ڈاکٹر غلام شبیر رانا
سید جعفر طاہر 29 مارچ 1917کوجھنگ کے ایک معزز سادات گھرانے میں پیدا
ہوئے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ایم ۔بی ہائی سکول جھنگ شہر سے حاصل کی ۔یہیں
سے عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر
عبدالسلام نے بھی ابتدائی تعلیم مکمل کی ۔اس زمانے میں جھنگ شہر امن و آشتی
،پیار و محبت اور حسن و رومان کا گہوارہ تھا۔مشہور رومانی داستان ہیر
رانجھا کا تعلق بھی اسی شہر سدا رنگ سے ہے ۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
وہ تاریخی تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہوئے ۔یہ عظیم مادر
علمی 1926سے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام
کر رہی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ سائنس دان) اور
ڈاکٹر وزیر آغا بھی یہیں کے فارغ التحصیل ہیں ۔اس کے بعد انھوں نے پنجاب
یونیورسٹی ،لاہور سے بی ۔اے کا امتحان پاس کیا اور برطانوی فوج میں بھرتی
ہو گئے ۔دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا وہ مختلف محاذوں پر عسکری خدمات کے
سلسلے میں تعینات رہے ۔جنگ کے دوران وہ برما ،جاپان ،سنگاپور،مصر اور عراق
کے مختلف محاذوں پر نازیوں سے مصروف پیکاررہے ۔1945میں جنگ کے اختتام پر وہ
راول پنڈی پہنچے ۔ان کی مشہور نظم ’’ واپسی ‘‘ ایام جنگ کے بعد بہ خیریت
وطن واپس آنے کے بارے میں ہے ۔
سید جعفر طاہر 1966میں فوج سے ریٹائر ہوئے ۔اس وقت وہ فوج میں کیپٹن کے
رینک پر تھے ۔پاکستانی فوج کے ممتاز ادیبوں کے ساتھ ان کے نہایت قریبی
تعلقات تھے ۔ان میں سید ضمیر جعفری ،کرنل محمد خان ،بریگیڈئیر شفیق الرحمٰن
اور کرنل صدیق سالک کے نام قابل ذکر ہیں ۔پاکستان بری فوج کی ملازمت سے
سبکدوش ہونے کے بعد سید جعفر طاہر ریڈیو پاکستان راول پنڈی میں جز وقتی
خدمات پر مامور ہوئے ۔ انھوں نے ایک بلند پایہ براڈ کاسٹر کی حیثیت سے اپنی
صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ان کا پیش کیا ہوا ’’ فوجی بھائیوں کا پروگرام ‘‘
اس زمانے میں بہت مقبول ہو ا ۔براڈ کاسٹنگ میں وہ زیڈ۔اے بخاری سے بہت
متاثرتھے ۔کلا م اقبال تحت اللفظ ،مسدس حالی تحت اللفظ اور حفیظ جالندھری
کا شاہنامہ اسلام تحت اللفظ پڑھنے میں انھیں ملکہ حاصل تھا۔راول پنڈی میں
اپنے قیام کے دوران انھوں نے اس علاقے کے ادیبوں سے مل کر با قاعدہ ادبی
تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔ان ادبی تقریبات میں نذیر احمد شیخ
،فارغ بخاری ،رضا ہمدانی ،پریشان خٹک ،غفار بابر ،رفعت سلطان ،مجید امجد
،محمد خالد ااختر اور شیر افضل جعفری شرکت کرتے ۔سید جعفر طاہر ان ادبی
محفلوں کی روح رواں تھے ۔
اپنی شاعری کا آغاز سید جعفر طاہر نے تیرہ سال کی عمر میں کیا۔گورنمنٹ کالج
جھنگ میں وہ کالج میگزین ’’ چناب‘‘ کی مجلس ادارت سے وابستہ رہے ۔اس عرصے
میں جن نامور ماہرین تعلیم نے ان کی علمی و ادبی صلاحتوں کو صیقل کیا ان
میں رانا عبدالحمید خان پرنسپل،پروفیسر غلام رسول شوق،سردار پریم سنگھ،لال
چند لالہ،پروفیسر محمد احمد خان اور پروفیسر یو۔کرامت کے نام قابل ذکر ہیں
۔ان کی شاعرانہ صلاحیتیں اس وقت کھل کر سامنے آئیں جب وہ بین الکلیاتی
مشاعروں میں اول انعام لے کر آتے ۔خیبر سے چٹاگانگ تک تما م تعلیمی اداروں
