پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور عوام کا استرداد
(Imran Changezi, Karachi)
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافہ اور عوام کا استرداد
پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا عوامی
مطالبہ
کیا عوامی جدوجہد اور قربانیوں سے آزاد ہونے والی عدلیہ عوامی مفادات کے
لئے اپنا منصفانہ و مثبت کردار ادا کرے گی ؟
اگر عدلیہ نے بھی عوام کے حقوق کا تحفظ نہ کیا تو پھر عوام اس انقلاب کی
جانب چل پڑیں گے جس کی راہیں خانہ جنگی اور ناکام ریاست کی بھول بھلیوں سے
گزرتی ہیں !
پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے بجلی بھی مہنگی ہوجائے گی جس سے صنعتوں میں
تیار ہونے والی اشیاء کی پرودڈکشن کاسٹ میں بھی اضافہ ہوگا اور اشیائے
ضروریہ عوام کی دسترس سے دور ہوجائینگی
پیٹرول و بجلی کی قیمت میں اضافہ سے کھاد اور بیج کی قیمت بھی بڑھ جائے اور
کھیت سے صارفین تک پہنچائے جانے کے ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی اضافہ ہوجائے
گا جس سے زرعی اجناس بھی مزید مہنگی ہوجائینگی
پاکستان ریلوے بھی ٹرینوں کو چلانے کے لئے ہر سال انیس کروڑ لیٹر ڈیزل
استعمال کرتا ہے اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے چالیس ارب روپے کے مقروض
اس محکمے پر ایک ارب تیس کروڑ روپے کا مزید بوجھ پڑے گا جس سے بچنے کا واحد
راستہ ریلوے کے کرایوں میں اضافہ کی صورت نکلے گا
وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضافے کی سمری پر دستخط کردیئے ہیں جس کے بعد جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے
مطابق یکم جولائی سے پیٹرول پانچ روپے بانوے پیسے اضافے کے بعد باسٹھ روپے
اٹہتر پیسے فی لیٹر‘ لائٹ ڈیزل چھ روپے چورانوے پیسے اضافے کے بعد باسٹھ
روپے پچاسی پیسے اور مٹی کا تیل سات روپے اڑتالیس پیسے اضافے کے بعد مہنگا
ہو کر انسٹھ روپے پینسٹھ پیسے میں فروخت کیا جارہا ہے گو کہ پیٹرول کی
قیمتوں میں اضافے سے حکومت کو ایک سو بیس ارب روپے کا ٹیکس وصول ہوگامگر یہ
تمام بوجھ اشیاء ضرورت کی مہنگائی اور اخراجات میں اضافے کی صورت براہ راست
عوام پر منتقل ہوگا جو پہلے ہی شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ
نہ صرف کم آمدنی والے طبقے بلکہ صنعت کار بھی اس اقدام کو تشویش کی نظر سے
دیکھ رہے ہیں کیونکہ پیٹرول پر عائد ڈویلپمنٹ لیوی کی جگہ کاربن ٹیکس کا
نفاذ نئے مالی سال کے بجٹ میں کیا گیا ہے۔ نئے اضافے سے پہلے پیٹرول پر دس
روپے اٹھاون پیسے فی لیٹر پی ڈی ایل نافذ تھی، جبکہ حکومت نے کاربن ٹیکس کی
شرح دس روپے فی لیٹر مقرر کی ہے۔ اس لحاظ سے ریٹ بڑھنے کی بجائے اٹھاون
پیسے کم ہونا چاہئے تھا مگر حکومت نے پیٹرول کے نرخوں میں کمی کی بجائے
اضافہ کردیا ہے جس سے ملک بھر میں موجود تشویشناک مہنگائی میں مزید اضافے
کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ پیپکو تھرمل بجلی کی پیداوار کے لئے ماہانہ
ڈیڑھ سے دو لاکھ ٹن فرنس آئل استعمال کرتا ہے اور تین سو گرام فرنس آئل سے
ایک یونٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جبکہ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں
اضافہ فرنس آئل کی قیمتوں میں بھی اضافے کا سبب بنے گا جس سے بجلی بھی مزید
مہنگی ہوجائے گی جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کو
بجلی کی قیمتوں میں 22 فیصد مزید اضافے کی یقین دہانی پہلے ہی کرادی ہے
اسلئے ایک جانب جہاں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ٹرانسپورٹ کرایوں میں
اضافے کا سبب بنے گا وہیں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے صنعتوں میں تیار کی
جانے والی اشیاء کی پروڈکشن اور ہینڈلنگ کاسٹ میں اضافہ ان کی قیمتوں پر
