مظفرنگرفساداورمودی کی تاجپوشی:کچھ توہے؟؟؟

باسمہ تعالیٰ

مظفرنگراترپردیش کاوہ ضلع ہے جس سے صرف ۳۰؍کلومیٹرکی دوری پرعالم اسلام کی عظیم الشان یونیورسٹی دارالعلوم دیوبندواقع ہے،جوہندستان ہی نہیں بلکہ بیرون ہندستان کے مسلمانوں کے لیے بھی مرکزعقیدت ومحبت ہے۔دارالعلوم دیوبندسے وابستگی کی بنیادپرمغربی یوپی کابیشترعلاقہ جس میں میرٹھ ،مظفرنگر،شاملی،بجنور،تھانہ بھون ،گنگوہ،جلال آباد اورسہارنپورکاعلاقہ شامل ہے مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت کاحامل ہے،کیوں کہ دارالعلوم دیوبندکافیض جہاں دنیاکے گوشہ گوشہ میں پھیلاوہیں یہ علاقہ دارالعلوم سے مکانی قربت کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی فیضیاب ہے اوران علاقوں سے بڑی بڑی ہستیاپیداہوئیں جنہوں نے دین اسلام کی خدمت اوراس کی نشرواشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔حجتہ الاسلام بانی دارالعلوم دیوبندحضرت مولاناقاسم نانوتویؒ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،حضرت شیح الہندمولانامحمودالحسن دیوبندیؒ،حضرت مولاناعاشق الٰہی میرٹھیؒ، مولاناحفظ الرحمن سیوبارویؒ،حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ ،حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ،حضرت مولانامسیح اﷲ خان صاحبؒ،حضرت مولاناسیداسعدمدنیؒ،حضرت مولانا مرغوب الرحمن سابق مہتمم دارالعلوم دیوبندؒوغیرہ کی حیات مبارکہ اس کی روشن مثالیں ہیں۔یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے ایک طرف دین اسلام کی خدمت اوراس کی سربلندی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں وہیں انہوں نے وطن کی محبت میں سرشارہوکربلاتفریق مذہب وملت اپنے وطن کوانگریزوں سے پاک کرنے کے لیے میدان کارزارمیں کودپڑے اوروطن کے لیے اپنی جانیں نثاورکیں۔تاریخ آزادی سے واقف ہرشخص کویہ معلوم ہے کہ یہی وہ اکابرہیں اوران کے رفقاء جنہوں نے شاملی کے میدان میں انگریزوں کے دانٹ کھٹے کردیے،ان پرایسے حملہ آورہوئے کہ انہیں اپنی جان بچاکربھاگناپڑااوراسی میدان کارزارمیں مجاہدین آزادی کے ایک کمانڈرحافظ ضامن ؒنے جام شہادت نوش کیا۔

مظفرنگرپرامن علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپسی بھائی چارہ اوربین مذہبی اتحادکی ایک روشن مثال علاقہ تھاجوفرقہ پرستوں کی آنکھوں کاکانٹابناہواتھا۔مظفرنگرایسی ہستیوں کامسکن رہاہے جواتحادواتفاق کی علامت مانے جاتے تھے جن کے درتمام مذاہب کے لوگوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے،اوریہی وہ اتحادتھاجوفرقہ پرستوں کوراس نہیں آرہاتھا، انہیں بار باریہ بات کھٹک رہی تھی کہ اگریہ علاقہ یونہی امن کاگہوارہ بنارہاتوہماری سیاست کی دوکان کیسے چمکے گی؟