میں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی ۔مقامی اخبارات اور تعلیمی اداروں کے مجلات
میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا اور اسے خوب پذیرائی ملی ۔مولانا صلاح الدین
احمد کے ادبی مجلے ’’ادبی دنیا ‘‘میں ان کی یہ غزل 1946میں شائع ہوئی۔
کوئے حرم سے نکلے ہے کوئے بتاں کی راہ ہائے کہاں پہ آکے ملی ہے کہاں کی راہ
مولانا صلاح الدین احمد نے سید جعفر طاہر کی تخلیقی صلاحیتوں کو بے حد
سراہا۔وہ چار عشروں تک افق ادب پر ضو فشاں رہے ۔ان کی شاعری بر صغیر پاک و
ہند کے ممتاز ادبی مجلات کی زینت بنتی رہی ۔انھوں نے ہر صنف شعر میں طبع
آزمائی کی اور زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ استعداد اور اسلوب کی ندرت سے
قارئین کو مسحور کر دیا۔ان کے مزاج میں جدت اور تنوع کا عنصر نمایاں تھا۔وہ
نئے تجربات کے ذریعے اردو ادب کی ثروت میں اضافے کے خواہش مند تھے ۔انھوں
نے اردو شاعری کو ایک بالکل نئی صنف شعر ’’ کینٹو‘‘ سے متعارف کرایا۔اس میں
ان کے تخلیقی اظہار کے تمام امکانات پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ان
کے کینٹوز کا مجموعہ ’’ ہفت کشور ‘‘جب 1962میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر
منظر عام پر آیا تو ان کی عظمت اور شہرت کا بر ملا اعتراف کیا گیا ۔ ان کی
کتاب ’’ہفت کشور ‘‘ کو آدم جی ادبی انعام سے نواز کیا گیا۔سید جعفر طاہر کی
مذہبی شاعری اور قصائد پر مشتمل شعری مجموعہ ’’ سلسبیل ‘‘اس کے بعد شائع ہو
ا اور اسے بھی علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی ۔25 مئی 1977کو
اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اس میں سید جعفر طاہر کا نام بھی رقم
تھا۔اردو شاعری کا یہ آفتاب راول پنڈی کے افق پر غروب ہو گیا۔ان کا جسد
خاکی ان کے آبائی وطن جھنگ لایا گیا اور یہ زیرک تخلیق کار کربلا حیدری
جھنگ کے ایک گوشے میں آسودہ ء خاک ہے ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
سید جعفر طاہر کی شاعری دروں بینی کا حسین معیار پیش کرتی ہے ۔قلب اور روح
کی گہرائیوں میں اتر جانے والی ان کی شاعری زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز
ہے ۔وہ حریت فکر کے مجاہد تھے ۔وہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے
نیاز پرورش لو ح و قلم میں مصروف رہے ۔جو کچھ ان کے دل پہ گزرتی رہی وہ اسے
بے کم و کاست رقم کرتے رہے ۔ان کی شاعری میں حسن و رومان کے موضوع پر نہایت
دلکش انداز میں شعر ملتے ہیں۔ان کی لفظی مرقع نگاری کے مسحور کن کرشمے ان
کے کلام کی تاثیر کو دو آتشہ کر دیتے ہیں۔سراپا نگاری ،منظر نگاری ،جذبات
نگاری اور فطرت نگاری میں وہ اپنی تخلیقی فعالیت کی بدولت ممتاز مقام پر
فائز دکھائی دیتے ہیں ۔موزوں تراکیب،دلکش تشبیہات،دل نشیں استعارات اور
منفرد اسلوب ان کی شاعری کی پہچان ہے
نشے میں چشم ِ ناز جو ہنستی نظر پڑی
تصویر ہوشیاری و مستی نظر پڑی
لہرائی ایک بار وہ زلفِ خرد شکار
کوئی نہ پھر بلندی و پستی نظر پڑی
اٹھی تھی پہلی بار جدھر چشم ِ آرزو
وہ لوگ پھر ملے نہ وہ بستی نظر پڑی
حسن ِ بتاں تو آئینہ ء حسن ِ ذات ہے
زاہد کو اس میں کفرپر ستی نظر پڑی
سوئے چمن گئے تھے بہاراں سمجھ کے ہم
دیکھا تو ایک آگ برستی نظر پڑی
کیسی صبا کہاں کی نسیم ِ چمن نہ پوچھ
ناگن سی پھول پھول کو ڈستی نظر پڑی
مدت کے بعد اپنی طرف جوگیا خیال
