تحریر : محمد اسلم لودھی
ایک خبر ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے پہلے تین مہینوں میں آٹے کی قیمت میں
230 روپے من کا اضافہ ہوچکاہے ۔ یہ صرف خبر نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔ اقتدار
ملتے ہی آپ نے عوامی مسائل کو یکسر فراموش کردیا ہے عوام نے مہنگائی ٗ بجلی
گیس کی لوڈشیڈنگ ٗ بے روزگاری ٗ دہشت گردی ٗ اغوا کاری اور بھتہ خوری ختم
کرنے کے لیے آپ کو ووٹ دیئے تھے کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ مسلم لیگ ن کے
پاس ایسی تجربہ کار ٹیم موجود ہے جو قوم کو درپیش مسائل کو جلد حل کرنے کی
صلاحیت رکھتی ہے ۔ اگر مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی تو وہ قوم کو بہت جلد ان
گوناگوں مسائل سے چھٹکارا دلائے گی ۔ ایک جانب آپ اپنی جوشیلی تقریروں سے
پاکستانی قوم کو بہلا پھسلا رہے تھے تو دوسری جانب عمران خان انقلاب کے نام
پر یہ کہتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگ رہے تھے کہ اگر پاکستانی قوم نے گوناگوں
مسائل سے نجات حاصل کرنی ہے تو تحریک انصاف کو ووٹ دے پھر دیکھیں عوام کے
مسائل کیسے حل ہوتے ہیں ۔ عوام نے عمران خان کو ووٹ تو دیئے لیکن اتنی
مقدار میں ووٹ انہیں نہیں مل سکے جس کے بل بوتے پر وہ ملک بھر میں اپنا من
چاہا انقلاب لا سکتے صرف خیبر پختوانخواہ میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب
ہوئے ۔ دوسری جانب بطور خاص پنجاب ٗ بلوچستان اور کسی قدر خیبر پختونخواہ
سے مسلم لیگ ن کو اتنی نشستیں مل گئیں جس کے بل بوتے پر مرکز اور پنجاب میں
وزارت عظمی اور وزارت اعلی ان کے حصے میں آئی۔ بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ن
حکومت بنا سکتی تھی لیکن بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کے لیے نوازشریف
نے کڑوا گھونٹ پی کر اقتدار ایک ایسے غیر متنازعہ شخص ڈاکٹر عبدالمالک کے
حوالے کردیا جو تمام بلوچ گروپوں اور قومی سطح پر احترام کی نگاہ سے دیکھے
جاتے تھے ۔
اب میاں محمدنوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کو اقتدار میں آئے ہوئے تین
مہینے ہوچکے ہیں لیکن مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں جو امیدیں
عوام نے مسلم لیگ سے منسوب کی تھیں وہ رفتہ رفتہ دم توڑتی جارہی ہیں ۔
وزیراعظم کی حیثیت سے آپ ( میاں نوازشریف صاحب ) لاہور سے کراچی اور گوادر
تک موٹروے اور بلٹ ٹرین کے کثیر المقاصد منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں جن کی
تکمیل کے بارے میں پاکستانی حالات اور سیاست کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں
کہاجاسکتا لیکن وہ مسائل سے جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پاکستانی قوم
نے آپ کو ووٹ دیئے تھے ان مسائل کی جانب توجہ دینے کی آپ کو فرصت نہیں رہی
۔
اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور مہنگائی بے روزگاری ٗ
بدامنی ٗ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے اعتبار سے بہت تکلیف دہ رہا ۔ مجھے
یاد ہے کہ اقتدار کے ابتدائی دنوں میں جب سید یوسف رضا گیلانی مکہ کالونی
گلبرگ تھرڈ لاہور میں غربت کے ہاتھوں تنگ آکر کی ٹرین کے سامنے چھلانگ لگا
کر خود کشی کرنے والی بشری کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو بشری کی والدہ نے یہ
بات کہی تھی وزیر اعظم صاحب خدارا مہنگائی کوکنٹرول کریں وگرنہ ہم بھی خود
کشی کرلیں گے وہاں تو گیلانی صاحب نے ہاں میں سرہلا دیا تھالیکن 55 روپے فی
لیٹر فروخت ہونے والے پٹرول کو مہنگا کرتے کرتے ایک سو روپے تک کچھ اس طرح
پہنچا دیا کہ آٹا آٹھ روپے فی کلو سے 35 روپے فی کلو تک پہنچا دیا اسی طرح
چاول گھی ٗ چائے ٗ دالیں گوشت اور پھلوں کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ کرکے
عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آپ عوام کو
مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کے لیے پٹرول کو قیمت خرید 65 روپے فی لیٹر پر
واپس لاکر مہنگائی کو پچاس فیصد کم کرتے لیکن آپ کو نہ تو اپنے ووٹروں سے
کیے گئے وعدے ہی یاد رہے اور نہ ہی آپ کو پاکستانی قوم پر رحم آیا آپ نے
بھی اقتدار سنبھالتے ہی جی ایس ٹی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی گیس اور
پٹرول کی قیمتوں کو مزید آسمان پر پہنچانے کی حکمت عملی اپنا لی ۔ وہ کام
جو پیپلز پارٹی عوامی ردعمل سے ڈرتی ہوئی نہیں کررہی تھی آپ نے وہی کام کسی
خوف کے بغیر دھڑلے سے کرکے رہی سہی کسربھی نکال دی ۔ اس لمحے مجھے یہ واقعہ
یاد آرہا ہے کہ ایک قریب المرگ گورکن اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا
مرنے کے بعد مجھے سب گالیاں دیں گے کیونکہ میں نے ساری عمر مردوں کے کفن ہی
اتارے ہیں بیٹوں نے یہ سن کر کہا ابا جی آپ پریشان نہ ہوں سب لوگ آپ کی
تعریف کیا کریں گے ۔ پھر جب وہ گورکن فوت ہوگیاتو بیٹوں نے کفن چرانے کے
ساتھ ساتھ مردے کی بے حرمتی بھی شروع کردی جب لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے
پہلے والا ہی چور اچھا تھا جو صرف کفن ہی چراتا ہے اب تو مردوں کے بے حرمتی
بھی شروع ہوچکی ہے ۔ یہ مثال ہو بہو آپ ( مسلم لیگی حکومت ) پر صادق آتی ہے
صرف تین مہینوں میں دس روپے فی لیٹر پٹرول بڑھانا ٗ ڈالر ایک سو روپے سے
ایک سو پانچ روپے تک لے جانا ٗ بجلی کے ریٹ 8 روپے فی یونٹ سے 15 روپے ٗ
اشیائے خورد نوش کی چیزوں کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ کرنے کا کارنامہ
واقعی آپ کو پیپلز پارٹی حکومت اور مشرف حکومت سے ممتاز کرتا ہے ۔ آپ کو
ووٹ دینے والے ملک بھر میں شرمندہ ہوتے پھر رہے ہیں اور مخالفین سرے عام یہ
کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اور ووٹ دو شیر کو ٗ یہ بھوکا شیر اپنے ہی
ووٹروں کو کھانے لگا ہے اور آٹھ دس ہزار روپے تنخواہ لینے والے ملازم دس دس
ہزار روپے کے بجلی کے بل اٹھائے آنسو بہاتے اور آپ کو بددعائیں دیتے پھر
رہے ہیں۔
اگر آپ کو اپنے ووٹروں کی غربت ٗ بے وسائلی ٗ مالی پریشانی ٗ بے روزگاری
اور تنگدستی کا تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو آپ وہ راستہ اختیار نہ کرتے جس
پر چلتے ہوئے پاکستانی قوم خودکشیوں پر اتر آتی ۔اگر آپ کو فنڈ کی ضرورت
تھی تو اس مقصد کے لیے کسی بھی دوست ملک مثلا سعودی عرب ٗ کویت ٗ دوبئی یا
چین سے درخواست کرکے آٹھ دس ارب ڈالر آسانی سے حاصل کرکے ضرورت پوری کی
جاسکتی تھی افسوس آپ نے وہ راستہ اختیار نہ کیا جس کی توقع آپ سے کی جارہی
تھی بلکہ آپ اور آپ کی تجربہ کار ٹیم نے پہلے سے مسائل کی دلدل میں ڈوبی
ہوئی پاکستانی قوم کو کند چھری سے ذبح کرنے کا بے رحم راستہ ہی اختیار کرنا
ضروری سمجھا ۔
آپ کو اگر عوامی مسائل کا ادراک ہوتا تو آپ بین الاقوامی فرموں سے معاہدے
کرکے ملک بھر میں تیل ٗ گیس اور قیمتی معدنیات کے تلاش شروع کردیتے ایک غیر
ملکی سروے کے مطابق صرف آزاد کشمیر میں 1500 ارب ڈالر کی معدنیات موجود ہے
جبکہ بلوچستان صحرائی اور پہاڑی علاقے سونے ٗ تانبے ٗ المونیم ٗ تیل اور
گیس سے بھرے ہوئے ہیں یہی عالم سندھ کے صحرائی اور پنجاب کے صحرائی اور
پوٹھوہارخطہ کا ہے جہاں اتنی معدنیات ٗ قیمتی پتھر ٗ تیل اور گیس کے ذخائر
موجود ہیں جن کو نکالنے کا اگر آپ اقتدار میں آتے ہی ٹھیکہ دے دیتے تھے ایک
سال سے بھی کم عرصے میں پاکستان نہ صرف تیل گیس کے معاملے خود کفالت حاصل
کرلیتا بلکہ قیمتی معدنیا ت کی بدولت پاکستان کا شمار امیر ترین ملکوں میں
ہوچکا ہوتا ۔آپ نے اس جانب کیوں توجہ نہیں کی یہ بات میری سمجھ سے بالاتر
