آہ چلو..!ایوانِ صد سے صدررزرداری تو سبکدوش ہوئے.. اور
ممنون آگئے ہیں...!
صدرزرداری مصالحت پسندی اور مفاہمتی عمل کی گٹھڑی اُٹھائے ایوان صدر سے
رخصت ہوگئے.. !!
صدرزرداری کو گارڈآف آنرپیش کرکے ایوانِ صدرسے رخصت کردیاگیاہے اور
نوستمبرکو نئے منتخب صدرعزت مآب ممنون حُسین بطورصدرحلف اُٹھانے کے بعد
صدرممنون حُسین کو ایساہی پُرتباک گارڈ آف آنرپیش کرکے ایوانِ صدر کی
رونقوں سے نوازدیاجائے گا۔
اگرچہ آج ہمارے مُلک کے عہدے صدارت سے باعزت سبکدوش ہونے والے صدرزرداری
اور اِن کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور موجودہ حکمران جماعت
سے وابستہ وزیراعظم میاں محمدنواز شریف سمیت حکومتی وزراءاور اراکین
پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے مُلک میں ایک مخصوص طبقے ہائے فکر سے تعلق
رکھنے والی شخصیات کے نزدیک بھی جمہوریت کو اچھاانتقام قراردینے والے
صدرآصف علی زرداری اپنا پانچ سالہ کامیاب ترین دورِ صدارت گزارنے کے
بعدمُلک میں جمہوریت کو پروان چڑھا کر سبکدوش ہوگئے ہیں یوں یہ مُلک کے
دوسرے اور کسی جمہوری حکومت کے پہلے صدر ہیں جواپنی مدت صدارت مکمل کرکے
سبکدوش ہوئے ہیں جنہیں ایوانِ صدر میں گارڈ آف آنرپیش کرکے رخصت
کیاگیاہے،تواُدھر ہی صدربھی ایوانِ صدر سے اپنے اِس تاریخی جملے ”آئندہ
صدربنوں گانہ وزیراعظم“ یہ کہہ کررخصت ہوگئے ہیں،مگر آج دوسری طرف حیران
کُن بات یہ ہے کہ 63فیصد پاکستانیوں کاخام خیال یہ ہے کہ صدرزراری کی
بحیثیت صدر کارکردگی خراب رہی ہے، مندرجہ بالا سطور میں درج دونوں جملوں سے
یہ نقطہ واضح طورپرضرور محسوس کیاجاسکتاہے کہ پاکستانی قوم رخصت ہونے والے
صدر کی کارکردگی پر دوحصوں میں بٹ چکی ہے۔
جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سابقہ جمہوری حکومت کے مُلک کے انتہائی طاقتورترین
مگر ہماری مُلکی تاریخ میں مصالحت پسنداور مفاہمتی عمل کی گٹھڑی کے بوجھ
تلے دبے رہنے والے صدرمحترم المقام عزت مآب سیدآصف علی زرداری اپنے عہدے
صدارت کے پانچ سال پورے کرکے سبکدوش تو ہوگئے ہیں، مگریہ اپنے پیچھے مُلک و
قوم کے سوچنے کے لئے بہت کچھ چھوڑگئے ہیں ، جن کا جواب قوم کو بڑی
دیدبعدملے گا،جبکہ یہاںایک امرقابلِ ذکرضرورہے کہ رخصت ہونے والے صدر نے
ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے اپنے انٹرویومیں بظاہرتو کہیں بھی اپنے
عہدے صدارت چھوڑے جانے پر افسوس یا کسی پچھتاوے کا اظہارنہیں کیا ،
مگراتناضرورہے کہ اُلٹااُنہوں نے اپنے اِس عزم کا ارادہ ضرورظہارکیا کہ
”آئندہ صدربنوں گانہ وزیراعظم“وزارتِ عظمی سے زیادہ اہم پارٹی چلاناہے،اور
اِس کے ساتھ ہی اپنے اِس انٹرویو میں سبکدوش ہونے والے صدرنے اِس بات کا
احساس کرتے ہوئے یہ بھی اظہارضرورکردیاکہ ”میرے دورِ صدارت میںمزیداچھے کام
کئے ہوسکتے تھے،جو نہیں ہوسکے ہیں“اگراِس حوالے سے دیکھاجائے تو اِن کے
پانچ سالہ دورِ صدارت میں اِ ن کی کارکردگی، فیصلوں، اقدامات اور بعض
اندرونی اور بیرونی احساس اور غیرمعمولی امورِ مملکت کے حوالوں سے اِن کا
قول و کردارکتناقابلِ اعتباراور بعض معاملات پر کتناغیراطمینان بخش
رہاہے،آج اِن کے ظاہر و باطن ہر قول وفعل کے بارے میں کسی کو کچھ بتانے اور
یاددلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے سبکدوش
ہونے والے صدر آصف علی زرداری ہماری مُلکی تاریخ میں سب سے زیادہ
طاقتورترین جمہوری صدرتو ضرورتھے،اگر جو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے
تویہ مُلک و قوم کے لئے کئی حوالوں سے ا یسے قابلِ تعریف احکامات جاری کرکے
ایسے اقدامات کرسکتے تھے، جن کے ثمرات مُلک اور قوم کو مدتوں مل سکتے تھے،
مگروہ اپنی مدتِ صدارت میں ایساکچھ عمل نہیں کرسکے،جواِنہیں کرناچاہئے
تھا،اُنہوں نے جس کا اظہار بھی کیااور اِس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ بہت
سے کام نہیں کرسکے جو اِنہیں کردیناچاہئے تھے ،کیوں کہ اِن کے سر اور
کاندھوں پر مصالحت پسندی اور مفاہمتی پالیسی اور طرح طرح کے مفاہتمی عمل کی
اتنی بھاری گٹھڑی کا بوجھ پڑاتھاکہ وہ اِس کے بوجھ تلے ہی دبے رہے،اورایسے
دبے رہے کہ اِن کا ہلناجھلنابھی مشکل رہااور شاید اِن کی کارکردگی کا گراف
نیچے گرانے میں بڑی حد تک یہی وجہ بنی رہی۔
اِس میں شاید دورائے نہ ہوکہ سبکدوش ہونے والے سابق صدرآصف علی زرداری نے
اپنے دورِ صدارت میں مُلک کو درپیش توانائی بحران، بیروزگاری،کرپشن ، دہشت
گردی، لوٹ مار، ڈرون حملوں کی روک تھام ، کراچی میں بڑھتی ہوئی قتل وغارت
گری وبھتہ خوری کے خاتمے سمیت بلوچستان کے سُلگتے مسائل کے حل کے لئے
اقدامات توکیا ایک بھی اقدام نہیں کیااگریہ کسی بھی ایک معاملے کو سنجیدگی
سے لیتے اور کوئی بھی ایک قابل قدراقدام اٹھالیتے تو ممکن تھاکہ کوئی ایک
مسئلہ ضرورحل ہوجاتامگر اِنہوں نے کسی بھی مسئلے کے حل کی جانب کوئی توجہ
نہ دی ، یہ تواپنے سارے عہدے صدارت میں جمہوریت کو ہی پروان چڑھاتے رہے،
اور اپنے پرائے روٹھے ہوو ¿ں کو مانتے اور سمجھاتے ہی رہے، اور جب اِن سے
ذراسی فرصت ملتی بیرونِ ممالک کبھی سرکاری تو کبھی نجی دوروں پر سیرسپاٹے
کے لئے نکل پڑتے، یوں ہمارے سبکدوش ہونے والے صدراپنے عہدے صدارت کے پانچ
سال ملکی معاملات کے حل کے حوالوں سے غیرسنجیدہ رہ کرگزارگئے ہیں۔
اَب جبکہ صدرزرداری مُلک کے صدرنہیں رہے ہیں،آج یہ ایک عام پاکستانی شہری
کی حیثیت سے پاکستان میں مقیم ہیں،اِنہیں عہدے صدارت میں حاصل کئی استسنیٰ
کا بھی خاتمہ ہوچکاہے، اَب دیکھنایہ ہے کہ اِس کے بعد صدرزرداری پاکستان
میں رہ کر خود پربنائے گئے کتنے مقدمات کا سامنہ کرتے ہیں، اور یہ کتنے
عرصے پاکستان میںرہ کراپنی پارٹی کا نظام چلاتے ہیں،یہ تو آنے والے دنوں
میں لگ پتاجائے گا، کہ سبکدوش ہونے والے صدر اپنے پارٹی اُمور کو پاکستان
میں رہ کر چلاتے ہیں یااگلے انتخابات تک کسی بیرونِ ملک میں قیام پذیررہ
کراپنی ذمہ داریاں اور مُلکی سیاست میں حصہ لیں گے..؟
نوستمبرکو نو منتخب صدرممنون حُسین اُٹھائیں گے اور اِس کے بعد عہدے صدارت
اِن کے ہاتھ لگ جائے گا، اَب دیکھنایہ ہے کہ نئے منتخب صدر ممنون حُسین
سبکدوش ہونے والے صدرزرداری کی طرح یہ بھی کسی مصالحت پسندی، مفاہمتی
پالیسی اور مفاہمتی عمل کی گٹھڑی کو اپنے سر اور کاندھوں پر اُٹھاکر اِس کے
بوجھ تلے دبے رہتے ہیں یا دانستہ طور پر کوئی اِنہیں اِس کے بوجھ تلے
دبادیتاہے یا یہ اپنی حکمت اور دانش سے اِس گٹھڑی کو نذرِ آتش کرکے مُلک
اور قوم کو درپیش بحرانوں اور مسائل سے نکالنے کا بھی سامان کرتے ہیں..؟اور
خود کو مُلک اور قوم کا ممنون بناکر پیش کرتے ہوئے اِن کے مسائل بھی حل
کرتے ہیں، اَب یہ ذمہ داری نومنتخب صدر ممنون حُسین کے کاندھوں پر ہے کہ یہ
مُلک اور قوم کے سامنے سبکدوش ہونے والے صدرزرداری کی طرح بن کر پیش ہوتے
ہیں یاقوم اور مُلک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے عہدے صدارت کی فکر
کئے بغیرڈٹ جاتے ہیں..؟ |