تم کیا ملے کہ صورت ہستی نظر پڑی
شبنم کی بوند بوند نے ہنس ہنس کے جان دی
طاہرؔکرن کرن بھی ترستی نظر پڑی
اسلوبیاتی جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سید جعفر طاہر نے سادگی اور سلاست
کو بالعموم پیش نظر رکھا ۔وہ اپنے ذاتی تجربات، احساسات اور مشاہدات کو اس
فنی مہارت سے پیرایہء اظہار عطا کرتے ہیں کہ ان کی شاعری ابلاغ کا عمدہ
نمونہ بن جاتی ہے ۔اس عالم آب و گل کے حسین و جمیل مناظر سے وہ اپنے فن کے
لیے مواد کشید کرتے ہیں اور اس کے بعد تخلیق فن کے لمحوں میں پتھروں کو بھی
موم کرنے کی صلاحیت سے متمتع دکھائی دیتے ہیں ۔ان کی بات دل سے نکلتی ہے
اوردل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جہاں میں
بہار او ر خزاں کے سیکڑوں مناظر سامنے آتے ہیں ۔ تخیل کو سرابوں سے بچ کر
اپنی جو لانیاں دکھانی چائیں۔ان کی شاعری میں ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
کی کیفیت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ سفاک ظلمتوں میں جدت ، تنوع
اور افکار تازہ کی مشعل تھامے ایک ایسے جہان تازہ کی جستجو میں مصروف ہیں
جہاں خوشیوں کا دور دورہ ہو ۔ان کا خیال ہے کہ آثار مصیبت کا احساس بیدار
کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے کیونکہ اسی کے اعجاز سے امروز کی شورش میں
اندیشہء فردا نصیب ہوتا ہے ۔وہ اپنی کارگہ فکر میں حوصلے اور امید کے انجم
ضو فشاں رکھنے پر اصرار کرتے ہیں ۔
نجی زندگی میں سید جعفر طاہر پر کئی سخت مقام آئے۔ان کی زندگی صبراور
استغنا کی مثال تھی ۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے حامی تھے ۔انھوں نے کبھی
در کسریٰ پہ صدا نہ کی ۔وہ جانتے تھے کہ چٹانیں اور کھنڈر کسی کا دکھ درد
کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔اگر چہ وہ کثیر العیال تھے مگر چادر دیکھ کر پاؤں
پھیلانا ان کا شیوہ تھا۔ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے :
’’ کفایت شعاری کے باوجود تنخواہ ان کے بچوں کی پوری طرح کفیل نہ تھی۔ایک
دفعہ ان پر پیغمبری کا وقت آپڑا۔کسی محکمانہ کارروائی کی وجہ سے تنخواہ کی
ادائیگی میں تاخیر ہوئی ۔سید جعفر طاہر نے اپنے بچوں کی فوج ظفر موج کو لیا
اور ایک قطار میں لفٹ رائٹ،لفٹ رائٹ کرتا ہوا اپنے افسر کے بنگلے پر پہنچ
گیا۔افسر نے بچوں کی ایک لمبی قطار کو اپنے بنگلے کی طرف آتے دیکھا تو حیرت
زدہ ہو کر باہر نکل آیا۔تمام حالات معلوم کیے اور سید جعفر طاہر کی تنخواہ
کی فوری ادائیگی کے احکامات صادر کر دئیے۔سید جعفر طاہر نے اپنے بچوں سمیت
سلیوٹ کیا اور گھر واپس آگیا۔‘‘(سہ ماہی مونتاج ،لاہور،جولائی ستمبر
2010,,صفحہ 232
سید جعفر طاہر ایک مستحکم شخصیت کے مالک تھے ۔ان کی شگفتہ مزاجی اور گل
افشانیء گفتار کا ایک عالم معترف تھا ۔ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے
آنسو چھپانے کا سلیقہ وہ خوب جانتے تھے ۔ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا ان کا
مسلک رہا۔وہ کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔البتہ جبر اور ظلم کے سامنے سپر
انداز ہونا ان کے نزدیک بہ جائے خود ایک ظلم کے مترادف تھا۔ظالم کہیں بھی
ہو اور کسی کی صف میں ہو اس کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بنانا اور اس پر
