’’لوگوں کو ظلم کے خلاف اٹھنا چاہیے‘‘
’’ہمارا معاشرہ بے حس ہے، مظلوم کا ساتھ نہیں دیتا‘‘
’’حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر‘‘
ہمارے ہاں گلی محلوں کے تھڑوں سے دانش وروں کے بزم آرائیوں تک، اخباری
کالموں سے شاعری تک، معاشرے کی بے حسی، خود غرضی اور خوف کا ماتم کیا جاتا
ہے۔ مگر لوگ کسی ظلم کے خلاف اٹھتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ جب امریکی جاسوس
ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور کی سڑک پر دو پاکستانی جان سے گئے اور جب کراچی
کے ایک پارک میں رینجرز کے اہل کاروں نے نوجوان سرفراز شاہ کو شکار کیا، تو
پاکستانی سماج سراپا احتجاج بن گیا، سڑکیں نعروں سے بھر گئیں، دیواریں بول
اٹھیں، سوشل ویب سائٹس کے جادوئی صفحات مظلوموں کے خون سے لکھی تحریروں میں
ڈھل گئے، لیکن ایک دن خبر آئی کہ قصاص لے کر یا اﷲ کے واسطے قاتلوں کو معاف
کردیا گیا۔
اور اب شاہ زیب کیس۔۔۔
بیس سالہ نوجوان شاہ زیب کے سفاکانہ قتل نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ
دیا تھا۔ یہ کسی مالی یا سیاسی تنازعے پر کیا جانے والا قتل نہیں تھا، نہ
کوئی پرانی دشمنی کا شاخسانہ، ڈکیتی اور راہ زنی کی واردات میں ملزمان کی
جانب سے فائرنگ کا نتیجہ تھا، نہ کسی تکرار پر فوری اشتعال کے باعث ہونے
والا تصادم اس خون کا باعث بنا۔ یہ سانحہ ہمارے ملک میں زورآوروں کے بے
لگام ہونے اور خود کو ہر قانونی اور اخلاقی قاعدے ضابطے سے آزاد سمجھنے کے
چلن کی تصویر بن کر سامنے آیا۔
یہ بیتے سال کے دسمبر کی پچیسویں تاریخ تھی، جب شاہ زیب کو سفاکی کے ساتھ
قتل کردیا گیا۔ اس سانحے کے بارے میں سارے حقائق اخبارات اور ٹی وی چینلز
کے ذریعے سامنے آچکے ہیں۔ اس نوجوان کو جس طرح ذرا سی بات پر سرعام بے دردی
سے مار ڈالا گیا، وہ خود ایک المیہ ہے۔ اس المیے کا یہ پہلو اس تلخ اور
سیاہ حقیقت کو بے نقاب کرگیا کہ پاکستان میں دولت اور اثرورسوخ کے حامل
افراد اور خاندان قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، انھیں پورا اعتماد ہے
کہ وہ لوٹ مار سے کسی جیتے جاگتے انسان کو خون میں نہلادینے تک کچھ بھی
کرجائیں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، وہ خود کو ایسا دیوتا سمجھتے ہیں
جس کی ذرا سی توہین کا بدلہ کُتے چھوڑدینا، برہنہ گشت کرانا اور موت کے
گھاٹ اتار دینا ہے۔
شاہ زیب کی جوان موت اور اس کے ظالمانہ قتل نے ہر آنکھ کو آنسوؤں اور ہر دل
کو درد سے بھردیا، مگر شاہ زیب کے باہمت اور مخلص دوستوں نے اپنے آنسوؤں کو
تحریر کیا اور درد کو زبان دی۔ انھوں نے اپنے پیارے دوست کے قاتلوں کی
گرفتاری اور انھیں عبرت ناک سزا دلوانے کے لیے مُہم کا آغاز کیا۔ یہ مہم
مظاہروں کی صورت بھی جاری رہی اور سوشل میڈیا پر بھی چلتی رہی۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس معاملے پر اپنا کردار بھرپور طریقے سے
ادا کیا۔ اخبارات میں شاہ زیب کے والد، والدہ اور بہنوں کا دکھ بیان کرتے
الفاظ اور ٹی وی چینلز کی رپورٹس میں اکلوتے جوان بیٹے سے محروم ہوجانے
والی ماں کی برستی آنکھیں ہر دل کو لُہو کرگئیں، جس کے بعد سول سوسائٹی اور
لاتعداد عام افراد بھی شاہ زیب کے قاتلوں کی گرفتاری کی مہم کا حصہ بن گئے،
یوں میڈیا، سول سوسائٹی اور عام شہریوں نے اپنے باضمیر ہونے کا ثبوت دیا۔
