کل جماعتی کانفرنس کی ممکنہ خوش فہیماں

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی سطح پر ایک بار پھر کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔اس بار قومی پالیسی مرتب کرنے کے حوالے سے ان افوہوں کو ختم کیا گیا کہ پاکستانی افواج ، سیاسی جماعتوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ نہیں ہیں۔کیونکہ یہ تاثر بڑی شد و مد کیساتھ موجود تھا کہ عسکری قوت ، شدت پسندی کے خلاف تمام جماعتوں کی اتفاق رائے چاہتی ہے لیکن بد قسمتی سے ماسوائے سوات آپریشن کے ، پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے واضح موقف اپنانے سے گریز کی راہ اختیار کرتی رہیں ، جس کا بڑا مظاہرہ مولانا فضل الرحمن کیجانب سے منعقدہ اے پی سی میں "دہشت گردی"کی جگہ عین وقت پر "بد امنی"کا شامل کئے جانا تھا۔اس کے علاوہ بیشتر جماعتیں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کو مخصوص نقطہ نظر سے دیکھنے کے سبب بھی واضح موقف اپنانے سے قاصر رہیں تھیں اور ان عوامل کی مذمت کرنے میں پس و پش سے کام لیتی رہی ،جو بے گناہ انسانوں ، جنازوں، مزارات، جلوس، جلسے اور مساجد کو نشانہ بناتے رہے۔کل جماعتی کانفرنس میں قابل ذکر صرف یہی بات ہے کہ تحریک طالبان نے پہلی بار مشترکہ اعلامیہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ جلد ہی طالبان شوری کا اجلاس منعقد ہوگا اور اُس کے بعد لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔یقینی طور موجودہ حکومت نے گذشتہ ماہ ملتوی کردہ کانفرنس کے بعد ہوم ورک کیا ہوگا اور اطلاعات کے مطابق دونوں فریقین کی جانب سے رابطے بھی ہوئے، تاہم اس حوالے سے یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ماضی کے برعکس طالبان کی جانب سے اعلامیہ پر تنقید نہیں کی گئی اور اب اس بات کی امید پیدا ہوگئی ہے کہ عسکری و سیاست قوتوں کے درمیان مفاہمت کے بعد طالبان کی جانب سے مثبت ردعمل کا آغاز ہوگا۔گو کہ مذاکرات میں حکومت کی جانب سے یہ تو واضح علامتی پالیسی موجود ہے کہ شدت پسندوں کو پاکستانی آئین ، پارلیمنٹ اور حکومتی رٹ کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ لیکن طالبان (پاکستان) کی جانب سے پاکستان سے کیا مطالبات کئے جاتے ہیں ہنوز اس کی تفصیلات کا صرف اندازہ کیا جا سکتا کیونکہ ابتدائی طور پر طالبان(پاکستان) کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آچکا تھا کہ ان کے گرفتار رہنماؤں کو رہا کیا جائے تو مذاکرات میں سنجیدگی سامنے آئے گی۔پاکستان طالبان (افغانستان) کے 33رہنماؤں کو افغانستان میں امن کی مفاہمتی پالیسی کے تحت رہا کرچکا ہے گو کہ افغانستان چاہتا تو یہی رہا ہے کہ ان رہا کردہ طالبان رہنماؤں کو من پسند علاقوں میں جانے کی اجازت دینے کے بجائے ، افغان حکومت کے حوالے کیا جائے ، لیکن پاکستان نے ان کا یہ مطالبہ منظور نہیں کیا، تاہم افغانستان میں امن کے خاطر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ماورائے عدالت رہائی دیتا رہا ہے۔اعلامیہ میں قبائلی رہنماؤں کی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اعتماد سازی کا عندیہ بھی حوصلہ افزا امر ہے ۔