اس وقت سارے ملک پر مہنگائی کا قہر طاری ہے۔ مہنگائی اس
وقت محاورۃً نہیں بلکہ صد فیصد عملاً ’’ کمر توڑ‘‘ ہوچکی ہے۔ آزادی کے بعد
شاید ہی کسی دور میں بھی عوام کے مختلف طبقات نے اس قدر تکلیف دہ زندگی
کبھی گذاری ہو۔ غریبوں کے غریب تر ہونے کا عمل تیزی سے جاری ہے بلکہ اسے
وسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ملک اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس
کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ عوام اس وقت جن مشکل
حالات سے دوچار ہیں اور جن پیچیدہ مسائل کا ملک کو سامنا ہے ان کا کوئی حل
شاید ہی جلد نکل سکے گا۔ حالات جتنے ہی نازک ہوں صورتحال جتنی ہی خطرناک
اور پریشان کن ہو یا ملک اور عوام کو درپیش مسائل چاہے جتنے ہی پیچیدہ اور
گنجلک ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ مسائل کو حل کرنے ‘ حالات کو بہتر بنانے اور
مجموعی صورتحال کو سنبھالنے اور سنوارنے سے حکومت کی عدم دلچسپی ہے اس
کومعلوم ہے کہ یہ اس حکومت کی آخری باری ہے عوام مرتی ہے تومرے جائے جہنم
میں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری خارجہ
پالیسی امریکہ کے ’’اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ‘‘ کے راست کنٹرول میں اور زیر اثر ہے
اور اس کو ترتیب دینے والے امریکہ کے ساتھ ملک کی تقدیر کو وابستہ کرنے ہی
کو ملک کے مفاد میں تصور کرتے ہیں۔ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ پاکستان
اورچین کے درمیان کسی بھی طرح سے پھوٹ ڈالی جائے ،تاکہ وہ اس کی آڑمیں
ایشیاء پر مسلط ہوسکے۔ اس لئے ہماری خارجہ پالیسی اور ساتھ امریکہ ہی کے
زیر اثربھارتی حکمرانوں کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسی یعنی دونوں ملکوں کی
خارجہ پالیسی میں ایک دوسرے سے دوستی کا رجحان کم اور تنازعات کو برقرار
رکھنے،اور اختلافات کو گہرا کرنے کا عنصر غالب ہے کیوں کہ چین اور پاکستان
کے قریبی تعلقات پر امریکہ اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے اس لئے پاکستان
اوربھارت کے قدیم اور جدید تنازعات کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس کشیدہ صورتحال
کے سبب جدید اسلحہ کی بڑے پیمانے پر تیاری، امریکہ اور اس کے حلیفوں سے
پاکستان اوربھارت کے وسائل اور دولت کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری یا
ہتھیار بنانے والے کارخانوں فیکٹریوں اور اسلحہ سازی کے لئے دیگر ضروری خام
مال یا ٹیکنالوجی اور سائنس کی مدد سے تیار کی جانے والی مصنوعات اور پرزوں
کی خریداری پر صرف ہورہا ہے۔ کثیر دفاعی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے حکومت
کو نت نئے ٹیکس لگانے اور موجو دہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑتاہے وہ وسائل
جو عوام کی فلاح وبہبود اور ان کی زندگی کو آرام دہ اور معاشی صورتحال کو
خوشحال بنانے پر صرف ہوسکتے ہیں وہ امریکہ و اسرائیل کے سرمایہ داروں کی
تجوریوں میں دولت کا اضافہ کررہے ہیں اور جب سرمایہ دار کی دولت بڑھتی ہے
تو غریبوں کی زندگی زیادہ مشکل ہوتی جاتی ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اور بھیانک
اضافہ کے سلسلے کو اگر ملک کے دفاعی اخراجات سے جوڑا جائے یا اگر جوڑنے کی
کوشش کی جائے تو لاتعداد جبینوں پر شکنیں پڑجاتی ہیں یہ کڑوی اور واضح
حقیقت بتانے والے پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں گی بلکہ اب بھی اٹھتی
رہتی ہیں اور حب الوطنی اور قوم پرستی کے دعویدار تو ایسی بات کہنے والے کو
غدار کہیں گے بلکہ کہتے رہتے ہیں۔ ایک طرف جو لوگ مسلسل اور تیزی سے بڑھتی
مہنگائی کا ذکر کرتے ہیں حکومت کو مطعون کرتے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کو
بڑھانے والی حکومت کی اندھی تائید اپنے نام نہاد جذبہ حب الوطنی و قوم
پرستی اور وفاداری کے اظہار کے لئے امریکہ و صہیونی سرمایہ داروں کے مفادات
کی حفاظت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔خارجہ پالیسی کے قطع نظر حکومت کی مجموعی
طور پر داخلی حکمت عملی یا مختلف سرکاری محکموں اور اداروں کی اپنی اپنی
حکمت عملی ‘ اقدامات اور معیار کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات نہ صرف
آسانی سے بلکہ بڑی جلدی کھل کر سامنے آتی ہے کہ کرپشن کا بے تحاشہ زور اور
سرکاری عملے کی ناقص کارکردگی ‘ دوراندیشی اور بصیرت سے عاری منصوبہ بندی
کے علاوہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر چوٹی کے سرمایہ داروں کے اثرات (خواہ
وہ کسی بھی سیا سی و معاشی نظریہ سے وابستہ ہوں) طاری ہیں۔گندم کی قیمتیں
بڑھ رہی ہیں اس کا راست فائدہ تو کسان کوجانا چاہیے مگر غربت‘ افلاس اور
قرضداری سے پریشان کسانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے کرپشن اور ناقص
