یورپ میں مسلمانوں مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کرنے کا
سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔کبھی حجاب کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کو تنگ کیا
جاتا ہے اور کبھی اسلام کو دہشت گردی کی طرف منسوب کر کے ان پر حملے کیے
جاتے ہیں۔ان دنوں بھی یورپ میں مسلمانوں کو ستانے کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا
ہے۔فرانس، ہالینڈ کی طرح برطانیہ میں بھی حجاب پر پابندی لگانے کی منصوبہ
بندی کی جارہی ہے۔برطانیہ میں حکومت کی سرپرستی میں حجاب پر پابندی لگانے
کے سلسلہ میں باقاعدہ تحریک چلائی جارہی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون
اور اعلیٰ حکام بھی حجاب پر پابندی لگانے کی اس تحریک کا حصہ ہیں۔برطانوی
ہوم آفس کی جانب سے مسلم خواتین کے حجاب کو سیکورٹی رسک قرار دے دیا گیا ہے
اور برطانوی حکومت بھی ہوم آفس کی سفارش پر حجاب کو غیر ضروری قرار دے رہی
ہے۔برطانوی ہوم منسٹر جریمی براﺅن کا دعویٰ ہے کہ ان سمیت برطانوی حکومت
اور پارلیمنٹ حجاب پر پابندی کے حق میں ہیں۔یورپی میڈیا بھی حجاب کے خلاف
اسلام دشمن حکومت کے شانہ بشانہ ہے۔
گزشتہ دنوں لندن کے ادارے برمنگھم کالج کی انتظامیہ نے طالبات کو نقاب
اڑھنے سے روک دیا تھا، برطانوی وزیر اعظم نے کالج کے اس تعصب سے بھرپور
اقدام کا خیر مقدم کیا تھا۔اسی طرح سترہ سالہ مسلمان طالبہ ایمان علی کو ان
کے کالج کے سیکورٹی گارڈ نے کالج کے گیٹ پر یہ کہتے ہوئے روک لیا تھا کہ
نقاب اتار کر آنا چاہو تو آﺅ ورنہ اجازت نہیں ہے۔برطانوی وزیر اعظم کے
ترجمان نے بھی کالج انتظامیہ کو ان الفاظ میں تھپکی دی کہ کالج انتظامیہ کو
یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہیں روکیں اور قانون پر عمل کروائیں۔ جس پر
مسلم طالبات نے شدید احتجاج کیا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری کھلی بے
عزتی ہے۔ یہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔اگر یورپ میں ہی سکھ
اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے تو
ہمیں کیوں نہیں؟۔احتجاج کے بعد میٹرو پولیٹن کالج کے ترجمان کی جانب سے
کالج کے فیس بک کی سائٹ پرجاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ
میٹروپولیٹن کالج اپنے طالب علموں کواعلیٰ معیارکی تعلیم فراہم کرنے کا ذمے
دار ہے تاہم اساتذہ فکرمند ہیں کہ حالیہ دنوں میں میڈیا پبلسٹی کے باعث
تعلیمی عمل متاثر ہورہا ہے، کالج نقاب پر پابندی کا حکم واپس لیتے ہوئے
ذاتی لباس کی اضافی اشیا جو ثقافتی اقدار کی عکاسی کرتی ہیں۔انھیں پہننے کی
اجازت دیتا ہے تاہم طالب علموں کو انفرادی شناخت ظاہرکرنے کا پابند رہنا
ہوگا۔لیکن یہ صرف بیان فیس بک تک ہی محدود تھا۔ ان کے باوجود بھی برطانیہ
میں حجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور حجاب پر پابندی لگانے کی
کوشش کی جارہی ہے۔اسی طرحگزشتہ دنوں ایک مسلم طالبہ شعور عائشہ کو کینڈا کے
ایک اسکول سے صرف حجاب کرنے کی بنا پر نکال دیا گیا۔ جس کی بنیاد پر کلاس
کی دیگر طالبات میں بے چینی پھیل گئی۔ جبکہ کنیڈا کے اسلامی مراکز کے ذمہ
دارافراد نے اس مسئلہ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ
تعصب انگیز رویہ برتا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی ایک بار کنیڈا
کے ایک اسکول سے طالبہ کو حجاب کرنے کی بنا پر نکال دیا گیا تھا۔کینڈا میں
ہی حجاب اور عمامہ پر مکمل پابندی کی تجویز پیش کی گئی ہے ۔جس سے کینڈا میں
احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ کینیڈا میں سرکاری ملازمین کے حجاب اور
عمامہ پہننے پر مجوزہ پابندی کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں آ گئے۔ مانٹریال
میں ہونے والے مظاہرے میں مسلمان، یہودی، عیسائی، سول سوسائٹی اور سیاسی
پارٹیوں کے ارکان سب ہی شریک ہوئے۔ شرکا کا کہنا تھا کہ مجوزہ پابندی شہری
آزادی کا مسئلہ ہے جسے وہ قبول نہیں کریں گے۔ کینیڈا کے صوبے ’کیوبیک ‘ کی
ایک پارلیمانی جماعت سرکاری ملازمین پر حجاب، عمامہ اور دیگر مذاہب کی
علامات سمجھی جانے والی اشیا پہنے پر پابندی کا بل تیار کر رہی ہے۔ بل
منظور ہوا تو اس کا اطلاق اساتذہ، پولیس اہل کاروں، ہسپتال عملے، ججز اور
دیگر سرکاری ملازمین پر ہوگا۔ادھر جرمنی میں مسلم طالبات کے لیے لڑکوں کے
ساتھ سوئمنگ کرنے کو ضروری قرار دیا ہے، جس پر مسلم طالبات نے احتجاج بھی
کیا لیکن ان کے احتجاج کو رد کردیا گیا ہے۔جرمنی عدالت نے بھی مسلم طالبات
کے خلاف فیصلہ دیا۔جرمن اخبارات و جرائد کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا
مارکیل نے کہا ہے کہ جرمنی میں بسنے والے مسلمانوں کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ
جرمنی میں قیام اور ملازمت کت دوران اسلامی شریعت نہیں جرمنی کا قانون چلے
گا۔
یورپ میں مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی تازہ مثال کچھ روز
ہی قبل برطانیہ کے شہر لیسٹر میں سامنے آئی، جہاں ایک مسلمان پاکستانی کے
گھر کو نامعلوم افراد نے آگ لگادی تھی جس میں تین بچوں سمیت چار افراد جاں
بحق ہوگئے جاںبحق ہونے والوں میں ایک حافظ قرآن بھی تھا۔آگ لگنے کا واقعہ
ووڈ ہل کے علاقے میں پیش آیا ۔جاں بحق ہونے والے چاروں افراد اپنے اپنے
کمروں میں مردہ پائے گئے۔واقعے سے چند گھنٹے قبل اسی روڈ پر ایک شخص پر
قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جسے علاج کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ
جانبر نہ ہو سکا، پولیس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آگ لگنے کا واقعہ اور اس
شخص کا قتل ایک ہی واقعے کی دو کڑیاں ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے
کہ گھر میں آگ اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے لگائی گئی۔تجزیہ کاروں کا کہنا
ہے یہ حملہ بھی ان حملوں کی کڑی ہے جو ایک عرصے سے یورپ میں مسلمانوں پر
جاری ہیں۔ گزشتہ ماہ اگست میں منظر عام پر آنے والی رپورٹ کے مطابق یورپ
میں مسلم برادری کے خلاف حملوں کارجحان بڑھ رہاہے لیکن تاحال یورپی یونین
کی جانب سے ایسے حملوں کے اعدادوشمار درج کرنے یا اورانھیں جاری کرنے سے
متعلق کوئی موثرحکمت عملی سامنے نہیں آئی۔اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر
ایک عورت نے برطانیہ میں فعال ٹیل مامانامی ایک ویب سائٹ کو بتایاکہ مجھ
پرکئی مرتبہ حملہ کیاجاچکاہے،مجھ پرتھوکاگیا،مجھے مارا پیٹاگیا حتی کہ جب
میں حاملہ تھی مجھے میرے بیٹے اورمیرے خاوندکے سامنے روندھاتک گیا۔یہ ویب
سائٹ برطانیہ میں مسلمانوںکیخلاف ہونے والے حملوں کاریکارڈرکھتی ہے۔ٹیل
ماما نامی یہ ادارہ 2012 سے برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کی ایک ٹیلی
فون ہیلپ لائن کے ذریعے مدد کررہا ہے۔ٹیل ماما کے ڈائریکٹرفیاض مغل نے
بتایاکہ پچھلے18ماہ کے دوران مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے
خلاف مجموعی طورپر1200 حملے کیے گئے، رواں سال 22مئی کو لندن میں لی رگبی
نامی برطانوی فوجی کے قتل کے واقعے کے بعدمسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں
میں کوئی 8گنااضافہ ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ دریں اثناایلسا رے نے ای
یوآبزرورنامی ایک اخبار میں لکھاہے کہ مسلمانوں کے خلاف حملوں کا رجحان
فرانس میں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے،فرانسیسی اوریورپی سیاستدان اس مسئلے سے
منہ موڑ رہے ہیں اورعوام کے مابین اسلام مخالف جذبات کوتسلیم کرتے
ہیں۔یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق سے تعلق رکھنے والی کاٹیا
اینڈروسز کے بقول ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ اور فرانس مسلمانوں کے خلاف ہونے
والے حملوں کا مرکز ہیں۔ میڈیا کے مطابق یورپ میں اسلام فوبیا کی فضا بہت
خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ ان کے خلاف
حملے تیز کردیے گئے ہیں۔ مساجد کے باہر نعرے بازی، مساجد کے اندر سور کا
گوشت پھینکنا اور مساجد کی دیواروں پر اسلام مخالف نعرے درج کرنے جیسے
واقعات معمول بن چکے ہیں۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ یورپ میں اسلام فوبیا کی اصل وجہ یہ
