’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘ امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کے
ایٹمی اثاثوں کی کڑی نگرانی
امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی کڑی نگرانی کر رہا ہے، انتہائی خفیہ
امریکی رپورٹ میں امریکہ کی جانب سے پاکستان پر عدم اعتماد میں شدید اضافے
کا بتایاگیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سی آئی اے نے پاکستان
میں بائیولوجیکل اور کیمیائی مقامات کے متعلق امریکی تحفظات کو دور کرنے کے
لئے خفیہ معلومات جمع کرنے کی اپنی کوششوں کو بھی توسیع دی ہے۔ امریکہ کے
خفیہ آپریشن میں سی آئی اے کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے لئے بھرتی کئے
گئے پاکستانی شہریوں کی وفاداریوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔ امریکی انٹیلی
جنس کے 52.6 ارب ڈالر کے بلیک بجٹ کی 178 صفحات پر دستاویزات سی آئی اے کے
منحرف اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے لیک کی ہیں۔ دستاویزات میں امریکہ کی جانب سے
سکیورٹی تعاون میں عدم اعتماد میں اضافے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ امریکی
عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں ماضی کے مقابلے
میں خفیہ معلومات کے حصول میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ امریکہ نے 12 برسوں
کے دوران پاکستان کو 26 ارب ڈالر کی امداد دی جس کا مقصد ملک کو مستحکم
کرنے اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کرنا تھا تاہم اسامہ بن
لادن کی ہلاکت اور القاعدہ کے کمزور ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی توجہ ان
خطرات پر مبذول کرلی ہے جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بڑھ گئے ہیں۔ یہاں
امریکی سی آئی اے ڈرون طیاروں کے حملے بھی کرتی ہے۔2011تک امریکہ میں
پاکستانی سفیر کے طور پر کام کرنے والے حسین حقانی کا کہنا ہے اگر امریکہ
پاکستان میں اپنی خفیہ نگرانی میں اضافہ کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عدم
اعتمادی اعتماد سے آگے بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں
سے متعلق نئے امریکی الزامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق
امریکی خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے
سینئر عہدیدار عسکریت پسندوں کے ماورائے عدالت قتل کے بارے میں جانتے ہیں-
رپورٹ 2010ء تا 2012ء کے درمیان امریکی خفیہ اداروں کے مابین ہونے والی
کمیونیکیشن کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ صدر اوباما کی انتظامیہ پاکستانی
فوج کو دی جانے والی امداد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بہانہ بنا
کرکنارہ کشی اختیار کر سکتی ہے ۔واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکی
انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ پہلے سے ہنگامہ خیز تعلقات کو برقرار رکھنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا
کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ طویل المدت اشتراک کے لئے پرعزم ہے اور ہم اس کے
ساتھ باہمی مفادات اور دوطرفہ احترام کی بنیاد پر تعلقات مضبوط کرنے کے لئے
کوشاں رہیں گے۔ ترجمان کیٹلی ہیڈن کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان
سٹرٹیجک ڈائیلاگ جاری ہیں جو انسداد دہشت گردی کے لئے سرحدوں کے انتظامات
اور نیو کلیئر سکیورٹی سے لیکر باہمی تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے تک وسیع
ہیں۔ پاکستان میں سکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لئے دونوں ملکوں نے اپنے
سٹرٹیجک مفادات ایک دوسرے کو بتائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے
عہدیداروں اور پرعزم سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔
امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ وہ امریکی عہدیداروں سے مشاورت کے بعد منکشف
ہونے والی دستاویزات کی کچھ تفصیل اس بنا پر شائع نہیں کر رہا کہ عہدیداروں
نے انہیں تعصب پر مبنی قرار دیا تھا۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے
ترجمان نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہامریکی
خفیہ ادارے سی آئی اے نے جس کا کے جی بی کی طرح پوری دنیا میں جاسوسی کا
نیٹ ورک پھیلا ہو ہے،نے دنیا بھر میں خفیہ ایکشن پروگرام شروع کر رکھا ہے
جس میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے جنگجوں اور دیگر عسکریت
