وفاق اور سندھ حکومت نے ایک بار پھر کراچی ٹارگٹڈ آپریشن
کو تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ہفتے کے روزوزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں
نے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ٹیلیفون کیا۔ دونوں رہنماﺅں نے کراچی
میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھنے اور اسے مزید متحرک کرنے پر اتفاق کیا۔وزیر
داخلہ چودھری نثار علی خاں اوروزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے پولیس اور
رینجرز کے درمیان تعاون اور موثر رابطے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر
داخلہ نے قائم علی شاہ کو شہر میں قیام امن کے لیے مکمل تعاون کی یقین
دہانی کرائی ہے۔جبکہ وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی
میں امن و امان کے قیام کے لےے خاموش تماشائی نہیں بن سکتی،کراچی میں امن
قائم کرنے کے لےے وفاقی حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور اس سلسلے
میں سندھ حکومت کی بھرپور مدد کی جائے گی، صوبے میں قیام امن کی ذمہ داری
صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت امن و امان کے قیام کے لےے صوبائی حکومت
کو مدد فراہم کرنے کی پابند ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ نے پنجاب سے آئے 34 رکنی وفد سے مخاطب ہوتے
ہوئے کہا ہے کہ کراچی شہر تجارتی سرگرمیوں کا مرکز اور ملکی معیشت کے لیے
ریڈھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے، ہم نے کراچی کو امن کا گہورہ اور معاشی
سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن تمام
سیاسی جماعتوں اور متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لے کر شروع کیا گیا ہے۔ یہ
آپریشن بلاتفریق کیا جا رہا ہے، پولیس اور رینجرز کو مجرموں کے خلاف
کارروائی کے لیے فری ہینڈ دیا گیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاتفریق
کارروائی کی جا رہی ہے، اگر کوئی مجرم حکمران پارٹی سے تعلق ظاہر کرتا ہے
تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ ٹارگٹڈ آپریشن میں ہم کسی قسم کی
مداخلت کرتے ہیں نہ ہی امن و امان کے قیام کے عظیم مقصد میں مصروف عمل
قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو پیچھے ہٹایا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے
کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے حوصلہ افزا اور مثبت نتائج سامنے آ ئے ہیں۔ کراچی
میں مستقل بنیادوں پر امن کے قیام کے لیے سندھ پولیس کو مستحکم کرنے اور
افسروں کی تعداد بڑھانے، تربیت فراہم کرنے، جدید اسلحہ، مراعات، قانونی
تحفظ دینے اور پولیس فورس میں خصوصی ونگز قائم کرنے کی حکمت عملی مرتب کی
جارہی ہے۔ دو روز قبل بھی وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ
حکومت نے کراچی میں جاری آپریشن کی رفتار میں اضافے کا فیصلہ کیا تھا
اوروزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کراچی میں جاری آپریشن کی اب تک کی
کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیاتھا۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جتنا جلد
ممکن ہو شہر کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے صاف کیا جائے۔ آپریشن
میں شریک افسران کی بھرپور انتظامی، قانونی اور اخلاقی مدد کی جائے گی اور
عام شہری کی جان اور مال کو محفوظ بنایا جائے۔کراچی میں امن کے قیام کے
حوالے سے 19سال قبل عارضی طور پر بلوائی گئی رینجرز جسے ہر سال ایک نوٹی
فکیشن کے ذریعے ایکسٹینشن دی جاتی تھی اسے اب مستقل کرنے کی منصوبہ بندی
بھی کرلی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ کے انتظامی حلقوں کی جانب سے سندھ
حکومت کو سفارشات دی گئیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کے حوالے
سے رینجرز کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں سے واضح فرق آیا ہے، تاہم
کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ان کی کارروائیاں ختم ہوں تو وہ عناصر جو ان
کارروائیوں کے بعد پس پردہ چلے گئے ہیں پھر سے منظم نہ ہوجائیں جس پر سندھ
حکومت کی جانب سے بھی اس پر رضا مندی ظاہر کردی گئی ہے۔واضح ہو کہ رینجرز
کو 1994ءمیں امن و امان کے لیے سندھ میں امن و امان کے لیے عارضی طور پر
بلوایا گیا تھا اور ان کے اختیارات میں ہر 3 ماہ بعد توسیع کی جاتی ہے اور
ان کی رہائش کے لیے بھی ہر سال نوٹیفیکیشن جاری ہوتے ہیں تاہم اب انہیں
سندھ میں مستقل بنیادوں پر تعینات کردیا جائے گا۔ سندھ محکمہ داخلہ سندھ
میں رینجرز کے رہنے کی درخواست وفاق کو بھیجتی ہے اور وہاں سے منظوری کے
بعد ان کے اختیارات اور رہائش میں توسیع کی جاتی ہے تاہم اس سفارشات کے بعد
وہ سندھ حکومت کے ماتحت ہوجائے گی اور ان کے اخراجات اور معاوضوں کا کچھ