ہے ۔ پھر پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کی بدترین صورت حال سے کون واقف نہیں
ہے آپ تو اعلی دماغ کے حامل ذہین انسان ہیں ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ
نہ صرف آدھے سے زیادہ ٹیکس ٗ ٹیکس وصول کرنے والے عملے کی ملی بھگت سے ہڑپ
کرلیا جاتا ہے بلکہ وہ جاگیر دار ٗ زمیندار ٗ ڈاکٹر ز ٗ وکیل ٗ پراپرٹی
ڈیلر جو ماہانہ لاکھوں اور کروڑوں کماتے ہیں وہ ایک پیسہ بھی ٹیکس نہیں
دیتے ۔ اس پر ظلم یہ کہ پیپلز پارٹی کے دور میں 551 ارب روپے کا جعلی ریفنڈ
سیاسی بنیادوں پر ایسے افراد کو دے دیا گیا جن کے نام بھی ٹیکس دہندگان میں
شامل نہیں تھے ۔اگر آپ اقتدار سنبھالتے ہی ایف بی آر کے معاملات کو سلجھاتے
ٗ رشوت لینے اور کرپشن کرنے والوں کے لیے ملازمت سے برطرفی کے علاوہ موت کی
سزا تجویز کرکے 551 ارب روپے جعلی ریفنڈ حاصل کرنے والوں کی گردن دباتے ۔
جاگیرداروں ٗ زمینداروں ٗ سیاست دانوں ٗ ڈاکٹرز وکیلوں اور پراپرٹی ڈیلروں
کو بھی ٹیکس نٹ ورک میں لانے کا اہتمام کرتے تو سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ بھی
ہوجاتا اور آپ کا خزانہ بھی بھر جاتا لیکن آپ نے نہ تو جعلی ریفنڈ لینے
والوں کی گردن کو دبایا اور نہ ہی ٹیکس نا دہندگان کو زحمت دی ۔ سیدھے
سیدھے جی ٹی ایس ٗ پٹرول ٗ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرکے اپنے ان
ووٹروں کو زندہ درگور کردیا جنہوں نے آپ کو ووٹ دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی
۔
کہاں ہے آپ کی تجربہ کار ٹیم ٗ کیا ان کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ پہلے سے مری
ہوئی قوم کو اور مار دو۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آپ فیصلہ بینی
کی قوت سے بھی مکمل عار ی ہوچکے ہیں ۔ابھی تک نہ آپ نیب کا چیرمین مقرر
کرسکے ہیں جہاں 800 ارب کے مقدمات زیر التوا ہیں ۔ سپریم کورٹ میں 500 ارب
کرپشن کے کیس زیر سماعت ہیں این آر او کے بارے میں واضح فیصلہ موجود ہونے
کے باوجود آپ نے این آراو کی آڑ میں کرپشن کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں
لانا کیوں گوارا نہیں کیا ۔ سپریم کورٹ نے بجلی کی تقسیم ملک بھر میں یکساں
کرنے کا حکم دے رکھا تھا اقتدار ملنے سے پہلے آپ عدالتوں کے فیصلے پر عمل
درآمد کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے لیکن اقتدار ملتے ہی عدالت عالیہ کے
فیصلوں کو بھی آپ کسی خاطر میں نہیں لائے ۔یہ وہ کام ہیں جو آپ کو ابتدائی
ایک دو ہفتوں میں ہی کرکے اپنے راستے کا تعین کرلینا چاہیے تھا لیکن اب تک
آپ گومگو کی صورت حال کا شکار ہیں اب بھی تین اہم ترین وزارتیں وزیروں کے
بغیر اور سات اہم ترین قومی ادارے سربراہوں کے بغیر چل رہے ہیں یہ وہ ادارے
ہیں جو اربوں روپے ہڑپ کرنے کے باوجود اب بھی بیل آوٹ کے لیے وزارت خزانہ
کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ آپ اقتدار سنبھالتے
ہی ان اداروں کا نہ صرف تھرڈ پارٹی آڈٹ کرواتے بلکہ عدالتی کمیشن قائم کرکے
ان قومی اداروں میں کرپشن کرنے والوں کا تعین کرکے ان کو قانون کی گرفت میں
لاتے ۔افسوس کہ یہ تمام ادارے جوں کے توں تباہی کے دہانے پر کھڑے حکومتی
مالی ریلیف کے منتظر ہیں آپ کے پاس نہ تو قوت فیصلہ ہے کہ اہل اور باصلاحیت
افراد کا تقرر کرکے ان قومی اداروں کو بحال کیا جائے اور نہ ہی آپ ان
اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے کرپٹ افراد کی بیخ کنی کا ارادہ
رکھتے ہیں ۔
کرپشن اس ملک کی جڑوں میں سرایت کرچکی ہے ٹیکس چوری کی سزا اگر ابتدا میں
ہی موت قرار دے دی جاتی تو آج بڑی حد تک کرپشن کا خاتمہ ہوچکا ہوتا آپ کی
چشم پوشی اور لاپرواہی کی وجہ سے کوئی سرکاری ادارہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں
کرپشن نہ ہورہی ہو بلکہ کرپشن کی طرف سے آنکھیں بند کرنے کا مقصد کرپٹ
افراد کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے سپریم کورٹ نے اسلام
آباد کے نئے ائیرپورٹ کی تعمیر کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کرپشن
کو روکنے اور کرپٹ افراد کی بیخ کنی کرنے میں موجود ہ حکومت کی کوئی دلچسپی
نظر نہیں آتی جو قومی منصوبہ 35 ارب میں مکمل ہونا تھا اب اسی منصوبے پر
غیر ضروری تاخیر ٗ کرپشن اور حکومتی عدم توجہی کی بنا پر لاگت کا تخمینہ 85
ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت نندی پور پراجیکٹ میں تاخیر اور کرپشن کا
شور تو مچاتی ہے لیکن اس منصوبے کو از سر نو شروع کرنے کی آڑ میں ایک بار
پھر 15 ارب روپے کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان
میں قومی سرمایے کولوٹنا کوئی جرم نہیں ہے ۔جہاں تک دہشت گردی ٗ تخریب کاری
اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں کا تعلق ہے محکمہ پولیس اوپر سے لے کر نیچے تک
صرف کاغذی کاروائی تک ہی محدود رہتا ہے ہر پولیس افسر نے اپنی اور اپنے گھر
دفتر کی حفاظت کے لیے قلعہ بندیاں تعمیر کررکھی ہیں جرائم پیشہ افراد کی
سرپرستی کرنا اور تھانوں میں بیٹھ کر شریف شہریوں سے رشوت لینا پولیس کا
معمول بن چکا ہے دہشت گردوں کو دیکھ کر تو یہ ایسی آنکھیں بند کرلیتی ہے
جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں ۔ لبرٹی چوک میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر جس دیدہ
دلیری سے دہشت گردوں نے کسی مزاحمت کے بغیر کامیاب حملہ کیا تھا ایک فرلانگ
فاصلے پر تھانہ گلبرگ ہونے کے باوجود کوئی ایک پولیس اہلکار بھی مقابلے کے
لیے نہیں نکلا بلکہ دہشت گرد بہت سکون سے ٹہلتے ہوئے موقعہ واردات سے فرار
ہوئے اس سانحے کی وجہ سے آج دنیا کی کوئی ٹیم یا کھلاڑی پاکستان آنے کو
تیار نہیں ہے یہ سب کچھ پولیس اور انتظامی اداروں کی بدترین نااہلی ہے ۔
عوام کو دہشت گردی تخریب کاری ٗ بھتہ خوری ٗ اغوا کاری اور ڈاکہ زنی سے
نجات کے لیے بھی ان کے پاس نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی جذبہ ہے ۔وزیر
اعلی پنجاب خود اعتراف کرچکے ہیں کہ پنجاب میں بھی بھتہ خوری ٗ سٹریٹ کرائم
اور اغوا کاری کی وارداتیں بہت حد تک بڑھ چکی ہیں اور ولیس کی کارکردگی
مایوس کن ہے ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی آپ لاہور ٗ
کراچی ٗ پشاور ٗ کوئٹہ اور گلگت میں ایک ایسی متحرک اور مستعد فورس بنا تے
جس کے پاس نہ صرف جدید ترین اسلحہ ٗ تیز رفتار ٹرانسپورٹ ٗ ہیلی کاپٹر اور
کشتیاں ہوتی بلکہ مجرموں کے تعاقب اور نقل و حرکت دیکھنے والے تمام آلات سے
وہ فورس لیس ہوتی ۔ جہاں بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا وہاں یہ فورس منٹوں میں
پہنچ کر دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو جہنم رسید کرتی لیکن اکیلے حافظ
آباد کے سکندر نے جس طرح بیوی بچوں سمیت اسلام آباد کے بلیو ایریا میں (جس
کا فاصلہ ایوان صدر ٗ وزیر اعظم سیکرٹریٹ ٗ پارلیمنٹ ٗ سپریم کورٹ سے کچھ
زیادہ نہیں تھا ) پانچ گھنٹے تک اسلام آباد پولیس کو چکرا کے رکھ دیا وہ
پوری حکومت اور سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔ اس ضمن میں
یہ کہاجارہا ہے کہ پولیس کے پاس نہ تو جدید اسلحہ ہے اور نہ ہی مجرم کو بے
ہوش کرنے والے آلات ہیں حتی کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں نشانہ باز بھی نہیں ہیں
اس کا مقصد تو یہ ہوا کہ 40 ہزار افراد دہشت گردی کانشانہ بن چکے ہیں جس
طرح پیپلز پارٹی کی حکومت مجرمانہ غفلت کا شکار تھی آپ( نواز شریف ) بھی
اسی مجرمانہ غفلت کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ کیا یہ سب کچھ آپ کی نظروں کے
