پاکستانی سیاست فریب کا فلسفہ

تاریخ کی قدیم ترین اور مستند کتابوں میں شمار پنڈت کلہن کی راج ترنگنی اور چانکیہ کو تیلیہ کی ارتھ شاستر سر فہرست ہیں۔ارتھ شاستر چانکیہ نیتی پر مبنی طریق حکمرانی کے اصولوں کو وضع کرتی ہے کہ ایک بادشاہ کو دھوکہ دہی،فراڈ،فریب،چکمہ سازی اورچالبازی کے ذریعے عوام کو کسطرح بیوقوف بنانا چائیے تاکہ بادشاہ کیلئے کوئی مشکلات پیدا نہ کر سکیں چانکیہ عوام کش پالیسیوں اور جبر کی سیاست کا مبلغ ہے۔وہ بادشاؤں کو عیش و عشرت اور عوام کو حکمرانوں کی خدمت کا درس دیتا ہے۔چانکیائی سیاست میں عوام کی حیثیت خدمتگارانہ اور بادشائیوں کی عیارانہ،مکارانہ اور عیاشانہ ہے۔چانکیہ کی فارن پالیسی یا خارجہ حکمت عملی بھی دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔وہ کہتا ہے کہ جب پڑوسی کمزور ہو تو اسپر فوراً حملہ کر دو اس کے ملک پر قبضہ نہ کرو۔وہاں ایک باجگزار اور اپنی پسند کا حکمران بٹھاؤ تاکہ وہ آپ کی مرضی کے مطابق اپنے عوام کا استحصال کرےEnemy of my enemy is my friendکا فارمولہ بھی چانکیہ ہی کا پیش کردہ ہے وہ کہتا ہے کہ دشمن کے دشمن سے دوستی کرو اور انھیں باہم لڑانے کی مسلسل کوشش کرتے رہو۔چانکیہ نفرت کی سیاست کا پیرو کار ہے وہ دشمن قوم کی نسل کشی کا قائل ہے تاکہ صدیوں تک مخالف نظریات کی حامل اقوام میں کوئی لیڈر یا قائد پیدا نہ ہوسکے وہ کہتا ہے کہ جب پڑوسی کے گھر میں آگ لگے تو آپ پر قرض ہے کہ جسقدر اسکے گھر کو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو وہ پڑوسی کا گھر لوٹنے کو جرم نہیں بلکہ حق سمجھتا ہے-

چانکیہ کو تیلیہ کے افکار کو اسکے پیروکار میکاولی نے آگے بڑھایا اور چانکیہ نیتی کے سیاسی اصولوں کو مزید اجاگر کیا۔میکالی عوام کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ سادہ مزاج اور اہل غرض ہوتے ہیں اور اہل غرض احمق اور فرمانبردار ہوتے ہیں۔حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کی غرض مندی اور بیوقوفی سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور انھیں اپنے ہی مسائل میں الجھا کرر کھیں وہ حکمرانوں کو بخل کی تعلیم دیتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح عوام سے ان کی دولت چھین لیں اور اسے فوج پر اور اپنی ذات پر خرچ کریں۔فوج کی مضبوطی ملکی سلامتی اور بادشاہ کی حفاظت حکومتی سلامتی کیلئے ضروری ہے وہ بادشاہ کو بد عہد اور معاملہ فہم ہونے کا درس دیتا ہے۔میکالی کے مطابق بادشاہ جب عہد توڑے تو اسے قانون کا سہارا لینا چاہیے۔حکمران کو چائیے کہ وہ شاطر بد عہد ،بے وفا اور بددیانت ہو مگر اسے اپنی مکارانہ اور سفاکانہ چالیں عوام ہی نہیں بلکہ خواص سے بھی پوشیدہ رکھنی چاہئے۔بناوٹ کا ماہر حکمران ہمیشہ قائم رہتا ہے اور عوام اسے اپنا ہمدرد و غمگسار سمجھ کر اسپر جان نچھاور کردیتے ہیں۔ میکاولی اپنی دلیل کی تقویت کیلئے سکندر طاؤس کا حوالہ دیتا ہے کہ بد عہدی میں کوئی شخص اس کے برابر نہ تھا۔