مودی کانٹا ہے تو کانٹے سے نکالا جائے - قسط اول

مودی بھی گڈکری کی راہوں پر گامزن ہے۔ کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے یہ گڈکری کون ہے؟ جولوگ آج گڈکری کو نہیں جانتے وہ کل پوچھیں گے کہ مودی کون تھا ؟ لوگ چاچا نہرو کو بھی بھول گئے۔ ایک جائزے کے مطابق نئی نسل میں اندرا گاندھی کی مقبولیت پنڈت نہرو سے زیادہ ہے ۔ سیاست کی دنیا میں عوام کی یادداشت کم ہوتی ہے ۔ نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کا خواب ایک غبارے کی مانند تھا جس میں ہرروز گرم ہوا بھری جاتی تھی ۔ اس کے سبب وہ فضا میں بلند سے بلند تر ہوتا جاتا اور ہندوتوا وادیوں کے دلوں کو لبھاتاتھا لیکن ونجارہ کے ترشول کی نوک سے غبارہ معمولی پھسپھساہٹ کے ساتھ پھوٹ گیاا ور دہلی کی فضاوں سے احمدآباد کی نالیوں میں جاگرا ۔ مودی کی ترجیحات بدل گئیں اور اسے اچانک یاد آگیا کہ گجرات کی عوام نے اس کو ؁۲۰۱۷ تک حکومت کرنے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے۔ اس نے خود اعتراف کرلیا کہ عوام کی خدمت کرنے کے علاوہ اس کی کوئی اور خواہش نہیں ہے ۔عوام کی جو خدمت مودی نے اپنے دستِ راست امیت شاہ ساتھ کی ہے اس کو جاننے کیلئے ونجارہ کے استعفیٰ کا مطالعہ مفید ہے۔

دنیا بھر کی فلموں اور ڈراموں میں مکالمے لکھے جاتے ہیں ۔سیاستدانوں کی تقاریر لکھنے کیلئے افسران کے تقرر کا رواج عام ہے لیکن بھارت میں نہ صرف عدالتی فیصلے ، اقبالی بیان بلکہ اب استعفیٰ تک اہلِ قلم سے لکھوائے جانے لگے ہیں۔ اگر یقین نہ آتا ہو بابری مسجد سے متعلق الہ ٰ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ یا اسیمانند کا اقبالِ جرم اور اب ونجارہ کا استعفیٰ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔یہ درست ہے کہ ونجارہ کی گزشتہ ۶ سالوں کے دوران تین کتابیں شائع ہوئی ہیں لیکن گجراتی زبان میں شاعری کرنے میں اور فصیح و بلیغ انگریزی میں استعفیٰ لکھنے میں بڑا فرق ہے ۔ گجراتیوں کی ایک بہت بڑی کمزوری انگریزی زبان ہے شاذو نادرہی کوئی گجراتی اچھی انگریزی جانتا ہے۔ دس صفحات پر مشتمل ونجارہ کے استعفیٰ کا ہرجملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا کہ اس پردۂ زنگاری میں کوئی اور چھپا ہوا ہے۔ بی آر چوپڑہ اگراپنی مہابھارت کیلئے راہی معصوم رضا کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں تو کانگریس والوں کے پاس قلمکاروں کی کون سی کمی ہے ؟ سیاست کے کھلے بازار میں جہاںونجارہ کا دھرم بک سکتا ہے، قلم کی کیا بساط ؟

ونجارہ نے اپنے استعفیٰ کےمیں اعتراف کیا ہے کہ اسے دیگر ملزمین کے ساتھ گزشتہ سال نومبر کے اندر سپریم کورٹ کی ہدایت پر مہاراشٹر کی تلوجہ جیل میں منتقل کردیا گیا ۔اس کے باوجود استعفیٰ پر سابرمتی جیل احمدآباد کا پتہ کیوں درج ہے ؟یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ اگر یہ استعفیٰ اس وقت لکھا گیا تھا جبکہ وہ سابرمتی جیل میں تھا تو اسے اتنے دنوں تک پوشیدہ کیوں رکھا گیا ؟ جب اس کی تاریخ کو تبدیل کیا گیا تو پتہ بدلنے کی زحمت کیوں گوارہ نہیں کی گئی ؟ یہ تمام سوالات غیر اہم ہونے کے باوجود دلچسپ ہیں۔ویسے استعفیٰ کے اندر اس سال جون کے اندر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا حوالہ ہے جو اس پر نظر ثانی اور ضروری اضافہ کا غماز ہے۔