۱۹۹۲ء اوراس سے قبل اوراس کے بعدبھی یوپی کے مختلف علاقوں میں بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں میرٹھ،ملیانہ،ہاشم پورہ اورمرادآبادکے فسادات ہیں جس میں ہزاروں جانوں کااتلاف ہوا،معاشی طورپرمسلمانوں کی کمرتوڑی گئی ، لیکن ایسے نازک وقت میں بھی مظفرنگرمحفوظ رہا۔۹۰ء کی دہائی میں مسلم دشمنی کاچہرہ بنے رہے لال کرشن اڈوانی بھی مظفرنگرکوفسادات کی آگ میں نہیں جھونک سکالیکن ان کے شاگرد رشیداورگذشتہ ایک دہائی سے مسلم دشمنی کے چہرہ کے طورپرابھرنے والے نریندرمودی اپنے اس ناپاک مقصدمیں کامیاب ہوگئے ،اوراس کامیابی کاانعام انہیں وزیراعظم کے عہدے کی امیدواری کااعلان کرکے دے دیاگیا۔
مظفرنگرکافسادایک مکمل منصوبہ بندسازش کے تحت انجام دیاگیاکارنامہ ہے،جس کے اشارے اسی وقت مل گئے تھے جب نریندرمودی کے دست راست اورکئی مجرمانہ معاملوں میں ملوث امیت شاہ کوبی جے پی نے اترپردیش کے انتخابی مہم کاانچارج بناکربھیجاتھا،تجزیہ نگاروں نے اسی وقت یہ اشارے دے دیے تھے کہ امیت شاہ کویوپی کی کمان سونپنے کاواضح مطلب ہے کہ یوپی میں گجرات ماڈل کونافذکرنا،اوربی جے پی اورامیت شاہ اس میں کامیاب رہے،مظفرنگرمیں فسادسے قبل دارالعلوم دیوبندکے معصوم طالبان علوم نبوت کے ساتھ ٹرین میں مارپیٹ اوربدسلوکی بھی اسی فسادکی ایک کڑی ہے،طلبہ دارالعلوم دیوبندکے ساتھ ٹرینوں میں بدسلوکی کوئی نئی بات نہیں ہے،اس طرح کے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں،پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں،لیکن ان واقعات کاتعلق صرف چندانفرادی طورپرفرقہ پرستی کی سوچ رکھنے والوں کی کارستانی تھی،جس کااثردیرپا نہیں رہتا تھالیکن اس مرتبہ جوپے درپے طلبۂ دارالعلوم دیوبندکے ساتھ تشددکے واقعات رونماہوئے ان سب کی کڑی مظفرنگرفسادسے ملتی ہے۔

مظفرنگرکافسادبظاہر۲۷؍اگست کوکوال گاؤں میں جاٹ نوجوان کے مسلم نوجوان پرحملہ کرنے کی وجہ سے ہواجس میں دونوں کی جان چلی گئی۔جاٹ نوجوان نے مسلم نوجوان پریہ کہہ کرحملہ کیاتھاکہ وہ میری بہن کے ساتھ چھیڑخانی کرتاہے اوراس طرح یہ ہاتھاپائی کاانجام قتل کے واقعہ پرجاکررکا۔ابھی پولیس نے اس معاملہ کی تفتیش بھی پوری نہیں کی تھی کہ سنگھی ذہنیت رکھنے والے لوگوں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ میں رنگناشروع کردیاجس کی حمایت بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے بھی کی اور۷ ستمبر کو سیکھیڑا تھانہ حلقہ کے نگلاگاؤں میں بیٹی بچاؤکے نام سے ایک مہاپنچایت منعقدکی۔اب یہ لڑائی باضابطہ طورپرجاٹ برادری اورمسلمانوں کے درمیان ہوگئی،حقیقت میں یہ ایک چنگاری تھی جسے حکومت چاہتی توتوبڑی آسانی سے بجھاسکتی تھی لیکن حکومت کی لاپروائی اورسنگھی ذہنیت کی مستعدی اورچالاکی نے اسے فرقہ وارانہ فسادکی شکل دیدی۔کل تک جولڑائی ایک معمولی سی چنگاری کی شکل میں تھی اسے حکومت کی مجرمانہ غفلت اورسنگھی فرقہ پرستی کی ذہنیت نے اس چنگاری کوشعلہ میں بدل دیااوراس وقت مستقل اس آگ میں گھی ڈالتے رہے جب تک کہ مسلمانوں کا سب کچھ جل کرراکھ نہیں ہوگیا۔