طالبان کی رہائیوں پر کرزئی کی رسوائیاں

افغانستان میں طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کے خلاف عسکریت پسندوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ذرائع کے مطابق طالبان کے بعض اراکین نہیں چاہتے کہ افغانستان میں مصالحتی عمل یا امن کا حصہ بننے کے خاطر ہتھیارڈال دئیے جائیں۔رہا ہونے والے اور سابق طالبان اراکین نے حکام سے مطالبہ کیا کہ اُن کے تحٖفظ کیلئے زیادہ توجہ دی جائے۔کیونکہ اعلی امن شوری کے اہم رکن مولوی ارسلام رحمانی کو13مئی2012ء کو کابل میں ہلاک کردیا گیا تھا۔طالبان افغانستان کے دور میں وزیر برائے اعلی تعلیم کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے والے مولوی ارسلا رحمانی ، اعلی امن شوری کے تیسرے رکن تھے جنھیں عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا۔جبکہ گذشتہ سال ستمبر 2011ء میں اعلی امن شوری کے اُس وقت کے چیئرمین اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل افغانستان کے صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کو بھی ایک خود کش حملہ آور نے اپنی پگڑی میں چھپائے بم کی مدد سے ہلاک کردیا تھا ، جبکہ اعلی امن شوری میں صوبہ کنٹر کی نمائندگی کرنے والے مولوی محمد ہاشم منیب کو 6اپریل2012میں خود کش حملے میں ہلاک کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اس قسم کی کاروائیوں پر دیگر سابق عسکریت پسندوں کو بھی اپنے تحفظ کے بارے میں بڑے خدشات لاحق ہیں۔ملا عبدالسلام ضیعف نے اپنی اسیری سے رہائی کے بعد العربیہ ٹی وی کے پروگرام "صناعہ الموت"میں کہا تھاکہ" افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے وقت وہ پاکستان میں طالبان حکومت کے سفیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے انھوں نے پاکستان سے سفارتی پناہ کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ جنگ زدہ ملک واپس نہیں جاسکتے تھے۔"ان کے مطابق پاکستان نے انھیں پناہ دینے کے بجائے امریکہ کے حوالے کردیا جس پر وہ کافی حیران ہوئے تھے۔ملا عبدالسلام ضعیف نے یہ بھی بتایا کہا نھیں افغانستان میں قیام امن کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کی پیش کش کی گئی تھی تاہم انھوں نے یہ پیش کش مسترد کردی کیونکہ انھیں یقین تھا کہ غیر ملکی حقیقی امن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ان کا ماننا رہا ہے کہ طالبان کو اپنے ملک پر غیر ملکی فوج سے اصل مسئلہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے افغانستان سے نکلے بغیر کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرنا چاہتیـ"۔ملا عبدالسلام ضیعف نے 2010ء میں ٹی وی پروگرام میں اپنے ان خیالات کا اظہار کیا تھا ، جس کے بعد ان کے تحفظات درست ثابت ہوئے اور عالمی طاقتوں نے پاکستان سمیت افغانستان میں قیام امن کے بجائے ایسی کاروائیاں کرنی شروع کردیں جس سے افغانستان میں امن مذاکرات کیلئے حالات ساز گار نہیں رہے۔تاہم قطر مذاکرات کیلئے پاکستان کی جانب سے مثبت کردار کے سبب ایک بار امید بر آئی کہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوگی ، لیکن کرزئی حکومت کی جانب سے تمام عمل کو سبوتاژ کردیا گیا اور اس میں فل الوقت تعطل موجودہے۔گر چہ کہا یہی جاتا ہے کہ طالبان کے سابق اراکین کے تحفظ کیلئے سلامتی کے مناسب اقدامات کئے گئے ہیں لیکن پے در پے ایسے کئی واقعات ہوئے جس کے سبب بعض عسکریت پسند اپنی اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے سبب ہتھیار ڈالنے سے ہچکچا رہے ہیں۔دوسری جانب پاکستان کے خلاف افغانستان حکومت کی ہزا سرائی غیر سنجیدگی میں داخل ہوچکی ہے۔کرازئی حکومت اور امریکی حکومت کی جانب سے درخواست پر ہی پاکستان حکومت کی جانب سے ماورائے عدالت 33طالبان رہنماء رہا کئے جاچکے ہیں ، لیکن کرزئی حکومت چاہتی ہے کہ انھیں من پسند جگہ جانے کے بجائے افغان حکومت کے حوالے کیا جائے،جنوبی صوبہ غزنی کے پولیس سربراہ سرور زاہد کہتے ہیں کہ"۔جن طالبان کو رہا کیا گیا تھا وہ میدان جنگ میں ہمارے خلاف لر رہے ہیں ، ہم ان کو گرفتار کرنے کیلئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں لیکن مرکزی حکومت(افغانستان) مختلف بہانے بنا کر ان کو رہا کر رہی ہے ، سرور زاید نے بتایا کہ صدر کرزئی کے حکم پر غزنی کی مرکزی جیل سے چالیس سے زائد طالبان کو رہا کیا گیا تھا اور اب یہ دوبارہ میدان جنگ میں لڑ رہے ہیں "۔