بظاہر وہ جتنا مخلص و محب تھا حقیقت میں اتنا ہی مکار او رعیار بھی تھا۔وہ ہمیشہ اپنے مکروفریب میں کامیاب رہا کیونکہ وہ انسانی فطرت سے پوری طرح واقف تھا وہ حکمرانوں کے اوصاف میں مزید لکھتا ہے کہ حکمران کو بظاہر اچھی شہرت کا حامل ہونا چاہئے اسکے لئے بہتر ہے کہ وہ تقویٰ،امانت،انسانی محبت اور اخلاص کا ایسے طریقے سے اظہار کرے کہ عوام اسکے اس ظاہری فعل کو حقیقت تصور کریں اور اسے نجات دھندہ اور عوام دوست سمجھ کر اسکی پوجا کریں۔میکاولی کا آئیڈیل حکمران لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح بہادر ہونا چاہیئے تاکہ عوام پر اسکے جبر اور فتنے کا خوف طاری رہے۔ وطن عزیز کے قیام کے بعد پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ،وزیر اعظم لیاقت علی خان،خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرہ،چوہدری محمد علی،حسین شہید سہروردی اور آئی آئی چند ریگرکے علاوہ کوئی ایسا نام تاریخ پاکستان کے اوراق پر نہیں جو چانکیہ اور میکاولی کے بیان کردہ حکمرانوں کی صفات سے مبراہو۔سکندر مرزا ایک سازش کے ذریع ملک کے حکمران بنے اور پھر سازش ہی کے ذریع ایوب خان نے انھیں اقتدار سے ہٹا کر ملک بدر کر دیا۔ایوب خان طویل عرصہ تک حکمران رہے اور چاپلوس اور چکمہ ساز سیاستدانوں کاایک ٹولہ ان کی حکمرانی کی طوالت کا باعث بنا۔ایوب خان کے دوستوں،رشتہ داروں،بیٹوں اور کابینہ والوں نے ایوبی حکمرانی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور دولت کے انبار لگائے۔ایوب خان کے بعد ان کے روحانی بیٹے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے نیا پاکستان بنایا تو چاپلوس اور چکمہ ساز قائدین کا ایک ٹولہ ان کے گرد جمع ہوگیا مگر جناب بھٹو میکاولین اور چانکیہ نیتی کے اصولوں سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے اس ٹولے سے تو محفوظ رہے مگر اپنی ہی چالوں کے شکنجے میں آگئے۔آپ نے 73کا آئین تو بنایا مگر چند روز کے اندر ہی سات ترجیحات کے ذریعے اس کی اصل شکل بگاڑ دی۔

بھٹو کی شخصیت کا سحر اور میکاولین تعلیمات کا اثر آج تک قائم ہے اور عوام الناس انھیں غریب پرور،نجات دھندہ،آئین ساز،عوام دوست اور مخلص و محب تصور کرتے ہیں۔پاکستان کا کوئی دانشور،تاریخ دان،ماہر آئین و قانون،ماہر امور سیاست جناب بھٹو کی اصل شخصیت پر توجہ نہیں دیتا کہ موصوف نے کسطرح سکندرمرزا کو شیشے میں اتارا اور کابینہ کا حصہ بن گئے۔سکندر مرزا رخصت ہوئے تو آپ نے ایوب خان کو پاکستان کا اتاترک،صلاح الدین ایوبی اور ڈیگال قرار دیا۔آپ نے اپنے خطوط کے ذریعے سکندر مرزا اور ایوب خان کو قائد اعظمؒ سے بڑا لیڈر اور محسن پاکستان قرار دیا جسکا ذکر جناب غلام جیلانی اور جناب اثر چوہان اکثر اپنی تحریروں میں کرتے رہتے ہیں۔