بادی النظر طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تقریباً تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے مثبت ردعمل اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی میں خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور سندھ کے وزراء اعلی کو اختیارات تقویض کرنے کا اعلان ایک اچھا اقدام ہے اس سے صوبائی حکومتوں کا یہ الاپ ختم ہوجائے گا کہ امن و امان کے مکمل ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وفاق کی جانب سے صوبائی حکومت پر ذمے داری عائد کرنے کا سلسلہ بھی موقوف ہوجانا چاہیے۔تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ متعدد گروپس مختلف ناموں سے پاکستان میں مصروف ِ عمل ہیں۔جن کے اپنے مقاصد اور طریقہ کار ہے۔ لیکن بین الاقوامی طور پر یہ بات مسلمہ تصور کی جاتی ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی چھوٹے انتہا پسند گروپس ہیں وہ دراصل افغانستان و پاکستانی طالبان کے انڈے ہیں ، جنھیں طالبان نے اپنے پروں میں سمیٹ کر سیچنے کا عمل جاری رکھا ہواہے ، اگر اس مرغی کو ان انڈوں سے اُٹھا دیا جائے تو ان انڈوں سے مزید چوزے پیدا نہیں ہونگے۔یہ امر بھی بڑی دلچسپی کا باعث ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے پاک فوج کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ بلوچستان میں ایک پاک فوج کا ایک فوجی بھی آپریشن میں حصہ نہیں لے رہا ، تاہم ایف سی اور رینجرز کے حوالے بلوچ عوام کے تحفظات سے اس غلط فہمی کو پروان چڑھایا جا رہا تھا کہ جیسے پاک فوج ، بلوچستان کے معاملات کو حل کرنے میں دل چسپی نہیں لے رہی ۔اس حوالے سے وزیر اعلی بلوچستان کو مکمل اختیار دئیے جانا کہ آپ بیرون ملک ، ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے میں آزاد ہیں ، اس کے بعد بلوچستان کے مسئلے پر وزیر اعلی بلوچستان کو تیزی کے ساتھ کسی غیر متوقع صورتحال سے قبل اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بڑی سنگین ہے، لیکن کراچی کو صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کے بجائے ایسے بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ طالبان کی تام "بی"ٹیم اس وقت کراچی میں موجود ہیں۔فرقہ واریت آگ بھڑکانے کی سازشوں میں بین الاقوامی طاقتوں کا بھیانک کردار رہا ہے ، وہ اپنے مفادات اور مقاصد کی تکمیل کیلئے عموماً کمزور و ترقی پزیر ممالک کو نشانہ پر رکھتے ہیں اور خصوصاً مسلمانوں کو صدقہ کا بکرا بناتے ہیں۔جن جن قوموں اور ممالک سے ان کے مقاصد پورے ہوتے چلے جاتے ہیں یہ ان سے نظریں پھیرنا شروع کردیتے ہیں۔جن اقوام و افراد کی ناز برداریاں کی جاتی ہیں وقت کیساتھ ساتھ ان میں نقائص بھی دکھائی دینا شروع کردیتے ہیں۔کل کے ہیرو آج کے دہشت گرد بنا دئیے جاتے ہیں ، جیسے عراق ، کویت ،لبنان، ترکی ،مصر، شام ، لیبا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کل تک ان کے حکمراں امریکہ اور ان کی اتحادی قوتوں کے آنکھ کے تارے تھے ،لیکن پھر بدلتے وقت کے ساتھ ان کے حلیف بد ترین حریف بن گئے۔جب امریکہ نے اپنے مقاصد پورے کرلئے تو افغانستان کے مجاہدین معتوب ٹھہرے اور عالمی دہشت گرد کے طور پر انھیں متعارف کرائے جانے لگا۔افغان قوم کو روس کے مد مقابل جہاد کے نام ہر قسم کی مدد کی تو جب یہی لوگ افغانستان کے حکمران بنے تو امریکہ کی آنکھ میں کٹکنے لگے اور پھر خود ساختہ نائن الیون نے افغانستان کو ایک بار پھر عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بنا دیا ۔