پاکستان نے ہفتے کے روز سات افغان طالبان قیدیوں کو رہا
کر دیا ہے، جن قےدےوں مےں منصور داد اللہ، سےد ولی، عبد المنان، کرےم آغا،
شےر افضل، گل محمد اور محمد زئی شامل ہےں۔ منصور داداللہ افغان طالبان کے
کمانڈر اور سید ولی طالبان کے ایسوسی ایٹ رہے ہیں۔ کریم آغا کا تعلق افغان
طالبان سے اور محمدزئی قندھار شیڈو گورنمنٹ میں رہے جبکہ گل محمد طالبان
شوریٰ کے رکن اور شیر افضل کا تعلق مولوی یونس گروپ سے ہے۔ پاکستان 26
طالبان قےدےوں کو اس سے پہلے بھی گزشتہ سال رہا کرچکا ہے۔ پاکستان کی جانب
سے سات طالبان کی رہائی پر ابھی تک طالبان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے
نہیں آیا۔واضح ہو کہ یہ عمل ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب تقریباً
دو ہفتے پہلے افغان صدر حامد کرزئی نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے
پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں دونوں ملکوں کی اعلی قیادت نے دوطرفہ
تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پاکستان سے تعاون کی اپیل کی تھی، پاکستان
نے افغانستان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ذرائع
کا کہنا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کا مقصد نیٹو فورسز کے انخلا کو پرامن
بنانا ہے، اسی لیے وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے کوشاں ہے۔طالبان رہنماﺅں کو
رہا کر کے ان سے امن مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔اسی لیے افغان صدر حامد کرزئی
متعدد بار طالبان کے اہم لیڈر ملا عبدالغنی برادر کی پاکستانی قےد سے رہائی
کا مطالبہ کرچکے ہےں۔لیکن پاکستان حکومت نے طالبان رہنما ملا عبد الغنی
برادر کی رہائی کے بارے مےں تاحال کوئی فےصلہ نہےں کےا گےا ہے۔ ملا
عبدالغنی برادر کو پاکستان کے شہر کراچی سے 2010ءمیں پاکستان کے فوجی خفیہ
ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور امریکا کے خفیہ ادارے سی
آئی اے کی ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔وہ تب سے پاکستانی
حکام کے زیر حراست ہیں۔تاہم ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ انھیں
کہاں رکھا جارہا ہے؟ملا برادر طالبان کے امیر ملا محمد عمر کے دست راست رہے
تھے۔وہ ماضی میں افغانستان پر قابض غیر ملکی فوج کے خلاف مزاحمتی جنگ کی
قیادت کرتے رہے تھے۔افغان حکام اور امریکا کو توقع ہے کہ ملا بردار ملک میں
جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی میز پر لانے
میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ اعزاز احمد چودھری کے مطابق سات طالبان قےدےوں کی رہائی
کا فےصلہ افغان مفاہمتی عمل میں مزید مدد دینے کیلئے کےا گےا ہے۔ جبکہ
افغان امن جرگے کا کہنا ہے کہ ان طالبان کو رہا کرنے سے پہلے ان سے نہ تو
مشاورت کی گئی اور نہ ہی پیشگی اطلاع دی گئی۔ افغان صدر حامد کرزئی کے
ترجمان نے کابل میں ان رہائیوں کا خیر مقدم تو کیا مگر کہا کہ افغان حکومت
اہم رہنماؤں کی رہائی چاہتی ہے۔افغان امن کونسل نے بیان میں کہا کہ ہم اس
وقت رہائیوں کا خیر مقدم کریں گے جب رہا ہونے والوں کی فہرست ہماری فہرست
کے مطابق ہو گی۔جب آخری بار حکومتِ پاکستان نے طالبان قیدیوں کو رہا کیا
تھا تو افغان طالبان نے ان رہائیوں کا خیر مقدم کیا تھا مگر اس بار کوئی ردِ
عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔افغان حکومت اور افغان امن جرگے کے ارکان کا کہنا
تھا کہ پاکستان حکومت نے ان طالبان کو رہا کرنے سے پہلے ان سے کوئی مشاورت
نہیں کی اور انھیں اس کی پیشگی اطلاع بھی نہیں دی۔افغان حکومت کا اصرار ہے
کہ لندن میں ہونے والے سہ فریقی برطانیہ، پاکستان افغانستان مذاکرات میں
پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ اگر طالبان قیدی رہا کیے جائیں گے تو اس
کے بارے میں افغان حکومت کو اعتماد میں لیا جائے گا اور ان رہائیوں میں ان
کی مرضی شامل ہو گی۔انھوں نے کہا کہ افغان امن جرگے کے ایک رکن کا کہنا تھا
کہ پچھلے سال پاکستان نے جن چھبیس افغان طالبان رہنماو ¿ں کو رہا کیا تھا
ان میں سے ایک کا نام بھی اس فہرست میں شامل نہیں تھا جو افغان حکومت نے
پاکستان حکومت کے حوالے کی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ’ان سات افراد کی رہائی
سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ان میں سے