آپ نے یحیٰحی خان کی بھی بھر پور مدد کی اور نئے پاکستان میں انکے کردار کی گنجائش بھی رکھ چھوڑی تھی مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس عہد کو نبھانہ سکے۔روٹی کپڑا اور مکان جیسا پرکشش نعرہ آج بھی بھٹو ازم کا حصہ ہے اور عوام اسی نعرے کی امید پر جی رہے ہیں بھٹو صاحب نے اپنے قریب ترین ساتھیوں اور دوستوں کو بھی نہ بخشا اور انکا تمسخر اڑانا اور انکی تذلیل کرنا اپنی سیاسی زندگی کا حصہ بنایا بہت سینئر اور سنجیدہ لکھاری بھٹو صاحب کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہیں۔بھٹو ازم کے عزائم بھٹو فلسفے کے دو چہرے ہیں۔کہتے ہیں کہ بھٹو مکاولی کی ’’دی پرنس‘‘اپنے سرہانے رکھتے تھے جبکہ نہرو چانکیہ کو تیلیہ کو اپنا روحانی استاد مانتے تھے۔بھٹو صاحب نے میکاولی کی بیان کردہ خوبیوں میں سے صرف ایک اپنائی وہ ہمیشہ شیر کی طرح حملہ آور ہونے اور مخالفین کو بچھاڑنے میں دیر نہ لگاتے مگر بھٹو نے لومڑی کی طرح مکاری اور فریب کاری کا سہارا نہ لیا اور موت کو گلے لگا لیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی تربیت ان کے والدنے کی تھی اور ان ہی کے اصولوں اور نظریات کو آگے بڑھانے کا ارادہ تو رکھتی تھیں مگر بحثیت ایک مسلمان اور مشرقی عورت کے انھیں اسکا موقع نہ ملا۔طویل عرصہ جیلوں اور پھر جلا وطنی کے بعد انھیں جو سیاسی ٹیم میسر آئی اس میں زیادہ تعداد جوشیلے جیالوں کی تھی جنھیں سیاست یا تو ورثے میں ملی تھی یا پھر بھٹو ازم کی پکار اور للکار کے صلے میں انھیں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر دیا گیا۔فصل صالح حیات،مخدوم خلیق الزمان اور دوسرے درجنوں گدی نشین صاحبزادگان اور پرانے لیڈروں کے شہزادگان کے علاوہ جہانگیر بدر اور اسی طرح کے بیک گراؤنڈکے جوشیلے جیالے بھی راتوں رات منافع بخش وزارتوں اور اسی طرح کے بیک گراؤنڈ کے ورکروں کے علاوہ کسی کی رسائی نہ تھی میر باز خان کیتھران کو وزارت امور کشمیر ملی تو موصوف کے دفتر کے اندر اور باہر سوائے بلوچوں کے کسی دوسرے صوبے یا آزاد کشمیر کے لوگوں کا داخلہ ہی ممکن نہ رہا۔موصوف اکثر کشمیریوں کو گالیاں دیتے اور اگر کوئی جیالہ بنکر وزارت امور کشمیر کے دروازے پر پہنچ ہی جاتا تو اسے سوائے گالیوں اور تھپڑوں کے کچھ نہ ملتا ۔محترمہ کی شادی بھی ان کی سیاسی اڑان کے راستے میں حائل ہوئی اور جناب آصف زرداری پر شروع دن سے ہی کرپشن اور کمیشن کے الزامات لگنے شروع ہوگئے۔وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن کی بھارت نوازی اور جنرل ریٹا ئیرڈ شمس الرحمٰن کلو کی بحثیت آئی ایس آئی چیف نے بھی بہت سے سنجیدہ سوالات اٹھائے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی حکومت بد نام ہوئی بلکہ بحثیت وزیر اعظم وہ اپنی ذاتی ٹیم کو بھی کنٹرول نہ کرسکیں اور آخر کار کرپشن کے الزامات پر ان کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ محترمہ کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انھیں بھی محترمہ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔میاں صاحب وزیر اعظم تو بن گئے مگر انھوں نے اس منصب کو سنجیدگی سے نہ لیا۔