براہ راست اثر انداز ہوگا جس سے نہ صرف کم آمدنی والا طبقہ بلکہ صنعت کار
بھی شدید متاثر ہوں گے ۔
دوسری جانب پاکستان ریلوے بھی ٹرینوں کو چلانے کے لئے ہر سال انیس کروڑ
لیٹر ڈیزل استعمال کرتا ہے اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے چالیس ارب روپے
کے مقروض اس محکمے پر ایک ارب تیس کروڑ روپے کا مزید بوجھ پڑے گا جس سے
بچنے کا واحد راستہ ریلوے کے کرایوں میں اضافہ کی صورت نکلے گا۔ حکومت کی
طرف سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافہ کیا گیا جو یکم اگست
کو ملنا ہے۔ لیکن پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی کا صارف پرائس انڈیکس پر اثر
فوری طور پر سامنے آگیا ہے۔ حکومت نے اسٹاک ایکسچینج، رئیل اسٹیٹ اور زرعی
آمدنیوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز متعلقہ حلقوں کے دباؤ پر واپس لے لی ہے اور
پیٹرول کے ذریعے عوام سے ٹیکس وصول کرنے کا آسان راستہ منتخب کیا ہے، عوام
کو طاقت کا سرچشمہ قرار دینے والی حکومت کا یہ اقدام کس نظر سے دیکھا جائے،
یہ عوام کے سوچنے کا سوال ہے ! مگر حقیقت یہ ہے کہ صنعتکاروں ‘ ٹرانسپورٹ
تنظیموں ‘ صارفین کی تنظیموں اور عوام نے مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عوام کا معاشی قتل عام اور اعلیٰ
عدلیہ کی توہین قراردیتے ہوئے چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا
ہے کیونکہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے پہلے ہی سپریم کورٹ
حکومت کو اضافہ کی بجائے کمی کرنے کی ہدایت کرچکی ہے مگر عدالتی ہدایت کے
باوجود حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں بلاجواز قرار دیئے جانے والے
اضافے پرازخود نوٹس لینے کی عوامی درخواست کے باوجود کیا سپریم کورٹ اس
مسئلے پر خاموش رہے گی اور اگر خاموش رہے گی تو عوام اس کے بارے میں کیا
سوچیں گے؟
ان توقعات کا کیا بنے گا جو عوام نے آزاد عدلیہ سے وابستہ کی تھیں ؟
کیا وہ تمام قربانیاں رائیگاں جائیں گی جو عوام نے معزول ججوں کی بحالی کی
خاطر دیں تھیں؟
دو سال تک اس تحریک کو عوام نے اپنے ناتواں کندھوں پر اس لئے اٹھائے رکھا
کہ جب معزول جج بحال ہوں گے تو عوامی حقوق کا تحفظ کریں گے۔ ملک میں ہر طرح
کا انصاف ہوگا۔ ایک نئے پاکستان کا ظہور ہوگا اور بقول اعتزاز احسن ریاست
کا کردار ماں کے جیسا ہو جائے گا۔
مگر افسوس کے آزاد عدلیہ سے عوام نے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ کسی بھی
طور پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ حکومت نے عوامی مسائل کی طرف دیکھنا بند
کر دیا ہے۔ اپوزیشن٬ حزب اختلاف والا کردار ادا نہیں کر رہی۔ عدلیہ بھی
عوام کو ریلیف دلانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اسلیے ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ عوام آج جتنے مایوس ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ ان کی ہر آس ' امید اور توقع
دم توڑ چکی ہے۔ حد تو یہ کہ انہوں نے عدلیہ بحالی کی جس تحریک کے لئے دو
سال تک اپنا خون پسینہ بہایا وہ تحریک تو کامیاب ہوگئی لیکن عوام کی حالت
پہلے سے بھی بدتر ہوگئی۔
اب عوام کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ خام انقلاب کے راستے پر چل
پڑیں لیکن اگر ایسا ہوا تو وطن عزیز آج جن اندرونی و بیرونی خطرات سے نبرد
آزما ہے وہ اس انقلاب کا بوجھ سہار نہیں سکے گا اسلئے حکومت ‘ اپوزیشن ‘
عدلیہ ‘ مقننہ اور اپوزیشن سمیت تمام ارباب بست و کشاد کا یہ فریضہ بنتا ہے
کہ وہ عوام کی مایوسیوں کو بڑھانے کی بجائے ان میں موجود مایوسی کے خاتمے
کے مؤثر و مثبت اقدامات کریں تاکہ اس انقلاب کاراستہ روکا جاسکے جس کی
راہیں خانہ جنگی اور ناکام ریاست کی بھول بھلیوں سے گزرتی ہیں ! |
|