زورآور قاتلوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے ان کے سارے اثرورسوخ اور
طاقت وہیبت کو پانی کردیا، بالکل ایسے ہی جیسے شاہ زیب کا خون پانی سمجھ کر
بہایا گیا تھا۔ عدالت نے ازخود نوٹس لیا، پولیس حرکت میں آئی، قاتلوں کو
بچانے اور فرار کرانے کی ساری کوششیں اور سازشیں ناکام ہوگئیں۔ انسداددہشت
گردی کی عدالت نے ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت سنائی
اور ان کے ساتھیوں سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا
دی، جب کہ ان چاروں پر پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ عاید کیا گیا۔ یہ انصاف
کی جیت تھی، سماج کی کام یابی تھی، مظلوموں کی فتح تھی، کم زوروں کام رانی
تھی۔
شاہ زیب سے محبت کرنے والے اور اس ظلم پر احتجاج کناں افراد انصاف کی کام
یابی پر خوش تھے کہ پیر9 ستمبر کو ٹی وی چینلز پر آنے والی یہ خبر انھیں
حیران اور افسردہ کرگئی کہ شاہ زیب کے والدین اور بہنوں نے اپنے بیٹے اور
بھائی کے قاتلوں کو ’’فی سبیل اﷲ‘‘ معاف کردیا ہے اور اس حوالے سے درخواست
سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرادی ہے۔
شاہ زیب کے اہل خانہ کے اس اقدام کو کوئی نفرت بھری نظروں سے دیکھتا ہے تو
کوئی اسے ان کی مجبوری قرار دیتا ہے۔ سوشل میڈیا، جو دور حاضر میں عام آدمی
کے خیالات تک رسائی حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے، پر اس حوالے سے
گرماگرم بحث جاری ہے۔ خبروں کے مطابق زیادہ زیادہ تر لوگ مقتول نوجوان کے
والدین کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں یہ
امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ خوف اور دباؤ کا نتیجہ ہے۔ مختلف سوشل
ویب سائٹس پر جن میں فیس بُک سرفہرست ہے اس قسم کے تبصرے سامنے آرہے
ہیں،’’شاہ زیب پچیس دسمبر کو نہیں بل کہ اب مرا ہے‘‘،’’پیسے میں بڑی طاقت
ہوتی ہے‘‘،’’اب کوئی کسی کے قتل پر ہم دردی کے لیے بھی ساتھ کھڑا نہیں
ہوگا‘‘،’’شاہ زیب کے والدین کا یہ اقدام ناانصافی پر مبنی ہے‘‘، ’’ابھی تو
ایک شاہ زیب مرا ہے، آئندہ نہ جانے کتنے شاہ زیب مارے جائیں گے‘‘، ’’ہمارے
جذبات سے کھیلا گیا، والدین کے اس اقدام سے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچی
ہے۔‘‘
سوشل میڈیا پر کم تعداد میں مگر اس قسم کے تبصرے بھی موجود ہیں،’’شاہ زیب
کے والدین کو خوف، دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہوگا، انھیں اپنے خاندان کے
دیگر افراد کو بھی بچانا ہوگا۔‘‘ کچھ بھی ہو، کوئی شخص شاہ زیب کے اہلِ
خانہ کے اس فیصلے کو ’’فی سبیل اﷲ‘‘ ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
دوسری طرف عمومی طور پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے
میں ورثا کو قاتلوں سے راضی نامے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ تاہم فریقین میں
راضی نامہ ہوجائے تو اعلیٰ عدالتیں نئی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ
کرتی ہیں اور پھانسی کی سزا عمرقید میں بدل جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
شاہ زیب کیس کے اس نئے رخ کے ساتھ ہی کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ شاہ