سامنے نہیں ہوا ۔ دن دھاڑے بنوں جیل ٹوٹی ٗ ڈیرہ اسمعیل خاں جیل میں اڑھائی
گھنٹے تک مجرم دندتاتے رہے نہ جیل میں کسی نے ان دہشت گردوں کو روکنے کی
کوشش کی اور نہ ہی وزیر ستان تک کوئی رکاوٹ بنا ۔ اس پر آپ نے ایک ایسے شخص
کو وزیر داخلہ بنا دیا ہے جو انتظامی اعتبار سے اس عہدے کے ساتھ انصاف نہیں
کر پارہا چونکہ آپ ہر مرتبہ چوہدری نثار علی خان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن
جاتے ہیں اور آپ کے ہر غلط فیصلے کے پیچھے نثار علی خاں ہی دکھائی دیتے ہیں
آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی تقرری سے لے کر آج تک جتنی بھی تقرریاں کی گئی
ہیں چوہدری نثار کے ذہن کی اختراع دکھائی دیتی ہیں ۔ جاوید ہاشمی اور غوث
علی شاہ جیسے وفا دار لوگ مسلم لیگ ن کو کیوں خیر باد کہہ گئے ہیں اگر آپ
برا نہ مانیں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو انسانوں کی پہچان ہر گز نہیں
ہے آپ نثار علی خان جیسے چا پلوسوں کے نرغے میں جلد آجاتے ہیں لیکن وہ لوگ
جنہوں نے آپ کے لیے جیلوں میں سخت ترین اذیتیں برداشت کیں اور اپنی جوانی
جیل کی کوٹھڑی میں گنوا دی اس کے لیے آپ کے پاس نہ تو ڈھنگ کا کوئی عہدہ ہے
اور نہ ہی اسے وفاداری کے صلے میں خوش رکھنے کا فن آپ جانتے ہیں ۔ایٹمی
سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے شخص کو منصب صدارت کے لیے فراموش کرکے
آپ نے نہاری کھلانے والے شخص کو صدر بنا کر اپنے انتخاب کا معیار بتا دیا
ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان منصب صدارت کے لیے بہترین انتخاب تھا ۔چوہدری نثار
علی خان کی بجائے اگر جنرل عبدالقادر بلوچ کو( جو کور کمانڈر بلوچستان بھی
رہ چکے ہیں اور فوج کے اعلی ترین عہدوں پر فائز رہنے کی بنا پر سیکورٹی کے
معاملات اور دہشت گردوں کے خلاف موثر حکمت عملی وضع کرنے کی بہترین پوزیشن
میں بھی تھے ) وزیر داخلہ بنا دیا جاتا تو شاید ملک کے حالات وہ نہ ہوتے جو
آج ہیں ۔ قومی معاملات میں بے اعتناعی کاایک اور ثبو ت کراچی ( جسے معاشی
اعتبار سے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیاجاتا ہے اور قومی صنعتوں کا نصف
حصہ کراچی میں ہی موجود ہے ) شہر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی بھتہ
خوری ٗ اغوا کی وارداتیں اور ٹارگٹ کلنگ ہے بے شک یہ سب کچھ گزشتہ آٹھ دس
سال سے ہوتا چلا آرہا ہے لیکن وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد کیا فرض نہیں
بنتا تھا کہ آپ کراچی کو پرامن شہر بنانے کے لیے ابتدائی دنوں ہی وہاں جاتے
اور تمام سیاسی ٗ تجارتی اور کاروباری تنظیموں کے اشتراک سے ایسا متحرک اور
کامیاب منصوبہ تیار کرتے جس پر عمل کرنے سے کرا چی امن کا گہوارہ بن جاتا ۔
حضرت عمر فاروق ؓ تو دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتے کے بھوک سے مرنے کی وجہ
سے آخرت کے خوف سے کانپ جاتے تھے لیکن آپ کیسے حکمران ہیں جو تین مہینے تک
انسانی لاشوں کو گرتا ہوا دیکھ کر بھی نہ خوف خدا سے کانپے اور نہ ہی حالات
کو بہتر بنانے میں آپ نے کوئی دلچسپی ظاہر کی بلکہ یہ کہہ کر خاموشی اختیار
کیے رکھی کہ کراچی کا مینڈیٹ چونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو پاس ہے
اس لیے وہی کراچی میں امن قائم کرنے کے ذمہ دار ہیں آپ کے اس تغافلانہ رویے
کی وجہ سے کتنے گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں اور ر وزانہ کتنے گھروں میں صف
ماتم بچھتا ہے۔اب جبکہ آپ دو دن تک کراچی میں موجود رہے اور حالات و واقعات
جاننے کے لیے مختلف مکتبہ فکر کے اجلاسوں کی صدارت بھی کی لیکن کراچی کے
حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے پھر انہی لوگوں کو ذمہ دار بنا آئے ہیں جو گزشتہ
چھ سالوں سے کراچی میں قتل وغارت گری دیکھ کر تماشائی بنے ہوئے تھے کراچی