تین حرف بھیجنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔ان کی شاعری میں علامتوں کا ایک
وسیع سلسلہ موجود ہے ۔ان تمام علامات کو در اصل ایک ایسے نفسیاتی کل کی
حیثیت حاصل ہے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی خوابیدہ صلاحیتیں متشکل ہو
کر فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہیں ۔مثال کے طور پر ان اشعار میں پتھر کی
علامت گہری معنویت کی حامل ہے
میں نے جو تیرے تصور میں تراشے تھے کبھی لے گئے وہ بھی میرے گھر سے پجاری
پتھر
سینہء سنگ سے دریا نہیں بہتے دیکھے کون کہتا ہے کہ ہیں درد سے عاری پتھر
ناز ہر بت کے اٹھا پائے نہ جعفر طاہر چوم کر رکھ دیئے ہم نے یہ بھاری پتھر
مادی دور کی لعنتوں نے زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید ضعف پہنچایا ہے ۔ظالم
و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے غریب مات کھا گیا
۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ، تضحیک تاور بے توقیری عام ہو گئی ہے ۔بے بس و
لا چار انسانیت کا کوئی پر سان حال نہیں۔سید جعفر طاہر نے اپنی شاعری میں
بے لوث محبت اور بے باک صداقت کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا اور نہایت خلوص
اور دردمندی سے الم نصیبوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی ہے ۔انھوں نے
منافقت ،دوغلاپن اور ہوس زر کو ہمیشہ لائق استرداد ٹھہرایا اور کردار سے
عاری موقع پرست ابن الوقت عناصر پر گرفت کی ۔
بٹائیں ہم بھی کبھی درد آبشاروں کا کسی پہاڑ کے دامن میں رو لیا جائے
میرے رفیق بہت جلد آنے والے ہیں میرے لہو سے صلیبوں کو دھو لیا جائے
واقعہ کربلا کو سید جعفر طاہر کی شاعری میں حریت فکر کے ایک استعارے کی
حیثیت حاصل ہے ۔شہدائے کربلا نے اپنی فقید المثال قربانی سے قیامت تک کے
لیے استبداد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔ان کی شاعری میں مقام شبیری کو
حقییقت ابدی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔و ہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ظلم کی
میعاد کے دن ہمیشہ تھوڑے ہو تے ہیں۔تیرہ و تار بھیانک راتوں کے بعد طلوع
صبح بہاراں کی راہ میں کوئی حائل نہیں ہو سکتا۔اعلائے کلمتہ الحق کے سلسلے
میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔حریت ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرنے
والوں کے لیے اسوہء شبیری ہر عہد میں لائق تقلید رہے گا۔
دعوت حق سے نہ بڑھ کر تھی وہاں کوئی خطا
آپ کیا پوچھتے ہیں سلسلہء جرم و سزا
دیکھیے معرکہ سامانیء نمرود و خلیل
یہ چتا شعلوں کی ،فطرت کی یہ لالہ کاری
اک پیمبر کے مقابل میں خدائی ساری
کرب تخلیق نئی رت کی تڑپ پھول ہی پھول
اور نمرود کھڑا سوچ رہا ہو جیسے
جانے اب رنگ جہان گزراں کیا ہو گا
قسمت کج کلہاں ،تاجوراں کیا ہو گا
ابتدائی زمانے میں سید جعفر طاہر کی شاعری میں رومانیت کے آثار بھی ملتے
ہیں۔اختر شیرانی ،میرا جی ۔ن۔م۔راشد اور مصطفی زیدی سے ان کے قریبی تعلقات
تھے۔اس زمانے میں ان کی شاعری میں محبت کے مضامین بڑے دلکش انداز میں اشعار
کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں۔وہ خود سراپا،خلوص و مروت تھے ۔بے لوث محبت
،انسانی ہمدردی اور ایثار کے جذبات ان کے ریشے ریشے میں سما گئے تھے ۔ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ ان کے جگر میں زمانے بھر کے غم سما گئے ہیں۔