حصہ وفاق سے دیا جاتا تھا اب وہ سندھ حکومت دے گی۔ اس فیصلے کو قانونی
حیثیت دینے کے لیے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اسے پیش کیا جائے گا اور اس کی
منظوری کے بعد اسے قانونی شکل دے کر منظور کرلیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے جاری کیا گیا آپریشن اتنا
کامیاب نہیں ہورہا،حکومت سندھ جتنا اسے کامیاب کہہ رہی ہے۔ اور نہ ہی یہ
آپریشن اپنے اہداف کو حاصل کرتا ہوا دکھائی دے رہا۔کیونکہ آپریشن سے پہلے
ہی بہت سے جرائم پیشہ افراد یا تو کراچی سے چلے گئے تھے یا پھر زیرزمین چلے
گئے تھے۔آپریشن شروع ہونے کے بعد بھی کراچی میں جرائم کی شرح معمولی سی ہی
کم ہوئی ہے۔ آپریشن کے باوجود بھی کراچی میںروزانہ معموم کے مطابق ٹارگٹ
گلنگ ہورہی ہے اور دوسرے جرائم بھی اسی طرح ہورہے ہیں۔ ہفتے کے روز ماڈل
کالونی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ممتاز شاہ کے قتل سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپریشن
کس حد تک کامیاب ہورہا ہے۔ کراچی آپریشن میں سب سے بڑی غلطی یہ ہورہی ہے کہ
اسے محض کراچی کا داخلی مسئلہ سمجھ کر حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ حالانکہ کراچی محض داخلی مسئلہ نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی سیاست
کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ سابق وزیر داخلہ سمیت انٹیلی جنس کی تنظیمیں
اعتراف کرتی ہیں کہ کراچی کے حالات کو بگاڑنے میں کچھ غیر ملکی قوتوں کا
بھی ہاتھ ہے۔پھر وہ غیرملکی قوتیں چاہیں اندرونی قوتوں کو استعمال کریں یا
پھر خود بدامنی پھیلائیں۔ کراچی میں جو ٹارگٹڈ آپریشن کرنا چاہتے ہیں اس
میں ان کا انحصار صوبائی حکومت کی انتظامیہ اور پولیس پر ہے۔ کراچی کی
پولیس اور انتظامیہ کے بارے میں کئی رپورٹوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ
غیر جانبدار نہیں۔کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم بھی اس
آپریشن سے کچھ مطمئن نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق گورنر سندھ کا استعفیٰ بھی اسی
ناراضگی کی ایک کڑی تھی۔ چودھری نثار نے بابر غوری کو یقین دہانی کرائی کہ
کسی بے گناہ کو نہیں پکڑا جائے گا۔ کراچی میں آپریشن کی غیر جانبداری پر
حرف نہیں آنے دیں گے، انہوں نے گورنر سندھ اور بابر غوری کے تحفظات دور
کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری
ٹارگٹڈآپریشن پرمختلف اعتراضات کوختم کرنے اوراس کومکمل طورپرشفاف بنانے کے
لیے اعلیٰ سطح کی مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنے پروفاقی اورصوبائی حکومتوں کے
درمیان اتفاق ہوگیاہے۔ یہ کمیٹی آپریشن مانیٹرنگ کمیٹی کہلائے گی۔ اس کمیٹی
میں سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے ایک ایک نمائندے، پولیس اوردیگر قانون
نافذکرنے والے اداروں کے افسران، وفاقی اورسندھ حکومت کاایک ایک نمائندہ،
سندھ کابینہ کے ایک وزیر، تاجر تنظیموں کے نمائندے، پراسیکیوشن، وکلا، سول
سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اورمیڈیاکاایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ یہ
کمیٹی آپریشن کی مکمل نگرانی کرے گی اورآپریشن کے دوران گرفتارہونے والے
کسی بھی بے گناہ شخص کی داد رسی کے لیے کام کرے گی اوراگر کسی بھی جانب سے
آپریشن پرکوئی تحفظات یا اعتراضات سامنے آتے ہیں تویہ کمیٹی وفاقی
اورصوبائی حکومتوں سے رابطہ کرکے ان کودورکرے گی۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی میں
شامل افرادکے ناموں کوحتمی شکل دی جارہی ہے اورآئندہ ہفتے اس کاباضابطہ
اعلان کردیا جائے گا اوراس کمیٹی کوقانون کے مطابق اختیارات تفویض کیے
جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی کے حالات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے چند
بڑے اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ مثلاً کراچی کو اسلحہ سے پاک کرناہو گا،
ریاستی اداروں کے علاوہ سب سے اسلحہ واپس لینا ہوگا،کراچی میں موجود ہر
جماعت کی طرف سے بنائے گئے نوگوایریاز کا خاتمہ کرنا ہوگا۔کراچی میں قبضہ
مافیا کے خلاف ایک بڑے انتظامی آپریشن کی ضرورت ہے، اس آپریشن کے بغیر
کراچی میں مافیا کی سیاست کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں پولیس اور
انتظامیہ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور سیاسی بنیادوں پر
لگائے گئے افسران کو فارغ کرکے میرٹ کی پالیسی کے تحت لوگوں کو سامنے لاکر
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل فری ہینڈ دینا ہوگا۔ بھتہ خوری اور
ٹارگٹ کلنگ میں ملوث لوگوں کی فہرست انٹیلی جنس اداروں کے پاس موجود ہے، ان
کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرنا ہوگی اور ان لوگوں کے قبضے میں موجود
سرکاری املاک چھڑانی ہوں گی۔ |