امریکہ اپنے ایجنٹ کو چھڑا لے جائے گا؟

گاؤں کے کسی طاقت ور بدمعاش نمبردار کی مانند امریکہ پوری دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاور ثابت کرنے کی کوششوں میں ہر دم مصروف نظر آتا ہے ،اس کی پالیسیاں اس کے انٹیلی جنس ادارے تشکیل دیتے ہیں جن پر ہر نئے آنے والے حکمران کو کو بلکل اسی طرح عمل پیرا ہونا پڑتا ہے جس طرح گاؤں کے نمبردار کے بعد آنے والے نئے نمبردار کوبھی وہی طریقہ کار استعمال کر کے اپنے مزاروں کو قابو کرنا پڑتا ہے ۔امریکہ میں صدریا وزیر خارجہ کوئی بھی ہو اسے اپنے خفیہ اداروں کی پالیسیوں سے باہر نکلنے کی اجازت یا مداخلت نہیں کرنے دی جاتی۔ گزشتہ دنوں قومی و بین الاقوامی میڈیا میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے رہائی کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آئیں جن کی بعد میں تردید کر دی گئی ۔امریکہ جو دنیا پر غالب رہنے کیلئے کمزور ممالک کے ذہنوں پر سوار رہنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے کی اپنے ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے کوششیں اور توانائیاں صرف کر رہا ہے اس سلسلے میں وہ میڈیا میں ایسی خبریں ایک سازش کے تحت چھوڑ کر دوسرے ممالک اور ادارو ں کا رد عمل دیکھ کر اپنے مشن کی تکمیل کیلئے مستقبل کی نئی پالیسیاں مرتب کرتا ہے ۔امریکی پالیسی ساز اداروں کی تاریخ گواہ رہی ہے کہ وہ کبھی کسی ایسی پالیسی پر نہ خود عمل پیرا ہوتے ہیں جن میں امریکی خفیہ اداروں کی پالیسیوں کو ٹھیس پہنچے اور انکے عوام کی نظر میں ان کی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہو اور نہ اپنے حکمرانوں کے ایسا کرنے دیتے ہیں اس کی ایک بڑی مثال اسرائیلی جاسوس ناتھن پولارڈ کی ہے جس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کی جیل کی آہنی دیواروں کے پیچھے 26سال سے ایک اسرائیلی جاسوس'جوناتھن پولارڈ ' قید ہے۔جسے امریکہ میں رہ کر اسرائیل کیلئے جاسوسی کرے کے الزام میں گرفتار کر کے سزا دی گئی ہے، ناتھن پولارڈ کی رہائی کے لئے اسرائیلی حکمرانوں نے ہر حربہ استعمال کیا ہے، مگر ہر مرتبہ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اس کی رہائی کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جوناتھن پولارڈ امریکی شہری تھااور ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا، مگر پھر اسے اسرائیل کے لئے جاسوسی کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیاگیا۔ آج جوناتھن پولارڈ کی رہائی کے لئے ہر اسرائیلی تڑپ رہا ہے ،مگر امریکی اسے کسی طرح رہا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ 1998ء میں جب ہیبرون معاہدہ ہو رہا تھا تو اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شرط رکھی کہ وہ اس معاہدے پر صرف اس صورت میں دستخط کریں گے اگر صدر کلنٹن جوناتھن پولارڈ کو رہا کر دیں۔صدر کلنٹن نے جوناتھن پولارڈ کو رہا کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔اسرائیلی و دیگر یہودی ممالک کے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع ہو ئیں کہ جوناتھن پولارڈ رہا ہو کر وزیراعظم نیتن یاہو کے طیارے میں اسرائیل آ رہا ہے۔ اس کے پرجوش استقبال کے لئے تیاریاں شروع ہو گئیں ،مگر اس وقت کے سی آئی اے کے چیف جارج ٹینٹ نے صدر کلنٹن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اگر رات کو پولارڈ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو صبح وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ اپنی خود نوشت میں جارج ٹینٹ نے اس واقعے کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار پولارڈ کو رہا کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے، مگر جارج ٹینٹ کا خیال تھا کہ اس کی رہائی سے سی آئی اے میں سخت بے اطمینانی پھیل جائے گی اور وہاں کوئی یہ یقین نہیں کرے گا کہ اتنا بڑا فیصلہ اس کی مرضی کے خلاف ہوا ہے اور اس صورت میں اس کے سی آئی اے کا سربراہ رہنے کا جواز ختم ہو جائے گا۔ جارج ٹینٹ بتاتا ہے کہ ایک رات کو ایک بجے جب جارج ٹینٹ کی صدر کلنٹن سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ اگر پولارڈ کو رہا کیا گیا تو وہ صبح سی آئی اے کا چیف نہیں ہو گا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ پولارڈ کے معاملے میں صدر کلنٹن پر کتنا زیادہ دبا وہے، کیونکہ خود اسرائیلی وزیردفاع نے اسے زور دے کر بتایا تھا کہ اسرائیل کو ہر قیمت پر پولارڈ کی ضرورت ہے، پولارڈ رہا نہیں ہوا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ہیبرون معاہدے پر اس کے بغیر ہی دستخط کرنا پڑے، کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ پولارڈ کو رہا نہ کرنے کے لئے صدر کلنٹن کی انتظامیہ کے افسران آخری حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ جوناتھن پولارڈ کی رہائی اسرائیلی ایجنڈے پر سرفہرست رہی ہے۔ نیتن یاہو جب وزیر اعظم نہیں تھے تو وہ اس قیدی سے ملنے جیل گئے تھے۔ ان کی انتخابی مہم میں بھی جوناتھن پولارڈ کی رہائی کا وعدہ نمایاں رہا۔ رواں سال جولائی میں بطور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے پھر کہا تھا کہ اگر 58 سالہ پولارڈ کو رہا کر دیا جائے تو اسرائیلی حکومت ان 103 فلسطینیوں کو رہا کر دے گی جن کی رہائی کا مطالبہ فلسطینی کر رہے ہیں، مگر جان کیری نے بھی اسے مسترد کر دیا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ امریکی حکومت کے انتظامی افسر ایسا کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔جوناتھن چونکہ یہودی ہے اس لیے امریکہ میں جوناتھن پولارڈ کے بے شمار حامی ہیں جو اس کی رہائی کے لئے متعدد مرتبہ زوردار تحریکیں چلائی چکے ہیں، اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس نے امریکہ سے غداری نہیں کی تھی، بلکہ ایک دوست ملک کو چند ممالک کے دفاعی نظام کے متعلق معلومات فراہم کی تھیں جن میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق معلومات بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ اس نے جنوبی افریقہ اور دیگر مسلمان ممالک کے دفاعی نظاموں کے متعلق خفیہ معلومات بھی اسرائیل کو فراہم کی تھیں ۔ یہ معلومات اسرائیل کے ساتھ اپنی مذہبی عقیدت کی بنا پر دی تھیں۔ امریکی انتظامیہ کے افسران کہتے ہیں کہ پولارڈ کا جرم ثابت ہو گیا ہے کہ اس نے امریکہ سے غداری کی تھی۔ اس نے امریکہ کی بجائے اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ امریکہ میں بے شمار یہودی اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ ان کی اسرائیل سے محبت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ،مگر کسی کو امریکہ سے غداری کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جوناتھن پولارڈ کو اگر رہا کر دیا گیا تو اس سے ایک ایسی بری مثال قائم ہو گی، جس سے دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی امریکہ سے غداری کرنے کی شہ ملے گی۔ اس لئے جب بھی پولارڈ کی رہائی کا معاملہ اٹھتا ہے تو امریکی انتظامیہ کے سابق عہدیدار بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح انتظامی ڈھانچہ تباہ ہو جائے گا۔ آج امریکی ادارے اپنے ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفرید ی کی رہائی کی لیئے لابنگ کرنے میں مصروف ہیں،یہی امریکی ادارے اسامہ بن لادن کو سزا دینے کے لئے افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام کر چکے ہیں،تاریخ گوا ہ رہی ہے کہ امریکہ نے اپنی سرزمین پر جرم کرنے والے کسی غیرملکی کو نہ تو کبھی معاف کیا ہے اور نہ ہی نظر انداز، اور نہ ہی اپنے کسی ایجنٹ کو دوسرے ملک میں پکڑے جانے پر سزا دی جانے دی، کیونکہ امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی حفاظت محض سرحدوں پر سختی کرنے یا مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھ کر نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے وہ کسی کی پروا کئے بغیر ہر ہتھکنڈا اختیار کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ وہ ڈرون حملے کرتے ہوئے کسی کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ کتنے معصوموں کی اس میں موت واقع ہوتی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک صرف اسی طرح امریکہ کے تحفظ کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔ آج ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہے۔ امریکی وزیردفاع اور سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ لیون پنیٹا اس امرکی تصدیق کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر آفریدی سی آئی اے کے لئے کام کرتا رہا ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امریکی سینٹ نے ڈاکٹر آفریدی کی سزا پر پاکستان کی 33 ملین ڈالر امداد کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا یعنی ایک سال کی سزا پر ایک ملین ڈالر طے پائے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی تھی کہ ڈاکٹر آفریدی کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ بعدازاں اس کی تردید کر دی گئی۔ امریکی خفیہ ادارے پنے ایجنٹ ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے لئے خاصے سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں قائم ن لیگ حکومت کے وزیر اطلاعات کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے کہ جلد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرا دیا جائے گا ،اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی خفیہ اداروں نے کس سازش کے تحت حکومت پاکستان کو ایسی کیا تسلی یا لولی پوپ دیا ہے کہ حکمرانوں داکٹر عافیہ کی رہائی کو ممکن سمجھ رہے ہیں ،ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے حکومت پاکستان کا امر یکی خفیہ اداروں کے ساتھ رابطہ کرنامعمول کی بات ہے لیکن اس رہائی کو یقینی بنانے کیلئے امریکہ کو اپنے قوانین سے انحراف کرنا ہو گا کیونکہ ان کی عدالتیں ڈاکٹر عافیہ کو مجرم ثابت کر کے سزا دے چکی ہیں اب ملک دشمن امریکی ایجنٹ پشاور جیل کے قیدی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے امریکی ادارے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں اس کیلئے وہ حکومت پاکستان پر جائز و ناجائز دباؤ بھی بڑھا رہے ہیں اس کے علاوہ وہ اپنے اداروں ،ہم خیال و پاکستان دشمن و پاکستان دوست ممالک سے رابطے ضرور کر رہے ہوں گے ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تو یقینی طور پر امریکہ رہا نہیں کرے گا لیکن سابقہ امریکی تاریخ میں ایسے واقعات سے یہ ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ملازم شکیل آفریدی کو لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔اس سلسلہ میں پاکستانی خفیہ اداروں کو اسرائیلی ایجنٹ ناتھن پولارڈ والے واقعے پر گہری نظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسی مرتب کرنا چاہیے کہ امریکہ ایسے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔لیکن یہاں ہماری تاریخ بھی اس بات کی شاید رہی ہے کہ ہمارے ہمارے حکمران جلد بھلاؤے اور دباؤ میں آجاتے ہیں جس وجہ سے ہم مفاہمتی پالیسیوں میں مصروف اور دوسرے روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66235 views Columnist/Writer.. View More