اسلامی تاریخ میں بادشاہوں، خلیفہ و وزرا ءکے بے شمار
واقعات موجود ہیں انہیں تواریخ میں ایسے بھی خلفاءاور سپہ سالار کے واقعات
موجود ہیں جنھوں نے دنیا کو حقیقی معنوں میں زندگی کا مقصد حاصل کرنے کیلئے
بہترین ماحول و حالات بنائے ان ریاست کے بادشاہوں، خلفاءاور وزراءکا وطیرہ
یہ تھا کہ انھوں نے خود کو اللہ اور اس کے آخری حبیب ﷺ کی اطاعت گزاری میں
کسی طور کوئی کمی نہ رکھی اور اسلامی نظام ریاست کا نمونہ خاص بنیں ان میں
خلفائے راشدین کا دور ریاست، ہارون رشید و مامون رشید، سلطان شمس الدین
التمش، نور الدین زنگی،محمد بن قاسم اور دیگر۔۔۔ ان سپہ سالروں کے ساتھ
ساتھ اللہ کے مقرب، پسندیدہ رحمٰن کے بندے جنھوں نے اللہ کا قرب اور اس کے
حبیب محمد مصطفی ﷺ کی محبت و عشق کا قطرہ پایا انھوں نے روئے زمین پر اللہ
کے بندوں کو راہ راست دکھائی اور ارض پر امن و سلامتی کو قائم کیا ان میں
صوفیا، اسلاف، اکابرین، مشائخ کا کردار انتہائی مثبت نظر آتا ہے، اسی لیئے
آج بھی ان کی آرام گاہوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بندہ خدا فیوض و برکات
سمیٹتے نظر آتے ہیں اور وہ خانقاہیں جنھوں نے اپنے مشائخ کے اصول و درس کو
اپنائے رکھا وہ آج بھی دین اسلام کی ترویج اور اصلاح معاشرہ کیلئے سرکردہ
ہیں لیکن یہاں ہم یہ فراموش نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم پندرہویں صدی سے گزر رہے
ہیں جس کے متعلق احادیث میں اشارے واضع ہیں یہ وہ دور ہے جہاں نام نہاد
مسلمان دین اسلام کو ، مسلم اُمہ کو ہر جانب سے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں
گے اور اپنے نفس کی اطاعت میں اس قدر نکل پڑیں گے کہ انہیں انسانیت تک کا
احساس نہ ہوگا۔۔آج وہ وقت ہم دیکھ رہے جب ایک مسلمان اپنے نفس کی حصول
کیلئے تمام دینی احکامات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مشرکین و کفار کا ساتھ دینے
پر زرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتا ، آج کا مسلمان بالخصوص سیاستدان ہو یا
حاکم وقت وہ یہودیوں، عیسائیوں ،بے دین اور بت پرستوں کا اپنا دوست سمجھتے
ہوئے ایک مسلمان کے راز اور اس کے خلاف سازشوں میں سرگرم نظر آتا ہے ۔عراق
ہو یا افغانستان، فلسطین ہو یا اب شام ان تمام مسلم ممالک کی ریاست کو تباہ
کرانے میں پس پشت مسلم دنیا کے بڑے ممالک بھی شامل رہے ہیں۔مسلم جہادی
تنظیمیں ہوں یا عسکری قوتیں ان سب کا کردار ہمیں شک میں مبتلا کردیتا ہے
،کیونکہ آج دنیا بھر میں اگر کہیں بم بلاسٹ ،دھماکے، خود کش حملے ہورہے ہیں
تو وہ صرف اور صرف مسلم ممالک ہیں آخر مسلم ممالک ہی کیوں؟؟ یہ سوال ہم سب
کیلئے لمحہ فکریہ ہے!!پاکستان اور پاکستانی قوم خواب غفلت میں مبتلا ہے
اتنی غفلت سہی نہیں کیونکہ کفار و مشرکین کبھی بھی مسلمان کے دوست نہیں
ہوسکتے ہاں البتہ ان سے حکمتی مفاہمت اس طرح کی جائے کہ ان میںمسلم امہ کی
سلامتی اور بہتری کا عملی مظاہرہ ہو نہ کہ اپنی ذات اور نفس کی اطاعت کے
خاطر پوری قوم کو مصیبت و اذیت میں جھونک دیا جائے یاد رہے دنیا کے تمام
غیر مسلم ممالک کو پاکستان کی ایٹمی طاقت برداشت نہیں اسی لیئے امریکہ،
اسرائیل ، برطانیہ اور بھارت نے دنیا بھر میں مسلم قوم کیلئے دہشت گردی کا
ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور ہمارے ہی نام نہاد مسلمان ،بد ذات لوگوں کو خرید کر
اپنے عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچارہے ہیں ۔ایران میں عوام اور حکمران کے
اعتماد و اتحاد نے ان بیرونی مشرکین و کفار کی طاقتوں کو اپنے اندر داخل