وہ زیادہ دیر کرکٹ کھیلنے ،انواع و اقسام کے کھانے پکانے اور کھانے کے مزے لیتے رہے اور ان کے دوست یار،رشتہ دار اور بیورکریٹ حکومت کرتے رہے ۔میاں برادران کا پہلا دورہ مغل شہزادوں جیسا تھا جو زیادہ دیر چل نہ سکا اور صدرغلام اسحاق جیسے محب وطن اور سلف میڈ بیوروکریٹ نے میاں صاحبان کو بھی کرپشن اور نا اہلی جیسے شدید الزامات کی بنیاد پر چلتا کیا۔میاں صاحب کے پہلے دور حکومت میں میاں ریاض محمود کوئی شخص تھے جو وزیراعظم کے کچھ اختیارات استعمال کرتے تھے۔لاہورآمد پر میاں صاحب کھلی کچہری کا انعقاد کرتے اور اکثر سائلین کو میاں ریاض محمود کی بارگاہ میں ریفر کردیتے ۔اسی طرح اور بھی بہت سے نورتن تھے جواقتدار کی رخصتی کے ساتھ ہی رخصت ہوتے رہے۔

میاں صاحبان کے سابقہ ادوار میں حسین حقانی اور مشاہد حسین سید بھی کرسی بدل بھائی بنے رہے۔ایک بھائی پیپلز پارٹی اوردوسرا میاں صاحب کے جھروکے میں۔ حیرت کی بات ہے کہ دونوں سید زادے کبھی اکھٹے ایک جماعت میں نہیں رہے اور نہ ہی دونوں نے کبھی حقانیت اور حسینیت کا مظاہرہ کیا ۔حقانی صاحب نے شروع سے ہی ملک دشمنی کا رویہ اپنایا اور آخر کار ملک اور قوم سے غداری کا بدنما داغ لے کر بھگوڑوں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں حقانی نے اس ملک کو کسقدر نقصان پہنچایا فی الحال اس کہانی کے کئی پرت ابھی کھلے نہیں۔عدلیہ نے اس شخص کو ملک سے کیوں جانے دیا اور حکومت نے اسے اپنی حفاظت میں وزیر اعظم ہاؤس میں کیوں چھپائے رکھا اسپر بھی ابھی پردہ ہے۔رحمٰن ملک اور حقانی کے مشترکہ منصوبوں اور امریکہ کا ان دونوں سے محبت بھی ایک کہانی ہے جسکی حقیقت صرف زرداری صاحب ہی جانتے ہیں۔

مشاہد حسین سید جنرل جہانگیر کرامت کے ا ستعفٰے کے بعد ایک مسکرائٹ بھرا انٹرویو دیا جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف ایک ایسے حکران کا نام ہے جس کے آگے آرمی چیف جیسا مضبوط بندہ بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ سکتا ہے مشاہد حسین نے جو کہ نواز شریف کے ایڈوائزر تھے مگر برا وقت آتے ہی کچھ روز ہاؤس اریسٹ کے مزے اڑائے اور پھر مشرف پر پرویز ہوکر ق لیگ کے پلیٹ فارم پر جلوہ افرو ہوگئے۔مشاہد حسین سید کی اصول پسندی اور چانکیہ نیتی میں فرق کرناایک مشکل امر ہے۔ق لیگ کے اعلیٰ سیاسی عہدیدار کی حیثیت سے آپ نے این آر او NROکے معرض وجود میں آنے پر پھر اپنے رخسار کے تل کومسکراہٹوں سمیت پھڑکایااور NROکو ایک درست سیاسی قدم اور یکجہتی کیلئے خوش کن عمل قرار دیا۔آپ نے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کو بھی سیاست اور قربت کے رشتے بحال کرنے میں اپنے تدبر اور حکمت کو استعمال کیا مگر حیران کن بات یہ کہ صدر زرداری اور چوہدریوں کے درمیان ہونے والےNROسے چند دن پہلے آپ نے لاڑکانہ میں جناب زرداری کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا صرف کرپشن ہی مشن ہے کہ ’’لٹو ۔۔