زیب کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب ایک طرف اپنے بیٹے کے قاتلوں کو فی سبیل اﷲ
معاف کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ٹودی پوائنٹ‘‘
میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے نہ کوئی ڈیل کی ہے نہ ان کی
کوئی مجبوری تھی، دوسری طرف ان کا کہنا ہے،’’بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے، بہت
سی مجبوریاں تھیں۔‘‘
یہ کیا مجبوریاں تھیں؟ انھوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔ قانونی مباحث اور نکات
اپنی جگہ، مگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے سے سرفراز شاہ کیس تک یہی ہوا ہے کہ
لوگوں کی بہت بڑی تعداد قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سڑکوں پر نکلی مقتولین کے
اہل خانہ کے شانے سے شانہ ملاکر قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے کمربستہ ہوئی،
مگر پھر ایک روز اچانک معافی اور ’’تلافی‘‘ نے قاتلوں کے ہاتھ میں پروانۂ
راہ داری تھما دیا۔ ایسے میں آئندہ کسی فرد اور خاندان پر ہونے والے ظلم کے
خلاف لوگ مظلوم کا ساتھ دینے آگے آئیں گے؟ کیا بھری پُر سڑک پر کسی کی جان
لے کر خوف پھیلانے والے قاتل صرف مقتول اور اس کے گھرانے کے مجرم ہیں یا
بیسیوں سیکڑوں لوگوں کو براہ راست اور کروڑوں افراد کو بالواسطہ طور پر
دہشت زدہ کر کے ریاست اور اس کے ہر شہری کے بھی مجرم قرار پاتے ہیں؟ کیا زر
اور اثر ہمارے ہاں اتنے طاقت ور ہیں کہ عوام، عدالت اور میڈیا مل کر بھی ان
کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں؟
اور ایک اہم سوال یہ کہ معاف کردینا نیکی اور بدلہ لینے سے افضل ہے، مگر
کیا ایسی نیکی نیکی کہلانے کی مستحق ہے جو بدی کو طاقت ور کرے؟
ماہرینِ قانون کی آراء
سینئر قانون داں حامد خان
شاہ زیب قتل کیس کا ٹرائل دہشت گردی کی دفعات کے تحت کیا گیا، لہذا اس میں
دیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مقتول کے ورثاء کی طرف سے جمع کرایا جانے
والا صلح نامہ قانون کے مطابق نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ اس کیس میں قصاص یا
دیت بنتی ہے۔
صلح نامہ یا راضی نامہ میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں، ایک یہ کہ آیا اس میں
کسی بھی قسم کا کوئی دبائو تو نہیں، دوسرا اس صلح نامہ پر مقتول کے تمام
ورثاء متفق بھی ہیں یا نہیں؟ دونوں میں سے اگر ایک بھی صورت درست ثابت ہوتی
ہے، تو صلح نامہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ فساد فی الارض جیسے معاملات کے ساتھ
سختی سے نمٹنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے، لہذا اس کیس میں بھی حکومت کو
اپنا فرض ادا کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات میں عدالت اور قانونی عمل کی
معاونت کرنی چاہیے۔
عابد ساقی
(صدرلاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)
ہمارے نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہاں
طاقت ور کی جان بچانے کے ہزاروں راستے ہیں لیکن غریب کو ایک بھی موقع نہیں
دیا جاتا۔ قتل کے عام مقدمہ میں ورثاء کو معاف یا صلح نامے کا مکمل اختیار
ہے جو اسے قانون اور شریعت دونوں طرف سے ملتا ہے، لیکن شاہ زیب کیس میں
معاملہ دہشت گردی کا ہے، اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا گیا ہے