منصور داد اللہ کے علاوہ سب غیر معروف ہیں۔منصور داد اللہ کے بھائی ملا داد
اللہ دو ہزار سات میں افغانستان میں شہید ہو گئے تھے جس کے بعد ان کے چھوٹے
بھائی منصور نے ان کے گروپ کی سربراہی سنبھال لی تھی۔ منصور داد اللہ دو
ہزار آٹھ سے پاکستان کی قید میں تھے۔ انھیں دو ہزار آٹھ میں افغانستان سے
پاکستان آتے ہوئے صوبہ بلوچستان میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔افغان ذرائع
ابلاغ کے نمائندوں کے مطابق رہائی پانے والے طالبان یا تو اب تک پاکستان
میں ہی قیام پذیر ہیں اور یا انھوں نے نیٹو اور امریکی افواج سے برسرِپیکار
طالبان گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف
سے اب تک رہا کیے جانے والے افغان طالبان کا امن کے عمل پر کوئی مثبت اثر
نہیں ہوا ہے۔افغان حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فہرست میں سب سے اہم نام ملا
عبدالغنی برادر کا ہے ۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ ملا برادر کو سعودی عرب یا
عرب امارات منتقل کر دیا جائے تاہم پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے اس قسم
کی کسی تجویز کی تصدیق نہیں کی۔حامد کرزئی چاہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کے
ساتھ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرے کیوں کہ اس کا طالبان پر اثر و
رسوخ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکومت نے گزشتہ سال کہا تھا کہ پاکستان میں قید باقی
کو جلد آزاد کردیا جائے گا۔پاکستانی حکام سے جب سوال کیا گیاتھا کہ ”کیا
طالبان مزاحمت کاروں کے نائب امیر اور ملا محمد عمر کے سابق دست راست ملا
عبدالغنی برادر بھی رہائی پانے والوں میں شامل ہوں گے؟“ اس سوال پران کا
جواب تھا کہ ”ہمارا مقصد سب کی رہائی ہے۔“ تاہم انھوں نے اپنے اس بیان کی
وضاحت نہیں کی تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے گزشتہ روز
کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتی، ملک میں
حکومت کی رٹ ہے، حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اور پالیسی بنائے گی، تمام
ادارے اس پر عمل درآمد کے پابند ہوںگے۔ اے پی سی کسی ایک جماعت کے مفاد میں
نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں بلائی جارہی ہے اورکوئی بھی سیاسی لیڈر اے پی سی
میں شرکت سے انکار کرکے خود کوقوم سے الگ کرنے کا متحمل نہیں ہو
سکتا۔پرویزرشید نے کہاکہ مفروضوں پر باتیں نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک طالبان
کے ساتھ مذاکرات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے حکومت اور فوج میں کسی قسم کے
کوئی اختلافات نہیں اور ویسے بھی حکومت جو فیصلہ کرتی ہے تمام ادارے اس پر
عمل کے پابند ہوتے ہیں اور انہیں اس پر عمل کرنا بھی ہوگا۔افغان امن کونسل
نے بھی مفاہمتی عمل میں معاونت کا اعلان کیا ہے۔ صلاح الدین ربانی کی قیادت
میں افغان امن کونسل جلد طالبان سے مذاکرات کرے گی۔افغان ذرائع کے مطابق
پاکستان افغان صدر کرزئی کی ملا برادر کی رہائی کی درخواست پر بھی غور کر
رہا ہے۔
دوسری جانب افغان حکومت نے چار خواتین کو دو بچوں سمیت رہا کردیا ہے۔جن کے
متعلق افغانی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدکے مطابق کابل انتظامیہ کے
خفیہ ادارے نے عرصہ درازسے چارخواتین اوردوبچوں کوصرف اس جرم میں
گرفتارکرلیا تھا کہ وہ امارت اسلامیہ کے بعض مجاہدین کے رشتہ دارتھے اوران
میں سے بعض دس برس سے کابل رڑیم کے عقوبت خانوں میں ظلم کی چکی میں پیسے
جارہے تھے اورمستقبل میں ان کے رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابرتھے۔امارت
اسلامیہ کے مجاہدین نے مجبورا اپنے مجاہد بھائیوں کی مظلوم خواتین رشتہ
داروں کی رہائی کے سلسلے میں کچھ عرصہ قبل کابل پارلیمنٹ کے خاتون رکن
فریبا احمدکوصوبہ غزنی کے مربوطہ علاقے میں گرفتارکرلیا تھا۔جب افغان حکومت
نے چار خواتین کو دو بچوں سمیت رہا کیا تو امارت اسلامیہ نے بھی اس کے
تبادلے کی صورت میں فریبا احمدکونہایت احترام کی ساتھ ان کے خاندان کے
حوالے کردیا اوریہ تبادلہ صوبہ غزنی میں انجام پایا، اس بات کی وضاحت ضروری
ہے،کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے قیدکے دوران رکن پارلیمنٹ کی ساتھ کابل
انتظامیہ کے اعمال کے برعکس نہایت اسلامی اور انسانی رویہ اپنایا۔ |