اپنی ذاتی جنگ کو ونجارہ نے پولس افسران کا دھرم یدھ بنانے کی ناکام کوشش اسی طرح کی ہے جیسے کہ مودی اپنی لڑائی کو پانچ کروڈ گجراتیوں کی جنگ قراردیتا ہے ۔ونجارہ کے بقول گجرات کے علاوہ ملک کی کسی ریاست میں ۳۲ پولس افسران کو اس قدر طویل عرصے کیلئے زیر حراست نہیں رکھا گیا اور سی بی آئی کی نئی فردِ جرم مزید ۶ افسران کو سرکاری میزبان سے مہمان میں بدل دے گی ۔ ونجارہ کو افسوس ہے کہ اس قدر طویل عرصے تک انہیں حراست میں کیوں رکھا گیا جبکہ انصاف پسندعوام کو اس بات کا غم ہے کہ ابھی تک ان سفاک بھیڑیوں کو قرار واقعی سزا دے کر تختۂ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا ۔ ویسے پولس کے محکمے میں اس قدر بڑے پیمانے پر مجرمین کا پروان چڑھنا اور ان کو سزا سے محفوظ رکھاجانا مودی کی کے نام پر بٹہ ضرور ہے ۔ ونجارہ کو اپنی زندگی کے۶ قیمتی سال جیل کی کوٹھری میں گزارنے کا افسوس تو لیکن جن کاجعلی انکاؤنٹر کردیا گیا ان پر ذرہ برابر ندامت نہیں ہے۔ ونجارہ کو چاہئے کہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے جو انصاف کے حصول کا یہ طویل موقع اسے میسر آیا اور ہنوز یہ دروازہ بند نہیں ہوا ہے ۔ اسے ان معصوم لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جنہیں گرفتار کرکے عدالت میں حاضر کرنے کے بجائے اس نے اور اس کے ساتھیوں نے جعلی انکاؤنٹر میں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

ونجارہ کے خیال میں ملزم پولس افسران حکومت (ریاستی) کے وفاشعار و فرمانبردار سپاہی تھے جو کسی دنیاوی لالچ کا شکار ہوئے بغیر پاکستانی دہشت گردی سے نہایت ایمانداری ،سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ بر سرِپیکار تھے ۔ اسی طرح کا دعویٰ ونجارہ کے دھرم گرو آسارام باپو کے بارے میں ان کے دیگر مقلدین بھی کررہے ہیں۔ ونجارہ کا کہنا ہے کہ اس نے مودی حکومت سے اپنے زنداں کے ساتھیوں کیلئے بارہا مدد طلب کی لیکن سارے زبانی وعدے کھوکھلے اور گمراہ کن ثابت ہوئے۔ونجارہ بالآخر اس نےنتیجہ پر پہنچا ہےکہ حکومت انہیں جیل میں رکھ کر اپنی جان بچانا چاہتی ہے اور انکاؤنٹر کا ہوا کھڑا کرکے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ کاش کہ یہ انکشاف ونجارہ کو اس وقت ہوا ہوتا جب وہ اپنے آقاؤں کے ایماء پر بے دریغ معصوموں کا خون بہا رہا تھا لیکن اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ پہلے ونجارہ زعفرانی چڑیا کو دانے ڈال رہا تھا اب ترنگے شکاری کے دام میں گرفتار ہوچکا ہے۔

