الوداع دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔

صدرآصف علی زرداری کا کہنا ہے وہ پینسٹھ سال میں ایوان صدر سے عزت کے ساتھ رخصت ہونے والے پہلے صدر ہیں۔جمہوریت اور معیشت کے استحکام کے لئے نواز حکومت سے تعاون کریں گے تاہم جہاں ضرورت پڑی تنقید بھی کی جائے گی۔ایوان صدر میں صحافیوں کی اعزازیں دئیے گئے عشائیہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا جمہوریت کا فروغ ہی جمہور دشمنوں سے سب سے بڑا انتقام ہے۔صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ گذشتہ مخلوط حکومت کو جہاں کچھ ناکامیوں کا سامنا رہا ۔وہیں انہوں نے اہم کام یابیاں بھی حاصل کیں۔ان میں سب سے بڑی کام یابی پارلیمنٹ کو تمام اختیارات منتقل کرنا شامل ہے۔انہوں نے کہا عوام جان چکے ہیں ہم تاریخ بنانے آئے تھے ہیڈ لائن نہیں۔صدر زرداری نے کہا ان کی جماعت ن لیگ کی اقتصادی پالیسیوں کی حمایت کرئے گیاور چاہے گی کہ گذشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے اور ہم ان تمام غیر ملکی سرمایہ کاروں سے میاں صاحب کو ملانا چاہیں گے۔جو ملک میں سرمایہ کاری کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

جر نیلی صدر پرویز مشرف جب تختہ اقتدار پر جلوہ گر ہوئے تو ان کا یہی کہنا تھا میں خود نہیں آیا بلکہ مجھے کسی نے دھکا دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کو ناچنے کا بہت شوق ہوتا ہے وہ اس گھیرے میں موجود رہتے ہیں جہاں ناچ ہو رہا ہوتا ہے بلکہ وہ بہت سے اپنے لوگوں کی نگاہ میں بھی ہوتے ہیں میوزک کے ساتھ ان کے موڈے بلکہ جسم بھی تھرکتا رہتا ہے اور جونہی انہیں کوئی بے نحسوس سا دھکا لگتا ہے جو ظاہر ہے ان کے اپنے بندے کا ہی ہو سکتا ہے وہ گھیرے کو توڑتے ہوئے میدان میں کو د پڑتے ہیں پھر بے خود ناچتے ہوئے ان کو ’’حال ‘‘ چڑھ جاتے ہیں ۔’’حال‘‘ کا دورانیہ صرف اور صرف ’’حال ‘‘ چڑھ جانے والے کو ہی معلوم ہوتا ہے۔باقی مجمع تو چپ چاپ اس کے ’’حال‘‘ کے اتر جانے کا انتظار کرتا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے ایک ناراض جیالے کے ’’پاکستان نہ کھپے ‘‘ کے نعرے کے جواب میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ۔انہوں نے اپنے جیالوں کے غم وغصہ کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے باوجود ابھی تک ایوان صدر میں جر نیلی صدر موجود ہے ۔انہوں نے ایک تقریر میں گرجتے ہوئے کہا بہت جلد وہاں ایک جیالا صدر بیٹھا ہو گا۔ ورکرز کا خیال تھاکہ پارٹی کے جو ورکرز روٹی ،کپڑا اور مکان کی پر تعیش زندگی کی سہولیات سے عاری ہوں وہی جیالا کہلانے کے مستحق ہیں ۔ کوئی لیڈر کیسے جیالا ہو سکتا ہے اس پر بہت سے بی اے پاس جیالوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کے بادل چھائے گئے۔بہت سے جیالے رات کے اندھیروں میں نویں کا مطالعہ پاکستان نکالتے اور صدر پاکستان کے چناؤ کے متعلق شکوں کا بڑی غور سے مطالعہ کرتے ’’۔وہ مسلمان ہو ،صدر پاکستان کی عمر پنتالیس سال سے زائد ہواور بی اے پاس ہو‘‘بی اے کی شرط ان جیالوں کے لئے سیب کے مربہ سے ذیادہ تقویت کا باعث بنتی اور وہ سکون سے مطالعہ پاکستان کی کتاب کا وہ ورق سینے پر رکھ کر اطمینان کی نیند سو جاتے۔اور ان کی اطمینان کی نیندیں اس وقت کافور ہو گئیں ۔جب آئین پاکستان میں ایک ترمیم کا اضافہ کر کے ایک لیڈر کو جیالے کا درجہ دے کر اس کے لئے ایوان صدرکا دروازہ کھول دیا گیا۔اور صدر زرداری نے اپنا کہا ہوا سچ کر دکھایا کہ بہت جلد ایوان صدر میں ایک جیالا صدر بیٹھا ہو گا ۔