۷؍ستمبرکوجومہاپنچایت بلائی گئی تھی اس میں مظفرنگرضلع اورآس پاس کے علاقوں سے ایک محتاط اندازہ کے مطابق سوالاکھ جاٹ شامل ہوئے جس کی قیادت کسان یونین کے بانی مہندرسنگھ ٹکیت کے دونوں بیٹے راکیش اورنریش ٹکیت،بی جے پی کے سابق ریاستی وزیراورشاملی سے ممبراسمبلی حکم سنگھ،سردھنا(میرٹھ)سے بی جے پی کے ممبراسمبلی سنگیت سنگھ سوم،بجنورکے ایم ایل اے بھارتیندوسنگھ،تھانہ بھون کے سابق ایم ایل اے اوم ویش،سابق ممبراسمبلی پردیپ بالیااورکانگریس کے سابق راجیہ سبھا ممبر ہریندرملک کررہے تھے۔اس پنچایت میں یہ فیصلہ لیاگیاکہ مسلمانوں کونیست ونابودکردیناہے،پہلے اس مہاپنچایت کانام بیٹی بچاؤ مہاپنچایت رکھاگیاتھالیکن کچھ پنچایت سے کچھ لمحہ قبل اس کانام بیٹی بچاؤہندوبچاؤمہاپنچایت رکھاگیا۔پنچایت سے واپسی پرجاٹ کے نوجوانوں نے مسلم علاقوں سے گذرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزنعرے لگائے،اورمسلمانوں پرحملہ کیالیکن میڈیاکاایک بڑاطبقہ یہ کہتارہاکہ مسلمانوں نے جاٹ پرحملہ کیا،اگرایساتھاتوپھرمرنے والوں میں مسلمانوں کی تعدادزیادہ کیسے ہوئی؟

ذراغورکریں!ایک طرف مظفرنگرجوکہ علماء،صلحاء اوراولیاؤں کامسکن ہے،نہ جانے مظفرنگراوراس کے اطراف میں کتنے اولیاء اﷲ اوراﷲ کے برگزیدہ بندے مدفون ہیں، جنہوں نے اس علاقہ کوامن وامان کاگہوارہ بنارکھاتھا،جواس علاقہ کی عوام کے لیے بلاتفریق مذہب وملت رہنماتھے اورلائق صداحترام تھے،مودی جیسے موذی اوربدطینت لوگوں نے فرقہ پرستی کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے فسادکے حوالہ کردیا۔مودی جسے چندماہ قبل بی جے پی نے ۲۰۱۴ء کے انتخابی امورکاسربراہ مقررکیاتھالیکن مودی کے گرواوربی جے پی کے سب سے بڑے مسلم مخالف چہرہ اڈوانی کویہ بات پسندنہ آئی کہ پارٹی میں اس سے بڑاکوئی مسلم دشمن چہرہ جنم لے اوراس کی ساکھ متاثرہو،اڈوانی نے یہ کہہ کرمودی کی مخالفت کی کہ مودی کے دامن پرگجرات فساداورمسلم خون کے دھبے ہیں اس لیے مودی اس عہدہ کے لیے قابل قبول نہیں ہیں،جب کہ وہ اس وقت یہ بھول گئے کہ ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادکے وہ خودہی جنم داتاہیں اور۹۰ء کی دہائی میں ان کے رتھ یاترانے کتنے پرامن علاقوں کوفسادکی آگ میں جھونک دیااورہزاروں بے گناہ مسلمانوں کی جانیں تباہ ہوئیں ، ماں، بہنوں کی عصمتیں تارتارہوئیں اورمعاشی طورپرمسلمان بدترین حال کوپہونچ گئے،پھربابری مسجدکی شہادت کابدنماداغ بھی ان کے چہرے کی زینت بناہواہے اوراس کے بعدملک بھرمیں ہوئے فسادات کسی سے پوشیدہ نہیں اس کاانعا م انہیں نائب وزیراعظم اوروزارت داخلہ جیسی حساس اوراہم وزارت کی کرسی کی شکل میں ملا،توآج ان کے شاگرد رشید مودی بھی ان ہی کے نقش قدم پرچل رہے ہیں،انہوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات میں فسادکرایا،نہ جانے کتنے معصوم مسلمانوں کوجعلی انکاؤنٹرکرکے موت کے گھاٹ اتاراجس میں ان