پسندوں پر ڈرون حملے کرنابھی شامل ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کے تجزیہ کاروں
نے پاکستان، شام اور ایران کی جانب جانے سے روکے جانے والے مشتبہ کارگو کی
بھی نشاندہی کی ہے۔ افغانستان میں امریکی سکیورٹی کی موجودگی کو بہت سی
امریکی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان میں انٹیلی جنس بڑھانے کے لئے استعمال کیا
ہے۔ پاکستان اور امریکہ میں برسوں سے جاری سفارتی تنازعہ اور کشیدگی کی
وجوہات کم ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی
آپریشن کو دو سال گزر گئے ہیں اور پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں بھی
کسی حد تک کمی آ گئی ہے۔ حسین حقانی کے مطابق’’ ایبٹ آباد میں امریکی خفیہ
آپریشن پر اگرچہ پاکستانی غصہ ختم ہوگیا ہے مگر اس کے اثرات اس سے کہیں
زیادہ مرتب ہوئے ہیں جو عام طور پر سمجھا جا رہا ہے‘‘۔ حسین حقانی کا کہنا
تھا کہ پاکستان میں اسامہ کی موجودگی کی اطلاع پر امریکہ یہ سوچنے لگا کہ
پاکستان کی اپنی حدود میں ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہی اس سطح سے کم ہے جو
اندازہ کی جا رہی ہے۔ اس احساس کے بعد امریکہ کے نیو کلیئر مواد اور اسکے
مختلف حصوں کی حفاظت کی ’’پاکستانی اہلیت ‘‘کے حوالے سے پہلے سے موجود نام
نہاد خدشات میں مزید اضافہ ہوگیا۔
پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق امریکی تحفظات کے دو منظر نامے ہیں۔پہلا
تو یہ کہ اسلام پسند عسکریت پسند حملہ کرکے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کر لیں گے
جیسا کہ وہ 2004ء میں جی ایچ کیو پر حملہ بھی کر چکے ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ
شدت پسند عناصر پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں میں’’ بھرتی‘‘ ہو کر’’ بڑے
‘‘عہدوں پر پہنچ کر نیو کلیئر ہتھیار چلانے یا اسے سمگل کرنے کی صلاحیت
حاصل کر لیں گے۔ پاکستان کی درجن بھر لیبارٹریز، پروڈکشن اور ذخیرہ کرنے کے
مقامات ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یورینیم سے بھرپور وار ہیڈ کے ساتھ
ساتھ پاکستان پلوٹونیم سے ہتھیار بنانے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ اس وقت
پاکستان کے پاس 120 ایٹمی ہتھیار ہیں اور امریکی بجٹ دستاویزات بتاتی ہیں
کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کو شبہ ہے کہ پاکستان ان ہتھیاروں کی تعداد میں
اضافے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ ایٹمی مواد ایک مقام سے دوسری جگہ کیسے منتقل
کیا جاتا ہے اس طریقہ کار کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں،لیکن امرکی
ماہرین اس کے باوجود منتقلی کے عمل میں بھی کسی ممکنہ کمزوری کی نشاندہی کر
رہے ہیں۔
ایک پاکستانی ریٹائرڈ فوجی افسر کا کہنا ہے کہ’’ کوئی نہیں جانتا کہ یہ عمل
کس طرح ہوتا ہے‘‘۔ بڑے خفیہ انداز میں گاڑیاں حرکت کرتی ہیں مگر واضح نہیں
وار ہیڈ کو دیگر پرزوں کے قریب لایا جاتا ہے یا دیگر پرزے وار ہیڈ کے قریب
لائے جاتے ہیں۔ ان دستاویز کے مطابق امریکہ بھارتی نیو کلیئر پروگرام کی
بھی ’’نگرانی ‘‘کر رہا ہے۔
پاکستان میں امریکی نگرانی صرف ایٹمی ہتھیاروں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ
یہاں کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیار بھی ’’تلاش ‘‘کر رہا ہے۔ اگرچہ
پاکستان کوئی پروگرام نہیں چلا رہا مگر امریکہ کو’’ خدشہ‘‘ ہے کہ اسلام
پسند عناصر حکومتی لیبارٹریوں سے کیمیائی مواد چرا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے
امریکی دوسرے ممالک سے پاکستان بھیجے جانے والے سامان کی بھیحیلے بہانوں سے
کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔ ایک معاملے میں امریکہ نے ایران کی ایک شپمنٹ
پاکستان جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق
تفصیلات آشکار کرتے ہوئے ان دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ امریکی ایجنسیوں
کو یہ ثبوت ملے ہیں اور مئی 2012میں ایک پاکستانی افسر انسانی حقوق کی
سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ عاصمہ
جہانگیر کئی سالوں سے آئی ایس آئی کی بڑی سخت مخالف رہی ہیں۔ ڈیفنس انٹیلی
جنس ایجنسی کی رپورٹ میں اس’’ افسر‘‘ کی نشاندہی تو نہیں کی گئی مگر یہ
بتایا گیا کہ عاصمہ کو بھارت میں قتل کرنے، پاکستان میں ہی مارنے کا ٹاسک
عسکریت پسندوں کو دینے کی منصوبہ بندی کی بات کی گئی تاہم امریکی ایجنسی نے