پولیس جس کی نااہلی اور سیاسی اثر و رسوخ کا آپ نے خود اعتراف کیا ہے کیا
وہ اب دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکے گی ۔ اس دوران ایک اچھی خبر یہ سننے کو
ملی تھی کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سب سے متحرک ٗ فرض شناس اور بے خوف افسر
ذوالفقار چیمہ کو آئی جی سندھ لگا یاجارہا ہے لیکن چند منٹوں بعد ہی
پیپلزپارٹی نے یہ کہتے ہوئے اس غیر جانبدار پولیس افسر کو بطور آئی جی سندھ
قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ذوالفقار چیمہ کی تقرری کا مطلب ہم یہ لیں گے
کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کردیاگیا ہے ۔ پھر وزیر اعلی سندھ سید قائم علی
شاہ جو بھٹو خاندان کی قبروں کے مجاور تو بن سکتے ہیں لیکن کسی بھی انتظامی
عہدے کے لیے وہ نااہل ہیں کیا آپ انہیں ٹارگٹ آپریشن کا کپتان بنا کرکراچی
کو امن کا شہر بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی
جانب سے آپ کو یہ بتایا جاچکا ہے کہ 6 ہزار جرائم پیشہ افراد کو سید قائم
علی شاہ کے گزشتہ دور میں پولیس میں بھرتی کیاجاچکا ہے جو پولیس کی وردیاں
پہن کر جرائم پیشہ افراد ٗ بھتہ خوروں ٗ اغوا کاروں اور کرایے کے قاتلوں کے
لیے کام کرتے ہیں ۔۔ میری نظر میں آپ کا یہ فیصلہ انتہائی غلط ہے ۔ہوناتو
یہ چاہیے تھا کہ ذوالفقار چیمہ جیسے بہادر اور دیانت دار افسر کو آئی جی
بنا کر سندھ میں تعینات کردیاجاتا اور گورنر راج نافذ کرکے جنرل عبدالقادر
بلوچ یا کسی اور ریٹائر جنرل کو گورنرسندھ کے عہدے پر فائز کرکے رینجر کی
تازہ دم نفری تعینات کرکے انہیں ہیلی کاپٹروں سمیت جدید اسلحے سے لیس کرکے
دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لایا جاتا اس طرح کچھ فیصد کامیابی کی
امید تھی لیکن وہی تھکی ماندی ٗ کرپٹ پولیس اور نااہل وزیر اعلی سندھ کی
موجودگی میں کامیابی کی امید کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔
ایک جانب ایم کیو ایم اور دوسری جانب ان دہشت گردوں گروپوں نے کراچی کو
اپنے آہنی پنجوں میں جکڑنا شروع کررکھاہے ۔ایک تازہ ترین رپورٹ کے کراچی
میں روزانہ 83 کروڑ روپے کی بھتہ خوری ٗ اغوا خوری ہورہی ہے ۔یہاں پیپلز
پارٹی بھی کراچی شہر پر قبضے کی دوڑ میں شامل ہوگئی اس نے بھی ایسے جرائم
پیشہ افراد کی سرپرستی شروع کردی جو ایم کیو ایم کے اتھارٹی کو چیلنج کرسکے
۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے دور میں 70 ہزار جدید ترین اسلحے کے لائسنسوں
کے اجرا نے پوری کردی ۔ آدھی سے زیادہ پولیس اہلکار ایم کیو ایم کے وفا دار
ہیں اکثر تھانوں اور سرکاری دفتروں میں الطاف حسین کی تصویر بطور قائد
آویزدں ہے جسے اتارنے کے لیے خود الطاف حسین اخبار میں بیان دے چکے ہیں
۔انتظامی اور سیکورٹی اداروں میں باقی ماندہ افراد پیپلز پارٹی کے پروردہ
ہیں جو بطور رشوت سرکاری ملازمتیں دینے کا کام عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے
ہیں ۔پولیس اور رینجر اگر کسی مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے تو چند
منٹوں بعد ہی گورنر ہاوس یا وزیر اعلی ہاوس سے کال موصول ہونے پر اس مجرم
کو رہا کرنا پڑتا ہے ۔ ان حالات میں اگر آپ کراچی کے حالات سے بالکل لاتعلق
ہوکر خاموش رہیں گے تو وہاں کیسے امن قائم ہوسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معصوم
اور بے گناہ لوگ روزانہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو
رہے ہیں انتظامیہ اور حکومت مٹی پاؤ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے خاموش ہوجاتی
ہے ۔
پھر بلوچستان بھی آپ کی ذاتی توجہ کا محتاج ہے بے شک آپ نے وہاں ڈاکٹر
عبدالمالک کو وزیر اعلی بنا کر بہت اچھا اقدام اٹھایا ہے لیکن اگر آپ گوادر
