وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے
کراچی میں امن وامان کی بحالی کےلیے لائحہ عمل طے کرنے سے سرمایہ کاروں
کااعتماد بحال ہوا ہے۔ جمرات 5 ستمبر کوکراچی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست
کاروباری تیزی رہی اور100انڈیکس میں 575 پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور
100انڈیکس 22 ہزار 450 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا۔ ہر حکومت اسٹاک ایکسچینج
میں تیزی کو اپنی سیاسی اور معاشی کامیابی قرار دیتی ہے، الیکشن کے بعد
کراچی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی آئی اور خیال کیا جارہا تھا کہ نواز
شریف کے حلف اٹھاتے ہی انڈیکس24 ہزار پوائنٹس کی نفیساتی حد عبور کرجائے گا
لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہمارا کاروباری طبقہ مسلم لیگ ن کی حکومت سے جوامید
کررہا تھا وہ اُس پر پوری نہیں اتری، سب سے بڑا مسلہ امن وامان کاہےاور تین
ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کا اس سلسلے میں کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا کہ
امن و امان کسطرح قائم کیا جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انڈیکس 22 ہزار سے بھی
نیچے چلاگیا تھا جو جمرات کو 22 ہزار 450 پوائنٹس کی سطح پرآیا ہے۔ کراچی
اسٹاک ایکسچینج میں اس تیزی کو وقتی تو کہا جاسکتا ہے مستقل نہیں۔ کراچی
میں امن وامان کےلیے وزیراعظم دو دن کراچی میں مصروف رہے اور کراچی کی حد
تک ایک لائحہ عمل بھی طے کرلیا جسکو سیاسی اور کاروبای حلقوں کی مکمل تائید
بھی حاصل ہے۔ اس لائحہ عمل کا نتیجہ چند دن میں ہم سب کے سامنے ہوگا مگر
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیراعظم کراچی کی بدامنی کو ختم کرنے کی
کوشش کررہے تھے تو دوسری طرف مجرم حکومت کو کھلا چیلنج کرتے رہے اور
وزیراعظم کی موجودگی میں پہلے روز گیارہ اور دوسرئے روز بارہ افراد کو
ٹارگیٹ کلنگ کا نشانا بنایا، بھتہ خوری اور لوٹ ماربھی جاری رہی۔
وزیر اعظم نواز شریف تو ایک لائحہ عمل بناکر چلے گئے ، اب اُس پر عمل کرانا
صوبائی حکومت کی ذمیداری ہوگی۔مگر کیا اس لائحہ عمل سے کراچی اور پاکستان
میں امن و امان کا مسلہ حل ہوسکے گا، اسکے لیے ہمیں کراچی اور ملکی حالات
پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔کراچی میں اس سال ابتک ڈیڑھ ہزار افراد سے زیادہ قتل
ہوچکے ہیں، 13 ہزار گاڑیاں اور دس ہزار سے زیادہ موبائل فونز چھینے گئے،
غیر رجسٹرڈ واقعات کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے، زیادہ تر مجرم و قاتل
گرفتار ہی نہیں ہوتے، جو ہوتے ہیں وہ سیاسی مداخلت ، استغاثہ کی کمزوریوں،
گواہوں کے خوف سے بری ہوجاتے ہیں، معمولی تعداد میں جرم ثابت ہونے پر
عدالتیں مجرموں کو سزائیں سناتی ہیں تو ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اسی لیے
مجرم بے خوفی سے وارداتیں کرتے ہیں، سب کچھ لوٹ لینے کے بعد بلا سبب قتل
بھی کردیتے ہیں۔دوسری جانب اگر کوئی مجرم عام لوگوں کے ہاتھ لگ جائے تو اُس
پر جان لیوا تشدد کرتے ہیں اوراب مجرموں کوزندہ جلادینا عوامی ردعمل بنتا
جارہا ہے۔ سیاسی مداخلت کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بعض
اوقات ایسے مجرموں کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے ماورائے عدالت قتل
کردینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انھیں یقین نہیں ہوتا کہ مجرم کیفر کردار
تک پہنچیں گے۔ اس قسم کے رویوں سے معاشرے میں لاقانونیت وبربریت کا دور
دورہ ہوتا ہے، جس کا سامنا آج ہم کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری جیلیں دہشت
گردوں اورجرئم پیشہ افراد کی آرام گاہیں بنیں ہوئی ہیں، وہ نہ صرف اپنے
رشتے داروں اور جرائم پیشہ دوستوں سے رابطوں میں رہتے ہیں بلکہ جیلوں میں
