۱۳ستمبر کو دلی گینگ ریپ کو لے کر عدالت اور انصاف کا ایک
تاریخی فیصلہ آیا۔ اور اس فیصلے کے تحت چاروں مجرموں کا قصور وار ٹھہراتے
ہوئے عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ ٹی وی چینلس پر دو پہر تک گینگ ریپ کا
معاملہ چھایا رہا لیکن ۴ بجے سے گینگ ریپ اور تاریخی فیصلے کا معاملہ پھیکا
پڑ گیا اور اس کی جگہ مودی کی تاجپوشی نے لے لی— ہندستان خوش ہویا نہ ہو
لیکن مودی کے پرائم منسٹر کے اعلان کے ساتھ ہی میڈیا ایسے خوش تھا جیسے
مودی نے انتخاب کا میدان فتح کرلیا ہو اور وزیر اعظم کے طور پر ان کی
تاجپوشی کی جاچکی ہو۔
غور کیا جائے تو جیوتی گینگ ریپ کا معاملہ اور مودی کی تاجپوشی میں کوئی
زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایک کو قتل کیے جانے کے ۹ مہینے بعد انصاف ملا۔ (جبکہ
عدالتی رکاوٹیں ابھی باقی ہیں) اور اسی واقعہ کے ساتھ مودی کی تاجپوشی کو
دیکھیں تو ملک کے گینگ ریپ کے حادثہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا— اس گینگ
ریپ میں پہلے مجرم کے طور پر آر ایس ایس کا چہرہ صاف نظر آتا ہے۔ اڈوانی
اور باجپائی کے عہد میں بھی آر ایس ایس کی چلتی تھی۔ مگر سیکولرزم کو
مکھوٹے کے طور پر ہی سہی، استعمال کیا جاتا تھا۔ اب راجناتھ نے یہ مکھوٹا
اتار دیا۔اور یہ واضح کردیا کہ بھاجپا اب آر ایس ایس کے نظریہ سے الگ کام
نہیں کرے گا۔ ۱۳ ستمبر شام ۵بجے بھاجپا آفس سے مودی کے نام کا اعلان ملک کی
سا لمیت اور آبرو پر بھی گھناؤنا حملہ تھا۔ آرایس ایس نے ایک ایسے آدمی کے
نام کو آگے کیا تھا جس نے صرف دس گیارہ سال پہلے گجرات کی عزت لوٹی تھی اور
جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہیں۔ ممکن ہے، یہ کہا جائے کہ
بھاجپا حکومت میں رہ چکی ہے اور ابھی بھی کئی ریاستوں میں بھاجپا کی حکومت
ہے تو اس کا جواب آسان ہے۔ ابھی تک بھاجپا آر ایس ایس کے مسلم کش نظریے کو
کھل کر سامنے نہیں لائی تھی۔ ہندستان پر حکومت کا خواب دیکھنے کے بعد ان کا
اثر ان ریاستوں پر بھی ہوگا، جہاں بھاجپا حکومت میں ہے۔ ابھی بھی مدھیہ
پردیش اور کئی ریاستیں ہیں جہاں کے وزیر اعلی سیکولرزم کا مکھوٹا لگائے
بیٹھے ہیں۔ بھاجپا کے برسراقتدار آتے ہی یہ مکھوٹے اتر جائیں گے اور اس کے
ساتھ ہی ان کی مسلم دشمنی بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔ ملک کی سا لمیت ،
اتحاد، ملی، قومی اور جمہوریت کے نظریہ کو روندا جانا ریپ جیسے حادثہ سے
بھی زیادہ خطرناک ہے اور اس بار اس ملک کے ساتھ جو گینگ ریپ ہواہے، اس میں
آر ایس ایس کے ساتھ، مودی، راجناتھ، این ڈی اے کے ساتھ وابستہ پارٹیاں، (جے
ڈی یو نے وقت کو دیکھتے ہوئے ان ڈی اے سے پیچھا چھڑا لیا) شیو سینا، وشو
ہندو پریشد اور بابا رام دیو کے نام آسانی سے شامل کیے جاسکتے ہیں۔ جیوتی
کے گینگ ریپ میں تاریخی فیصلہ آچکا ہے۔ اور اب ۲۰۱۴ انتخاب کے بعد عوام کے
اس تاریخی فیصلے کا انتظار ہے جب ملک کے عوام اس خوفناک گینگ ریپ کے خلاف
متحد ہو کر مودی کی تاجپوشی کو ناکام بنادیں گے۔
سیاست کی نوراکشتی کے نتائج سامنے ہیں— اترپردیش سلگ رہا ہے۔ مظفر نگر،
شاملی، سہارنپور، میرٹھ، دیوبند سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں۔ مودی اور امت
شاہ کی ہتھیلیوں سے ابھی گجرات کے لہو کے داغ مٹے بھی نہیں تھے کہ سب سے
زیادہ آبادی والے اترپردیش کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کردیاگیا۔ اس نفرت کی
سیاست میں بھاجپا اور امت شاہ کا ہاتھ ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور
اس کے ساتھ ہی سماج وادی پارٹی کا وہ چہرہ بھی بے نقاب ہوا، جس کی بنیاد