ہونے نہ دیا اور ایمان کی طاقت کی وجہ سے ایران نے دنیا کی سپر پاور امریکہ
اور اس کے حواریوں کو چیلنج دیا ، دنیا نے دیکھا کہ ان مشرکین و کفار نے
ایران کا بال بیگا تک نہ کیا اور چپ سادھ لی لیکن یہ بات قطعی نظر انداز
نہیں کی جاسکتی کہ یہ طاقتیں ضرور بلضرور اسے کمزور کرنے کیلئے کوئی نہ
کوئی لومڑی کی چال چلتے ہونگے اللہ کی نصرت انہی کو حاصل ہوتی ہے جو توکل
اللہ رکھتے ہیں۔اب میں اپنے موضوع کی جانب آتا ہوں آج میرے کالم کا عنوان
اورتحریر کا مرکز ملک شام ہے۔ شام میں جاری جنگ امریکا اور اس کے مخالفوں
کی جنگ ہے، امریکا بشار کو ہٹا کر اپنا غلام ، پٹھو، خادم، ایجنٹ لانا
چاہتا ہے اور روس، چین اور ایران ایسا نہیں چاہتے جبکہ جماعت اسلامی سمجھتی
ہے کہ اس وقت اسکو امریکا کا ساتھ دینا چاہئیے اور جب بشار کی حکومت گر
جائے تو ترکی کسی مرسی قسم کے بندے کو لا سکتا ہے مگر روس اور ایران یہ
سمجھتے ہیں کہ اگر امریکا کامیاب ہو گیا تو علاقے میں اسرائیل کے ذریعے
امریکی تھانیداری کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ملک شام پر بھی باقی عرب
حکومتوں کی طرح امریکی پٹھو آ جائے گا،یہ اختلاف نظر برا نہیں، جو بات بری
ہے وہ جھوٹ کا سہارا لینا اور اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ بنا کر طاقت حاصل
کرنا ہے، کیا روس اور چین شیعہ ہیں؟ کیا امریکا اور اسرائیل سنی ہیں؟ جماعت
اگر فرقہ پرستوں کی راہ پر چلنا چاہتی ہے تو کوئی روک نہیں سکتا، مگر اس
راہ پر انگور بہت کھٹے ہیں۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا
ہے کہ سعودی عرب سمیت خلیج فارس کے بعض عرب حکمرانوں نے شام پرامریکی حملے
کی حمایت کرتے ہوئے امریکہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شام پرامریکہ کی مسلط کردہ
جنگ کا پورا خرچہ ادا کریں گے، امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ عربوں کا
کہنا ہے کہ شام پر حملہ آپ کریں، سارا خرچہ ہم دیں گے، اس بات کا انکشاف
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے روبرو کیا،
یہ بات امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی
کے اجلاس میں بتائی، جان کیری کے مطابق سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے
پیش کش کی ہے کہ اگر امریکہ شامی صدر بشار اسد کو ہٹانے کیلئے کارروائی کرے
تو وہ اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، جان کیری نے بتایا کہ یہ پیشکش بہت اہم
ہے جو باضابطہ طور پر کی گئی ہے ، ذرائع کے مطابق عربوں کی یہ سازش ان کی
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافقت اور خیانت کا نمایاں ثبوت ہے عرب کی
خیانت یہ کہ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے بجائے اسلامی ممالک پر حملے کے لئے
امریکہ کی مدد کررہے ہیں اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی،کیا عرب اسلامی
ممالک پر یہودیوں کے حامیوں نے بلاواسطہ طور پر قبضہ نہیں کرلیا؟عربوں نے
کرنل قذافی کو بھی مار گرانے میں امریکہ کا بھر پور تعاون کیا تھا عرب
حکمراں ہر اس ملک کے دشمن ہیں جو اسرائیل کا مخالف ہے، لہذا خلیج فارس کی
عرب ریاستوں کے حکمراں امریکی اور اسرائیلی آلہ کار ہیں جو مسلمانوں کے
سروں پر امریکہ کی طرف سے مسلط کئے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان
عرب ریاستوں کی اسرائیل کی طرح بھر پور حفاظت اور حمایت کررہا ہے اور ان
ریاستوں میں جمہوری نظام لانے کے خلاف ہے۔پہلی بار برطانیہ نے امریکہ کے اس
معاملے پر اپنا در عمل ظاہر کیا اور اس سے شام پر ہونے والے حملے پر تعاون