بیٹھ کر اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،یوں قا نون کے
رکھوالے ہی جب ان کو پناہ دیں گے تو جرائم میں زیادتی تو ہوسکتی ہے کمی
نہیں۔ قاتلوں اور دہشت گردوں کی گرفتاری اور پھران کو کیفر کردار تک نہ
پہنچانا انصاف اورقانون کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔ پاکستان کی عدالتوں پر
عوام کی اکثریت کا اعتما دمسلسل کم ہوتا جارہا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ
ہونے والے جرائم پر سزا کا فیصلہ جلد نہیں دیا جاتا۔دوسری وجہ سنگین قسم کے
جرائم سے لے کر عام نوعیت کے معمولی جرم پر بھی فیصلہ سنا دینے کے باوجود
سزا دینے کی شرح افسوس ناک حد تک کم ہے۔
دنیا میں سزائے موت ختم کرانے اور پاکستان سے اس پر عمل کرنے کا مطالبہ
کرنے والے ممالک اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر تو دنیا بھر میں قتل عام کرتے
ہیں، مگرہماری عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کے لیے انسانیت کا
رونا روتے ہیں۔ ملک میں تشدد اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے دعویدار حکمران
سزائے موت کے خاتمے کی صورت میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، اغوا برائے تاوان،
قتل اور دھماکوں کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کونسا
قانونی طریقہ استعمال کریں گے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ دہشت
گردوں کو اگر پکڑا بھی گیا تو عبرت ناک سزا دینے کی بجائے چھوڑ دیا گیا
،ملکی سطح پر بھی ہونے والے بڑے بڑے جرائم جنہوں نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا
کر کے رکھ دیا ہے کسی قسم کی کوئی سزا نہیں دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ آج بڑے
بڑے ملکی ادارے تباہی کی دہلیز پر کھڑے ہیں ،عوام کا بنیادی مسئلہ پانی
،بجلی،اور امن و امان ہے ،مگر افسوس کہ عوام آج ان سے بھی محروم ہیں۔ چین
نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے ، ان کا ریلوے کا نظام
انتہائی ترقی یافتہ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، ان کے وزیر ریلوے کو
کرپشن کے الزام میں موت کی سزا دی گئی تھی۔پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں
مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان کے حق میں اور ان کی ہمدردی میں آوازیں
بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔سزاوں پر عملدرآمد نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ
آج پاکستان میں ہر طرف لا قانونیت کا دور دورہ ہے،انسانیت مردہ ہو چکی ہے
اور عوام امن و سلامتی کی دہائی دیتی نظر آتی ہے ۔پاکستان میں مجرم اور
ملزم کا فرق مٹتا جا رہا ہے،اب بڑے سے بڑا مجرم بھی اپنے آپ کو مظلوم ثابت
کرتا نظر آتا ہے ،ہمارے بہت سے حکمرانوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے قومی
اداروں کی بربادی اور تباہی میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا مگر پھر بھی معصومیت
اور مظلومیت کی تصویر بنے اپنی صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
وزیرا عظم نواز شریف نے جو لائحہ عمل بنایا ہے اسکے مطابق اب کراچی میں
رینجرزایک بااختیار ادارئے کے طور پر کام کرئے گی۔اب رینجرزکراچی میں
آپریشن کرئے گی اورمجرموں کا پیچھا کرئے گی۔ مجرموں کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ
اُن کو جلد از جلد کڑی سزایں دینی ہونگیں اور ان پر عملدرآمدلازمی بنانا
ہوگا، جیلوں کو مجرموں کی آرامگاہ کی جگہ لازمی سزاگاہ بنانا ہوگا۔ اگر اب
بھی کچھ نہ ہوا تو پاکستان کے اس معاشی حب کراچی کی بربادی پاکستان کی
بربادی ہوگی اور آپ جلدہی کراچی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی دیکھ رہے
ہونگے اور مجرموں کا حکومت کو کھلاچیلنج ہوگا کہ ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو
بگاڑ لو۔ |