تے پھٹو‘‘میرے سمیت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان قائم ہونے والے رشتے پر جناب مشاہد حسین سید اصول پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ق لیگ سے علیحدگی اختیار کرینگے۔جناب مشاہد حسین چند روز پہلے جس پارٹی کو چور ڈاکو اور لٹیرے قرار دے چکے تھے اب اسی پارٹی کی مداح سرائی ایک سید زادے،دانشور،بااصول سیاستدان اور چوٹی کے صحافی کو کسی طرح زیب نہیں دیتی تھی مگر آپ نے یہاں بھی چانکیہ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مفادات کو اصولوں پر ترجیح دی۔آپ پورے طمطراق کیساتھ اپنی سیاسی پوزیشن پر قائم رہے اور جس پارٹی کو لٹو تے پھٹو کہہ رہے تھے اسی کے آگے امریکہ کی سفارت اور کسی بھی قسم کی ٹوٹی پھوٹی وزارت کیلئے لابنگ کرتے رہے۔حقانی کی سفارتی تنزلی اور محترمہ فردوس عاشق اعوان کے وزارت سے علیحدگی کے بعد بارہا آپ کا نام سفارت اور وزارت کے حقداروں کی فہرست میں آتا رہا مگر آپ کی دال کسی طور پر نہ گلی۔

جناب مشاہد حسین سید اندرون ملک تو کوئی اہم سیاسی کارنامہ سر انجام نہ دے سکے اور نہ ہی ان کی دانشوری سے ملک اور قوم کو کوئی فائدہ ہوا اور اب وہ پاک چائینہ فرینڈ شپ فورم کے سربراہ بنکر شائد اس رشتہ کو بھی بھگاڑنے چلے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایک خبر آئی تھی کہ جناب مشاہد حسین کا بیٹا بھی اس میدان میں اتر چکا ہے اور پاک چائینہ فورم کے جلسے میں شرکت کے لئے ڈبل چین کا ٹھپہ لگوانے چین کے سفر پر روانہ ہوگیا ہے جناب مشاہد حسین سید کی پچھلی کارکردگی اور اصول پسندی کو دیکھتے ہوئے ہم عظیم دانشور کنفوشس کے اصولوں پر کاربند چینی قوم کیلئے دعا گو ہیں کہ ان پر میکاولین اور چانکیالن نحوست کا سائیہ نہ پڑ جائے۔میکاولی اور چانکیہ دونوں ہی بوقت ضرورت اصولوں سے انحراف اور بد عہدی کا درس دیتے ہیں جبکہ ابن خلدون اور ابن رشد راست بازی،اصول پرستی اور ارادے کی پختگی کے ساتھ ساتھ عزم مصمم کے قائل ہیں۔ابن خلدون جگہ جگہ قرآنی حوالوں،احادیت رسولﷺ اور خلفائے راشدین کی زندگیوں سے مثالیں پیش کرتا ہے اور حکمرانوں کو اﷲ اور رسولﷺ کے بتلائے ہوئے رہنما اصولوں پر کار بندرہنے کی تلقین کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے حکمران،سیاستدان اور سیاسی دانشور اپنی سیاست کو چانکیائی اور میکاولین اصولوں کے تحت چلانے اور عوام کو دھوکہ دینے کے ماہر ہیں کرپشن، میشن،جھوٹ اور فریب ہماری سیاست کا باقائدہ حصہ ہے اور بد قسمتی سے کوئی بھی سیاستدان،حکمران،سیاسی دانشور اس سے مبرا نہیں۔