نہ کرنے کا عندیہ دیا ۔برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ
برطانیہ شام پرامریکی فوجی حملے کی حمایت نہیں کرےگا، ہیگ نے کہا کہ اس
سلسلے میں برطانوی حکومت برطانوی پارلیمنٹ کی پیروی کرےگی، ولیم ہیگ نے کہا
کہ ممکن ہے کہ شام کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ میں دوبارہ ووٹنگ کی جائے،
ذراغ ابلاغ برطانوی وزیر خارجہ کے بیان کو برطانیہ کی چال اورتاخیر قراردے
رہے ہیں۔
بھارت بھی شام میں غیر ملکی مسلح افراد کی امداد کر رہا ہے، امریکہ و
اسرائیل اور سعودیہ کی مدد تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور اس بات کا
امریکہ و اسرائیل اور سعودیہ نے خود اقرار بھی کر لیا ہے یعنی سارے کا سارا
کفر اور نفاق اب اعلانیہ طور پر اکٹھا ہو گیا ہے شام کے خلاف،تین سال سے
جاری شام امریکا جنگ اب ایک ایسے مرحلے میں پہنچ چکی ہے جب امریکا نے تنگ آ
کر چہرے سے نقاب الٹنے اور اپنے زمینی دستوں کی فضائی مدد کرنے کا سوچ لیا
ہے، مگر اس وقت میدان جنگ اور عالمی سیاست کے حالات کس رخ پر جا رہے
ہیں۔۔۔؟؟؟ امریکہ نے شام پر حملے کا ارادہ کر لیا ہے اور کانگرس سے منظوری
کے بعد اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق رپورٹ سے قطع نظر امریکہ
جمہوریت کے فروغ اور امن عامّہ کی حفاظت کے لیے شام پر حملہ کر دے گایعنی
ہم جلد ہی امریکہ اور القائدہ دونوں کو شام میں جمہوریت یا خلافت یا شاید
دونوں کے لیے بشار الاسد کے خلاف جنگ لڑتے دیکھیں گے، ادھر خادم حرمین
شریفین جنگ کی آگ میں تیل ڈالنے کے ساتھ ساتھ غلاف کعبہ پکڑ کے امریکہ یا
القائدہ یا پھر دونوں کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں گے۔اس وقت جب کہ امریکہ
اقوام متحدہ کے اشارے کا انتظار کرنے پر تیار ہے نہ اقوام متحدہ اس سلسلے
میں خاص زوردینے پرآمادہ نظر آرہا ہے، چین اور روس شام کے حالات پر گہری
نظر رکھے ہوئے ہے لیکن ان میں روس سعودی عرب سے تیل کا خواں ہے، افغانستان
بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا چاہتا ہے اورپاکستان سر تا پا امریکہ،اسرائیل ور
برطانیہ کے پاؤں تلے دبے ہوئے ہیں، ابھی ملک شام پھر پاکستان مکمل طے شدہ
پروگرام سے یہودی لابیاں دنیا میں سرم گرم عمل ہیں، ان لابیوں میں پیش پیش
دنیا کا سپر پاور کہلانے والا ملک امریکہ ہے جس نے انسانیت کے ساتھ حد درجہ
ظلم و بربریت کا بازار لگایا ہوا ہے،پہلے روس کو کمزور کیا انہین مسلم
ممالک سے پھر افغانستان، عراق کو تباہ کیا اور اب شام دوسری جانب پاکستان
کو مکمل معاشی و سیاسی سطح پر برباد کرکے کھوکھلا کرنے پر لگے ہوئے ہیں اس
سر زمین پاکستان کی طاقت کو کبھی بھارت کے باڈر سے تو کبھی افغانستان کے
باڈر سے حملے در حملے کرکے پاکستان کی عسکری قوتوں کا اندازہ لگاتارہا ہے
اور ایک جانب جنوبی وزیر ستان پر ڈرون حملے کرکے نہتے شہروں کو موت کے گھاٹ
اتارتا چلا آرہا ہے ۔ بحرحال میں بات کررہا تھا ملک شام کی جسے ہمارے بلکہ
ہر مسلمان کے معتبر، ہماری جانوں سے زیادہ عزیزترین اللہ کے محبوب حضور
اکرم ﷺ نے ملک شام کو پسند فرمایا تھا جس کا مستند احادیث میں ذکر بھی آیا
ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمةاللہ نے اپنی کتاب سنن الترمذی ت شاکر 5/ 734
(المتوفی279)میں لکھا ہے ۔۔۔صحابی رسول زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ہم رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے چمڑے کے ٹکڑوں سے قران جمع کر
رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شام کیلئے بھلائی ہے ہم
نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے۔ اس لئے کہ رحمن کے
فرشتے ان پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیںاور اہل شام میں فساد کے اثرات سے
متعلق حدیث ترمذی میںحضرت امام ترمذی رحمةاللہ نے اپنی کتاب سنن الترمذی ت
شاکر 4/ 485 (المتوفی279)میں لکھا ہے ۔۔معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب اہل شام میں
خرابی پیدا ہوگئی تو تم میں کوئی خیر و بھلائی نہ ہوگی میری امت میں سے ایک
گروہ ایسا ہے جس کی ہمیشہ مدد و نصرت ہوتی رہے گی اور کسی کا ان کی مدد نہ
کرنا انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو ۔لیکن اس کا
مفہوم یہ نہیں ہے کہ اہل شام خراب ہوئے تو پوری دنیا خراب ہوجائے گی بلکہ
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل شام خراب ہوئے تو شام کی افادیت و فضیلت تم سے
چھن جائے گی۔ تاریخ میں جس خطے کو ’بلادِ شام‘ کہا جاتا ہے اس کے چار اقلیم
ہیں، حالیہ شام، فلسطین، لبنان اور اردن، جوکہ اس وقت چار الگ الگ ملک ہیں۔
خطہ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، احادیث نبوی کے اندر
بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے اور محدثین نے رسول اللہﷺ
سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے لاتعداد مناقب روایت کئے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی اہل
علم نے آیات اور مستند احادیث پر مشتمل، سرزمین شام کی فضیلت پر باقاعدہ
تصانیف چھوڑی ہیں۔رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا بخاری میں مروی ہے ۔۔ (صحیح بخاری
حدیث رقم: 990 )۔۔”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما“۔۔مزید برآں کئی
احادیث سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ خطہ شام طائفہ ،منصورہ1 کا
مسکن بنا رہے گا،حدیث۔
(صحیح مسلم حدیث رقم 5067)۔۔”شام کی جہت والے لوگ بالاتر رہیں گے، حق پر
رہتے ہوئے، یہاں تک کہ قیامت آجائے“۔
یہاں تک کہ آپ ﷺ کا یہ فرما دینا ۔۔(مسند احمد حدیث رقم 15635، عن معاویہ
بن قری)2۔۔۔۔”جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر
نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار
ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت
آجائے“۔۔ایسے ہی نبوی اخبار و آثار کے پیش نظر صحابہ کی بہت بڑی تعداد خاص
شام کو مسکن بنا کر رہی اور شام ومابعد خطوں میں جہاد کرنا صحابہ کو سب سے
زیادہ مرغوب تھا۔ مدینہ یا عمومی طور پر جزیرہ عرب کے بعد اگر کوئی خطہ ہے
جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ وہاں اصحابِ رسول اللہ کی سب سے بڑی تعداد دفن ہے
تو وہ بلاد شام ہی ہے۔ پس یہاں جگہ جگہ انبیاءمدفون ہیں، جوکہ مخلوق میں
برگزیدہ ترین ہیں اور یا پھر خاتم المرسلین کے اصحاب جوکہ انبیاءکے بعد
برگزیدہ ترین ہیں اور جہاں تک تابعین وما بعد ادوار کے اولیاءوصلحائ، ائمہ
وعلمائ، شہداءاور مجاہدین، قائدین اور سلاطین اور عجوبہ روزگار مسلم شخصیات
کا تعلق ہے، تو خطہ شام کے حوالے سے وہ تو شمار سے باہر ہے، یوں سمجھئے شام
ہمیشہ ہیروں موتیوں سے بھرا رہا ہے!۔۔کئی ایک نصوص کی رو سے شام ہی ارض
محشر ہے۔ ”ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے، کہ انہوں نے رسول
اللہﷺ سے دریافت کیاکہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں؟
آپ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز اس (بیت المقدس) میں چار نمازوں
سے افضل ہے۔ اور نہایت خوب ہے جائے نماز بیت المقدس بھی، حشر اور نشر کی سر