ترین کارکردگی کا حامل سرکاری عملہ سرکاری آمدنی خاص طور پر ٹیکسوں سے حاصل
ہونے والی آمدنی سرکاری تخمینوں کے مطابق سرکاری خزانوں میں جمع نہیں
کروارہے ہیں۔ ہر سال خسارہ کو پورا کرنے اور محصلہ رقومات خاص طور پر
مالگزاری اور ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کی وصولی میں کمی کے سبب ہر سال ٹیکس
بڑھائے جاتے ہیں،جس کا شکار نچلے متوسط طبقات اور خط غربت سے نیچے زندگی
گزارنے والی عوام ہورہی ہے۔ ہاں کالے دھن سے بھری جانے والی تجوریاں بھرتی
جاتی ہیں بڑے سرمایہ داروں کا سرمایہ نہ صرف ملک میں کالے دھن کی صورت میں
بڑھتا ہے بلکہ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع ہورہا ہے اس کے نتیجہ میں ہر
چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی میں اضافہ بلا شبہ
ساری دنیا میں ہورہا ہے اس قسم کی باتیں کہنے والوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ
جب ساری دنیا میں مہنگائی بڑھ رہی ہے قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو اگر
ایسا پاکستان میں بھی ہورہا ہے تو اس پر حیرت و تعجب بلکہ احتجاج کیوں کیا
جارہا ہے ؟لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ جن دوسرے ملکوں میں
قیمتوں میں اضافہ و گرانی کی شرح میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہواہے وہ یا تو
عرصہ دراز سے عالمی قوت رہے ہیں نیز وہاں فی کس آمدنی پاکستان سے بہت زیادہ
ہے اس کے علاوہ ان ممالک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد
پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے اور وہاں کرپشن اگر ہے بھی تو اتنا زیادہ
نہیں ہے سرکاری عملہ خود کو صحیح معنوں میں ’’ عوامی خدمت گار‘’ سمجھتا ہے
پاکستان میں بے تحاشہ غربت ‘ کرپشن اور سرکاری ملازمین کی فرعونیت مہنگائی
کو کئی گنا بڑھادیتی ہے۔پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی محسوب کرتے وقت ان
سرمایہ داروں کی آمدنی جن کی سالانہ آمدنی لاکھوں نہ سہی ہزاروں کروڑ ہوتی
ہے چند ہزار سالانہ آمدنی والوں کی آمدنی میں شامل کرکے سالانہ اوسط نکالا
جاتا ہے اگر سرمایہ داروں کی آمدنی ملک کی سالانہ آمدنی میں شامل نہ کی
جائے تو پھر جو اوسط سامنے آتا ہے وہ حکمرانوں کے لئے شرمناک ہے۔ (مگر
ہمارے حکمرانوں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کو شرم ہے کہاں؟) قیمتوں میں
اضافہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کا آخر مقصد کیا
ہے؟اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سرمایہ داروں کے نفع میں کمی نہ ہو حکومت کی
آمدنی میں کمی نہ ہو۔ حکومت جانتی ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں گذشتہ چند
ہفتوں میں جو بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پٹرول کی
کمپنیوں کو خسارہ ہے۔ اول تو یہی امر باعث حیرت ہے کہ اب جبکہ عالمی منڈی
میں پٹرول کی قیمتوں میں زبردست نہ سہی خاصی کمی ہوگئی ہے تو آمدنی یا نفع
میں کمی کا کیا سوال ہے ؟ جب خام تیل کی قیمتوں کی زیادتی کی وجہ سے
کمپنیوں کو خسارہ والی بات قابل فہم ہے لیکن جب عالمی منڈیوں میں خام تیل
کے دام گرچکے ہیں اور ملک میں اس وقت کے مقابلے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں
خاصا اضافہ ہواہے توپھر پٹرول کی کمپنیوں کو خسارہ ہونے کا سوال ہی نہیں ہے
یہ توکھلا دھوکا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دے دی
گئی ہے کہ جس طرح چاہیں جس قدر چاہیں قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کا خون
چوسیں اور ان کوکوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے دوسری جانب عوام کا چاہے جو
حشر ہو سرمایہ داروں کے نفع میں کمی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کی آمدنی
میں بھی حکومت ہرگز کمی کرنا نہیں چاہتی ہے ورنہ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ
حکومت ٹیکسوں میں کمی کرتی اور ملک کی اور عوام کی بد تر معاشی حالات کی
وجہ سے پٹرول کمپنیوں کو آمدنی میں کمی(خسارہ نہیں) برداشت کرنے دیتی اور
اپنی آمدنی میں بھی کمی گوارہ کرتی۔ بددیانت کرپشن میں ملوث وزراء اور
عہدیداروں کی وجہ سے بے جا اخراجات کی وجہ سے حکومت کو ہزاروں لاکھوں
کروڑوں کا خسارہ ہوتا ہے وہ روا ہے کیونکہ عوام کو راحت پہنچانے کے لئے
ٹیکس میں کمی حکومت کو گوارہ نہیں ہے۔ عوام کی خراب حالت بغیر محنت کے
لاکھوں کروڑوں کمانے کا رجحان ملک کے ہر شعبہ زندگی پر پڑرہا ہے۔ اور طرح
طرح کی معاشرتی خرابیاں پیدا کررہی ہے۔ سرمایہ داروں کی یہ سرپرستی خطرناک
نتائج مرتکب کرسکتی ہے۔ پاکستان کے عوام احتجاج کے جمہوری طریقوں سے واقف
ہیں وہ سڑکوں پر نہیں نکلتے ہیں لیکن اگر یہ حال برقرار رہے تو عوام سڑکوں
پر بھی نکل سکتے ہیں۔ |