کے معاون ومدگاریوپی کے انچارج امیت شاہ رہے،اورڈی جی ونجاراکے خط نے بھی اس حقیقت کواجاگرکردیاہے کہ مودی کے دامن کتنے بے گناہ مسلمانوں کے خون کے دھبے سے رنگے ہوئے ہیں،مودی کوخوب معلوم تھاکہ جب تک وہ اپنے گرواورپیش رواڈوانی کی طرح اپنی فرقہ پرست ذہنیت کاثبوت نہیں دیں گے انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی کا امیدوارنہیں بنایاجاسکتااس لیے انہوں نے اپنے دست راست اورمعاون کویوپی کاانچارج بنایاجس نے آتے ہی فرقہ پرستی کوہوادینی شروع کی اوربالآخرمظفرنگرفرقہ پرستی کی آگ میں جھلس کرفسادکے نتیجہ تک پہونچااورادھرفسادپرپوری طرح قابوبھی نہیں پایاگیاتھاکہ ادھرمودی کوانعام کے طورپروزارت عظمیٰ کاامیدواراعلان کردیاگیا۔

کیاہندوستان کامقدرفرقہ پرستوں کے ہاتھوں لکھاجائے گا؟کیاہندستان اسی طرح فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس کربربادہوتارہے گا؟کیاہندستانی مسلمانوں کے جان ومال ،عزت وآبروکے ساتھ اسی طرح کھلواڑہوتارہے گا؟یہ ایسے سوالات ہیں جوآزادی کے بعدسے آج تک ہرمسلمان کی زبان پرہے،ہندستان کامسلمان خواہ وہ جس علاقہ میں رہتاہواسے ہروقت اپنے جان ومال اوراپنی عزت وآبروکی فکرستاتی رہتی ہے،گذشتہ چندسالوں سے جس طرح فرقہ پرستی کی سیاست نے لاشوں کے ڈھیرپرسیاست کرنی شروع کی ہے، ہندستان کاہرمسلمان اپنے آپ کوغیرمحفوظ محسوس کرنے لگاہے،یہ فسادات اب ہرروزنئے نئے علاقوں کارخ کررہی ہے،اورمسلمانوں کومعاشی طورپرکمزورکیاجارہاہے۔ہندستان میں فسادات کی تاریخ بہت پرانی ہے ،لیکن اس سے بھی پرانی تاریخ حکمراں جماعت کانگریس کی منافقت کی ہے،یہ سبھی جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ فسادات کانگریس کے دور حکومت میں ہی ہوئے ہیں اورپھربھی مسلمان کانگریس کے ساتھ اپنی وفاداری کااظہارکرتے نہیں تھکتے،سماج وادی کوبھی مسلمانوں نے اپناہمدردسمجھالیکن اکھلیش کے دوروزارت میں ہوئے فسادات نے مسلمانوں کواب سوچنے پرمجبورکردیاہے،اس کے ساتھ ہی مسلم قیادت کی مجرمانہ خاموشی اورصرف مذمتی بیانات بھی مسلمانوں کواپنی مسلم قیادت سے بدظن کررہی ہے۔آخرمسلم قیادت کب تک سوتی رہے گی؟کیاجب سارے مسلمان ہندستان سے ختم کردیے جائیں گے تب وہ خواب خرگوش سے بیدارہوں گے؟کیاان کاکام صرف سانپ کے گذرجانے کے بعدلاٹھی پیٹنے کارہ گیاہے؟فسادات سے پہلے جب فسادکاماحو ل بنایاجارہاتھا تب توسب سوئے ہوئے تھے لیکن فسادات ختم ہوتے ہی ریلیف فنڈ اکٹھا کرناشروع کردیااورراحتی کیمپوں میں پہونچ کردکھ دردبانٹنے کاڈھونگ رچانے میں سیاسی لیڈروں کوبھی مات دیدیا۔مسلمانوں اب بھی جاگو،اپنی آنکھیں کھولواوراپنی مددآپ کے اصولوں پرزندگی گذارناشروع کروورنہ وہ دن دورنہیں جب ہندستان میں مسلم علاقے ہسپانیہ کی تاریخ کاایک حصہ نظرآئیں گے۔٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50706 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More