زمین، اور یقینا لوگوں پر ایک وقت آنے والا ہے کہ آدمی کے پاس ایک درّے
جتنی جگہ ہونا، یا پھر کہا، ایک کمان جتنی جگہ ہونا، کہ جہاں سے وہ بیت
المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے پوری دنیا سے بہتر یا محبوب تر
ہوگا“۔۔۔۔۔نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ میرے
تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔میری
نظروں نے اس کا تعاقب کیا ، ادھر سے بہت نورپھوٹ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ
وہ شام میں رکھ دی گئی ہے۔پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا“
(صححہ الالبانی فی فضائل الشام ودمشق )۔
حشرونشرکی سرزمین:”شام وہ زمین ہے جہاں آخری بار جمع کیا جائے گا اور جہاں
محشر سجے گا “۔ (احمد ، وصححہ الا لبانی فی فضائل الشام و صحیح الترغیب
)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف
متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے اللہ ہمارے مدینہ میں ہمیں برکتیں نصیب کر اور
ہمیں ہمارے رائی رائی میں برکتیں نصیب کر! ہمارے مکہ میں ہمیں برکتیں نصیب
کر! ہمارے شام میں ہمیں برکتیں نصیب کر!“۔ (صححہ الالبانی فی فضائل الشام
ودمشق)۔۔حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صل
اللہ علیہ وسلم سے کہا: ”اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم!آپ مجھے بتائیں
کہ میں کس علاقے میں رہوں، اگر مجھے پتا ہو کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم ہمارے
ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے، تو میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے علاوہ
کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہیں دوں“۔ رسول اللہ نے فرمایا : ”شام کی طرف
جاو، شام کی طرف جاو ، شام کی طرف جاو۔“ پس جب آپ صل اللہ علیہ وسلم نے
دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”کیا تم
جانتے ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ(اس کے بارے میں) کیا فرماتا ہے؟“ پھر آپ
صل اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے
جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔“ ( ابو داود اور احمد؛ اس
کی سند صحیح ہے)۔سلمہ بن نفیل الکندی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس آیا اور کہا:”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! گھوڑوں کی
لگام کو چھوڑ دیا گیا ہے، اور ہتھیار ڈال دئیے گئے ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں
کہ اب جہاد باقی نہیں رہااور قتال ختم ہوگیا ہے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا : ”وہ جھوٹ بول رہے ہیں!قتال تو ابھی شروع ہوا ہے! میری امت میں ایک
گروہ حق کے ساتھ قتال کرتا رہے گا اور اللہ کچھ لوگوں کے دلوں کو پھیر دے
گا اور ان کے ذریعے ان (مجاہدین) کو فائدہ پہنچائے گا حتیٰ کہ آخری لمحات
آجائیں اور اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے اور گھوڑوں کی پیشانیوں پر قیامت تک
کے لئے خیر ہے۔ اور مجھے وحی کی جا رہی ہے کہ میں جلد ہی تم لوگوں سے جدا
ہو جاوں گا اور تم لوگ میرے بعد آپس میں لڑو گے اور ایمان والوں کا گھر شام
ہے“ (اس کو نسائی نے روایت کیا اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہاہے)۔سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایمان دائیں جانب ہے اور کفر مشرق (نجد) کی جانب ہے۔ گھوڑوں اور اونٹوں
والے لوگوں (عرب کے دیہاتیوں) میں غرور و تکبر پایا جاتا ہے اور مسیح