پھر وہی قتل محبت زدگاں ہے کہ جو تھا رسن و دار کا عالم میں سماں ہے کہ جو
تھا
حیرت اہل نظر،اہل ہنر ہے کہ جو تھی شہرہء کم نظراں ،بے ہنراں ہے کہ جو تھا
لٹک رہی ہیں سردار گردنیں کیا کیا یہ جھانکتی ہیں محافوں سے دلھنیں کیا کیا
لہو لہو نظر آتی ہیں کتنی زندگیاں الٰہی دیکھ رہا ہوں سہاگنیں کیا کیا
اس ڈھلتے ہوئے حسن کے لکھتا ہوں قصیدے گرتی ہوئی دیوار حرم تھام رہا ہوں
وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان کے ساتھ والہانہ محبت سید جعفر طاہر کے
اسلوب کا نمایاں ترین پہلو ہے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو وہ بہت
اہمیت دیتے تھے ۔وہ تاریخ کو ایک مسلسل عمل کا نام دیتے تھے اور یہ بات زور
دے کر کہتے تھے جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں ان کا جغرافیہ یکسر بدل
جاتا ہے اور سیل زماں کا تھپیڑا انھیں عبرت کا ایک سبق بنا دیتا ہے
۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے حسی کو وہ تاریخ سے غفلت کا نتیجہ
قرار دیتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات ختم ہو سکتے ہیں
،قومیت کا تصور معدوم ہو سکتا ہے مگر تہذیب کا ارتقا بہ ہر حال جاری رہتا
ہے ۔زندگی کی تمام رعنائیاں اسی ارتقا کا ثمر ہیں۔اگر حالات اس قدر ابتر ہو
جائیں کہ تہذیبی ارتقا کا سلسلہ عنقا ہو جائے تو پھر قومیں وحشت و بر بریت
کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ان مسموم حالات میں درخشاں ا قدار و روایات ایسے
غائب ہو جاتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اجلاف و ارزال اور سفہاکی پانچوں
گھی میں ہوتی ہیں ۔اس حادثہء وقت کے بعد جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملتا
ہے اور خفاش منش وحشی حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کر کے اہل درد
کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اور اہنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں لگے
رہتے ہیں۔سید جعفر طاہر نے تاریخ کے مسلسل عمل کو اپنے اسلوب کی اساس بناتے
ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ روشنیوں کی راہ میں حائل ہونے والی گرتی ہوئی
دیواروں تیشہ ء حرف سے منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔سید جعفر طاہر
نے نئی نسل کو تہذیبی میراث کی منتقلی کی جانب بھر پور توجہ دی ۔
نیل بہتا رہا گاتا رہا برسوں ایسے
دامن ِ دشت پہ اہرام ابھرتے ہی رہے
وقت کی گود میں تابوت ابھرتے ہی رہے
لوگ مل مل کے بچھڑتے رہے کیسے کیسے
اور اب نیل نے اک د ور نرالا دیکھا
ہر در و بام کے ماتھے پہ اجالا دیکھا
اب نہ اوہام نہ وہ کفر پرستی کی رسوم
ظلمتِ ظلم و ظنوں کو تہہ و بالا دیکھا
بے نوا اب جو اٹھے اوجِ عجب تک پہنچے
تشنہ لب چشم تا باب طرب تک پہنچے
وہ کہ تھے قدرت اظہار سے محروم و تہی
مسند فلسفہ و شعر و ادب تک پہنچے
یہ خداوند تعالیٰ کا پیا م پر نور
جس کا فرمان کہ اﷲ کی ہے ساری زمیں
جس کا ارشاد کہ ہر جا ہو نظام ِ جمہور
سلطانیء جمہور کو سید جعفر طاہر نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔وہ طالع
آزما مہم جو عناصر کے اس کردار کو سخت نا پسند کرتے تھے جب وہ جمہوریت کی
بساط لپیٹ کر آئین کو پامال کرکے پورے جمہوری ڈھانچے کو تہس نہس کر دیتے