ونجارہ کا الزام ہے کہ مودی حکومت نے امیت شاہ کو بچانے کیلئے ملک کے سب سے مہنگے وکیل رام جیٹھ ملانی کی خدمات حاصل کیں جبکہ پولس افسران کوہر قسم کی عدالتی سہولیات سے محروم رکھا گیا تاکہ وہ جیل سے باہر آکر سی بی آئی کی تفتیش کا شکار نہ ہوں بلکہ نریندر امین اور دنیش کی ضمانت کو پہلی فرصت میں منسوخ کروا کر انہیں دوبارہ جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ امیت شاہ کے انتخاب کا راستہ صاف کرنے کی غرض سے مقدمہ گجرات سے ممبئی منتقل کروایا گیا ۔ یہ سنگین الزام ونجارہ نے سپریم کورٹ پر لگایا ہے۔ اگر دس سال قبل کوئی مسلم نوجوان اس طرح کی بات کرتا تو شاید ونجارہ اسے پاکستانی دہشت گرد قراردے کر اس کا انکاؤنٹر کردیتا ۔ ونجارہ کے مطابق امیت شاہ نہایت خودغرض ہے اور بے ضمیرانسان ہے وہ حکومت کے سیاسی مفادات کی خاطرپولس افسران کی زندگی سے کھلواڑ کر رہا ہے یقیناً یہ الزام درست ہے لیکن کیا یہ افسران حکومت کے سیاسی اوراپنے ذاتی مفادات کی خاطرعوام کی جان سے نہیں کھیل رہے تھے؟ اگر آج امیت شاہ کا ایسا کرنا غلط ہے تو کل ونجارہ کی یہ حرکت کیسے درست تھی ؟ جیسی کرنی ویسی بھرنی بھی یہ محاورہ شاید ایسے ہی لوگوں کیلئے وضع کیا گیا ہے؟

اپنے تمام تر زور بیان کے باوجود ونجارہ کا استعفیٰ امیت شاہ کے خلاف جب اپنی توپ کا دہانہ کھولتا ہے تو خود اپنے خلاف ہو جاتا ہے۔ ونجارہ کے مطابق ؁۲۰۰۲ سے امیت شاہ اپنی نااہلی اور بدانتظامی کے سبب پولس محکمہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس نے افسران کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلا یا اور تقسیم کرکے حکومت کرنے کی برطانوی پالیسی اپنارکھی ہے۔ اس نے اہلکاروں کے اندر اپنے افسران کے احکام کی تعمیل کا گلاگھونٹ دیا ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ خودونجارہ ہمیشہ ہی اپنے افسر کو نظر انداز کرکے اسی امیت شاہ سے براہِ راست احکامات لیتا رہا ہے بلکہ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں سے بھی اعلیٰ افسران کو آگاہ کرنے کی زحمت نہیں کیا کرتا تھا؟ ونجارہ کے یہ الزامات اگر درست ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ونجارہ اور اس کے ساتھیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا۔ وہ تمام جیل جانے تک امت شاہ کے آلۂ کار کیوں بنے رہے؟ امیت کے ذریعہ افسران کےدرمیان پیدا ہونے والی چپقلش کا فائدہ اٹھاکر سی بی آئی نے جعلی انکاوئنٹر کے شواہد جمع کئے ۔ اگر ایسا ہے تو امیت شاہ کی اس غیر شعوری حرکت نے مجرمین کے چہروں کو بے نقاب کرنے کا اچھا کام کیا ہے ۔

جیل میں ۶ سال کی مدت گزارنے کے بعد ونجارہ کو گاندھی جی کا یہ مقولہ سمجھ میں آیا کہ ریاست ایک بے جان مشین ہے اور حکومت کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا ۔اگر ونجارہ اپنے ماضی پر غور کرے تو اس پر یہ انکشاف ہوجائے گا کہ پولس فورس کا عقل و شعور سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا وہ ایک خونخوار بھیڑئیے کی مانند شیر کے اشارے پرمعصوم جانوروں کی خونریزی کرتی رہتی ہے۔ ونجارہ کو شکایت ہے کہ اس کی پروقار خاموشی کی صفت کو کمزوری سمجھ کر نظرانداز کیا گیا اور اس کے ساتھ نہایت ترش روی سے پیش آیا گیا۔ حصولِ انصاف کے تمام بے سود رہے ان کے نتیجہ میں مایوسی اور بیزاری کے سوا کچھ ہاےھ نہ آیا اس لئے نےاب سکھ گرو گوبند کا ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ گروگوبند سنگھ نے کہا تھا کہ جب انصاف حاصل کرنے کے تمام راستے اور دروازے بند ہو جائیں تو تلوار کا اٹھا لینا دھرم(یعنی مبنی برانصاف) ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اب وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ انکاؤنٹر کے پسِ پشت اصل مجرمین کی نقاب کشائی کرے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے۔

