دو ماہ کے بعدایک مرتبہ پھر کالم
لے کر حاضر خدمت ہوں، مگر زرا بدلے ہوئے انداز میں۔ کسی ایک موضوع پر طویل
تبصرے کے بجائے چند موضوعات پر مختصر اظہار رائے۔ بات معین احسن جذبیؔ کی
ایک غزل کے مطلع اور مقطع سے شروع کرتے ہیں:
ملے مجھ کو غم سے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرت شبانہ
جسے پا سکا نہ زاہد جسے چھو سکا نہ صوفی
وہی تار چھیڑتا ہے، میرا ذوق شاعرانہ
مظفرنگرمیں فساد
گزشتہ چندماہ سے مظفرنگر اور اس سے کاٹ کر بنائے گئے نئے ضلع شاملی میں
فرقہ ورانہ کشیدگی اور تشدد کی وارداتوں کی خبریں آرہی تھیں۔ یہ اطلاعات
بھی مل رہی تھیں کہ اصل نشانہ مرکزی وزیر اجیت سنگھ اور ان کی پارٹی آر ایل
ڈی کا ووٹ بنک ہے ۔ اس خطہ کے ہندو اور مسلمانوں کا متحدہ ووٹ یوپی اے میں
شامل آرایل ڈی کی طاقت رہا ہے۔سازش یہ رچی گئی کہ اس اتحاد کو توڑ دیا جائے۔
چنانچہ ۲۷؍اگست کو ایک لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کے ملزم دوسرے فرقہ کے ایک نوجوان
کاقتل ہوگیا۔ انتظامیہ خاموش بیٹھی رہی اور ملزمان آزاد گھومتے رہے۔ اس کا
ردعمل یہ ہوا کہ دودن بعد قتل کے الزام میں ملوّث دو نوجوانوں کا بھی قتل
ہوگیا۔اس کے بعد فرقہ ورانہ لائنوں پر پنچایتوں اور سیل فون پر ایس ایم ایس
اور آئی ایم ایس کے ذریعہ اشتعال انگیزی کا دور شروع ہوا۔ مقامی انتظامیہ
کوسخت اقدام کی ہدایت کے بجائے لکھنؤسے تبادلوں کو حکم ملا۔ نئے افسران کو
صورت حال سمجھنے میں وقت لگا۔ ان کو شاید لکھنؤ سے کوئی اشارہ مل گیا تھا،
اس لئیحالات کو بگڑنے دیا گیا ۔شاملی کے ایس پی عبدالحمید جو اپنی مستعدی
کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی نظروں میں خار تھے ، وہ کس کے اشارے پرعضو معطل
بن کررہ گئے؟ سنگھیوں نے بیشک چنگاری کو ہوا دی مگر اہم سوال یہ ہے کہ ان
کو یہ موقع کس نے دیا؟بیشک یادو سرکارکی نااہلی اور اس کا رول شک کے دائرے
میں ہے اور تحقیق طلب ہے۔ ملک کی سرکردہ مسلم تنظیموں نے کل مولانا محمود
مدنی کی پہل پر ایک میٹنگ کی جس میں بیک آواز یادو سرکار کو برخواست کرنے
کا مطالبہ کیا ۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ایس پی کے سب سے بڑئے موئد امام
سید احمد بخاری پہلے ہی اس سرکار سے اظہار بیزاری کر چکے ہیں۔ یہ اس بات کی
دلیل ہے ذی شعور مسلم قائدین یادو سرکار سے پوری طرح بیزار ہوچکے ہیں۔رہے
ناسمجھ خودغرض چھٹ بھئے،تو ان کی بات اور ہے۔ کچھ نے اپنا ضمیر گروی رکھ
دیا ہے اور گھما پھراکر یادوؤں کی دفاع کررہے ہیں۔
حال ہی میں جس سرکار نے ایک آئی اے ایس افسر درگا شکتی ناگپال کوصرف ۴۲ منٹ
میں یہ کہہ کر معطل کردیا تھا کہ اس کی ایک کاروائی سے علاقہ کی فرقہ ورانہ
صورت حال بگڑنے کا اندیشہ پیداہوگیا تھا، جس نے وی ایچ پی کی چوراسی کوسی