جو قابل راضی نامہ نہیں، لہذا مذکورہ کیس میں صلح نہیں ہو سکتی۔ قانون و
انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کیس کے تمام پہلوئوں کا
مکمل جائزہ لے کر صلح یا راضی نامہ کی بات کی جائے۔
سنیئر قانون داں فیاض احمد مہر
اس کیس کے صلح نامے میں سب سے اہم چیز مقتول شاہ زیب کے ورثاء کا ایک بیان
ہے کہ ’’انہوں نے یہ فیصلہ باقی لوگوں کی جان بچانے کے لیے کیا۔‘‘ میرے
خیال میں یہ صلح نامہ دبائو کا نتیجہ ہے اور عدالت کو اس معاملے کا نوٹس
لینا چاہیے۔ مذکورہ کیس بہت پیچیدہ ہے، جس میں سیاسی پریشر بھی دکھائی دے
رہا ہے۔ راضی نامے کے اوپر فیصلے سے قبل کیس کے تمام محرکات کا تفصیلی
جائزہ لیتے ہوئے تحقیقات کرائی جائیں۔ کیس کا دوسرا اہم پہلو فساد فی الارض
ہے جس میں عدالت بااختیار ہے اور ملوث افراد کو 14سال تک کی سزا سنائی جا
سکتی ہے۔
……… (رانا نسیم لاہور)
احسن حمید اﷲ
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ (راولپنڈی)
اس کیس میں ورثا قاتلوں کو معاف کرنے کا حق ہی نہیں رکھتے، کیوں کہ قتل کے
مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعہ شامل ہے۔ اس دفعہ کے تحت درج ہونے والے مقدمات
قابلِ راضی نامہ نہیں ہوتے۔ ضابطہ فوج داری 1998 میں نافذ کیا گیا۔ اس میں
1991 میں ترمیم کی گئی کہ کار و کاری کا مقدمہ قابل راضی نامہ نہیں ہے۔
دفعہ 302 ، جو عام طور پر قتل کے جرم پر لگائی جاتی ہے، قابل راضی نامہ ہے،
لیکن مذکورہ مقدمے میں ملزمان پر صرف 302دفعہ نہیں لگی، بل کہ پرچے میں
دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے، جس سے یہ پرچہ دفعہ 302کا سادہ پرچہ
نہیں رہا۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے سے
پرچہ قابل راضی نامہ نہیں رہا۔ عام قتل کے مقدمے میں صدر پاکستان سزا میں
معافی دے سکتا ہے لیکن جس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ شامل ہو وہ صدر
پاکستان کے اختیار سے بھی نکل جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ بھی کہ سکتے ہیں
کہ اس مقدمہ میں معافی کی کوئی صورت نہیں۔ معافی آئین کے آرٹیکل 45کے تحت
قصاص یا دیت کی ادائیگی کی صورت میں معافی کا اختیار صدر پاکستان کو حاصل
ہے۔ جو صورت اب بیان کی جا رہی ہے اس میں عدالت کی صواب دید پر ہے کہ وہ
راضی نامہ تسلیم کرے یا رد کر دے۔ عدالت اب بھی مقدمہ آگے بڑھا سکتی ہے اور
ملزمان کو سزا دے سکتی ہے۔
……مقبول گوہر(اسلام آباد)
جاوید چھتاری ایڈووکیٹ(کراچی)
جب کسی فرد کا قتل ہوتا ہے تو یہ ایک فرد کا قتل نہیں ہوتا، دو اشخاص کا
ہوتا ہے، ایک کسی کا باپ بھائی بیٹا مرتا ہے اور ایک شخص اس ریاست کا شہری
ہوتا ہے۔ مارنے والے پر دو افراد کے قتل کے حقوق واجب ہوجاتے ہیں، ایک مرنے
والے کے لواحقین یا قانونی وارثین کے اور دوسرے اس ریاست کے جس کا وہ شہری
ہے۔
اسی لیے ضابطۂ فوجداری کے سیکشن 345 (2) کے تحت درخواست دے کر عدالت سے
تصفیے کی اجازت لی جاتی ہے اور جب عدالت اجازت دے دیتی ہے، تو سیکشن 345
تین سو پینتالیس کی سب کلاز 6 کے تحت کمپرومائز ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ لیا
جاتا ہے کہ ریاست اپنے مقتول شہری کے حقوق سے دستبردار ہوگئی اور مرنے والے
کے لواحقین سے کہہ دیا کہ تمھارا معاملہ ہے کمپرومائز کرو یا نہ کرو۔ اس کے
