پاکستان میں معاشی تنزلی
اورروپئے کی گرتی ہوئی قدر کولے کرہرطرف ہاہاکارمچی ہوئی ہے ،اوراوپرسے نئی
حکومت نے نئے قرضے لے کرآئی ایم ایف کی شرائط کوظاہر ہے کہ مان لیاہوگا۔اس
کے برعکس ملک کے ماہرینِ معاشیات اپنااپناتجزیہ پیش کررہے ہیں تو دوسری طرف
وزیر فنانس صاحب طفلِ تسلیاں ہی جاری کررہے ہیں۔جبکہ ضرورت ٹھوس اقدامات کی
ہے جوکہ نداردنظرآتی ہے۔ایسا بھی نہیں کہ کچھ نہیں کیاجارہاہے لیکن ہرعمل
اورہرقدم کے منفی نتائج ہی برآمد ہورہے ہیں۔وہ ملک جس نے عالمی مندی کے وقت
اپنی کامیاب معیشت کے ذریعہ دنیاکے دیگرممالک بشمول امریکہ،چین اورجاپان
کوحیرت زدہ کردیاکرتاتھاآج اپنی ہی پالیسیوں کی ناکامی کے جال میں
الجھتاجارہاہے۔دریں اثناء اپوزیشن جماعتیں اس موقع کوبھی سیاسی بازیگری کے
لئے استعمال کررہی ہوتی ہیں۔اور حکومت کوناکامی کا الزام دیتے ہوئے اس کی
تبدیلی کامطالبہ کررہی ہوتی ہیں،اس عمل کوبظاہرتوافسوس ناک قرارنہیں
دیاجاسکتاکیونکہ ہر طرف مہنگائی ہی مہنگائی نظرآتی ہے اوراس حقیقت سے بھی
انکار نہیں کیاجاسکتاکہ حکومت یااقتدارکی تبدیلی اس مرض کاعلاج ہے۔اس مسئلے
کے حل کے لئے تعمیری و مثبت سوچ اورعمل کی ضرورت ہے جس کاکہ ہرسمت فقدان ہی
نظرآتاہے۔کوئی اس مسئلے کوبرآمدات سے جوڑرہاہے توکوئی اس کوپیٹرول سے
جوڑرہاہے۔حقیقت میں یہ مسئلہ کسی انفرادی شعبہ سے جڑاہوانہیں،بلکہ آج کے
حالات ملک کی مجموعی معاشی پالیسیوں کااثرہیں جن میں چندسال قبل کے عالمی
منڈی کابھی بڑا ہاتھ ہے،کیوں کہ جس وقت عالمی سطح پرمعاشی انحطاط جاری
تھا،ترقی یافتہ ممالک نے اپنا سرمایہ بشکل ڈالرمارکیٹ میں پھیلادیااورآج
جبکہ وہاں حالات کچھ حد تک بہترہو گئے ہیں تووہ ہماری کرنسی کی گراوٹ میں
اہم کرداراداکرنے کے درپہ ہیں۔اوریوں روزافزوں ہماری روپئے کی قدرمیں
بتدریج گراوٹ آرہی ہے۔جبکہ ہم فوری طورپراس کامتبادل حل تلاش کرنے میں
ناکام ہورہے ہیں،جس سے معیشت میں بھی تبدیلی اورخسارے کاسگنل مل رہاہے۔
معیشت میں تنزلی کے لئے ایک گوشہ پیٹرول کی درآمدپرفکرمندی کااظہارکررہاہے
کیونکہ حکومت سے موجودہ حالات میں جس کارکردگی اورفیصلوں کی امیدکی جا رہی
ہے وہ اس میں پوری طرح ناکام نہیں توکامیاب بھی نظرنہیں آرہے ہیں۔ویسے بھی
ملک کی معیشت کوبہتری کی طرف لے جانے کے لئے حکومتیں بہترفیصلے کرتی ہیں
اورکررہی ہیں۔یقین جانیئے اگرہمارے قائدین عملی مظاہرہ کرتے ہیں توپھر
پاکستان کاہرشہری ان کے نقشِ قدم پرچلے گابس ضرورت ہے ایک پہل کی اورایک
بامقصد اوربے غرض مثال پیش کرنے کی تاکہ ہماری معیشت بھی مضبوط
ہوجائے۔اورہمارا ملک بھی تنزلی کے دوراہے سے نکل کرترقی کے منازل طے سکے۔
حکومت بھی روپے کی قدرمیں مسلسل گراوٹ کے درمیان پائی جانے والی فکرمندیوں
کودورکرنے کی سعی میں لگی ہوگی لیکن حقیقت تویہ ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی
صورتحال ماہرین کے لئے تشویش کاموجب بن گئی ہے۔وزیر اعظم نے گو کہ معاشی
پالیسی کا جائزہ لینے کے لئے پے درپے اجلاس منعقدکررہے ہیں مگران اقدامات
سے کسی بھی سطح پرروپے کی قدراوپرکی طرف جاتی ہوئی محسوس نہیں کی جا رہی ہے
بلکہ ہنوزاس میں کمی اورڈالرکے ریٹ میں اضافہ ہورہاہے۔روپئے کی قدرمیں
مسلسل کمی نے پاکستانی شہریوں اور کمپنیوں میں یہ فکرلاحق ہو گئی ہے کہ وہ
بیرون ملک سرمایہ کاری کس طرح کر سکیں گے۔پالیسی سازوں کے لئے یہ تبدیلیاں
غورطلب ہیں کیونکہ کہ انہوں نے روپے کی قدرمیں کمی کو روکنے کے لئے گزشتہ