ونجارہ کے مطابق اس نے اس کے ساتھیوں نے حکومت کی سوچی سمجھی اعلان شدہ دہشت گردی کو برداشت نہ کرنے کی پالیسی پر عملدرآمدکر کے اپنے فرضِ منصبی کو ادا کیا ہے ۔ونجارہ کو اپنی تمام تر سفاکیوں پر اب بھی ناز ہے ۔ ونجارہ تسلیم کرتا ہے کہ گودھرا کی آگ اور فسادات کے نتیجے میں گجرات کے اندر جہادی دہشت گردی کا اضافہ ہوا گویا اس خیالی دہشت گردی کیلئے بھی جس کی آگ پر گزشتہ ۱۱ سالوں سے گجرات میں سیاسی روٹیاں سینکی جارہی ہیں فرقہ وارانہ فساد ذمہ دار ہے۔ونجارہ فسادات کی مذمت کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اس کے جواب میں پاکستانی دہشت گردوں نے گجرات کو کشمیر بنانے کی کوشش کی ۔ ونجارہ کا یہ بیان نری کذب بیانی اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ وطن عزیز میں ونجارہ جیسے ہندوؤں کو دستور اور عدالت کی دھجیاں اڑانے کے بعد گرو گوبند سنگھ کی ہدایت کے مطابق تلوار اٹھانے کا حق تو حاصل ہےلیکن اگر کوئی مسلمان اسطرح کا خیال بھی اپنے دل میں لائے تو ونجارہ جیسے لوگ اسے دہشت قرار دے کر انکاؤنٹر کردیتے ہیں ۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا اس بابت گرو گوبند سے لے کر آسا رام باپو نے کچھ نہیں کہا؟

ونجارہ کے استعفیٰ کی روح یہ ہے کہ جن لوگوں نے ملک کی سالمیت پر حملہ کیا تھا گجرات پولس نے اپنی جان پر کھیل کر ان کا مقابلہ کیااور ریاست کے اندر امن و سلامتی کو استحکام بخشا۔پولس کا یہی کارنامہ حکومت کی نیک نامی کا سبب بنا ۔ اسی سے ترقی کی راہ ہموار ہوئی اور گجرات ایک مثالی ریاست بن سکا گویا نریندر مودی جن چیزوں کا کریڈٹ حاصل کرتا ہے وہ سب پولس کی بدولت ہے ۔ اس کے باوجود جن وفادار پولس افسران نے یہ کارنامہ انجام دیاوہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑرہے ہیں۔ سی بی آئی فی الحال جن چار انکاؤنٹرس کی تحقیق کررہی ہے وہ سب کے سب سرکاری احکامات کی تعمیل اور مکمل نگرانی و رہنمائی میں ہوئے۔ اس منطق کے مطابق ریاستی حکومت کو گاندھی نگر کے بجائے سابرمتی یا تلوجہ جیل میں ہونا چاہئے۔ یہی وہ بات ہے جس کیلئے استعفیٰ اس موقع پر آیا ہے اور اس کے سبب نریندرمودی کی سیاسی چتا میں وہ آگ لگا دی گئی جو آئندہ انتخابات تک اس کے خوابوں کو خاکستر کرتی رہے گی۔
ونجارہ کی دلیل یہ ہے کہ جو دھرم کا تحفظ کرتا ہے دھرم اس کی حفاظت کرتا ہے۔ جو پولس کی حفاظت کرتا ہے پولس اس کو تحفظ فراہم کرتی ہے یہ حکومت اور پولس کے درمیان باہم تحفظ کا دستورہے۔چونکہ حکومت پولس کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اس لئے پولس کی بھی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ مسندِ اقتدارمیں بیٹھے ہوئے ان غداروں کی حفاظت کرے جنہوں نے اپنے وفادار افسران کو موت کے منھ میں جھونک دیا ہے۔ ونجارہ کے مطابق پولس اور حکومت ایک ہی کشتی میں سوار ہیں وہ ایک ساتھ تیریں گے ایک ساتھ ڈوبیں گے۔ کوئی کسی اور ڈوبا کر خود پار نہیں اتر سکتا ۔ امیت شاہ فی الحال یہی کررہا ہے کہ اپنی جان بچا نے کیلئے پولس کوغرقاب کررہا ہے اور اسے غیر فطری موت کے دہانے پر لے جارہا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ خود بھی ڈوب مرےگا۔