کہا کہ وہ نہیں جانتی کہ آیا کسی نے اس منصوبہ بندی پر عمل کی اجازت دی یا
نہیں مگر یہ معلوم ہوا ہے کہ اسے عاصمہ کو مارنے کی ترغیب دی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں اسی طرح کی بے شمار بے سروپا باتیں انکشافات کے طور پر بڑھا
چڑھا کر بیان کی گئی ہیں۔ بلیک بجٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ کو پاکستان
کی ایٹمی تنصیبات کی ’’سکیورٹی ‘‘(جسے دنیا کی بلاشبہ بہترین اور سخت ترین
سیکورٹی کہا جاسکتا ہے اسی وجہ سے آج تک امریکہ سمیت کوئی بھی ملک پاکستان
کے ایٹمی اثاثوں کا سراغ نہیں لگا سکا)پر سخت تحفظات ہیں، امریکی بجٹ سیکشن
نے دنیا کو دو کیٹٹیگریوں میں تقسیم کیا جن میں پاکستان ایک طرف اور باقی
دنیا دوسری طرف ہے، پاکستان میں جاسوسی کیلئے مہنگا ترین نظام بنایا گیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے خفیہ دستاویز میں ہونے والے اس
انکشاف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ’’پاکستان کے
ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ اور بہترین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت
ہیں، ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے معیار اور اصولوں کے عالمی ماہرین بھی
معترف ہیں‘‘۔ پاکستان تخفیف اسلحہ اور جوہری عدم پھیلا کے مقاصد کے حصول
کیلئے مکمل طور پر پرعزم ہے ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملک کی حیثیت سے
پاکستان کی پالیسی اجتناب اور ذمہ داری پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان
نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کیلئے مضبوط اقدامات کررکھے ہیں ہمارے
ایٹمی اثاثے وزیراعظم کی سربراہی میں مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت
ہیں جبکہ ایٹمی تنصیبات اور مواد کی سالمیت اور تحفظ یقینی بنانے کیلئے
جامع اور موثر ایکسپورٹ کنٹرولز ریگولیٹری ہے ہم اس سلسلے میں ایٹمی
توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے متعین کردہ معیار اور
اصولوں کی پیروی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان ایٹمی تحفظ اور سکیورٹی
کے معاملے پر عالمی برادری سے بھی مکمل طور پر رابطے میں ہے۔ سٹرٹیجک
ایکسپورٹ کنٹرولز سے متعلق پاکستان کے اقدامات کے ایکسپورٹ کنٹرولز کے بین
الاقوامی ماہرین بھی معترف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کیمیائی ہتھیاروں
کے کنونشن اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کا ایک فریق ہے اور وہ دونوں
کنونشنز کی مکمل طور پر پاسداری کررہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان
کی ایٹمی دفاعی صلاحیت کا مقصد جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام برقرار
رکھنا ہے۔ تاہم خفیہ دستاویز میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ امریکا .6 52 ارب
ڈالر کا اسلحہ القاعدہ، شمالی کوریا اور ایران میں مختلف دشمنوں کے خلاف
استعمال کرتا ہے لیکن خفیہ ایجنسیاں اتحادی ملک پاکستان کے معاملے پر سخت
تشویش کا شکار رہتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ 12سال میں پاکستان کے
استحکام اور انسداد دہشتگردی میں تعاون کے لیے26 ملین ڈالر کی امداد دے چکا
ہے اور اسی امداد کی سب سے زیادہ جانچ پڑتال بھی کی گئی۔امریکی رپورٹ میں
کہا گیا ہے کہ اسامہ کے خلاف آپریشن کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہوئی
ہے۔ بلیک بجٹ دستاویزات کے مطابق امریکی انتظامیہ کھل کر پاکستان کے حوالے
سے جائزے کو بیان نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ پاکستان کہیں یہ
نہ سمجھ بیٹھے کہ امریکہ ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
پچھلے سال نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے کانگریس میں پاکستان
کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا
میں کافی پراعتماد ہوں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
تاہم رواں سال اسی بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا
کہ وہ اوپن سیشن میں اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن خفیہ
دستاویزات میں ان کی ایک رپورٹ ہے جس میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے
حوالے سے ان کا کہنا ہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سکیورٹی اور اس سے جڑے
دیگر مواد کے بارے معلومات میں کمی ہونا۔۔۔ انٹیلی جنس کی خامی ہے۔ |