امریکہ اپنی خود ساختہ پالیسوں کی وجہ سے عراق اور افغانستان میں پھنس گیا تواس نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں ، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہر صورت وہی اقدامات کئے جیسے صدر صدام کو پھانسی لگائے جانے وقت نقاب پوشوں نے "مقتدا الصدر زندہ باد"کے نعرے لگوائے۔ایران مسلکی اعتبار سے اسلام کے دوسرے مسالک سے جدا ملک سہی ، لیکن امریکہ یہ کبھی ہمت نہیں کرسکا کہ براہ راست ایران پر حملہ آور ہو، کیونکہ ایسے اس بات کا ڈر تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان اس کے خلاف ہوجائیں گے اس لئے اس نے فرقہ وارانہ سازش کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس کی ابتدا عراق سے ہوتے ہوئے عرب ممالک میں تبدیلی کی لہر قرار دیکر شام میں کیمیاوی ہتھیاروں تک پہنچا کر اس پر حملے کا جواز پیدا کردیا۔یہاں سعودی حکومت بھی امریکی بلاک میں دولت کے انبار لئے سامنے آگئی ، یہی وہ سازش تھی جس نے مسلمانوں کو دو بڑے واضح گروہ میں منقسم کردیا اور دنیا میں امت واحدہ کے بجائے شیعہ ، سنی مسلمان کی اصطلاح اب اس قدر عام ہوگئی کہ امریکہ کیلئے کوئی مشکل نہیں رہی کہ وہ کسی بھی مسلم ملک کے خلاف مسلک کی بنیاد پر حملہ کرنے کیلئے کسی بھی دوسرے مسلک کے مسلم ملک کی حمایت حاصل نہ کرسکے۔ پاکستان افغانستان جنگ کے حوالے سے امریکہ کیلئے بڑے چیلنجوں کا مسئلہ رہا ہے اس لئے یہاں بھی ایک سوچی سمجھی ساذش کے تحت ایسے گروپس کی سرپرستی کی گئی، جس نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور تشدد کو فروغ دیا۔حالات و واقعات اور آثار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان دشمن عناصر اپنے مفادات کی تحصیل و تکمیل کیلئے مسلمانوں کو اپنے مقاصد کی قرباں گاہ پر ذبح کرنا چاہتے ہیں۔جس میں سب سے زیادہ متاثرکراچی لسانی خانہ جنگی کے ساتھ فرقہ وارنہ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ کراچی میں لشکر جھنگوی کے پانچ گروپس کام کر رہے ہیں ، جن کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے ماسٹر مائنڈ جنوبی وزیر ستان میں ہیں ، کراچی میں سب سے مضبوط گروپ عطالرحمان عرف نعیم بخاری گروپ ہے۔جبکہ کوئٹہ سے کنڑول کئے جانے والا عثمان کرد گروپ بھی کراچی میں شدت سے سرگرم ہے۔اس کے علاوہ قاری ظفر عرف ابو تیافہ گروپ ،امان اﷲ عرف مفتی الیاس قاری رضوان گروپ، موجود ہیں۔ قاری عابد جھنگوی گروپ کو بم دہماکوں کا ماسٹر مائند جبکہ قاری اسلم گروپ کو جلوسوں پر حملوں کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔کراچی جیل کے4800 قیدیوں میں 200کے قریب لشکر جھنگوی ، طالبان اوور جند اﷲ کے عسکریت پسند شامل ہیں۔کراچی میں عسکریت پسندوں کے یہ خود رو گروپس میں جند اﷲ کے علاوہ بدر منصور گروپ ، خروج گروپ ، المختار گروپ پنجابی طالبان،الفرقان گروپ ، القتال گروپ اور لشکر بلوچستان کے اراکین بڑی تعداد میں گرفتار ہوئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ لراچی میں عسکریت پسندوں کی کثیر تعداد مختلف گروپس میں موجود ہیں۔قابل ذکر بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ لشکر جھنگوی سے الگ ہونے گروپس جند اﷲ ، ایشین ٹائیگر ، لشکر جھگنوی العالمی ، جند الحفصہ گروپس کے کراچی سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔اکچھ ایسے گروپ بھی ہیں جب ان کے اراکان گرفتار ہوتے ہیں تو ان کا علم ہوتا ہے جیسے 13جنوری2011کو پولیس کے سینئر عہدے دار راجہ عمر خطاب کی پریس کانفرنس کے مطابق 28دسمبر2010کے کراچی یونیورسٹی بم د ہماکے میں تحریک طالبان کے المنصور گروپ کا نام سامنے آیا ، ان کے تین اراکان گرفتار ہوئے ۔ راجہ عمر خطاب کے مطابق ان کا ماضیمیں تعلق جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا لیکن بعد میں 2007ء سے قائم پنجابی طالبان کے گروپ میں شامل ہوگئے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹیوں میں بھی بڑی تعداد میں تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے نوجوان موجود ہیں ۔ن تمام گروپس کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہی سامنے آتا ہے کہ وہ عظمت صحابہ رضوان اﷲ اجمعین پر نعوذ باﷲ توہین آمیز کلمات کے ردعمل کے طور پر کاروائیاں کرتے ہیں۔اس لئے ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صدائے معصومین ، لشکر عباس، سپاہ مہدی اورسپاہ محمد، کے سربراہ ڈاکٹر منتظر علی گروپ کے حماد ریاض نقوی،عسکری ، روئف ، قلب عباس نے مفتی نظام الدین شامزئی،مفتی جمیل، مولانا اعظم طارق،مولانا نذیر تونسوی سیکرٹری اطلاعات عالمی مجلس ختم نبوت،مذہبی اسکالر عتیق الرحمن ،عمار عتیق الرحمن،لولانا ارشاد الحق،ہارون قاسمی ، اسحق قاسمی جیسے جید مشائخ کو شہید کیا فرقہ وارانہ ان جیسی تنظیمیں بھی کراچی سمیت ملک بھر میں تقویت پکڑ چکی ہیں۔ ان کی جڑیں کراچی سے باہر پنجاب کے شہروں میں ملتی ہیں۔خاص طورباوا سدا حسین گروپ کو ملنگ گروپ کے نام سے بھی وجہ شہرت حاصل ہے جبکہ سپاہ محمد کے سپریم کمانڈر غلام رضا نقوی گروپ کو بھی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ تمام تنظیمیں اپنی کاروائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف ردعمل قرار دیتی ہیں۔ مسالک ، فقہ اور فرقہ وارانہ تعصب کے علاوہ نسلی بنیادوں پر عسکری تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں، جن کے مفادات کسی نہ کسی طرح ملک دشمن عناصر سے وابستہ ہیں اور بیرونی مداخلت ثابت شدہ ہے ان کو ملک میں امن و امان کے حوالے سے کسی طرح لایا جائے یہ بھی بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔طالبان پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود کی گرفت کیا ان فرقہ وارنہ گروپس پر بھی موجود ہے یا نہیں ؟۔ اس کا مظاہرہ پنجابی طالبان کے امیر عصمت اﷲ معاویہ کی صورت میں آگیا تھا جس میں انھوں نے اپنا دھڑا وزیرستان سے الگ بتلایا اور حکیم اﷲ محسود کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔ہمیں اس مرحلے پر یہ نہیں دیکھنا کہ کتنے گروپس کی کون کتنی سرپرستی کرتا ہے بلکہ جتنے بھی گروپس ہیں اگر وہ مذاکرات میں باہمی طور پر یہ گارنٹی دینے کو تیار ہیں کہ مذاکرات میں ان کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بعد کوئی دوسرا گروپ حکم عدولی کریگا تو وہ حکومت کے ساتھ ملکر کام کریں گے تو پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہونگے تو پھر ہی امن قائم ہوگا۔کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے خود سے خود الگ رکھنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ جب تک بیرونی جنگ کے اثرات ، اپنے ملک سے دور نہیں کئے جائیں گے کسی طور پر مملکت میں امن و امان قائم ہونے میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 652781 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.