میں مسلم ووٹوں کی عقیدت شامل تھی— لیکن سماجوادی نے اس عقیدت کو تار تار
کردیا۔ سماج وادی پارٹی کی بدلتی ہوئی سیاست کو اکثریتی ووٹ کے چھن جانے کا
خطرہ لاحق تھا۔ مودی نے گجرات کلنگ کے ماسٹر مائنڈ امت شاہ کو اترپردیش
بھیج کر اپنا ہندو کارڈ کھیل دیا تھا۔ اترپردیش کے بارے میں یہ بات کہی
جاتی ہے کہ آپ اترپردیش فتح کرلیں تو پھر سارا ہندستان آپ کا ہے۔ امت شاہ
کے اترپردیش کا چارج سنبھالنے کے بعد ہی یہ پیشین گوئیاں تیز ہوگئی تھیں کہ
ووٹوں کی تقسیم کے لیے امت شاہ فسادات کا سہارا لیں گے۔ اور امت شاہ کے آتے
ہی اترپردیش میں فسادات کی ایک نئی تاریخ لکھی جانے لگی۔ اس کا ایک ہلکا سا
اشارہ رمضان کے مہینے سبرامینم سوامی نے دیا کہ شیعہ سنیوں کو لڑا دو ،دووٹوں
کی تقسیم سے بھاجپا کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اور اس بیان کے بعد ہی اترپردیش
میں شیعہ سنی فساد بھی شروع ہوا جس پر قابو تو پا لیا گیا، لیکن اس فساد نے
یہ اشارہ دے دیا تھا کہ مستقبل میں بھاجپا کی حکومت کے خواب کو پورا کرنے
کے لیے ایسے فسادات پورے ملک میں شروع ہو جائیں گے۔
فسادات کی آگ سے بہار بھی بچ نہیں سکا۔ بہار میں نتیش کو کمزور کرنے کے لیے
بھاجپا کی طرف سے وہاں بھی ہندو کارڈ کھیلا گیا— ووٹوں کی تقسیم کے لیے
بھاجپا کے پاس آغاز سے ہی یہ منتر رہا ہے کہ فساد کرادو، مسلم ووٹوں کو
تقسیم کردو۔ اور فتح کا مزہ لو—آج کی تاریخ میں ان فسادات کے حوالے سے عام
مسلمانوں کی بات کی جائے تو وہ ایک بار پھر سے سہمے ہوئے سیاست کا یہ
خوفناک ڈرامہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ۱۹۹۲ سے پہلے یہی صورتحال تھی۔ سن ۲۰۰۲
کے بعد بھی یہی صورتحال رہی۔ آر ایس ایس اپنے نظریہ کو لے کر شور تو مچاتا
رہا لیکن ابھی تک آر ایس ایس کے نظریے کو کھلی چھوٹ نہیں ملی تھی۔ راج ناتھ
کے آنے کے بعد یہ صاف ہوگیا تھا کہ اب بھاجپا کے منچ سے آر ایس ایس کی
قیادت اور سیاست کا سفر بھی شروع ہوجائے گا۔ مودی کی تاجپوشی کے ساتھ ہی
بھاجپا نے آر ایس ایس کی بنیاد کو مضبوط کرکے ہندستان کی بنیاد کو کھوکھلا
کردیا۔ اس بنیاد کو جہاں یہ فرقہ پرست طاقتیں کام تو کررہی تھیں مگر جہاں
اب بھی مکھوٹا لگا تھا۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی طور پر اب بھی یہ
ہندو نظریہ سیکولر طاقتوں کے آگے جھکا ہوا تھا یا کمزور تھا۔
اڈوانی اور باجپائی کا تعلق بھی سنگھ سے تھا۔ اڈوانی شدت پسندی کے راستے پر
چلے مگر انہیں بھی اس بات کا احساس ہوگیا تھا اقتدار کے لیے سیکولرزم کی
طاقتوں کو ساتھ لینا ضروری ہے۔ اس لیے اپنے ۲۰۰۸ کے بیان میں انہیں کہنا
پڑا تھا کہ مسلمانوں کو ساتھ لیے بغیر حکومت کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں
کیا جاسکتا۔ سنگھ اڈوانی کے ان خیالات سے ناراض تھی اور اسی لیے انہیں
حاشیے پر لے آیا۔ مودی کی تاجپوشی کے ساتھ ہی نام نہاد سیکولرزم کا ڈرامہ
بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
آزادی کی بنیاد میں مسلمانوں کا لہو بھی شامل ہے۔ آزاد ہندستان کا خواب
دیکھنے والوں نے جن جمہوری قدروں کو سامنے رکھا تھا، مودی کی ناپاک ذہنیت
نے اس خواب کے شیرازے بکھیر دیئے۔ اس لیے ۱۳؍ستمبر کو شام ۵ بجے جو تاریخ
لکھی گئی، اس کے پیچھے ایک منصوبہ بند سازش سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک
کی جمہوری قدروں کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ اور اس میں کئی نظریے ، کئی لوگ، کئی
تنظیمیں شامل ہیں— یہ برا وقت ہے لیکن انصاف کی قندیلیں اب بھی روشن ہیں۔ |