بلوچستان، کراچی اورکشمیر۔۔۔ 65،71اور 2013ء

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے بیان فرمایا پہلے اﷲ کی حمد وثنا بیان کی پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا پھر فرمایا اے لوگو لالچ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن سے انسان فقیر اور محتاج ہوجاتاہے اور (لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے ) ناامیدی کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن سے انسان غنی اور بے نیاز ہوجاتاہے تم وہ چیز جمع کرتے ہو جس کو کھا نہیں سکتے اور ان باتوں کی امید لگاتے ہو جنہیں پا نہیں سکتے تم دھوکے والے گھر یعنی دنیا میں ہو اور تمہیں موت کی مہلت ملی ہوئی ہے حضور ﷺ کے زمانے میں تو تم لوگ وحی کے ذریعہ سے پکڑتے جاتے تھے جو اپنے باطن میں کوئی چیز چھپاتا تھا اس کی اس چیز پر پکڑ ہوجاتی تھی (اس کے اندر کی اس چیز کا پتہ وحی سے چل جاتاتھا ) اور جو کسی چیز کو ظاہر کرتاتھا اس کی اس چیز پر گرفت ہوجاتی تھی لہذا اب تم لوگ ہمارے سامنے اپنے سب سے اچھے اخلاق ظاہر کرو باقی رہے تمہارے اندرونی حالات اورباطن کی نیتیں انہیں اﷲ خوب جانتا ہے اب جو ہمارے سامنے کسی بری چیز کو ظاہر کرے گا اور یہ دعوی کرے گا کہ اس کی اندرونی حالت بہت اچھی ہے ہم اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور جو ہمارے سامنے کسی اچھی چیز کو ظاہر کرے گا ہم اس کے بارے میں اچھا گمان رکھیں گے اور یہ بات جان لو کہ کنجوسی کی بعض صورتیں نفاق کا شعبہ ہیں لہذا تم خرچ کرو جیسے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں
ترجمہ ۔ اور (بالخصوص مواقع حکم میں ) خرچ ( بھی ) کیا اور یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا ایسے ہی لوگ (آخر ت میں ) فلاح پانے والے ہیں ۔

اے لوگو اپنے ٹھکانے پاک صاف رکھو اور اپنے تمام امور کو درست کرو اور اﷲ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے اور اپنی عورتوں کو قبطی (مصری ) کپڑے نہ پہناؤ کیونکہ ان کے اندر جسم نظر تو نہیں آتا لیکن اس کی نوعیت معلوم ہوجاتی ہے اے لوگو میری تمنا یہ ہے کہ میں برابر سرابر نجات پاجاؤں نہ مجھے انعام ملے اورنہ سزا اور مجھے اس بات کی امید ہے کہ آئندہ مجھے تھوڑی یازیادہ جتنی عمر ملے گی میں اس میں انشاء اﷲ حق پر عمل کرو ں اور ہر مسلمان کا اﷲ کے مال میں جتنا حصہ ہے وہ حصہ خود اس کے پاس اس کے گھر پہنچے گا اور اسے اس حصہ کے لینے کیلئے نہ کچھ کرنا پڑے گا اور نہ کبھی تھکنا پڑے گا اور جو مال اﷲ نے تمہیں دے رکھے ہیں انہیں درست کرتے رہو اور سہولت کی تھوڑی کمائی اس زیادہ کمائی سے بہتر ہے جس کے لیے زیادہ مشقت اٹھانی پڑے اور قتل ہوجانا مرنے کی ایک صورت ہے جو نیک اور بد ہر آدمی ہو حاصل ہوجاتی ہے لیکن ہر قتل ہونے والا اﷲ کے ہاں شہید نہیں ہوتا بلکہ شہید وہ ہے جس کی نیت اجر وثواب لینے کی ہو اور جب تم کوئی اُونٹ خریدنا چاہو تو لمبا اور بڑا اُونٹ دیکھو اور اسے اپنی لاٹھی مارو اگر تم اسے چوکنے دل والا پاؤ تو اسے خریدو ۔