کو سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح انٹرنیشنل سٹی / ریاست بنا کر چین اور
وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی راہداری کی گزر گاہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ
کو نہ صرف پورے بلوچستان میں بین الاقوامی معیار کی سڑکوں کا انٹر سٹی جال
بچھانا ہوگا بلکہ ہر شہر میں صنعتی زون اور ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم
کرکے مقامی بلوچی نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کرکے یہ یقین دلانا ہوگا
کہ وہ پاکستان کے باعزت شہر ی ہیں اور موجودہ حکومت ان کی ترقی کے لیے ہر
ممکن اقدامات کررہی ہے پھر تمام بلوچی سیاسی جماعتوں ٗ سماجی و معاشرتی
تنظیموں اور سرداروں کو اعتماد میں لے کر امن و امان کی صورت حال کو بہتر
بنانا ہوگا افسوس کہ ابھی تک بلوچستان بھی آپ کی ذاتی توجہ کا محتاج ہے اور
پہلے کی طرح ہی بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال حد سے زیادہ بگڑی ہوئی
ہے بلکہ بلوچی نوجوانوں کو ابھی تک آپ نے اعتماد میں اور باعزت روزگار
دلانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی بلوچستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز
آپ کرسکے ہیں ۔ گوادر گوادر کی گردان سے کوئی ہانگ کانگ نہیں بن جاتا اس کے
لیے آپ کو جہاں چین کے تعاون کی ضرورت ہے وہاں آپ کو وزیر اعلی بلوچستان ٗ
اختر مینگل ٗ بگتی گروپ سمیت تمام بلوچوں سرداروں اور رہنماؤں کو ذاتی توجہ
کامرکز بنا نا ہوگا اور یہ کام اس وقت ہوسکتا ہے جب آپ نہ صرف کوئٹہ جاکر
تین چار دن وہاں رہیں بلکہ تمام بلوچ سرداروں اور سیاسی قائدین کو ان کے
گھروں میں جاکر ملیں ۔اگر آپ اسلام آباد میں بیٹھے بیٹھے گوادر کو ہانگ
کانگ بنانے کا خواب دیکھتے رہے تو یقین جانیے آپ کا یہ خواب کبھی حقیقت کا
روپ نہیں دھار سکے گا ۔
جناب وزیر اعظم ۔ عوام نے آپ کو کسی سہارے کے بغیر اقتدار سونپ کر اپنا
کردار ادا کردیا اب آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے
کوئی لمحہ ضائع نہ کریں لیکن جس طرح آپ نے اہم ترین فیصلوں کے بغیر ہی تین
مہینے ضائع کردیئے اور فیصلے بھی وہ کیے ہیں جو عوام کو معاشی اعتبار سے
قتل کرنے کے مترادف ہیں کیا ان حالات میں آپ سے کوئی امید کی جاسکتی ہے ۔آپ
پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کا عزم لے کر برسراقتدار آئے تھے یوں لگتا
ہے کہ پاکستان کو ایشیا کا قبرستان بنانے کی حکمت عملی پر آپ نہایت کامیابی
سے عمل پیرا ہیں ۔جب آپ کو ووٹ دینے والے ہی مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں
کرکے قبروں میں اتر جائیں گے تو کون آپ کی موٹر وے اور بلٹ ٹرین کو چلتا
ہوا دیکھے گا ۔قوم نے تو بدامنی دہشت گردی ٗ تخریب کاری ٗ بھتہ خوری اور
ڈاکہ زنی سے نجات کے لیے آپ کو مینڈ یٹ دیا تھا لیکن آپ نے اقتدار سنبھالنے
کے بعد تہہ در تہہ مسائل میں لتھڑی غریب پاکستانی عوام کو پٹرول ٗ بجلی ٗ
آٹے ٗ گھی ٗ چاول ٗ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں نا قابل برداشت اضافہ
کرکے نہ صرف پیپلز پارٹی کی عوام دشمن روایت کو قائم رکھا ہے بلکہ اس سے
بھی زیادہ ظالم اور عوام دشمن ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔کیا عوامی لیڈر ایسے
ہوتے ہیں جنہیں نہ اپنے منشور کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کی قوت خرید
کا احساس ہوتاہے آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہو کہ آپ کے دور حکومت میں شدید
ترین مہنگائی میں لوگ دو وقت کی روٹی کیسے کھائیں گے اور کہاں سے علاج و
معالجہ کروائیں کیسے وہ اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے کوئی
راستہ ہے جو آپ نے اپنی غریب عوام کے لیے کھلا رکھ چھوڑا ہے ۔ اگر میں یہ
کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اگر پیپلز پارٹی اپنے غلط اقدامات ٗ کرپشن اور
اقربا پروری کی وجہ سے عوام دشمن ثابت ہوچکی ہے تو آپ اور آپ کے رفقائے کار
نے صرف تین مہینوں میں یہ کارنامہ انجام دے دیا ہے ۔ سوائے وزیر ریلوے
خواجہ سعد رفیق کے تمام کے تمام وزیر اور مشیر اکاش وانی کی طرح مسائل سے
آنکھیں چراتے ہوئے جھوٹ بولنے پر کمر بستہ ہیں اور عوام کا درد محسوس کرنے
کی قوت سے عاری ہوچکے ہیں۔
عوام نے تو آپ کو اپنا نجات دہندہ تصور کیا تھا لیکن آپ نے تو اپنے ہی
ووٹروں کو زندہ درگور کرنا شروع کردیا ہے یہ کیسا طرز حکمرانی ہے کہ آپ کے
دور میں لوگ غربت سے خود کشیاں کرنے لگے ہیں کھمبوں پر چڑھ کے بجلی کی
تاروں کو چھونے سے بھی گریز نہیں کرتے آپ کا یہ کیسا دور ہے کہ لوگ ٹرینوں
کے سامنے لیٹ کر اپنی جانوں کو ہلاک کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں بیماری ٗ مالی
پریشانی ٗ تنگ دستی ٗ بے روزگار ی ٗ مہنگائی ٗ بھتہ خوری ٗ اغوا اور ڈاکہ
زنی کی وارداتوں نے پورے ملک کے شہریوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کوئی
انتظامی ادارہ ایسانہیں جوکرپشن سے محفوظ ہو ۔ پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کی
طرح آپ اور آپ کے وزراء بھی دہشت گردوں کے خوف سے محفوظ پناہ گاہوں میں قید
ہو کر رہ چکے ہیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بہت خوبصورت بات کی تھی کہ
جس حکمران کو عوام سے زیادہ اپنی جان کی حفاظت کی فکر ہو وہ نہ تو اپنے ملک
کی حفاظت کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنی عوام کو حقوق اور انصاف فراہم کرسکتا ہے
۔ذرا سوچیے تو کیا یہ قول آپ پر صادق نہیں آتا پچھلے دونوں ادوار میں تو آپ
ٹیلی فون پر ایک گھنٹہ عوام کی شکایتیں براہ راست سنا کرتے تھے ٗ ہیلی
کاپٹر پر دور دراز علاقوں کے تھانوں میں پہنچ کر عوام کی داد رسی کیا کرتے
تھے سیلاب کے دوران مصیبت زدوں کے ساتھ نہ صر ف کھڑے ہوتے تھے بلکہ اپنے
ہاتھوں سے گارہ اٹھا کر سیلابی پانی کی نذر ہونے والے مکانات کی تعمیر میں
بھی خود شریک ہوا کرتے تھے اب جبکہ چاروں صوبوں میں شدید ترین سیلاب آچکا
ہے اور کروڑوں لوگ بے گھر ٗ بے روز گار ہوچکے ہیں لاکھوں مکانات تباہ ٗ
مویشی ہلاک ہوچکے ہیں کھیتوں میں کھڑی فصلیں برباد ہوچکی ہیں مشکل کی اس
گھڑی میں آپ نے قوم کا ساتھ نہیں دیا بلکہ حکومتی ایوانوں تک ہی خود کو
محدود کررکھا ہے عوام کا آپ تک پہنچنا تو ویسے ہی ناممکن ہے کیونکہ بڑی بڑی
فصیلوں کو سکندر جیسا مسلح شخص تو عبور کرسکتاہے لیکن کوئی شریف آدمی یا
ووٹر آپ تک پہنچنے اور بروقت دادرسی کاتصور بھی نہیں کرسکتا ۔تین مہینے گزر
چکے ہیں آپ کی چشم پوشی اور لاپرواہی کی وجہ سے مسائلوں کے انبار پہلے سے
زیادہ بڑے ہوتے جارہے ہیں پٹرول بجلی گیس پانی کی قیمتوں میں اضافوں کا سفر
کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا اگر آپ کو اپنے ووٹروں اور پاکستانی قوم کا
تھوڑ ا سا بھی احساس ہے تو اپنی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کرکے پٹرول ٗ بجلی
گیس کی قیمتوں میں اضافوں کا سلسلہ روک کر انہیں عوام کی قوت خرید کے مطابق
بنائیں وگرنہ جن لوگوں نے آپ کو ووٹ دیئے تھے اگلے الیکشن میں وہ آپ سے
مایوس ہوکر عمران خان کی جانب بھی متوجہ ہوسکتے ہیں کیونکہ اس وقت آپ اور
آپ کی تجربہ کار ٹیم انسانیت اور عوام دشمن فیصلے کررہی ہے جس کو کوئی محب
وطن پاکستانی نہیں سراہ سکتا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ کے تین
مہینے ہی پاکستانی قوم کے لیے عذاب بن چکے ہیں پانچ سالوں میں آپ کیا کریں
گے اس کا اندازہ موجودہ پالیسیوں کو دیکھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔ |