اسلام آباد کی ایک عمارت میں انٹرنیٹ ماہرین کی ایک ٹیم
انٹرنیٹ کی تفصیلات جمع کرنے میں مصروف ہے۔ یہ ٹیم دراصل ایسے ہزاروں
انٹرنیٹ صفحات بلاک کرنے کا کام کر رہی ہے جن پر ’قابل اعتراض‘ مواد موجود
ہے۔
تاہم یہ ٹیم اس کام کرنے میں اس قدر مستعدی نہیں دکھا پا رہی جس کی ضرورت
ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت اب کینیڈا کے تیار کردہ ایک سافٹ ویئر کا تجربہ کر
رہی ہے جو ایک سیکنڈ میں لاکھوں ویب سائٹس بلاک کر سکتا ہے۔
|
|
ایک پاکستانی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی کے ایک اہلکار نے خبر
رساں ادارے روئٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ گزشتہ پانچ
برس کے دوران ایسے انٹرنیٹ صفحات کی تعداد دو گنا ہو چکی ہے جن تک پاکستان
میں رسائی بلاک کر دی گئی ہے۔ ان میں اکثر ایسی ویب سائٹس ہیں جن پر ایسی
فلمیں یا کارٹون موجود ہیں جو مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز ہیں۔
کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی میں قائم سٹیزن لیب کی طرف سے رواں برس جون میں
ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی حکومت ویب
سائٹس پر موجود مواد کو جانچ کر بلاک کرنے والے یا فلٹرنگ سافٹ ویئر کو
تجرباتی طور پر استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ سافٹ ویئر کینیڈا کی
کمپنی نیٹ سویپر کا تیار کردہ ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور نیٹ سویپر کی
طرف سے اس رپورٹ پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے فلٹرنگ سافٹ ویئر کی تلاش کے لیے 2012ء میں پانچ
صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی گئی تھی۔ روئٹرز کے مطابق اس دستاویز
میں کہا گیا تھا، ’’پاکستانی انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز اور دیگر سہولیات
فراہم کرنے والے اداروں نے لاکھوں قابل اعتراض ویب سائٹس کو موجودہ مینوئل
بلاکنگ سسٹم کے ذریعے بلاک کرنے کی عدم قابلیت کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اس
دستاویز میں مزید کہا گیا کہ اسے ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جو 50 ملین ویب
سائٹ ایڈریسز کو بلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘‘
|
|
روئٹرز کے مطابق پاکستانی حکومت کی طرف سے تو کوئی اعداد وشمار جاری نہیں
کیے گئے تاہم انٹرنیٹ سروس پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق 4500
ویب سائٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے جس میں یو ٹیوب بھی شامل ہے۔
پاکستانی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ انٹرنیٹ فلٹرنگ سافٹ ویئرز کے ذریعے
انہیں امید ہے کہ وہ مخصوص مٹیریل کے لنکس کو بلاک کر سکیں گے جس سے
پاکستان میں یوٹیوب کھولنے کی راہ ہموار ہو گی۔ |