قارئین آج کا کالم عنوان کے اعتبار سے بھی چونکا دینے والا ہے اور اس کالم میں زیر بحث لایاجانے والا موضوع بھی انتہائی دلچسپی کا حامل ہے 1947ء میں جب برصغیر کا بٹوارہ ہوا تو دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک مملکت حاصل کی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے علامہ اقبال ؒ کے خوابوں اور تصورات کو حقیقت کی ایک عملی شکل دی او ر یہ مملکت پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی 27رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں پاکستان کے نام سے بننے والی یہ مملکت بیسویں صدی کی کرامتوں میں شمار ہوتی ہے جب یہ ملک وجود میں آیا تو اس وقت ہندو راہنماؤں اور انگریز لیڈرز کا بھی یہ خیال تھا کہ یہ نوزائیدہ اور کمزور ملک بہت جلد جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا اور نہرو او رگاندھی کے سیاسی پیروکاروں کو یقین تھا کہ پاکستان انتہائی کم وسائل کے ساتھ بڑھتے ہوئے مسائل کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوگا اور جلد ہی خدا نخواستہ یہ مملکت تحلیل ہوکر ہندوستان کاحصہ بن جائے گی اسی سلسلہ میں پاکستان کی مشکلات بڑھاتے ہوئے ابتدائی ایام میں ہی ہندوستان بھر میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندؤوں نے سکھوں کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کا بہت بڑے پیمانے پر قتل عام کرایا اس نوعیت کا گھناؤنا قتل عام کہ سعادت حسن منٹو جیسے آزادمنش اور کھلے افکار رکھنے والے مسلمان رائٹرز سے لے کر کرشن چندر جیسے ہندو لکھاری بھی چیخنے پر مجبور ہوگئے اور منٹوسمیت متعدد لکھاریوں کے قلم روشنائی کی بجائے خون سے تحریر لکھنے پر مجبور ہوگئے یہ تمام تحریریں آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور ان تحریروں کے آئینے میں اس دور کی ہندو نفسیات اور مسلم نفسیات انتہائی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کن کن مواقع پر اور کون کون سی جگہوں پر ہندووں نے جارحیت سے کام لیا اور اسی طرح کس کس طریقے سے میر جعفر اور میر صادق جیسی گھناؤنی شخصیات مسلمانوں کی پیٹھ پر چھرے گھونپتی رہیں یہ سب باتیں ہم ان تحریروں کے ذریعے جان سکتے ہیں ۔

قارئین اگرچہ قائد اعظم محمدعلی جناح ؒ قیام پاکستان کے ابتدائی چند ماہ کے دوران خرابی صحت کے باوجود انتہائی محنت اور مشقت کے ساتھ بھارتی ذہنیت کو شکست دیتے ہوئے پاکستان کو تا قیامت قائم رہنے والی اسلامی مملکت قرار دے چکے تھے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہندو ذہنیت کو شکست فاش ہو رہی تھی جو آج یا کل پاکستان کے خدانخواستہ ٹوٹنے یا تحلیل ہونے کے منتظر تھے۔ اس سب کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح ؒ نجی محفلوں میں ان خیالات کا اظہار کر چکے تھے کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘اُن کے ان خیالات میں جن کھوٹے سکوں کا ذکر ہے پاکستان کی پوری تاریخ انہی کھوٹے سکوں اور ان کی آل اولاد کے سیاہ کارناموں سے پوری دنیا کے سامنے کالک بن کر آتی رہی اور اب بھی آ رہی ۔اس سب کے باوجود پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا وہ قائم رہا اور حیرت انگیز طور پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ہم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ پاکستان کو اسلامی دنیا میں پہلی ایٹمی طاقت بنانے والے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک تاریخی انٹرویو کیااس انٹرویو میں فخر امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ آپ لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان کیا ہے؟ پاکستان کی حقیقت مجھ سے پوچھیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ میں نے ننگے پیر کا کئی میل کا سفر صحرا کی تپتی ریت پر پیدل چل کر طے کیا اورمیں نے ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہونے والی ٹرینوں سے ٹپکتا ہوا مسلمانوں کا خون اور ہزاروں شہیدوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پاکستان کی قدر و قیمت کیا ہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ میں یورپ میں انتہائی آرام کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا میرے لیے پوری دنیا میں انتہائی آسائش کے ساتھ گھومنے پھرنے اور ترقی کے مواقع موجود تھے لیکن جب بھارت نے پہلی مرتبہ ایٹمی تجربات شروع کیے تو میرے جذبات نے مجھے مجبور کیا کہ میں پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی اس ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کروں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایٹمی منصوبہ شروع کیا گیا جنرل ضیاء الحق ، غلام اسحاق خان، بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف سمیت تمام ادوار حکومت میں ایٹمی پروگرام پاکستان کے بقاء اور سلامتی کی نوید اور کلید سمجھ کر جاری رکھا گیا اور آخر کار28مئی 1998ء ؁ کوپاکستان دنیا کی پہلی جوہری اسلامی طاقت بن کر قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اس عزم اور اعلان کا عملی اظہار بن گیا کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لیے بنا ہے (انشاء اﷲ تعالیٰ)۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے راقم ، استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور عزیزی محمد رفیق مغل کے مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انتہائی دکھی دل کے ساتھ بتایا کہ آج بھی میرے پاس وہ تمام نظریاتی لوگ اور انتہائی اہل ٹیم موجود ہے جو پاکستان کو موجودہ چیلنجز سے باہر نکالنے کا عزم ، حوصلہ اور صلاحیت رکھتی ہے اور آج بھی پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران ، سائنسی ترقی اور ایجادات کے لیے سائنسدانوں کی ایک بہت بڑی ٹیم ان کے پاس موجود ہے اور وہ آج بھی پاکستان کو درپیش تمام مسائل کے حل کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی گرفتہ انداز میں یہ کہہ کر سناٹا طاری کر دیا کہ ’’ہمارے ساتھ دوبارہ وہ مت کیجئے گا جو میرے ساتھ کیا گیا‘‘اس ایک جملے کے اندر پوری کہانی موجود تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آواز کے درد اور الفاظ میں چھپے دل دہلا دینے والے دکھ احساسات اور جذبات نے ہم سب کی آنکھیں نم کر دیں۔