اس بحث کے اندر پولس اور حکومت کے تعلق پر اس طرح گفتگو ہوئی ہے کہ درمیان سے تیسرا سب سے اہم فریق یعنی عوام بالکل غائب ہو گیا۔ حقیقت تو یہ ہے عوام کے تحفظ کی خاطر پولس فورس کا قیام عمل میں آتا ہے اور عوام کے ٹیکس پر اس کا گزر بسر ہوتا ہے ۔ لیکن ونجارہ کی ناقص منطق کے مطابق پولس والوں کااپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پربیکس عوام کو موت کے منھ میں جھونک دینا جائز ہے بشرطیکہ حکومت پولس کے مفادات کا تحفظ کرے۔مظلوم عوام تو خود تحفظ کے محتاج ہوتے ہیں وہ پولس کی حفاظت تو نہیں کر سکتے ہیں اس لئے پولس کی ذمہ داری یہ نہیں ہے انہیں تحفظ فراہم کیوں کرے؟ جس ملک میں اعلیٰ پولس افسران کی سوچ اس قدر فرسودہ ہو اور وہ اسے بیان کرنے پر فخر محسوس کریں وہاں کی عوام کس قدر غیر محفوظ ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔

نریندر مودی کے معاملے میں یوں تو خاصہ احتیاط برتا گیا ہے تاکہ اسے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اس کے باوجودونجارہ کے استعفیٰ میں مودی کو براہِ راست مخاطب کرکے یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ مادر وطن کا قرض ادا کرنے بات تو بہت کرتا ہے مگر دہلی کی اپنی دوڑ میں ان افسران کو بھول گیا جنہوں نے دیگر وزرائے اعلیٰ پر سبقت حاصل کرنے میں اس کی مددگار رہی ہے ۔ ونجارہ اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ نریندر مودی کو دیوتا سمجھتا تھا لیکن افسوس کہ اس کا دیو تا امیت شاہ کے برے اثرات سے نہیں بچ سکا۔ امیت شاہ اس کی آنکھ اور کان بنا ہوا ہے۔ امیت شاہ گزشتہ بارہ برسوں سے مودی کو گمراہ کررہا ہےاور بکری کو کتا اور کتے کو بکری بنا کر پیش کررہا ہے۔ اس نے انتظامیہ کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہےاور بلاواسطہ حکومت چلا رہا ہے۔ان ۳۲ پولس افسران کی جانب سے بے توجہی برتے جانے کیلئے بھی وہی ذمہ دار ہے ۔ امیت شاہ کے سبب جلدیا بدیرمودی کے اقتدار خاک میں مل جائیگا۔

امیت شاہ کے آگےنریندرمودی کواس قدر بے دست و پاثابت کرنے والے ونجارہ نے ایسا کرکے خود اپنی مٹی پلید کردی ہے۔اس لئے کہ اس استعفیٰ کی روشنی میں اگر ونجارہ کے اندر تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو وہ کسی انسان کو دیوتا نہیں بناتا اور اگر ایسا کرنا ہی تھا تو وہ مودی کے بجائے امیت کے قدموں میں گر جاتا ۔ اس طرح گویا ونجارہ پہلی غلطی تو یہ کی کہ ایک تو انسان کو دیوتا بنالیا اور دوسرے غلط انسان کو دیوتا بنا بیٹھا۔ جس کے نتیجے میں اسے اپنی ۳۳ سالہ پولس کی ملازمت سے بے آبرو ہو کر سبکدوش ہونا پڑا۔ ونجارہ جب جیل سے باہر تھا اس وقت سیاسی بساط کا زعفرانی گھوڑا تھا اور اب کانگریس کا کالا ہاتھی بنا ہوا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہوتا ہے۔یہاں کانٹے سے کانٹا نکالنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔ اس فن کے ماہر کانگریسی فی الحال ونجارہ کی مدد سے مودی کا کانٹا نکالنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ انہیں اپنے اس مقصد میں کس قدر کامیابی ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ (۰۰۰جاری)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451107 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.