا،شہر میں قتل و غارت گری کی کارروائیاں سر
اٹھاتیں تو یہاں پرماردھاڑکے واقعات کچھ زیادہ ہی ہوتے،یہاں تو ایسے بھی
واقعات ہوئے ہیں کہ یہاں کی مقامی زبان سے ہٹ کر دوسری قومیتوں کے افرادا
وربرسرروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سرعام گولی مار کر جان لے لی گئی
ہے،اس وقت تو لوٹ مار کی سرگرمیاں بھی کچھ زیادہ ہی تھیں،آپ پبلک ٹرانسپورٹ
میں سفر کررہے ہوں یا پھر آپ کے پاس ذاتی کنوینس ہو،یہاں سے گزرنے والا
لُٹنے کے کرب سے گزرتا ضرور ہے، میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جن کے لیے
یہاں خود کو کنگال کرانا معمول ہے اور اب تو اس معاملے میں وہ سارے افراد
بے خوف ہیں، ان سے آپ کواکثر اس طرح کے جملے بڑے اعتماد کے ساتھ سننے کو
ملیں گے کہ ابھی نہیں تو شام میں،آج نہیں تو کل،بنارس میں اپنی تنخواہ اور
موبائل قربان کرنا ہی ہے۔
پھر جب گزشتہ بلدیاتی گورنمنٹ نے یہاں پر اس سگنل فری کوریڈور کا کام مکمل
کرلیا تو بھی اس کو فوراکھولنے کی ــ’’اجازت‘‘ نہیں ملی،اس حوالے سے یہ بات
زبان زد عام ہے کہ وہاں کے سرگرم مافیا گروپوں نے حکومت سے اس مد میں ایک
بھاری رقم کی ’’درخواست‘‘کی تھی ،ان کو اسی بات کا ڈر تھا کہ اگریہ استعمال
ہونا شروع ہوگیا تو اس سے ان کی آمدنی میں خاطر خواہ کمی کا اندیشہ ہے،اسی
لیے وہ گینگسٹرزاس پل کو استعمال کرنے دینا نہیں چاہتے تھے۔
بہرحال،حکومت نے اس معاملے میں بڑی تگ و دو کی اور اس کا افتتاح کردیا
گیا،اس کے بعد اب کی صورتحال یہ تھی کہ جن لوگوں کی گاڑیاں پل کے نیچے سے
گزرا کرتی تھیں،وہ اب بنارس کے اس پار سے ناظم آباد کی طرف چنگ چی وغیرہ کے
ذریعہ عبداﷲ کالج یا پھر اس سے تھوڑا آگے بورڈ آفس کے اسٹاپ پر اترتے
اوروہاں سے دوسری گاڑ ی پکڑ کراپنی اپنی راہ لیتے ہیں،باقی جو پبلک
ٹرانسپورٹس فلائی اووَر پرسیگزرتی ہیں،ان کو اب کوئی ڈر اورخوف لاحق
نہیں،کیونکہ برج پر گاڑیاں بغیر کسی رکاوٹ کے تیزی سے گزرجاتی ہیں،اس لیے
اب وہاں ایسی واردات ممکن نہ تھی،اس کے علاوہ عموما پولیس اور جب حالات
کشیدہ ہوں تو رینجرز کے اہلکار بھی تعینات کیے جاتے ہیں مگر نیچے کی
صورتحال جوں کی توں رہی۔
اب اس تناظر میں پل کے اوپر سے گزرتی کراچی یونیورسٹی کی پوائنٹ کا لُٹ
جانا واقعی اچنبھے کی بات ہے،دوسری بات یونی ورسٹی بسوں میں ہر ایرا غیرا
بھی سوار نہیں ہوتا،جس کی وجہ سے دیگر ٹرانسپورٹس کے مقابلے میں ان کو
نسبتا محفوظ تصورکیا جاتا ہے ،پھر بھی ایسا ہوجانا انتہائی افسوسناک
ہے،بنارس میں لوٹ مار واقعی ایک بہت سیریس ایشو ہے،اس پر حکومت کی توجہ
بالکل بھی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا بنارس میں لوٹ مار کے واقعات کی روک تھام اتنا ہی مشکل
مرحلہ ہے کہ بیوروکریسی سے یہ معاملہ سنبھلنے میں نہیں آ رہا،کمشنرکراچی
اورخصوصا ویسٹ زون کے کمشنر نہ جانے کس انتظار میں مہر بہ لب ہیں؟اس کے
علاوہ کراچی کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی ایک پارٹی کے آگے بے بس ہیں،
متحدہ قومی موومنٹ اس حوالے کافیسنجیدہ ہے،لیکن پھر بھی آخر وجہ کیا ہے کہ
وہ اس معاملے کو ہینڈل نہیں کرپارہی، کیا ان بدمعاش گروہوں کے خلاف بھی ایک
آپریشن نہیں ہونا چاہیے؟ |