قارئین یہ وہ سب تمہید ہے جو ہم نے آج کے موضوع کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھی اس وقت پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور سندھ میں براہ راست بھارت سمیت دیگر کئی ممالک کے ایجنٹس آگ اور خون کا ایک کھیل کھیل رہے ہیں اور اسی طرح تیسرے صوبے خیبرپختونخواہ سمیت پنجاب اور پورے پاکستان میں ’’دہشت گردی کے خلاف انکل سام کی جنگ‘‘ میں ملوث ہونے کے نتائج کے طور پر آگ لگی ہوئی ہے۔ پچاس ہزار سے زائد معصوم شہری آگ کے اس کھیل کی نذر ہو چکے ہیں اور اسی طرح دس ہزار کے قریب پاکستانی فوجی جوان اور سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاران جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ آج سے چند ہفتے قبل بلوچستان کے ایک سیاسی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پوری قوم کو ششدر کر کے رکھ دیا جب انہوں نے بلوچستان کے حالات درست کرنے کے سوال کا جواب دیا ان کا کہنا تھا کہ ’’بلوچستان اور کشمیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے،کشمیر کے حالات درست ہوں گے تو بلوچستان کے حالات خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر اب تک کی ملکی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر زور پکڑتی تھی تو اس کے ساتھ ہی کراچی میں آگ اور خون کی بارش ہو جاتی تھی ۔ کشمیر کے لیے پاکستان نے 1965؁ء، 1971؁ء اور 1999؁ء میں جنگیں بھی لڑیں۔ 1999کی جنگ کو طبلے والی سرکار جنرل مشرف کی فوجی تاریخ میں نام لکھوانے کی حرص پر مشتمل تھی اور کارگل پر لڑی جانے والی یہ غیر اعلانیہ جنگ پاکستان کے لیے اور کشمیر کے لیے کئی مشکلات کھڑی کر گئی ۔ افغانستان میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر کو 9/11کے واقعات کا ذمہ دارقرار دے کر انکل سام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اور پاکستان کو بھی اس جنگ میں حصہ بنایا گیا آج صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ پہلی جوہری اسلامی طاقت ہونے کے باوجود آج پاکستان انتہائی نازک مراحل سے گزر رہا ہے افواج پاکستان کو وزیرستان کی دلدل میں ایک سازش کے تحت اتارا گیا ہے کشمیر جسے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور جس کشمیر پر آج تک پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوتی تھی وہ کشمیر پاکستان کے دفتر خارجہ اور خارجہ پالیسی کے فرنٹ پیج سے اتر کر بیک بینچز پر جا چکا ہے۔ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو موجودہ تحریک آزادی میں شہید کیا گیا اور لاکھوں کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 9ستمبر 2013کو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلامیہ سامنے آیا ڈرون حملوں کو پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا اور بلوچستان اور کراچی میں لگنے والی آگ بجھانے کی ذمہ داری وہاں کی صوبائی حکومتوں پر ڈالتے ہوئے ان کی مکمل مدد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ان تمام اعلانات کے دوران کشمیر کا ذکر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کیا تو ضرور لیکن وہ کسی مذاق سے کم نہ تھا اگر چہ انہوں نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ یہ بات کہی کہ آزاد کشمیر میں گزشتہ دنوں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور ’’ایک صاحب ‘‘ نے اپنے آپ کو وزیراعظم بھی نامزد کروا لیا لیکن ہم نے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے اپنی جماعت مسلم لیگ ن کی کشمیری قیادت اس تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہ بننے کا حکم دیا ہم دوسری سیاسی قوتوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے اندر ہونے والی بغاوت کا کوئی بھی فائدہ اٹھانے کی ہم نے کوشش نہیں کی کہ آزاد کشمیر میں اپنی حکومت قائم کریں۔