پریکرما کو روکنے کے لئے ایودھیا اور اس کے گرد پورے خطے کو چھاؤنی میں بدل
دیا تھا اور زور شور سے یہ دعوا کیا تھا کہ فرقہ پرستوں کی نہیں چلنے دی
جائے گی، وہ میرٹھ، مظفرنگر، باغپت، شاملی ، سہارنپور، بجنور اور بلندشہر
وغیرہ کے پورے خطے میں فرقہ ورانہ کشیدگی پر آنکھیں بند کئے کیوں بیٹھی رہی؟
یادوسرکار چاہتی کیا تھی؟ اس حکومت کے دور میں گزشتہ ڈیرھ سال میں کم و بیش
ایک سو فرقہ ورانہ وارداتیں ہوچکی ہیں۔ کئی جگہ بڑے فساد بھی ہوئے۔نوے فیصد
جانی و مالی نقصام اقلیت کا ہوا۔ وہی جیل گئے۔ حیرت ہے کہ مظفرنگراور شاملی
اضلاع کو فرقہ ورانہ تشدد کی جہنم میں دھکیلے جانے اور کم از کم ۵۰ افراد
کی موت اور بیشمار گھروں کو نذر آتش کئے جانے کی وارداتوں کے باوجود افسران
کے تبادلوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ یقینا دال میں
کالا کچھ ضرور ہے۔ریاست کے فرقہ ورانہ ماحول کو تباہ کرکے دہلی میں راج گدی
کا جو خواب ملائم سنگھ یادو دیکھ رہے ہیں ،وہ پورا ہونے والا نہیں ہے۔
انہوں نے اس سنگین واردات کو ’ذاتوں کے درمیان‘ ٹکراؤ کہہ کر ہلکا کرنے کی
کوشش کی ہے۔ ہر ذی شعور کو اس روش کی مذمت کرنی چاہئے۔ فرقہ ورانہ ماحول
پوری طرح تباہ ہوجانے کے بعد تبادلے، کرفیو اور بیان بازی بیشک سیاست کا
کھیل ہے۔ افسران کوملزم ٹھہرانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی کھلاڑی محفوظ رہیں۔
صاف طور پر نظرآتا ہے کہ معاملہمقامی انتظامیہ کی نااہلی کا نہیں سیاسی
مفاد پرستی کا ہے، جس کا اعتراف خود ناکام وزیراعلا چھوٹے یادونے کیاہے۔
انہوں نے یہ اعلان حاجیوں کو رخصت کرنے کی ایک تقریب کے دوران کیا۔ وہ
کیمرے پر آئے تو سر پر گول ٹوپی تھی ،جو چغلی کھارہی تھی کہ سیاست کون
کررہا ہے؟ باالفاظ دیگر ریاست کے مسلم رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے کی
کوشش کون کررہا ہے؟ آخر یہ کس کی قبروں اور جلے ہوئے گھروں پر سیاست ہورہی
ہے؟ بیشک شرارت مودی کے مداحوں کی بھی ہے مگر شرارت کی کامیابی ، ریاستی
سرکار کی ناکامی ہے اور اعلا سطح پر ملی بھگت کی بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ آپ
نے نہیں چاہا پریکرما ہو، نہیں ہونے دی گئی۔ آپ نے نہیں چاہا کہ ریاست کو
فرقہ ورانہ لائنوں پر تقسیم ہونے سے روکا جائے، نہیں روکا گیا۔ درکا شکتی
ناگپال بحال ہوگئی، پریکرما ر ک گئی،مگر فرقہ پرستی کو عروج مل گیا۔ اس کو
کہتے ہیں سیاست۔
مظفر نگر اور شاملی اضلاع کے انچارج وزیر مسٹر اعظم خان کایہ بیان ۱۰؍ستمبر
کے اخباروں میں جلی حروف میں شائع ہوا ہے ، ’’جس طرح صورت حال سے نمٹا
جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ توریاستی سرکار کام کررہی ہے نہ ضلع
انتظامیہ کام کررہا ہے۔‘‘ اعظم خاں یادو سرکار کے سب سے سینئر وزیر ہیں۔ ان