پاکستان سے افغان طالبان کی رہائی کے طریقہ پر بھی افغان امن کونسل کے سینئر رکن اسماعیل قاسم یا ر کا کہنا ہے کہ"افغان طالبان کو پیشگی اطلاع اور افغان حکام کے حوالے کئے بغیر رہا کردیا جاتا ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ رہائی کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور وہ کدھر جاتے ہیں۔جب وہ (پاکستانی حکام) طالبان رہنماؤں کی رہائی کا فیصلہ کرتے ہیں تو صرف چند گھنٹے پہلے افغان حکموت کو مطلع کیا جاتا ہے۔"پاکستان کے مشیر قومی سلامتی و خارجہ امور کے مطابق ہفتے بھر میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی بردار کو رہا کردیا جائے گا۔پاکستان کا بھی یہ موقف ہے کہ جن طالبان کو رہا کیا جارہا ہے اُن کی مرضی پر منحصر ہے کہ انھیں کہاں جانا ہے ، افغانستان میں قیام امن کے اعلی سطح کے امن شوری کے اراکین کی ہلاکتوں کے بعد اعلانیہ انھیں افغانستان حکومت کے حوالے کرنا ان کی اپنی زندگیوں کیلئے بڑا خطرہ ہے ، جب پروفیسر ربانی جیسے سابق صدر افغانستان ، افغان حکومت میں محفوظ نہی رہے تو یقینی طور پر یہ خدشات جنم لیتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے جن طالبان رہنماؤں کو رہا کیا جا رہا ہے اگر انھیں براہ راست افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا تو پاکستان کے مثبت کردار کو بعض عناصر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لئے امریکہ جو افغانستان کا براہ راست مداخلت کار ہے ، امریکہ ہی ان طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کر سکتا ہے کیونکہ افغانستان کا مستقبل کا فیصلہ کرزئی حکومت کے پاس نہیں بلکہ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے پاس ہے جو 13سالوں سے افغانستان میں طالبان کے خلاف صف آرا ہیں ۔ کرزئی حکومت امریکہ کی پٹھو حکومت ہے ، اس کے پاس قیام امن کیلئے اختیارات کامل نہیں ہیں ، اس لئے افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کی کی جانب سے رہا کئے جانے والے طالبان رہنماؤں پر شور شرابا فضول ہے۔گو کہ افغان صدر حامد کرزئی نے وزیر اعظم پاکستان سے ملا عبدالغنی بردار کی رہائی اور افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے براہ راست درخواست کی تھی اور اسی ضمن میں ملا عبدالغنی بردار کی رہائی ممکن ہو پائی ہے لیکن پاکستان ، افغانستان کی موجودہ صورتحال کے سبب یہ رسک نہیں لے سکتا کہ پاکستان میں گرفتار ہونے والے طالبان کو ، طالبان مخالف کرزئی حکومت کے حوالے کردے ، حامد کرزئی ویسے بھی پاکستان سے بغض رکھتے ہیں ، جس طرح پروفیسر ربانی کی ہلاکت پر افغان حکومت نے شور شرابا اور پاکستان پر الزام تراشیاں کیں تھیں ، اس لئے بعید نہیں کہ افغانستان میں موجود امریکی پٹھو کرزئی حکومت سازش کرکے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے نا پسندیدہ عمل کر گذرے۔ملا عبدالغنی بردار کو کراچی میں2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا ، جب کراچی میں ملا بردار کی گرفتاری عمل میں آئی تو افغان حکام کی جانب سے الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا کہ ملا برادر ، کابل حکومتکے ساتھ خفیہ مزاکرات کر رہے تھے اور پاکستان نے ان مزاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے ملا بردار کو گرفتار کیا تھا ۔"لیکن اب ان افغا ن حکام کا رویہ بدل چکا ہے اور افغان امن کونسل کے سیکریٹری محمد اسماعیل داسم یار نے پاکستان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ"میرے خیال میں پاکستان اور افغانستان کے مابین اعتماد کی فضا دوبارہ پیدا ہوگی ۔ رہائی انتہائی اہمیت کی حامل ہے"۔پاکستان افغان ، امریکہ جنگ سے براہ راست متاثر ہے اس لئے وہ کود چاہتا ہے کہ جلد از جلد طالبان رہنماؤں کے مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ امریکی فوج کا جلد از جلد انخلا ہو اور پاکستان میں افغانستان کی وجہ سے جو دہشت گردی فضا بنی ہوئی ہے اس مین کمی واقع ہو۔دوسری جانب کود افغان حکومت کے اعلی عہدے دار اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کرزئی حکومت کی جانب سے جن طالبان رہنماؤں کو افغانستان کی جیلوں سے رہا کیا جارہا ہے وہ امن مذاکرات کے بجائے ، دوبارہ جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔اسلئے کرزئی حکومت کو اپنی فکر کرنی چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کریں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرتی عمل متاثر ہو۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.