ہیں ۔جب 1971میں سابقہ مشرقی پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے حکم پر فوجی
کارروائی ہوئی تو سید جعفر طاہر کو شدید صدمہ پہنچا۔انھوں نے اپنے نام کے
ساتھ کیپٹن لکھنا ترک کر دیا ۔سقوط ڈھاکہ کے بعد شدت کرب سے مجبورپورا ایک
ماہ وہ گوشہ نشین رہے اور بہت کم لوگوں سے ملے ۔ان کا کہنا تھا اس حادثے نے
ان کی روح کو زخم زخم اور وجود کو کرچی کرچی کر دیا ہے ۔
سید جعفر طاہر کو پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔دنیا کی
اہم زبانوں کے مشہور ادب پارے انھوں نے بڑی توجہ سے پڑھے ۔انھیں جرمن
،جاپانی،برمی ،عربی ،فارسی ،انگریزی اور روسی زبان پر دسترس حاصل تھی ۔دنیا
بھر میں کولونیل نظام کے فسطائی جبر کے خلاف جن ادیبوں نے ببانگ دہل اپنا
ما فی الضمیر بیان کیا ان میں سید جعفر طاہر کا نام بھی شامل ہے ۔وہ جب بھی
جھنگ آتے یہاں کے ممتاز اہل قلم کے اتھ مل بیٹھنے کے لیے کوئی ادبی تقریب
ضرور منعقد کرتے ۔جھنگ میں مجلس سلطان باہو کے قیام میں انھوں نے بھر پور
حصہ لیا ۔وہ حضرت سلطان باہوؒ کے ابیات کا بڑی عقیدت کے ساتھ مطالعہ کرتے
تھے۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل ڈاکٹر سید نذیراحمد جب ابیات سلطان باہو
مرتب کر رہے تھے تو انھوں نے سید جعفر طاہر سے بھی اہم مآخذ کے سلسلے میں
مشاورت کی ۔سید جعفرطاہر نے اپنے ذاتی کتب خانے سے بعض نادر مخطوطے اور
قلمی مآخذ انھیں دئیے۔سید جعفر طاہر اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔جھنگ کی
ادبی کہکشاں کے وہ ایک تابندہ ستارے تھے ۔ ان کے افکا ر کی ضیا پاشیوں کا
پروری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔ان کی معجز نما شخصیت سے متاثر ہو کر ان کے
معاصرین نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ سر
زمین جھنگ سے تعلق رکھنے والے ان کے نامور رفقائے کار میں شیر افضل جعفری ،
خادم رزمی ، میر تحمل حسین جعفری ،عبدالعزیز خالد،صاحب زادہ رفعت سلطان،رام
ریاض،کبیر انور جعفری،صدیق لالی ،محمد حیات خان سیال ،الحاج سید غلام بھیک
نیرنگ ،حفیظ ہوشیارپوری،سید مظفر علی ظفر ،سید تقی الدین انجم (علیگ)،خواجہ
شائق حسن ،معین تابش،بید ل پانی پتی ،حکمت ادیب ،سجاد بخاری ،امیر اختر
بھٹی،احمد تنویر،خادم مگھیانوی،قدیر قیس،خیر الدین انصاری ،غلام علی
چین،رانا سلطان محمود، حکیم حاجی غلام محمد ،شارب انصاری اور حکیم ادریس
بخاری کے نام ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ وہ آفتاب و ماہتاب ہیں جو نصف صدی
تک افق ادب پر ضو فشاں رہے مگر اب سیل زماں کے باعث تمام منظر ہی گہنا گیا
ہے ۔یہ سب آسماں اب پیوند زمیں ہو چکے ہیں ۔ان کے کارنامے ابلق ایما کے
سموں کی گرد میں رفتہ رفتہ اوجھل ہو رہے ہیں ۔ کتنی حقیقتیں خیال و خواب ہو
گئیں لیکن مسلسل شکست دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ کوئی بچھڑ کے چلا جائے
کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کارواں کے دل سے احساس
زیاں ختم ہو چکاہے۔سید جعفر طاہر کے بعد جھنگ شہر سدا رنگ کی ادبی محفلوں
کی وہ چکا چوند اب ماضی کا حصہ بن گئی ہے ۔زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسے یگانہء
روزگار تخلیق کار کبھی پیدا نہیں کر سکتا۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہو گی کہ
پنہاں ہو گئیں
|