کے اس اعتراف یا اقرار پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ۔البتہ کچھ سوال ضرور
پوچھے جاسکتے ہیں۔مگریہ سوال ہم نہیں، الیکشن میں عوام پوچھیں گیں اور اس
وقت ان کے پاس جواب دینے کی مہلت نہیں ہوگی۔اب جو لیپا پوتی کی جارہی ہے اس
سے نہ تو ان گھروں میں پھر روشنی ہوگی جن کے نوجوانوں کو موت کی نیند
سلادیا گیا، نہ وہ گھر آباد ہو سکیں گے جن کو لوٹ کر نذر آتش کردیا گیا اور
نہ فرقہ ورانہ اعتماد اور بھائی چارے کا وہ ماحول بحال ہوسکے گا جو صدیوں
سے اس خطے کی پہچان رہا ہے اور جس کو تقسیم وطن کا سانحہ بھی توڑ نہیں سکا
تھا۔
سنگھ پریوار کی بیٹھک
جس وقت شاملی اور مظفرنگر میں فوج کی گشت اور فساد میں مارے گئے عورتوں ،بچوں
اور جوانوں کی لاشوں کے پوسٹ مارٹم ہورہے تھے، سنگھ پریوار اگلے پارلیمانی
چناؤ کی تیاری میں دہلی میں ’منتھن‘ میں مصروف تھا۔ دو سوال سامنے ہیں۔
وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر مودی کے نام کا کب اعلان کیا جائے؟دوسرا یہ
کہ اگلے چناؤ میں ہندتووا کے ایجنڈہ کوکس طرح ابھارا جائے، جس کے تین اہم
ستون ہیں:رام مندرکی تعمیر ، کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کرنا اور یکساں
سول کوڈکا نفاذ۔خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ دودن کی بیٹھکوں میں ملک کی تعمیر
و ترقی کا کوئی موضوع زیر غور نہیں آیا۔ گویا منفی سوچ حاوی ہے۔ سنگھ
پریوار نے ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی ہے جس میں ایسے ہی منفی مدعوں پر عوام
کی رائے پوچھی گئیہے۔ اس وقت سنگھ اور بھاجپا ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے
ہیں کسی طرح مودی وزیر اعظم بن جائیں۔ سنگھ کو پی ایم ہاؤس میں کسی ایسے
شخص کی ضرورت ہے جو قاعدہ قانون کی پرواہ کئے بغیر ان سنگھی عناصر کو قانون
کی شکنجے سے بچا سکے جو دہشت گردی کے ملزم ہیں۔ سنگھ کا نظریہ اساسی اقلیت
کشی پر قائم ہے ۔ اس کے ایجنڈہ کو مودی اور امت شاہ جیسے لوگ ہی پارلگاسکتے
ہیں ۔اس مرتبہ چناؤ سے پہلے سنگھ جس طرح سرگرم ہے ،اس سے صاف ظاہر ہے کہسنہ
۱۴ء کا الیکشن اصل میں آر ایس ایس بنام یو پی اے ہوگا۔ مودی نے حال ہی میں
کہاتھا کہ وہ وزیراعظم کے منصب کو خواب نہیں دیکھتے۔ شیو سینا کے اخبار
سامنا میں ۷؍ستمبر کو اودھو ٹھاکرے نے لکھا ہے کہ مودی سنہ۲۰۱۷ء تک گجرات
کے وزیراعلا رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو وہیں رہنے دیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ
اگر بھاجپا ان کو وزیر اعظم کا امیدوار بناتی ہے شیو سینا این ڈی اے کا
ساتھ دیگی یا نہیں؟
ونزارا کا مکتوب
اسی دوران فرضی انکاؤنٹر معاملوں میں جیل میں قید ڈاہیا جی گوبرجی ونزارا
(ڈی جی ونزارا) کے ایک خط کی بھی میڈیا میں چرچا رہی۔ اس خط کی بین السطور
میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’موت کا سوداگر‘ اصلاً کون ہے؟ اشارہ مودی اور
امت شاہ کی طرف ہے۔ سنگھی ذہنیت کو اس سے بڑی آسودگی حاصل ہوئی ہوگی۔ اسی
لئے کوئی تردید اس کی نہیں آئی۔ البتہ شیو سینا کے ایک لیڈر نے ونزارا کی
تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر ریاستی حکومت کی مرضی کے انکاؤنٹر نہیں ہوا
کرتے۔ونزارا واقعی مودی اور شاہ کے بڑے وفادار ہیں۔ گجرات کے سابق ڈی جی پی
سریکمار نے نشاندہی کی ہے کہ سنگھی لیڈروں کے ’قتل کے ارادے سے ‘ جہادیوں
کی گجرات میں آمد اور ہلاکت کا سلسلہ ونزارا کے ہی دور میں شروع ہوا اور
۲۰۰۷ میں ان کی گرفتاری کے بعد ختم ہوگیا ۔ آئی بی کے خفیہ اطلاعات کو بھی
بریک لگ گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا ونزارا نے یہ کھلا خط ’موت کے سوداگر‘ کے
ووٹ بنک کو تقویت پہنچانے کے لئے نہیں لکھا ہے؟
جبری زنا کا ری
ہماری نظر میں تو زنا جبری ہو یا رغبت سے قابل گردن زدنی ہے۔ مگر مغرب کی
پیروی میں ملک کا قانون صرف جبری زنا کو ہی برا گردانتا ہے۔ ابھی دہلی کے
معاملے میں فیصلے کا انتظار تھا کہ ممبئی سے خبرآئی کہ ایک مل کے کھنڈرمیں
ایک خاتون صحافی کو پانچ بدقماش لڑکوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔یہ لڑکے
جس ماحول کے پروردہ ہیں اس کے پیش نظر ان سے جرم کا ارتکاب کچھ انہونی بات
نہیں۔لیکن اپنی دھارمک سبھاؤں اورکتھا ؤں کی بدولت مقبول اس سفید ریش ،
سفید پوش، ارب پتی ’باپو‘کو کیا ہوا جس کے عقیدتمندوں کی تعداد کروڑوں میں
ہے؟ستر سے اوپر عمر اور یہ کرتوت! لعنت ہے نفس کی ایسی آسودگی پر۔ اس پر
حیرت نہ ہونی چاہئے کہ پولیس میں شکایت درج کرانے والی ۱۶؍ سالہ لڑکی ، جسے
اس نے جوڑ توڑ کرکے شاہ جہانپور سے بلوایا تھا، اس سادھک کا پہلا آلہ کار
نہیں ہے بلکہ اپنی ’سادھنا‘ کے لئے وہ اپنے آشرموں میں آنے والی عقیدت میں
اندھی خواتین کواپنی خواب گاہ میں پہلے بھی بلاتا رہا ہے۔شاید ان کی اندھی
عقیدت نے ان کو یہ سمجھ کر برداشت کرنے پر مجبور کردیا ہوگا کہ ’بابا‘ کی
یہ توجہ بھی کوئی ’پرساد‘ یا ’سوغات‘ ہے۔لیکن یہ مظلوم لڑکی اس کی عقیدت
مند نہیں تھی اس لئے شکایت پولیس تک پہنچ گئی۔ دنیا آسارام کی حرکتوں پر
بھلے ہی شرمسار ہو، مگر وہ شرمسار نہیں۔جیل میں علاج کے لئے بھی خاتون
معالج درکار ہے۔ شاید وہ کسی ایسی سادھنا کا رسیا ہے جس میں جنسیات کا بھی
عمل دخل ہوتا ہے۔
پولیس کی مستعدی
واردات کی رپورٹ ہوتے ہی ممبئی پولیس نے مستعدی دکھائی اور دو ہی دن میں
پانچوں ملزمان کو گرفت میں لے لیا ۔اب ان کے کچھ سابقہ کرتوتوں کی پول بھی
کھل رہی ہے۔لیکن کیونکہ کتھا واچک باپو کیمدح سراؤں میں اوما بھارتی کا نام
بھی آگیا اور سنگھ پریوار کے ہزاروں کارکنوں نے مظاہرے بھی کئے اس لئے
