پوٹن یو این او اور شام

کیا unoمیں شام پر کیمیائی ہتھیاروں کے الزامات کے تناظر میں بشارالاسد کی بادشاہت کو پاش پاش کرنے شام پر امریکی جارہیت کے حق میں عالمی حمایت کے حصول اور UNO کے نان سٹاپnoc حاصل کرنے کی امریکی قرارداد کے رد عمل میں ماسکو کی بھرپور مخالفت کے بعد عالمی منظر نامے میں کوئی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے؟ کیا روس ماضی کی طرح امریکہ کے مقابلے میں سپرپاور کا کردار انجام دے سکتا ہے؟ کیا شام پر امریکی شب خون کی صورت میں روس مڈل ایسٹ میں اپنے حلیف بشارالاسد کی عسکری امداد کرسکتا ہے؟ کیا امریکی قراردادوں کو ویٹو کرنے والہ ماسکو امت مسلمہ کا خیر خواہ بن سکتا ہے؟ یو این او کی سلامتی کونسل میں ماسکو اور چین شام کی حمایت پر کمر بستہ ہیں جبکہ برطانیہ فرانس امریکہ کی پشت بانی کررہے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ نے تو یہاں تک شعلہ نوائی کی کہ سلامتی کونسل امریکی قرارداد کو منظور کرے یا مسترد کردے امریکہ شام کو لقمہ اجل بنائے گا۔ محولہ بالہ امکانات تحفظات اور خدشات کی تہہ تک جانے کی خاطر نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے روسی گرو صدر پوٹن کے خصوصی ارٹیکل کو بنظر غائر دیکھنا ہوگا۔ نائن دو گیارہ پر پوٹن کی پرمغز تحریر نے جہاں ایک طرف وقتی طور پر شام میں جاری جنگی اور سیاسی بحران کا دھارا بدل دیا تو دوسری طرف امریکی سرکش گھوڑے کو کم از کم لگام دینے کی کوشش کی۔ اس سے امریکہ کو دنیا میں من مانی نہ کرنے کا پیغام مل گیا۔ وائٹ ہاوس دمشق کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا بیٹھا تھا۔ امریکہ کو ایک طرف UNO نے حملے کی اجازت نہیں دی تو دوسری طرف اسکے قریبی حلیفوں برطانیہ فرانس کے پارلیمانی اداروں نے امریکی جنگی پلان کو مسترد کرڈالا۔ امریکہ نے مایوس ہوکر عالمی سطح پر لابنگ شروع کردی تاکہ بادہ بادہ شام کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔ امریکہ نے پلان بنارکھا تھا کہ پہلے شام میں مداخلت کا جواز ڈھونڈا جائے اور پھر بغداد کی طرح دمشق کو روند ڈالو۔ کرہ ارض پر بسنے والے اربوں انسان و مسلمان اس لمحے کا انتظار کررہے تھے جب انکل سام نے کابل افغانستان لیبیا کو تختہ مشق بنایا تھا۔ روسی صدر پوٹن کے مضمون کو نیویارک ٹائمز نے نائن الیون کی تیرویں برسی کے موقع پر شائع کیا جس نے ایک طرف امریکہ کے جنگی عقابوں کے تن من میں اگ بھڑکادی تو دوسری طرف امریکہ کے کروڑوں لوگوں نے پوٹن کے خیالات اور دانش و تدبر کو سراہا۔ صدر پوٹن نے انکل سام کو للکار کر نہ صرف دنیا کو پیغام دیا کہ وہ اج بھی سپرپاور ہے بلکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہوگا۔ صدر پوٹن اپنبے ارٹیکل میں براہ راست امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہیں۔ ماسکو اور وائٹ ہاوس کے مابین تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاو کا نشانہ بنتے رہے۔سرد جنگ میں ہم ایک دوسرے کے حریف تھے مگر اس سے قبل ہمارے اتحاد نے ہی دنیا کو نازیوں کی بہیمت وسفاکیت سے نجات دلائی تھی۔ پوٹن نے لکھا کہ شام کے بحران نے مجھے اپ یعنی امریکیوں سے براہ راست مخاطب ہونے پر مجبور کردیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یو این او کی تشکیل نو کی گئی جس کا بنیادی منشور رکن ملکوں کو امن و باہمی ہم اہنگی کی ترغیب دینا تھی۔ امریکی تجویز پر ہی سلامتی کو نسل کے ارکان کو ویٹو کا حق ملا۔uno کا حشر لیگ اف نیشنز کی طرح ہوگا مگر کوئی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔uno اپنا وجود کھو بیٹھے گی جب طاقتور ممالک روئے ارض پر یو این او کی قراردادوں کو طاق نسیان کی زینت بنا کر ازاد ریاستوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کریں گے۔ پوپ جیسی مذہبی ہستی نے بھی شام پر حملے کی مخالفت کی ہے۔ امریکہ بضد ہے کہ وہ شام پر حملہ کرے گا مگر شائد اسے یہ علم نہیں کہ مسلم خطوں روس اور مغرب میں رہنے والے جہادی جو ق در جوق شام میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ حقیقت بھی طشت ازبام ہوچکا ہے کہ باغیوں کو سی ائی اے اسلحہ پیسہ مہیا کرتی ہے۔ النصرت فرنٹ کو امریکہ نے تربیت دیکر شام بھیجا۔ جارہیت کی صورت میں تشدد شامی سرحدوں کو کراس کرکے پورے خطے میں پھیل جائیگا۔ جنگ کے اختتام پر جہادی اپنے ملکوں کے لئے خطرات کا سبب بنیں گے۔ دمشق کا بحران انکا اندرونی معاملہ ہے باغیوں کا قلع قمع کرنا حکومتوں کا فرض ہوتا ہے۔ روس یہ نہیں چاہتا کہ شامی حکومت کو بچایا جائے بلکہ ہم بین الاقوامی قوانین کی بالادستی چاہتے ہیں۔جنگی قوانین کے تحت جنگ صرف دو صورتوں میں ہوسکتی ہے یہ کسی کو پسند ہویا نہ ہوجنگ اپنے دفاع کے لئے لڑی جاسکتی ہے یا پھر یو این او کی سلامتی کونسل کی اجازت سے ممکن ہوتی ہے۔ شامی حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ہے مگر وہاں درجنوں شواہد ایسے بھی ہیں کہ باغی اسرائیل و امریکہ کی فراہم کردہ کیمیائی گیس استعمال کررہے ہیں۔پوٹن غصیلے لہجے کا استعمال کرتے ہیں کہ امریکہ کو دوسرے ملکوں پر جارہیت کرنے کا عارضہ لا حق ہوچکا ہے۔ مجھے تو یہ شک ہے کہ اب دنیا کروڑوں لوگ امریکہ کو جمہوری ماڈل نہیں مانتے۔ دنیا بھر میں امریکہ کو ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے جوحشیانہ انداز اختیار کرتا ہے۔طاقت کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں۔کیا امریکہ کو افغانستان عراق اور لیبیا پر جنگیں مسلط کرنے اور انکا انجام یاد نہیں؟ہمیں جنگوں سے پرہیز کرکے تمام متنازعہ امور پرڈائیلاگ کی عادت ڈالنی ہوگی۔ پوٹن اخر میں اوبامہ کو اڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے جیسے وہ کوئی منفرد ملک ہے۔ دنیا میں ہر ملک منفرد ہے۔ امیر ملک ہیں غریب ملک ہیں۔ کسی ملک میں جمہوریت رائج ہے تو کہیں اسکے لئے جدوجہد جاری ہے۔پوٹن نے اپنے مفہوم کو کوزے میں بند کیا کہ جب ہم خدائی نعمتوں کے طلبگار ہوتے ہیں تو ہمیں یہ مت بھولنا چاہیے کہ خدا نے ہر کسی کو برابر پیدا کیا نہ کوئی چھوٹا اور نہ ہی کوئی بڑا۔پوٹن کی اس تحریر کو میگناکارٹا کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ روسی صدر پوٹن کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ماسکو کی خارجہ پالیسی میں خواشگوار تبدیلی کا احساس موجود ہے جو قابل داد ہے۔ پوٹن نے شام کے حق میں اواز قلندر سنا کر امت مسلمہ کے دلوں میں ہمدردی خیرخواہی اور نیک تمناوں کے بیج بو دئیے۔پوٹن کے سوا کسی مسلم حکمران کو شام کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کرنے کی شرم نہیں ائی۔دکھ تو یہ ہے کہ رب العالمین کے گھر خانہ کعبہ کے سجادہ نشینوں بادشاہوں اور سعودی حکمرانوں کو شائد خدائی تعلیمات سے زیادہ لگاو نہیں ہے۔ سعودی عریبیہ اور عرب خطے کے دوسرے بادشاہوں نے تو یہود و ہنود کو پے درپے دعوتیں دی ہیں کہ شام پر فوری حملہ کیا جائے۔ بحر الحال وائٹ ہاوس کو کعبہ سمجھ کر اسکی پوجا پاٹ کرنے اور اپنی شہنشاہیت کو دوام دینے کی خاطر امریکی صدور کے تلوے چاٹنے والے مسلمان چاہے وہ بادشاہوں ہوں یا وزیراعظم وہ ولی عہد ہوں یا صدر مملکت اپنا احتساب کریں یہود و ہنود کی نوکریاں چھوڑ دیں ورنہ خدائی عذاب کا سونامی انہیں خش و خاک کی طرح بہا لے جائیگا۔ امت مسلمہ کا کوئی فرد اگر یہ سمجھتا ہے کہ جنگ کی صورت میں ماسکو اپنے لاو لشکر سمیت شام کی حمایت میں شریک جنگ ہوگا تو ایسے سادہ لوح مسلمانوں کو ایسی کسی خواہش کی امید نہیں کرنی چاہیے۔ امت مسلمہ کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی۔ یا د رہے یہ وہی ماسکو ہے جو یو این او کی کشمیری عوام کے حق میں چھ دہائیاں پہلے حق خود ارادیت اور رائے شماری کے حق میں پاس ہونے والی قرارداد کو بھارتی الفت و عقیدت میں بار بار ویٹو کرتا ایا ہے۔ماسکو اور وائٹ ہاوس مسلمانوں کے لئے ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ جان لیجیے چور چوروں کے بھائی اور بھینس بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 34 Articles with 27851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.