لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم کرنے کا تیر بہدف نسخہ

جب سے موجودہ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے اس وقت سے باقی مسائل اور پریشانیوں کے ساتھ ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی اپنے عروج پر ہے اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ پہلے تو روزانہ 3/4 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ”بجلی“ عوام پر گرائی جاتی تھی لیکن اب ”ماشاءاللہ“ چوبیس گھنٹوں میں سے 3/4 گھنٹے کمال شفقت اور مہربانی سے عوام کو بجلی میسر آتی ہے، یعنی شہروں میں کم و بیش بارہ گھنٹے اور دیہات میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے کہ عوام کو بل ادا کرنے کی زحمت سے بچایا جا سکے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق آئندہ بجٹ میں بجلی کی قیمت بھی 17 فیصد بڑھانے کی خوش خبری عوام کو سنائی جا چکی ہے۔ حکومتی اعلیٰ عہدیداران اور وزراء و مشیران کی فوج ظفر موج بجلی کے اتنے بڑے بحران کے باوجود اس کی قیمت کے اضافے کو حکومت کا حق اور عوام کا فرض قرار دیتے نہیں تھکتے! عوامی نمائندے، بیوروکریٹس، وزرا، مشیران، گورنر، وزرائے اعلیٰ، صدر، وزیر اعظم اور عدلیہ اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتی، اس کی یقیناً وجوہات موجود ہوں گی، حکومت پر قرضوں کا بوجھ ہے، دہشت گردی ہے، اتنی بڑی کابینہ یعنی وزارتوں کی بندر بانٹ اور منڈی ہے، ان وزارتوں کے اخراجات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہماری مرکزی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، بیوروکریسی ہو یا اعلیٰ عدلیہ، سب اپنے اپنے کام کی تنخواہیں اور دیگر مراعات کماحقہ ریاست سے وصول کرتے ہیں بلکہ اپنے حق سے بہت زیادہ وصول کرتے ہیں۔ اگر ایک عوامی نمائندہ اسمبلی میں یا کہیں اور کام کاج میں مصروف ہوتا ہے، اگر ایک بیوروکریٹ اپنے آفس میں مشغول ہوتا ہے، اگر کوئی جج اپنے کمرہ عدالت یا چیمبر میں کام کررہا ہوتا ہے تو اس کام کے عوض وہ تنخواہ کا حقدار ہوتا ہے، دیگر مراعات حاصل کررہا ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو کسی سرکاری ہسپتال نہیں، بلکہ کسی پاکستانی ہسپتال بھی نہیں، اس کا علاج صرف بیرون ملک ہی ممکن ہوتا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہو، آصف زرداری ہو یا میاں برادران ہوں، ان کا علاج اپنے ملک میں نہیں ہو سکتا کیونکہ ان لوگوں کو بیماری ہی ایسی ہوتی ہے کہ یورپ اور امریکہ جاکر بھلے چنگے ہوجاتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ ہر کوئی اپنے کام کی اجرت وصول کرتا ہے اور بہت زیادہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فری کھاتے میں اس کے گھر کے سارے AC، سارے پنکھے چل رہے ہوتے ہیں اور ساری لائٹس روشنی دے رہی ہوتی ہیں جبکہ دوسری طرف بیچاری اور پسی ہوئی عوام، عام آدمی ہے جو نہ صرف اپنے حصہ کا بجلی کا بل بھی ادا کرتا ہے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کے حصوں کے بل بھی ادا کررہا ہوتا ہے لیکن اس کے بچے شدید گرمی میں پنکھے کی ہوا اور ٹھنڈے پانی کو ترس رہے ہوتے ہیں، عام آدمی کے بچے امتحان کے دنوں میں بلب اور ٹیو ب لائٹ کی بجائے موم بتی اور لالٹین یا اگر کسی حد تک صاحب حیثیت ہو تو ایمرجنسی لائٹ کی روشنی میں امتحان کی تیاری کررہے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کے بوڑھے والدین اور بزرگ بجلی کی بندش کی وجہ سے بعض اوقات شدید جسمانی اذیت سے گزر کر اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ تاجر اور صنعت کار جو ریاست اور حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو اپنے ٹیکسوں سے یہاں کے وزراء کو پال رہے ہوتے ہیں وہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب کی وجہ سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر ملک تک کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، وہاں کوچ کر جاتے ہیں جہاں ان کی انویسٹمنٹ کی پوری ریٹرن ملنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ مزدور کی تو بات ہی نہ کی جائے کہ وہ بیچارہ تو کوئی حق رکھتا ہی نہیں، اس کو تو ہر وقت اپنی جان کے لالے پڑے رہتے ہیں، ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے جان دے دیتا ہے، ایسے میں مزید ظلم یہ کہ بعض اوقات دو کمرے کے گھر کا بجلی کا بل 80 ہزار بھیج دیا جاتا ہے(یہ واقعہ چند روز پہلے سیالکوٹ میں پیش آیا اور ملتے جلتے واقعات بےشمار ہیں)، آخر وزراء کی فوجوں کو بھی تو زندہ رکھنا ہے....!

پوری قوم حکومت اور واپڈا کو کوس رہی ہے، مظاہرے کررہی ہے، احتجاج ہو رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ عدلیہ کے! پاکستان میں بسنے والی خلق خدا یہ سمجھتی ہے کہ اگر پاکستان کے تمام لوگوں (عوام و خواص) کے ساتھ یکساں سلوک ہو تو یہ لوڈ شیڈنگ ایک دن میں ختم ہوسکتی ہے۔ اگر ارکان پارلیمنٹ، وزرا، مشیران، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، صدر، وزیر اعظم، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور خصوصاً چیف جسٹس صاحب کے دفاتر اور گھروں میں بھی روزانہ کم از کم بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جائے تو ان کو عوام کے عذاب کا صحیح اندازہ ہوسکے گا کہ وہ کیسے دن کو رات اور رات کو دن کرتے ہیں۔ اگر متذکرہ بالا تمام اشخاص کو بھی اپنے دفتری اوقات میں موم بتیوں، لالٹینوں اور ایمرجنسی لائٹس کی روشنی میں کام کرنا پڑے، اگر ان لوگوں کو بھی رات کو اٹھ کر اپنے بچوں کو اور اپنے بزرگوں کو ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دینی پڑے تو یقین کیجئے کہ ایک دن میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے، ایک دن میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے بل ادا ہوجائیں اور ایک دن میں یہاں کا تاجر اور صنعتکار یہاں سے جانے کی ہرگز نہ سوچے، بس انصاف کی اور عدل کی ضرورت ہے، از خود اختیارات کے تحت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیجئے، اللہ سے اجر بھی لیجئے اور قوم کی دعائیں بھی!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222367 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.