قارئین میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ ن کے قائد ہیں اور ان کی جماعت مسلم لیگ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو اپنی جماعت اور ملک کا بانی سمجھتی ہے اور قائداعظم تو یہ سمجھتے تھے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بجائے اس کے کہ مسئلے کی جڑ کو پکڑا جائے شاخوں کو ٹٹول کر ہماری انتہائی صاحب بصیرت قیادت مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے یاد رکھیے کہ اگر آج کشمیر کو فراموش کر دیا گیا تو پاکستان کا مستقبل انتہائی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ کراچی اور بلوچستان کی آگ کا تعلق ماضی میں بھی کشمیر سے رہا ہے اور آج بھی تمام واقعات کشمیر کی طرف اشارے کر رہے ہیں۔ وزیرستان اور افغانستان کے بارڈر پر پاکستانی افواج کو الجھانے کا بنیادی مقصد بھی کشمیر سے توجہ ہٹانا تھا میاں محمد نواز شریف کے متعلق سنا ہے کہ وہ کشمیری النسل ہیں ہمیں یقین ہے کہ وہ بھی دل سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ لاکھوں کشمیریوں کی قربانیاں بھلائی نہیں جا سکتیں اور آزاد کشمیر کا یہ خطہ آزاد ی کا بیس کیمپ بنایا گیا تھا نہ کہ اسے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ’’نام نہاد وزارت عظمیٰ‘‘کے لیے میدان سیاست یا میدان جنگ بنا کر آزادی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے پاکستان کے عدم استحکام کا تعلق ’’کھوٹے سکوں‘‘، بلوچستان ، کراچی، انکل سام کی جنگ اور در حقیقت کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ملک سے محبت کرنے والی قوتیں مسئلوں کو جڑ سے پکڑیں گی نہ کہ نشستند، گفتند اور برخواستند کر کے یہ سمجھا جائے گا کہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ آخر میں ایک ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے ۔

ایک مجلس میں میزبان کا کم سن بچہ کافی دیر تک عظیم شاعر مجاز کو گھورتا رہا اور پھر گنگنانے لگا
کسی نے شرارتاًمجاز سے پوچھا ،
’’مجاز صاحب یہ بچہ بڑا ہو کر شاعر بنے گا یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
مجاز نے فوراً جواب دیا
’’نقاد‘‘

قارئین نہ جانے کیوں ہمارے ملک میں سیاسی قائدین یا تو حکمران ہوتے ہیں یا پھر نقاد ۔1965ء ،1971ء اور 1999کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے 2013میں ہمیں اپنی سمت کا تعین انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ اﷲ ہمارے ملک پر رحم کرے اور اہل کشمیر کی مشکلات کو آسان کرے ۔آمین۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336970 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More