جودھپور پولیس کو پھونک پھونک کر قدم بڑھانے پڑے۔ مگربہرحال آسارام ہزار
حیلوں بہانوں کے باوجود گرفتار ی سے بچ نہیں سکے ۔اہم سوال یہ ہے کہ جنسی
جرائم کے ارتکاب کے معاملہ میں ممبئی کی جھگی جھونپڑی کے آوارہ لڑکوں اور
سوا سو سے زیادہ آشرموں کے مالک ،عوام کوا علا اخلاق و کردار کی تلقین کرنے
والے معمرسادھک کے کردار میں کوئی فرق کیوں نہیں رہ گیا ؟ دہلی میں جب ایسا
ہی واقعہ پیش آیا، سشما سوراج نے ملزمان کو پھانسی پر لٹکادینے کا مطالبہ
کیا تھا مگر آسارام کے معاملے میں وہ خاموش کیوں ہیں؟ سوال یہ ہے کہ سزا
جرم کے دیکھ کر دی جائے یا مجرم کے اسٹیٹس کو دیکھ کر؟
پولیس کی کامیابی
دہلی پولیس نے چلتی بس میں عصمت دری اور اذیت کے۱۶؍دسمبر والے کیس کو چند
گھنٹوں میں حل کرلیا تھا اور پانچ دن میں تمام ملزمان کو پکڑ لیا۔ اسی طرح
ممبئی پولیس کی کارکردگی بھی لائق تعریف ہے۔دودن میں سارے ملزم دھر دبوچے
گئے۔ جودھپور پولیس نے احتیاط کے پیش نظر آسارام کی گرفتاری میں چند روز کی
تاخیرکی مگر وہ حالات کی پیش نظر روا تھی۔پولیس افسران کی اس کارکردگی کا
اسی طرح اعتراف کرنا چاہئے جس طرح پولیس کی ناکامی پر برہمی کا اظہارکیا
جاتا ہے۔ دہلی پولیس کے سابق کمشنر نیرج کمار کی یہ شکایت حق بجانب ہے کہ
پولیس جب کوئی اچھا کام کرتی ہے تو اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔اچھے کاموں کا
اعتراف ہونا چاہئے ۔ کل ۱۰ستمبرکوہی دہلی کی عدالت نے ۱۶؍ دسمبر کے کیس میں
چاروں ملزموں کو مجرم قرار دیا ہے۔یہ بیشک دہلی پولیس کی تفتیش اور ثبوتوں
کی کامیاب فراہمی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا ہی فول پروف کیس
جودھپور کے ملزم اورممبئی کے ملزمان کی خلاف بنائے جائیں گے۔ اور خطاکاروں
کو سخت سزا ملے گی۔ایسے جرائم میں سخت سزائیں ضروری ہیں۔ لیکن کیا ہم نے
ملک میں ایسا ماحول بنانے کی تدابیر اختیار کی ہیں جو جنسی ہوس رانی کے
سیلاب کو روک سکے؟ اس کا جواب انہی قانون سازوں کو دینا ہوگا جنہوں نے
قانون کو سخت تو کردیا مگر جرم کے ارتکاب کو روکنے کے لئے مناسب ماحول سازی
پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔اس میں میڈیا بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ اسے بھی اپنی ذمہ
داری سمجھنی ہوگی۔
آخری بات: افسوس ہے دہلی پولیس نے دہشت گردی کے کیسوں میں بڑی تعداد میں
فرضی ملزمان کی گرفتاریاں کرکے واہ واہی لوٹنے کی جو تدبیر اختیار کی اس سے
اس کی ساکھ کو بٹا لگا ہے۔ پولیس کی لاکھ کوشش کے باوجود جرائم تو ہونگے
مگر پولیس کو اپنی تفتیش اور مقدمات کی تیاری میں سچائی کو سامنے رکھنا
چاہئے ۔ فرضی کہانیوں کے اوراق عدالتوں میں جاکر بکھر جاتے ہیں، جس سے
پولیس کی کامیابیوں اور اچھی کارکردگی پر بھی پانی پھر جاتا ہے۔ |