ہے کہ یورپی ملکوں میں نو مسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور
اسلام کو خطہ کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب قرار دیا جارہا ہے۔
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہی اسلام دشمنوں کو گوارا نہیں ہے۔ اسلام کی
بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر یورپ کے اسلام دشمن اسلام اور مسلمانوں کے
خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں، مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ
شروع کردیا جاتا ہے۔ اسلام دشمنی میں وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم ہی
دنیا میں آزادی کا نعرہ لگانے والے ہیں، مسلمانوں کو آزادی نہ دینا ہمارے
نعروں کو جھٹلاتا ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کو ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی
کسی بھی وقت ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں:”یورپ
میں جو مسلمان ہیں، وہ عموماً اپنے اسلامی نام نہیں لکھتے اور نہ اپنے
اسلام کا عام طور پر اعلان کرتے ہیں۔ جیسے ہی یورپ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے
کہ فلاں شخص مسلمان ہوگیا ہے، فوراً اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔“
اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ
سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب
جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے ، دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ
مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں آئندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔
مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں
اضافہ ہور ہا ہے۔ اس وقت کینیڈا میں 9 لاکھ 40 ہزار مسلمان آباد ہیں جو
2030 تک 20 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ جائیں گے۔ امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی
آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے جو 2030تک بڑھ کر 60 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جائیں
گے۔ شمالی امریکا میں 1990 سے 2010 تک مسلمانوں کی آبادی میں 91 فیصد کی
رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 30
لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی جب کہ آنے والے 20 سالوں میں شمالی امریکا میں
مسلم افراد کی تعداد 80 لاکھ 90 ہزار ہونے کا امکان ہے۔ برطانیہ میں
مسلمانوں کی آبادی 20 لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر 50 لاکھ 60 ہزار اور فرانس
میں 40 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 90 ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جب کہ
فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کیتھولک چرچ سے زائد ہے۔ 2010 تک یورپ
میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب تھی جو 2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے
قریب پہنچ جائے گی۔
فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے نے عالمی سطح پر بین
المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے، جس کے مطابق 2030ءمیں جب دنیا کی
آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی
آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔ اسلام کے پھیلتے دائرہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ
مغربی خاتون صحافی ”اوریانہ فلاسی“ کہتی ہے کہ آنے والے بیس سالوں میں پورے
یورپ کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے ،کیونکہ ان شہروں
میں مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ
ہے کہ اسلام قبول کرنے والوںمیں بڑی تعداد عورتوں کی ہے، یورپ میں اگر چار
افراداسلام قبول کرتے ہیںتو ان میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں
کی اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے پورا یورپ خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو مختلف
طریقوں سے تنگ کررہا ہے۔ |