مذہبی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی چانکیائی سیاست کے قائل ہیں اور وہ حکومت سازی میں ان بڑی پارٹیوں کے حصہ دار بن جاتے ہیں فریب کاری اور چکمہ سازی کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں تو اسلام اور مساوات کی باتیں کرتی ہیں مگر حکومت سازی میں وہ ان بڑی جماتوں کا حصہ بن جاتی ہیں جو جمہوریت کی آڑ میں جبر اور ظلم کا نفاذ کرتی ہیں۔ہم نے اپنے آئین میں تو اﷲ کی حاکمیت لکھ دیا ہے مگر اﷲ کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون پر عمل نہیں کرتے۔ہم نے اپنے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ہے مگر ہمارے سیاستدان ،سیاسی دانشور اور اب سیاسی تجزیہ نگار صحافی اور ٹیلیویژن اینکر کھل کر اسلام پر تنقید کرتے ہیں اور اسلام کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔مذہبی دانشور کسی ایک نکتے پر متفق نہیں اور وہ ایک دوسرے کو مارنے اور مٹانے کو دین کی خدمت اور جہاد کہتے ہیں وزیر،مشیر اور حکمران جماعتوں کے عہدیدار اپنی برائیوں اور غلطیوں پر نادم ہونے کے بجائے اسے آئین اور قانون کے حوالوں سے درست قرار دیتے ہیں اور بدقسمتی سے آئین اور قانون میں اس بات کی گنجائش مل جاتی ہے کہ کسی کرپٹ،بددیانت اور بد کردار کو اسکے عمل کی سزا نہیں ملتی۔حالیہ الیکشن میں آئین کی شق نمبر62اور 63کا جسطرح ماتحت عدلیہ اور میڈیا نے تمسخر اڑایا اس سے تو بہتر تھا کہ آئین میں لکھ دیا جاتا کہ الیکشن لڑنے کیلئے امیر،کبیر،کرپٹ،بددیانت،لوٹ مار کا ماہر اور اخلاق باختہ ہونا ضروری ہے۔قرآن میں لکھا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی پیروی کرو اور انکی بھی پیروی کرو جو تم میں سے اولو الامرہوں۔اگر تم میں اور اولواالامر میں اختلاف پیدا ہو جائے تو تم اﷲ اور اسکے رسولﷺ سے رجوع کرو۔یعنی قرآن،حدیث اور سیرت نبویﷺ سے رہنمائی حاصل کرو۔یعنی قرآن،حدیت اور سیرت نبویﷺ سے رہنمائی حاصل کرو۔ہمارے ہاں نہ اولوالامر اور نہ ہی عوام قرآن،احادثت رسولﷺ اور سیرت پاک کی طرف سے رجوع کرتے ہیں حکمران عوام کے پاس آنے سے پہلے امریکہ ،برطانیہ،سعودی عرب ارو امارات کے شیخوں سے رجوع کرتے ہیں اور پھر ایک ڈرامہ رچا کر اسے الیکشن کا نام دیا جاتا ہے جو ایک جمہوری بچہ پیدا کرتا ہے جسے حکمران کہاجاتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اﷲ اور اسکے رسولﷺ کا نام لیکر اغیار کی پیروی کرتے ہیں اور دھوکہ دہی پر مبنی ایک نظام کو اسلام کا لبادہ پہنا کر خود فریبی کی دنیا میں جی رہے ہیں جب تک ہم اس دھوکے اور فریب کی دنیا میں رہینگے دھشت گردی ،بدامنی،غربت ،جہالت اور بے سکونی ہمارا مقدر رہے گی۔فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ چانکیائی اور میکاولین فکرو فلسفے کے تحت ذلیل وخوار ہونا چاہتے ہیں یاپھر اﷲ اوراسکے رسولﷺ کے حکم کے تابع امن و سکون سے زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں ۔

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90701 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.