بھارت میں مسلم کش فسادات اور کشمیر میں ریاستی دہشت گردی

بھارت کی ریاست اترپریش کے ضلع مظفر نگر میں حالیہ مسلم کش فسادات میں بہت سے مسلمان شہید ہو چکے ہیں، بے شک یہ فسادات بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش، اور ہمیشہ کی طرح مسلم دشمنی اور تعصب کی ایک زبردست لہر ہیں، جس کی جتنی مذمت بھی کی جائے کم ہے۔

بھارت دنیا میں ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے اپنا تعارف کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے، لیکن اس طرح کے ہندو مسلم فسادات جن میں ہمیشہ صرف مسلمانوں کے اموال و جان کا نقصان ہوا ہے، بھارت کے سیکولر چہرے پر ایک زبردست طمانچہ ہیں، اس سے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی واضح ہے وہاں انتہا پسند ہندوؤں کو ظلم و زیادتی کی کھلی چھٹی دے دینا انسانی اور عالمی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس ظلم و ستم کے علاوہ جہاں کوئی تخریب کاری کا کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کیے الزام مسلمانوں کے نام لگا دیا جاتا ہے۔ جس سے مسلمان ایسی تخریب کاری سے دوہرے عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں۔

حالیہ فسادات میں حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آئی یا یہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں شاید حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں کیونکہ اس طرح کے ظالمانہ واقعات پہلے بھی کئی بار ہو چکے ہیں اور ایسے واقعات روکنے کے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیے گئے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس سے پہلے بعض واقعات میں انتظامیہ کے ملوث ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس ظلم و ستم میں انتظامیہ اور ہندو بلوائی دونوں برابر کے شریک ہیں ان حالات میں مظلوم کو حق اور انصاف ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور لگتا ہے۔

جب بھی بھارت میں مسلم ہندو فسادات ہوئے ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں کہ انتظامیہ کے اکثر اہلکار خود ان جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں جس وجہ سے انتہا پسندوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔

گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے جمو ں و کشمیر میں بھارت کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ اور ریاستی دہشت گردی بھی ایسے ہندو مسلم فسادات کرانے میں ایک بڑی وجہ ہے۔ کیوں کہ بھارت اپنی دس لاکھ فوج سے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کھلی دہشت گردی ہے جو ایک بڑی سیکولر ریاست کے زیر اثر ہو رہی ہے۔ ایسی صورتِ حال سے بھارت کے اندر بھی انتہا پسند تنظیمیں شہ لیتی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف چھوٹی چھوٹی باتوں پر آگ اور خون کا کھیل شروع کر دیتی ہیں، جو ریاست خود ریاستی دہشت گردی، قتل و غارت، اغوا، اجتماعی آبرو ریزی جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہو گی تو اس کی رعایا بھی ان جرائم میں پیش پیش ہو گی۔

اگر بھارت کشمیر سے اپنا ناجائز تسلط چھوڑ دے اور اپنی ظالم فوج کو جموں و کشمیر سے واپس بلا لے تو اس سے نہ صرف کشمیر میں، بلکہ بھارت اور اس سے بڑھ کر پورے خطے میں دیرپا امن ہو سکتا ہے۔ ورنہ بھارت کے اہل حل و عقد کو اس بارے میں بغور سوچنا چاہیے کہ ظلم کی سیاہ رات ضرور چھٹتی ہے، اور اندھیرے کے بعد روشنی کا پھوٹنا قانون قدرت ہے۔ اس لیے اگر بھارت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والا وقت بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کو بری طرح متاثر کرے گا، اور بھارت کمزور ہو جائے گا، جس سے بھارت کے اندر آزادی کی تحریکیں شروع ہو جائیں گی اور بالآخر یہ ایشیا میں سپر پاور کے خواب دیکھنے والے ریاست پارہ پارہ ہو جائے گی۔

کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور قتل عام اور بھارت کے اندر اقلیتوں سے بیہمانہ سلوک نہ جانے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو کیوں نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں ہر ذی شعور سوچتا ہے کہ شاید دنیا کے ہر کونے میں صرف مسلمانوں کو ہی جان بوجھ کر ظلم کا شکار کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ ہر فورم پر زیادتی ہو رہی ہے۔ ان حالات میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ان حالات میں پاکستانی میڈیا کا خصوصاً اور پاکستانی حکومت کا عموماً فرض ہے کہ وہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی طرف مبذول کروائیں۔
Muhammad Rafique Nazish
About the Author: Muhammad Rafique Nazish Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.