برعکس اگر کوئی قتل دہشت گردی کی تعریف کو پہنچتا ہے، تو قانونی وارثین کے
علاوہ ملزم نے ریاست اور ریاست کے شہریوں کے خلاف جرم کیا ہوتا ہے، جو کہ
نہ صرف ریاست کی رٹ کو متزلزل کرتا ہے، بل کہ اس ارتکابِ جرم ریاست کے
شہریوں میں خوف وہراس اور عدم تحفظ کا سبب بھی بنتا ہے۔ یعنی یہ جرم
برخلافِ ریاست ہوتا ہے، اور ریاست اپنا حق محفوظ رکھتی ہے کہ ریاست کے خلاف
ہونے والے جرائم کی سزا کو کسی بھی صورت معاف نہ کرے۔
شاہ زیب کا کیس قتل عمد زیردفعہ 302 تعزیرات پاکستان اور 7ATA ,1997کے تحت
ٹرائل کیا گیا، جس میں قتل عمد کی مد میں اﷲ تعالیٰ کے نام پر معاف کرنے کا
حق یا قصاص کے مطالبے کا حق اور دیت کے حصول کا حق مقتول شاہ زیب کے
لواحقین کو ملتا ہے اور سیون اے ٹی اے کے تحت دہشت گردی ریاست کے شہریوں
میں خوف وہراس، پیدا کرنے پر ریاست اپنا حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ ملزم کو
معاف کرے یا نہ کرے۔ معافی کا یہ اختیار صرف صدرِمملکت کو آئینِ پاکستان کے
آرٹیکل45 کے تحت اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وفاقی وزارت داخلہ مجرم کی معافی
کی سفارش کی سمری صدر کو بھیجے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق وفاقی وزیرداخلہ شاہ کے سزایافتہ قاتلوں کی
معافی کی درخواست اپنی ہی میز پر مسترد کرچکے ہیں۔ لہٰذا شاہ زیب کے قاتلوں
کو قتل عمد میں تو معافی مل سکتی ہے مگر سیون اے ٹی اے ایکٹ کے تحت اپیل پر
بحث کی گنجائش موجود ہے۔ اب یہ ذمے داری اعلیٰ عدالتوں کی ہے کہ وہ اس
معافی کا بہ غور جائزہ لیں کہ یہ تصفیہ بلا خوف واکراہ کیا گیا ہے، کسی بھی
قسم کا جبر وخوف موجود نہیں ہے۔
محمد فاروق ایڈووکیٹ
ابھی مقتول کے ورثاء کی جانب سے معافی کی درخواست فائل کی گئی ہے، جو سیکش
345 کے تحت دی گئی ہے، جس میں کورٹ سے استدعا کی ہے کہ تصفیہ ہوگیا ہے معاف
کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس سیکشن کے تحت اگر اجازت مل جاتی ہے تو ہائی کورٹ
خود کیس کا جائزہ لے لیتا ہے یا جس عدالت نے کیس چلایا ہے، وہاں بھیج دیا
جاتا ہے، تاکہ پرکھا جائے کہ تصفیہ دباؤ کے تحت تو نہیں کیا جارہا۔ جہاں تک
دہشت گردی کے کیسز کا تعلق ہے وہاں کمپرومائز کی گنجائش ہی نہیں، البتہ
دفعہ تین سو دو کے تحت کمپرومائز کرسکتے ہیں۔
شاہ زیب کیس میں ملزمان کو دفعہ تین سو دو کے تحت بھی سزا ملی ہے اور دہشت
گردی ایکٹ کے تحت بھی۔ دفعہ تین سو دو کے تحت کمپرومائز ہوسکتا ہے، دہشت
گردی ایکٹ کے تحت نہیں ہوسکتا۔
جو شرعی طور پر مقتول کے ولی کہلاتے ہیں معاف کرسکتے ہیں، لیکن قتل اگر
اسٹیٹ کے خلاف ہو یا سوسائٹی کے خلاف ہو تو لواحقین معاف نہیں کرسکتے، کیوں
کہ عوام میں خوف و ہراس پیدا ہو تو ریاست کی ذمے داری آجاتی ہے۔ اس ایکٹ کے
تحت ہائی کورٹ کو بھی معافی تسلیم کرنے کا اختیار نہیں۔ تاہم ہائی کورٹ یہ
دیکھ سکتی ہے کہ واقعی یہ دہشت گردی کا مقدمہ بنتا ہے اور خوف جنرل پبلک
میں پیدا ہوا ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ مقدمے کی نوعیت تبدیل کرتے
ہوئے کمپرومائز تسلیم کرسکتی ہے۔ شاہ زیب کے اہل خانہ نے سادہ درخواست فائل
کی ہے کہ ملزمان کے ساتھ کمپرومائز ہوگیا ہے۔ کورٹ درخواست کی نوعیت کو
دیکھے گی سمجھے گی پھر فیصلہ کرے گی۔
…ن ۔س(کراچی) |