پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک
منتخب جمہوری حکومت نے منتخب صدر کو اپنی آئینی مدت پوری ہونے پر باعزت
طریقے سے الوداعی ظہرانہ دیا ہے۔ یہ اعزاز بھی صدر زرداری کے حصے میں آیا
ہے کہ انھوں نے اپنے دور صدارت میں جمہوری اقدار کو تقویت دی اور اس جمہوری
سفر کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ انھوں نے سابق صدور کے برعکس جمہوری
حکومت کو توڑا اور نہ آئین یا اس کی کوئی شق معطل کر کے آمرانہ رویہ اپنایا۔
گزشتہ پانچ سال میں تاریخ نے ایسا مشکل دور دیکھا جب پیپلز پارٹی کے جمہوری
وزیراعظم کی حکومت خطرات میں گھر گئی مگر صدر زرداری نے عدلیہ کا وقار بلند
رکھتے ہوئے اپنے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا اور نئے وزیراعظم کو منتخب کر کے
جمہوری سفر کو جاری رکھا۔ زرداری جمہوری طریقے سے ایوان صدر میں آئے اور
جمہوری طریقے ہی سے رخصت ہونے جارہے ہیں۔ ان کے دور صدارت میں عام انتخابات
ہوئے جس میں ان کی پارٹی شکست کھا گئی اور ان کی سیاسی مخالف جماعت جیت گئی۔
اس کا کریڈٹ بھی صدر زرداری کو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی پارٹی کی اس شکست
کو بڑی جرات اور حوصلے سے قبول کیا اور جوڑ توڑ کی سیاست کرنے کے بجائے
اپنی سیاسی مخالف جماعت کو حکومت بنانے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ زرداری
پاکستان کے وہ واحد صدر ہیں جنھوں نے مفاہمت کی پالیسی کو رواج دیا‘ ان کی
اسی مفاہمانہ پالیسی کا حاصل تھا کہ اپوزیشن بھی حکومت سے تعاون کرتی رہی،
اس نے حکومت کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار
ادا کرتی رہی۔ وزیراعظم نواز شریف نے الوداعی تقریب سے اپنے خطاب میں صدر
زرداری کے جمہوری کردار کی توصیف کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری نے مفاہمت کے
نظریے کو متعارف کرایا اور کامیابی سے پروان بھی چڑھایا۔ وزیراعظم نے کہا
کہ پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں آصف زرداری پہلے منتخب جمہوری صدر
ہیں جو اپنی آئینی مدت پوری کر کے ایک باوقار انداز میں رخصت ہو رہے ہیں‘
وہ پہلے صدر ہیں جنھیں وزیراعظم ہائوس میں الوداعی دعوت دی جا رہی ہے‘ ان
کا یہ اعزاز ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے، جمہوری صدر کو الوداع
کہنا ان کے لیے باعث فخر و سعادت ہے۔
صدر زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے دور میں ایک جمہوری حکومت سے
دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا عمل آئینی طریقے سے پرامن طور
پر طے پایا اور کسی قسم کے غیر آئینی سیاسی کلچر کو پروان نہیں چڑھایا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ انھوں نے 1997ء میں اتفاق رائے کے ساتھ آئینی
ترامیم کی روایت ڈالی تھی‘ صدر زرداری نے بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ اس
روایت کو قائم رکھا‘ ان کے عہد میں ہونے والی تمام ترامیم بھی اتفاق رائے
سے ہوئیں‘ ان ہی کے عہد میں اٹھارویں ترمیم ہوئی جس کے تحت وہ تمام صدارتی
اختیارات وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو واپس چلے گئے جنھیں آمریت کے دنوں میں
چھین لیا گیا تھا۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر زرداری اور ان کی حکومت
نے جمہوری روایات کی پاسبانی کی اور ہر غیر آئینی اور آمرانہ رویہ سے حتی
الوسع گریز کیا۔ ان کے دور میں مخالفین کو دبانے کے لیے کوئی سیاسی ہتھکنڈے
استعمال کیے گئے اور نہ کسی کو سیاسی قیدی بنایا گیا۔ میڈیا کو بھی بھرپور
آزادی دی گئی۔
میڈیا پر پیپلز پارٹی کی حکومت پر کھل کر تنقید کی گئی مگر کبھی کسی کے
خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی اور ہر کڑی سے کڑی تنقید کو خندہ
پیشانی سے برداشت کیا گیا۔ صدر زرداری کی آج اسی مفاہمانہ اور جمہوری
روایات کو سربلند رکھنے کی پالیسی کا ماحصل ہے کہ آج ان سے سیاسی اختلاف
رکھنے والی جماعتیں بھی ان کے بارے میں رطب اللسان ہیں۔ صدر زرداری نے اپنے
خطاب میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کی بالکل درست منظر کشی کرتے ہوئے
کہا کہ آج پوری اسلامی دنیا میں آگ لگی ہوئی ہے‘ ایک گروپ کو دوسرے سے
لڑایا جا رہا ہے‘ ملکوں پر حملے کے لیے ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور کئی برسوں
بعد اس کی حقیقت سامنے آتی ہے، مصر‘ شام اور لیبیا میں جو کچھ ہوا اور ہو
رہا ہے وہ انھیں معلوم ہے۔ صدر زرداری نے اپنی پالیسیوں کی بدولت پاکستان
میں جمہوری روایات کو استحکام بخشا اور پہلی بار جمہوری سفر کے تسلسل کا
آغاز ہوا اور ایک جمہوری حکومت کے بعد دوسری جمہوری حکومت وجود میں آئی اور
مارشل لاء کا راستہ رک گیا اور آج یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ یہ جمہوری سفر
اسی طرح جاری رہے گا اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو گا۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی دونوں کی تاریخ بہت لمبی ہے، نفرت والی بھی ہے
"علی بابا چالیس چور" بھی کہا گیا اور کل الوداعی اعشایہ بھی دیا گیا،
پیپلز پارٹی نے بہت برا بھلا کہا -
آصف زرداری اور ممنون حسین میں سب سے پہلی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں وفاق
کی مٹی سے بنے ہیں ممنون حسین بھی اپنی پارٹی سے وفاداری نبھائی چاہے وہ
گورنر رہے چاہے وہ قیدی رہے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ رہے بہت مہذب انسان ہیں
اسی طرح صدر زرداری نے بھی لمبی جیلیں کاٹی اور ان پر زور دیا جاتا رہا کہ
پارٹی چھوڑ دو ، ان پر زور دیا جاتا رہا اپنی اہلیہ کو چھوڑ دیں آپ کو کچھ
نہیں کہا جائے گا ایک تو وفاداری کا عنصر ہے دونوں میں، |