کئی ماہ سے جوکوششیں کی ہیں اس کاکچھ اثردکھائی نہیں دے رہا۔اس وقت ڈالرکے
مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدرکی وجہ کیاہے اس پرغورکرناوزارتِ مالیات
کاکام ہے دیکھیں کب اس طرف معاملہ فہمی کی جاتی ہے۔ویسے بھی ہماری کرنسی کی
قدرمیں کمی ملک کی مالیاتی پالیسی کی ابتری کوواضح کر تی ہے۔گذشتہ کئی ماہ
سے روپئے کی قیمت ڈالرکے مقابلے میں خاصی کمزورہوتی رہی ہے جس سے پاکستانی
معیشت پربہت بُرا اثرپڑاہے۔یہ بدترین صورتحال ایسے موقع پردیکھنے کو مل رہی
ہیں جبکہ ملک کے اقتدار کی باگ ڈورایک نئی حکومت اورایک ماہراقتصادیات کے
ہاتھوں میں ہے۔کہاجاتاہے کہ جناب اسحاق ڈار صاحب کی اقتصادی فہم کی
دنیامعترف ہے لیکن آج حالات یہ ہیں کہ ان کے دورمیں پاکستانی معیشت ہچکولے
کھارہی ہے۔ یہ صورتحال کیوں درپیش ہوئی ہے ،اس کاتجزیہ کیاجاناناگزیرہے اب
دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے تجزیہ کارکب اس موزوں کی طرف رُخ کرتے ہیں۔
حکومت کی کوشش ابھی تک اپنا کوئی اثرنہیں دکھا پارہی ہے البتہ کرنسی کی
قدروں میں لگا تار کمی کے باوجود یہی کہاجارہاہے کہ حالات بہترہیں۔ہرسطح
پرروپئے کی گراوٹ کومستحکم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگایاجارہاہے
مگرروپیہ نہیں تھما ،گِرتا ہی جارہاہے۔ اور ڈالرمسلسل اپنی تیزی پربُرا
جمان ہے۔یعنی کہ یہ کہنا حق بجانب ہوگاکہ’’ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ،کچھ نہ
دوا نے کا م کیا۔‘‘
کچھ دنوں پہلے آئی ایم ایف کی ایکسٹرنل ڈائریکٹر،کیرولین اٹیکسن نے کہاتھا
کہ پاکستانی حکومت کودرپیش مسائل کاسامناہے لیکن آئی ایم ایف سمیت
دیگرامدادی اداروں کی مالی معاونت اس کی معیشت میں بہتری لائے گی۔واشنگٹن
میں آئی ایم ایف کی ایکسٹرنل ڈائریکٹرکیرولین اٹیکسن نے پریس کانفرنس میں
پاکستان کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کومختلف امدادی اداروں
سے بھرپورمالی معاونت مل رہی ہے جواس کی معیشت کے لئے اہمیت رکھتی ہے،انہوں
نے یہ بھی کہاکہ پاکستان کوماضی میں بہت سی مشکلات کاسامنارہاہے جس کی وجہ
سے امدادی ادارے بشمول آئی ایم ایف کی پاکستان کومکمل حمایت حاصل ہے،جواس
کی معیشت میں بہتری لائے گی۔ (بحوالہ اخباری تراشے)
ہمارے ملک میں بارش کی تباہی سے جہاں ایک طرف کسان تباہ وبربادہو چکے ہیں
تو وہیں دوسری جانب اس بڑھتی ہوئی مہنگائی نے دیگرشعبوں سے وابستہ ملازمین
اورعوام کاجینابھی مشکل کردیاہے۔ایسے حالات میں ملک کودرپیش اس معاشی بحران
سے نکلنے کے لئے حکومت کوماضی سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے،اگرچہ کہ
موجودہ حالات کاموازنہ کسی ادوارسے کرنامناسب نہیں لیکن موجودہ بحران سے
نکلنے کے لئے جس سیاسی بصیرت کااستعمال کیاجاناہے اس پرسخت اقدامات کی
ضرورت ہے۔حکومت کوچاہیئے کہ وہ معیشت کے ایسے پہلوؤں پرتوجہ دے جس کے ذریعے
روپئے کی قدرکومضبوط کیاجاسکے۔اورمؤثر اقدامات اگراٹھائے جائیں توممکن ہے
کہ صورتحال میں کسی قدربہتری آ سکتی ہے۔معیشت کوبہتربنانے کے لئے جن
منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے اس پرفوری عمل در آمدکو بھی یقینی بنانے کی
ضرورت ہے۔اس سے ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری بھی بڑھے گی اورلوگوں
کوروزگارکے مواقعے بھی میسرآ سکیں گے۔لیکن ان تمام معاملوں پرتفصیلات بتانے
کی بھی ضرورت ہے تاکہ عوام میں امید پیداکی جاسکے۔ |