خیبر پختونخواہ حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے فرار
ہونیوالے قیدیوں کیلئے مراعاتی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فرار
ہونیوالے قیدی واپس آجائیں توان مفرور قیدیوں کو کوئی اضافی سزا نہیں سنائی
جائیگی اور پرانے مقدمات میں انہیں سزا دی جائیگی ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ
جو لوگ اس پیکج سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی
جائیگی - خبر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صوبے میں تبدیلی والی سرکار کیسی
تبدیلی لائی ہے - اللہ کی شان ہے کہ بھوکے ننگے صوبے میں ایسی تبدیلی والی
سرکار آئی ہے جن کیساتھ ایسے نابغہ روزگار اور ذہین لوگ بیٹھے ہیں جو اپنی
ڈیوٹی بھی انجام نہیں دے سکتے اس لئے اب انہوں نے بھی سیاسی مولویوں والا
کام شروع کردیا ہے کہ اگر ووٹ ان کے حق میں دیا تو جنت اور نہیں دیا تو پھر
دوزخ بھئی اگر کسی قیدی نے 302 کا کیس کیا ہو اور وہ جیل میں قید تھااسے
پتہ ہے کہ یا تو پھانسی یا پھر عمر قید میری سزا ہے اب ان سزائوں کے بعد
مفرور وہونے کی چھ ماہ ایک سال حتی کہ دس سال قید کی سزا کی بھی کوئی اہمیت
نہیں ہاں اگر کوئی جیب کترا جیل میں پھنس گیا ہو تو شائد اس کیلئے یہ
مراعاتی پیکج بہتر ہے -صوبائیحکومت قیدیوں کو پکڑ تو نہ سکی اور نہ ہی اپنی
جیل کو بچا سکی -بڑی بات یہ ہے کہ حکومت قیدیوں کو ڈھونڈ بھی نہ سکی ہر قدم
ناکام ہونے کے بعد مفرور قیدیوں سے بھیک مانگ رہی ہے کہ خدا را واپس جیلوں
میں آجاو ہم آپ کے اوپر کوئی دفعہ نہیں لگائیں گے - اب اس طرح کے پیکیج کا
اعلان کرکے کیا ثابت کیا جا رہا ہے؟ اپنی ناکامی یا خیبر پختونخواہ کو بے
وقوف بنایا جارہا ہے-
عجیب بات ہے کہ ایک طرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پیکجز ختم کررہی
ہیں اور اس سلسلے میں مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدایات بھی جاری کی گئی
ہیں کہ "لگے رہو رات بھر"جیسے پیکجز جو کہ خصوصا سٹوڈنٹس کیلئے شروع کئے
گئے کو ختم کیا جائے اور دوسری طرف ہمارے ہاں تبدیلی اتنی آگئی ہے کہ غریب
عوام کے پیسوں پر پلنے والی حکمران قیدیوں کیلئے مراعات پیکج کا اعلان کرکے
بھیک مانگ رہی ہیں کہ کہ کم از کم قیدی واپس آجائے اور تبدیلی کے دعویداروں
پر جو کالک ملی ہوئی ہے اسے صاف کیا جائے -حالانکہ جو کالک صوبائی حکومت اس
وقت اپنے چہرے پر خود لگا رہی ہیں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تبدیلی
لانے والوں کو دھماکوں معاشی بدحالی اور بیروزگاری کے بحران سے تباہ حال
صوبے کے غریب عوام سے کتنی محبت ہیں گذشتہ روز صوبائی حکومت نے وزیراعلی کے
دو مزید معاونین خصوصی مقرر کردئیے جن کا درجہ صوبائی وزیر کے برابر ہوگا
جبکہ بیک وقت 32 پارلیمانی سیکرٹری مقرر کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے
جس کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل بیشتر ارکان اکاموڈیٹ ہوگئے ہیں تبدیلی
والی سرکار کے اس اقدام سے حکومتی ٹیم کے ارکان کی تعداد 59 تک پہنچ گئی
جنہوں نے لالٹین والی سرکار کے بھی ریکارڈ توڑ دئیے واقفان حال اسے فاروڈ
بلاک کے خطرے کے پیش نظر اقدام قرار دے رہے ہیں تبدیلی والی سرکار کی طرف
سے کہا جارہا ہے کہ پارلیمانی سیکرٹری قواعد کے مطابق مقرر کئے گئے ہیں اور
وزراء کی عدم موجودگی میں اسمبلی میں جواب دینگے اور انہیں مراعات بھی دی
جائینگی ایک ایسے صوبے میں جہاں پر بیروزگاری بدامنی معاشی بدحالی کی
صورتحال ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ابتر ہو وہاں پراس طرح کا اقدام
کونسی تبدیلی ہے یہ سمجھ میں نہ آنیوالی والی بات ہے ویسے یہ بھی سوالیہ
نشان ہے کہ وزراء کہاں جائینگے اگر قیہ اسمبلی میں نہیں آئینگے تو پھر کہاں
ہونگے -تبدیلی والی سرکار نے ڈیزل کے پرمٹوں کے حوالے سے مشہور ایک سیاسی
شخصیت کی دھمکی کے یہ اقدام اٹھایا ہے تیر اور اب شیر کی دوستی میںخوشحال
شخصیت کے اپنے مفادات ہیں اس لئے ان سمیت کسی کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی
قیمتوں میں ہونیوالا حالیہ اضافہ نظر نہیں آرہا حالانکہ اس اقدام نے شہریوں
کو ذہنی تنائو کا شکار کردیا ہے کہ پہلے تیر والے لالٹین کی روشنی میں زخم
لگاتے تھے اور اب شیر کے پنجوں سے بے حال عوام کو بیٹ سے مار مار کر چھکے
اور چوکے مارے جارہے ہیں-
چوکے اور چھکے پر یاد آیا گذشتہ دنوں امریکی سیکورٹی ایجنسی کیلئے کام کرنے
والے ایک قبائلی ڈاکٹر جنہیں سزا سنائی گئی تھی یہ سزا تو معطل کردی گئی اب
اس کیس کی دوبارہ سماعت ہوگی جو فیصلہ سنایا گیا ہے اس میں کمشنر ایف سی آر
نے کہا ہے کہ جو سزا سنائی گئی اس کا اختیار متعلقہ پولٹیکل ایجنٹ کے پاس
نہیں تھا کیس چونکہ عدالت میں ہے اس لئے اس پر با ت نہیں کی جاسکتی لیکن
بھولنے کی بیماری رکھنے والی پاکستانی قوم کو یاد دلانے کیلئے یہی کافی ہے
کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی بھی بھائی بھائی کی حکومت کے دور میں ہوئی تھی یہ
الگ بات کہ اسلامی سزائوں پر عملدرآمد نہ کرنے والے حکمرانوں کو اس کیس میں
دیت یاد آگئی تھی کیونکہ ان کے اپنے مفادات متاثر ہورہے تھے اس لئے اس وقت
کے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی اپوزیشن اور حکمرانوں کی کاوشوں
سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عمل میں لائی گئی-اس سے قبل کا ایک واقعہ جب جنگل
کے شیر کی حکمرانی تھی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایمل کانسی کوجس پر
الزام تھا کہ اس نے سی آئی اے کے دو ایجنٹوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا تھا
انہی کے دور حکومت میں ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے اٹھا کر لے گئے اور
بعد میں زہریلی انجکشن دیکر ایمل کانسی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس وقت
بھی ہمارے ایک نامور صحافی جو آج کل سیاستدان ہے اوراس وقت شیر والی سرکار
کے اطلاعات و کلچر کے معاون خصوصی تھے نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا
تھا کہ یہ حساس معاملہ ہے اور کسی کو اس پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیںاور
پاکستانی حکومت نے ایمل کونسی کو کوئی حفاظت فراہم نہیں کی تھی ان کے مطابق
ایمل کانسی دوست ملک کو وہ مطلوب تھا سو ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کرسکتے
صحافیوں سے بات چیت میں متعلقہ صحافی کم سیاستدان کے بقول کئی بار کانسی کو
گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ہاتھ نہیں آیا لیکن بعد میں اسے
شالیمار ہوٹل ڈیرہ غازی خان سے اٹھا لیا گیا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے
ایمل کانسی کے بدلے 3.5 ملین ڈالر کی رقم بھی افغانستان اور پاکستان میں
کچھ لوگوں کو ادا کردی گئی تھی لیکن یہ کن لوگوں کو ادا کی گئی اس بارے میں
امریکی ادارے بھی خاموش ہے ایمل کانسی کو سزا تو ہوگئی وہ شہید تھا یا مجرم
اس کا فیصلہ کرنے والے ہم نہیں بلکہ یہ اس رب العزت کا کام ہے جس نے اسے
پیدا کیا لیکن اس کی موت نے جہاں ہمارے شیروالی سرکارکی بہادری اور ملک
اورغریب عوام سے محبت ظاہر کردی تھی کہ کیسے کیسے منافق ہمارے اوپر مسلط
تھے اور اب ہیں -ایمل کانسی کی موت کے بعد اب بلوچستان میں ایمل کانسی کے
نام سے ایسا گروپ بھی سامنے آیا ہے جو حکومتی اداروں و اہلکاروں کو نشانہ
بنا رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے اس کا فیصلہ بھولنے والی قوم ہی کرے تو
اچھا ہے کیونکہ امریکی ایجنٹ ہمارے ملک میں آکر ہمیں نشانہ بنائے اور پھر
انہیں سپورٹ کرنے والے حرام خور حکمران آئے لیکن جب ایسا معاملہ ہمارے اپنے
بندوں کیساتھ ہو تو پھر انہیں بین الاقوامی تعلقات خارجہ پالیسی اور پتہ
نہیں کیا کچھ یاد آتا ہے شائداب کی بار بھی کچھ ایسا ہو کچھ کہہ نہیں سکتے
لیکن ایک مذہبی جماعت کے پشاور میں ہونیوالے مظاہرے سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ دال میں کچھ زیادہ ہی کالا ہے کیونکہ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ
امریکہ نے پاکستان میں جاسوسی کا مہنگا ترین نظام نصب کردیا ہے اور اس کے
ذریعے نہ صرف پاکستان جیسے اتحادی کے کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کی
نگرانی کی کوشش کررہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سی آئی اے کی
جانب سے بھرتی کردہ انٹیلی جینس کی وفاداری کا اندازہ لگانے کی کوشش بھی
کررہا ہے - اللہ تعالی ہمیں منافق حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کو سمجھنے کی
توفیق دے - |