الدجال مشرق سے آئے گا اور وہ مدینہ کی جانب پیش قدمی کرے گا یہاں تک کہ وہ
احد پہاڑوں کے پیچھے تک پہنچ جائے گا پھر فرشتے اسے شام کی طرف بھگا دیں گے
اور پھر ادھر اسے ہلاک کر دیا جائے گا“۔ (اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا
اور البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے)۔ابو امامہ الباھلی رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے میرا
رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے : اے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے تمہارے سامنے غنیمت اور رزق کو رکھا ہے اور
تمہارے پیچھے مدد رکھی ہے“۔ (اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیااور البانی نے
صحیح الجامع میں صحیح قراردیا ہے)۔معزیز قارئین میں نے اپنے اس کالم میں
نبی کریم کی احادیث کا ذکر اس لیئے کیا ہے کہ جان لیجئے کہ ملک شام کو ملکہ
و مدینہ شریف کے بعد افضلیت حاصل ہے جس کی افضلیت خود آخری نبی پاک ﷺ نے
فرمادی اس کی افضلیت و اہمیت کون ختم کرسکتا ہے ہاں البتہ ہم گنہگاروں
کیلئے کفار و مشرکین کی مخالفت ہی ہمارا عظیم جہاد ہے لیکن افسوس صد افسوس
ہماری دینی سیاسی جماعتیں امریکہ یعنی یہودیوں کی حمایتمیں اتر آئی ہیں اور
اپنے ہی مسلم بھائیوں کی ہلاکت و بربادی کیلئے ساماں پیدا کررہی ہیں ،
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی احتجاج نظر نہیں
آیا اور نہ ہی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے رد عمل دیکھنے میں نہیں
آرہا ہے کیا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ سے زیادہ
اہمیت کی حامل ہیں جواپنے مفادات کی خاطر یہود و نصارا،کافرین و مشرکین کے
سامنے چپ سادھ لی ہےاور حیرت ہے پاکستانی قوم پر کہ اپنے آپ کو عشق رسول ﷺ
میں سرشار کہنے والے ، ہاتھوں میں تسبیح پکڑ کر اللہ واحد کے بندے بننے
والے، سادات پر جان نچاور کرنے والے کیونکر خاموش ہیں ؟؟ کیا ایمان فروخت
کردیا یا ایمان سے ہی خالی!!۔۔ یوں تو پاکستان میں نجی چینلز اور اخبارات
آزادی صحافت کے بلند و بالا نعروں سے تھکتے نہیں مگر جب دین اسلام ،اللہ
اور اس کے حبیب ﷺ کا فرمان نظر آتا ہے تو چھپ جاتے ہیں ، یاد رکھیئے نام
نہاد مسلمانوں کی جماعتیں نہ صرف مسلمانوں کی تباہی کا سبب بنی ہوئی ہیں
بلکہ دین محمدی کو مسخ کرنے میں کفار و مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں یاد
رکھیئے ایک نہ ایک دن مرنا تو ہے لیکن وہ بھی کیا موت جس میںسچائی،
ایمانداری اور حقیقی عشق رسول ﷺ نہ ہو تو ایسی موت خدارا کسی کو نہ ملے۔ہاں
ہر پاکستانی اور امت مسلمہ کو یا الٰہی اپنے حبیب مصطفی ﷺ کے صدقے ایسی موت
عطا فرما جسے تو اوت تیرے حبیب کو پسند ہو ۔ آمین ثما آمین۔معزز قارئین ملک
شام پر مشرقی غیر مسلم قوتوں کے حملے سے ایشائی مسلم ممالک قطعی طور پر برے
اثرات سے نہ بچ سکیں گے ، ممکن ہے یہ سلسلہ ایران، اردن، لیبیا، کویت، عرب
امارات، سعودی عرب کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان کے وجود کیلئے ناسور
بن جائے ابھی بھی وقت ہے کہ او آئی سی کا اجلاس بلاکر اس معاملہ کو گفت و
شنود کے ساتھ حل کیا جائے ورنہ ناقابل تلافی نقصان کیلئے تیار ہوجائیں
کیونکہ یہودونصارا مسلم امہ کو نیست و بانود کرنے کیلئے آپس میں مسلکوں،
فرقوں، عصبیتوں میں الجھا کر پارہ پارہ کردیگا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناظر
ہو اور ہمیں ایمان کی حالے میں موت عطا فرما آمین۔۔۔٭٭٭٭٭٭٭ پاکستان زندہ
باد، پاکستان پائندہ باد۔٭٭٭٭٭٭٭ |