زرداری صاحب کا کہنا ہے ہم تاریخ بنانے آئے تھے ہیڈ لائن نہیں۔اس بیان میں کافی گہرائی ہے ۔ان کی پارٹی نے اگر واقعی تاریخ رقم کی ہے تو اس کا فیصلہ مستقبل کا مورخ کرئے گا ۔تاریخ کا طالب علم جب بھی تاریخ کے اس دور کا مطالعہ کرئے یا تو وہ تاریخ کے ان صفحات کو جلد پلٹ دے گا یا پھر اس دور کی ’’سنہری ‘‘تاریکیوں میں گم ہو جائے گا۔بحرانوں کی اس قدر طویل قطار ہے کہ جس کا شمار ہی شائد ممکن نہ ہو۔ صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ گذشتہ مخلوط حکومت کو جہاں کچھ ناکامیوں کا سامنا رہا وہاں انہوں نے اہم کام یابیاں بھی حاصل کیں۔اپنی پارٹی کو بر سر اقتدار رکھنے کے لئے انہیں کیسے کیسے کڑوے فیصلے کرنا پڑے اور ’’بھان متی‘‘کے اس کنبے کو قائم رکھنے کے لئے کیسی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے رکھنا پڑی۔ریلوئے تباہ ہونے کے باوجود وہ اس حد تک مجبور تھے کہ ریلوئے کا دامن بلور سے نہ چھڑا سکے ۔بلور صاحب سے ایک نجی ٹی وی کے انٹرویو میں حاضرین نے بہت کہا کہ آپ سے ریلوئے نہیں چلتی آپ یہ محکمہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے عاطف اسلم کی لے میں کہا ’’میں ایک پٹھان ہوں اور ریلوئے کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک یہ ٹھیک نہیں ہو جاتی ‘‘۔ایک ’’خط‘‘ کو اس کی منزل مقصود تک پہنچنے سے روکنے کے لئے انہوں نے اپنے ایک وزیر اعظم کی قربانی دے دی ۔مبینہ طور پر ان کے کسی وزیر کا دامن کرپشن کے چھینٹوں سے پاک نہیں تھا۔بلکہ ان کے وزیروں کی ’کارستانیاں ‘‘دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کہہ رہے ہوں ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔راجہ پرویز اشرف کا دل عوام کی حالت دیکھ کر ’’بلیوں اچھلتا تھا‘‘ان کی رات کی نیند اور دل کا چین عوام کی لوڈ شیڈنگ کی حالت نے چھین لیا تھا ۔وہ فوری عوام کی اس تکلیف کو دور کر دینا چاہتے تھے ۔انہوں نے پاکستان میں کرائے کی بجلی کی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی خود اس تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ’’کار کے ‘‘ جیسے بحری جہاز پر کرائے کے بجلی گھر بجلی تو شائد پیدا نہ کر سکے اربوں روپے لے کر عوام کو ’’گھگھو ‘‘ بنا کر اپنا ’’گھگھو ‘‘ بجا کر لنگر اٹھا گئے ۔کرپشن انہی معاملات کو دیکھتے ہوئے ان کی پارٹی کے ایک وزیر کو اپنے دل کی بات زبان پر لانی پری کہ ’’کرپشن میں بھی برابری ہونی چاہیے‘‘۔

صدر زرداری کا کہنا ہے کہ ہم ان تمام سرمایہ کاروں سے میاں صاحب کو ملانا چاہیں گے جو ملک میں سرمایہ کاری کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔اس سلسلے میں میاں نوازشریف کو ایک طرف کرتے اور ان سے آنکھیں چراتے ہوئے الوداع کے موقع پر میاں شہباز شریف ان سے پیار سے یہی کہہ سکتے ہیں ۔ اسلام آباد کی پہاڑیوں پر بیٹھے ہوئے زربادشاہ جتنی سرمایہ کاری آپ کی پارٹی نے کرنی تھی کر لی ہے ۔اب اگر اگلی باری پھر زرداری ہوا تو پھر اپنے سرمایہ کار بھی لے آیئے گا۔فل الوقت کے لئے اتنا ہی ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ کی شہادت کے سانحے نے ان پر اتنی بڑی ذمہ داری ڈال دی ورنہ عین ممکن تھا کہ محترمہ اگر وزیراعظم ہوتیں تو باجی ناہید صدر پاکستان کے عہدے پر متمکن ہوتیں۔انہوں نے ان تمام جیالوں کے پارٹی کے دروازے بند کر دیئے جو سمجھتے تھے کہ ان کہ بغیر پارٹی ،پارٹی نہیں رہے گی۔اس کے باوجود کہ انہوں نے بہت سے عہد و پیمان یہ کہہ کر بھی توڑ دیئے کہ ’’معاہدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے‘‘لیکن اپنی مفاہمتوں کے زور پر وہ اپنا پانچ سال کا دورانیہ سینکڑوں فرینڈلی ’’گالم گلوچ ‘‘کے باوجود پورا کر گئے۔ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں ہر جگہ ان کے کیمپ آفس ہونگے ۔ان کیمپ آفسز سے منظور وٹو براآمد ہوتے ہیں یا راجہ ریاض یا پنجاب گورنری کے امیدوار جہانگیر بدر یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔اپنے موجودہ دور میں انہوں نے پارٹی سے بہت سے ’’تحفے‘‘ خود تخلیق کئے۔جنہوں نے پارٹی کو عوام میں ’’مقبول ‘‘ کروانے میں کوئی ’’کسر‘‘اٹھا نہیں رکھی۔

صدر آصف علی زرداری ایک بہت بڑے بریک کی جانب بڑھ گئے ہیں ۔پانچ سال کے بعد پاکستان کی کیا صورتحال ہو گی ۔اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔اس بار تو یہ نعرہ نہیں پنپ سکا ’’اگلی باری پھر زرداری‘‘کیونکہ ان کی نظر میں ’’معاہدے قرآن وحدیث ‘‘ہوں ناں ہوں لیکن ہر ’’میثاق‘‘،مذاق نہیں ہوتا ۔دیکھیں آنے والے پانچ سال کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے ساتھ تشریف لاتے ہیں یا اس میں مذید کسی ’’پی‘‘ کا اضافہ ہو جائے گا۔اور اگر اس وقت تک تیسری قوت نہ اچھلی تو پھر ’’باری کا بخار ‘‘ تو ہے ہی ناں۔
***
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35318 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.